Sunday, 29 April 2018

محبت ظاہر سے یا باطن سے


محبت ظاہر سے یا باطن سے؟




 

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مرد و زن میں ایک دوسرے کیلئے غیر معمولی کشش موجود ہے. یہی کشش اکثرمحبت کے جذبے میں ڈھل جاتی ہے اور پھر اسی محبت کو نبھانے کے نام پر بندہ مر بھی سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے. مگر سوال یہ ہے کہ ایک مرد کا کسی عورت سے محبت کرنا یا ایک عورت کا کسی مرد سے محبت میں مبتلا ہوجانا کیا ظاہری یعنی جسمانی کشش کے سبب ہے؟ یا پھر وہ ایک دوسرے کی شخصیت یا روح سے پیار کرتے ہیں؟ محبت میں گرفتار افراد یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں محبوب کے جسم سے نہیں بلکہ اسکی روح سے محبت ہے. مگر کیا یہ واقعی مکمل سچ ہے؟ اگر ہاں تو پھر یہ پہلی نظر میں محبوب کے حسن پر فدا ہوکر مریض محبت کہلانا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ محبت کے ان دعویداروں کو اپنے اپنے محبوب کی شان میں شاعری کہتے یا پڑھتے ملاحظہ کیجیئے تو منکشف ہوگا کہ سارا زور حسن پرستی پر ہے. مرد اپنی محبوبہ کی آنکھیں جھیل جیسی، چال ہرنی جیسی، سراپا حور جیسا، چہرہ گلاب کی پنکھڑی جیسا بیان کرکے آہیں بھرتا ہے اور عورت اپنے محبوب میں شیر جیسی وجاہت اور لمبے چوڑے قد کی متمنی ہوتی ہے. اسے اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار ہوتا ہے جو حسن اور دولت دونوں سے مالامال ہو. خوابوں کا موچی کسی لڑکی کو نہیں چاہیئے. 
.
معاشرے میں ایسے کیسز بھی گاہے بگاہے نظر آتے ہیں جب کوئی حسینہ کسی معمولی صورت مرد سے محبت کرکے اس سے نکاح کرلیتی ہے یا پھر کوئی وجیہہ مرد کسی کم شکل لڑکی پر اپنا دل ہار بیٹھتا ہے. ان کیسز کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ لگاؤ ظاہر پر منحصر نہیں مگر ذرا قریب سے جائزہ لیجیئے تو چاہے دنیا کی رائے مختلف ہو مگر وہ ایک دوسرے کو خوبصورت پاتے ہیں. گویا فرق فقط اتنا ہے کہ ان کا اپنے محبوب سے متعلق زاویہ حسن ، دنیا کے عمومی زاویہ حسن سے ذرا ہٹ کرہوتا ہے. جیسے لوک داستان لیلیٰ مجنوں میں کہتے ہیں کہ لیلیٰ نہایت کم شکل لڑکی تھی مگر مجنوں کو وہ حسن کی دیوی معلوم ہوتی تھی. دھیان رہے کہ بات ان جوڑوں کی ہورہی ہے جن کا نکاح محبت کے نتیجے میں ہو. ورنہ یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ بناء محبت کسی اور فائدے کو مدنظر رکھ کر کوئی شادی کے بندھن میں بندھ جائے. آپ سنتے ہیں کہ ایک لڑکی کو کسی لڑکے سے یا ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے. ذرا تصور کیجیئے کہ اب اگر اس محبت کے ہوجانے سے پہلے ہی اس لڑکے یا لڑکی میں سے کسی ایک کا چہرہ بری طرح جھلس جاتا ہے تو پھر کتنا امکان تھا کہ یہ محبت کی ابتداء پھر بھی ان دونوں میں ہوپاتی؟ مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر کا دیانتدارانہ جواب یہی ہوگا کہ ایسی صورت میں ہمدردی تو ممکن ہوتی مگر شائد محبت میں نچھاور ہونا ممکن نہ ہوتا.
.
تو کیا انسان واقعی اتنا خودغرض ہے کہ محبت جیسے پاکیزہ احساس کو نبھانے کیلئے اسے ظاہری جسمانی حسن کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ؟ راقم کا جواب اس سوال پر نفی میں ہے. باوجود اس تمام استدلال کے جو ہم نے اپر پیش کیا، یہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک بار جو محبت ہو جائے تو پھر ظاہر سے کہیں زیادہ باطن اور محبوب کی شخصیت ترجیح بن جاتی ہے. محبت اگر سچی ہو تو اس کے ہوجانے کے بعد اگر محبوب اپنا ظاہری حسن حادثاتی طور پر کھو بھی بیٹھے تب بھی محبت کے دل سے اس کی قدر کم نہیں ہوتی. وہ اسکے لئے خود کو قربان کرنے سے بھی نہیں چوکتا. گویا محبت کی ابتداء اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر ظاہری حسن سے ہی متعلق ہوتی ہے مگر ایک بار جو محبت ہوگئی تو پھر یہ ظاہر کی محتاج نہیں رہتی. 
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: پوسٹ میں عشق حقیقی کو موضوع نہیں بنایا گیا کہ اسکے قرائن و شان جداگانہ ہے. یہاں فقط اس محبت کا ذکر ہے جو انسان میں اپنی مخالف جنس سے پیدا ہوتی ہے اور نکاح کی صورت زندگی بھر کا ساتھ چاہتی ہے)

No comments:

Post a Comment