Monday, 23 April 2018

آیات متشابہات

\سوال:
آیات متشابہات سے کیا مراد ہے؟ نیز کیا سائنس آیات متشابہات کو آیات محکمات میں تبدیل کرسکتی ہے؟
.
جواب:
آیات متشابہات کے ضمن میں اہل علم کے بہت سے اقوال موجود ہیں. جس قول کو ہم زیادہ صائب پاتے ہیں وہ ہم آپ کو یہاں بیان کردیتے ہیں. پہلے تو یہ سمجھ لیجیئے کہ سورہ آل عمران کی ساتویں آیت کے مطابق قرآن حکیم اپنی آیات کو دو حصوں میں منقسم کرتا ہے. پہلا حصہ وہ ہے جسے 'محکمات' کہا جاتا ہے. گویا وہ آیات جو اپنے متن اور معنوں میں واضح ہے جیسے حلال و حرام کی تفریق وغیرہ. ان ہی آیات کو قران مجید نے 'ام الکتاب' یعنی اصل کتاب کی جڑ قرار دیا ہے. دوسرے حصہ کو قران حکیم 'متشابہات' قرار دیتا ہے. گویا وہ آیات جو تشبیہات کے اسلوب میں ہیں یا جو امور غیب سے متعلق ہیں یا جن کا احاطہ موجود انسانی ادراک کرنے سے قاصر ہے یا جن کے معنی آج ہم سے مخفی ہیں. دھیان رہے کہ ان آیات متشابہات کے معنی جاننے یا نہ جاننے پر انسان کی نجات موقوف نہیں ہے. نجات یا دینوی تقاضوں سے متعلق پوری بات آیات محکمات کے ذریعے قاری بھرپور طور پر جان لیتا ہے. اسی لئے محکمات کو چھوڑ کر آیات متشابہات کے پیچھے لگے رہنے والے افراد کو سورہ آل عمران میں فتنہ انگیز اور روحانی بیمار قرار دیا ہے. 
.
ہماری سمجھ میں آیات متشابہات کو بھی مزید دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے. پہلا حصہ وہ آیات جو ان امور غیب سے متعلق ہیں جن کا جان لینا انسانی ادراک کے بس میں ہی نہیں. جیسے عرش کی حقیقت یا روح کو جاننا وغیرہ. یہ وہ امور ہیں جو راقم کے نزدیک کبھی انسانی علم کے احاطے میں نہیں آسکتے اور انہیں کماحقہ جاننے کیلئے ہمیں روز حشر کا انتظار کرنا ہوگا. آیات متشابہات کا دوسرا حصہ ان آیات پر مشتمل نظر آتا ہے جو ایک زمانے میں تو متشابہہ ہوں مگر موجود زمانے یا مستقبل میں ان کے معنی توفیق ربانی سے انسانی علم کا حصہ بن جائیں. جیسے انسان کی جسدی تخلیق کے مراحل یا زمین و آسمان کی تخلیق سے متعلق آیات کی درست تر تفسیر وغیرہ. جیسے ایک صحابی کا قول ہے جن کا نام ہماری یاداشت سے فی الوقت محو ہے کہ 'قران حکیم ہر دور میں اپنی جدید تفسیر فراہم کرتا ہے'. اس قول سے قطعی مراد یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ ہر دور میں دین تبدیل ہوجاتا ہے. بلکہ اس سے مراد ہمارے نزدیک یہ ہے کہ انسانی علم کی ترقی آیات قرانی کی تصدیق و توثیق کرتی نظر آتی ہیں اور انسانی ذہن کو ان آیات کے مفاہیم کو بھی سمجھنے میں مدد دیتی ہیں جو ایک زمانے تک متشابہات یا اختلاف رائے کا سبب رہی ہوں. مثال کے طور پر سورہ الانبیاء کی ٣٠ آیت میں بیان ہوتا ہے ’’اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا‘‘ ... ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا ‘‘- اب اس آیت کی جو تفہیم انسانی علم میں بگ بینگ جیسے نظریات کے سبب اسکی ہے، وہ اس سے قبل ممکن نہیں تھی. 
.
یہاں یہ دھیان رہے کہ جیسے ہم نے تحریر کی ابتداء میں ہی عرض کی کہ متشابہات کے ضمن میں اہل علم کے مختلف اقوال رائج ہیں لہٰذا ہماری اس سمجھ کو مجموعی سمجھ پر محمول نہ کیا جائے. بہت سے صاحبان علم کے نزدیک جن آیات کی تشریح انسانی ادراک میں کسی زمانے میں بھی آسکیں ، وہ آیات متشابہات میں شمار ہی نہیں ہوتی. ان کے نزدیک امور غیب کے وہی معاملات آیات متشابہات کہلاتے ہیں جن کا اجمالی ذکر ہم نے اپر متشابہات کی پہلی قسم میں کیا ہے. ایک اور نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ نہ تو قران حکیم سائنس کی کتاب ہے اور نہ ہی آیات متشابہات میں سے کسی آیت کے متعین معنی ہم آج مقرر کر سکتے ہیں. ہاں کل اگر انسانی علوم کی ترقی اور شعور کے ارتقاء سے کسی متشابہہ آیت کو سمجھ لینے کے بہتر مواقع پیدا ہوجاتے ہیں، تو یہ الگ بات ہے اور ایک مومن کیلئے عطا خداوندی ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
('وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔' سورہ آل عمران آیت 7)

No comments:

Post a Comment