Monday, 23 April 2018

عافیہ صدیقی



عافیہ صدیقی - بے حس قوم کی ایک بدقسمت بیٹی 



.
ڈاکٹر عافیہ صدیقی - وطن عزیز کی وہ بدقسمت بیٹی ہے جس کے ساتھ ظلم کا ایسا پہاڑ توڑا گیا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے. عافیہ صدیقی شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلی گئی. آپ نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. عافیہ کا رجحان اسلامی تھا جس میں قران حکیم کی تعلیم سے لے کر مختلف چیرٹی آرگنایزشن سے وابستگی شامل تھی. ٢٠٠١ میں نائن ایلیون (٩/١١) کا سانحہ پیش آیا تو امریکی خفیہ ایجنسیاں اس پلان کے ذمہ داران کو ڈھونڈھنے میں لگ گئیں. ڈاکٹر عافیہ کی پی ایچ ڈی ڈگری ٢٠٠٢ میں اختتام پذیر ہوئی تو وہ واپس کراچی آگئی. واپسی کے فوری بعد ہی آپ کی اپنے شوہر ڈاکٹر امجد خان سے طلاق ہوگئی. اس صدمے سے آپ کے والد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ چل بسے. یہ عافیہ کیلئے ایک سخت وقت تھا اور وہ ڈپریشن میں تھیں. دوسری طرف امریکہ نے نائن ایلیون کے ذمہ داران میں سے سات مطلوب افراد کی فہرست اور پھر تصاویر جاری کیں جو ان کے بقول اس سارے پلان کے فائنانسراور ماسٹر مائنڈ تھے. ان میں سے ایک نام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا بھی تھا. کچھ امریکی جرنلسٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ القاعدہ کا مرکزی رہنما شیخ خالد محمود جو کراچی سے ان دنوں گرفتار ہوا تھا، اس نے ڈاکٹر عافیہ کا نام بتایا. گو اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا گیا کہ واقعی شیخ خالد نے ایسا کچھ کہا تھا یا نہیں؟. امریکہ کے بقول نائن الیون کی فنڈنگ لائبیریا، افریقہ سے ہیروں کی اسمگلنگ کے ذریعے کی گئی تھی جس کا مرکزی کردار عافیہ تھی جو یہ ہیرے وہاں سےامریکہ لے کر آئی. ان ہی سخت حالات میں ڈاکٹر عافیہ ٢٠٠٣ میں اپنے تین بچوں سمیت جن کی عمریں بلترتیب چھ سال، چار سال اور چھ ماہ تھی .. انہیں لے کر کراچی سے اسلام آباد روانہ ہوئیں. رستے میں انہیں نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا. انہیں اغوا کرکے افغانستان کی بگرام جیل میں منتقل کردیا گیا جہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا. ایک اطلاع کے مطابق، عافیہ کے بقول انہیں ان پانچ سالوں میں مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا جہاں انہیں انسانیت سوز تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا. بگرام جیل سے نکلنے والے ایک قیدی نے بھی اس کی گواہی دی کہ جیل کی خاموش فضاؤں میں ایک پاکستانی خاتون کی آہیں اور چیخیں گونجتی رہتی تھیں. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تشدد سے ان کا ذہنی توازن بھی متاثر ہوگیا. ٢٠٠٩ میں ان کے ایک اغوا شدہ بیٹے کو واپس گھر بھیج دیا گیا. ٢٠١٠ کو ان کی اغوا شدہ بیٹی کو کچھ نامعلوم افراد اسکی خالہ فوزیہ صدیقی کے گھر کے باہر چھوڑ گئے اور سب سے چھوٹا بیٹا آج تک لاپتہ ہے.
.
٢٠٠٨ میں ایک نومسلم برطانوی جرنلسٹ 'ایون ریڈلی' نے عافیہ کے حق میں ایک زبردست تحریک برپا کی جس سے امریکی انتظامیہ عافیہ کی گرفتاری کو بتانے پر مجبور ہوگئی. 'ایون ریڈلی' نے یہ بھی بتایا کہ اسے بگرام جیل سے نکلے قیدیوں کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو چھ امریکی سپاہیوں نے گینگ ریپ یعنی اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا ہے. امریکی فورسز کی جانب سے عافیہ کی گرفتاری کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اسے غزنی کے علاقے سے اس حالت میں گرفتار کیا گیا ہے کہ اسکے پاس بم بنانے کی کتابیں اور مواد موجود تھا. ساتھ ہی اسکے اپنے ہاتھ سے تحریر شدہ نوٹ بھی تھا جس میں ان کیمکلز کے نام وغیرہ تھے. ٢٠٠٩ میں جب پاکستانی حکومتی وفد نے ان سے ملاقات کی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ یہ سراسر جھوٹ اور ڈرامہ تھا. بچے پر تشدد کا کہہ کر ان سے نوٹ بھی زبردستی لکھوایا گیا. ایک اور بڑا الزام ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر یہ لگا کہ انہوں نے دوران قید ایک پستول سے امریکی فوجیوں پر جان لیوا حملہ کیا جس میں نشانہ خطا ہوگیا اور فوجیوں کے جوابی فائر سے وہ خود زخمی ہوگئیں. پاکستانی سینیٹر طلحہ نے جب عافیہ سے ملاقات کی تو انھی معلوم ہوا کہ عافیہ کے بقول یہ بھی سب جھوٹ ہے. وہ پردے کے پیچھے بیہوشی سے واپس ہوش میں آئی تو انہیں آوازیں سنائی دی. انہوں نے پردہ اٹھایا تو وہاں امریکی فوجی موجود تھے جنہوں نے ایکدم گھبرا کر فائرنگ کردی. عافیہ کولگا کہ یہ ان کا آخری وقت ہے مگر بیہوش ہونے سے قبل انہیں جو آوازیں انہیں امریکی فوجیوں کی سنائی دی تو وہ کہہ رہے تھے کہ یہ ہم سے کیا ہوگیا؟ اس سے تو ہماری نوکری چلی جائے گی. مقام واردات سے نہ پستول پر عافیہ کے فنگر پرنٹس ملے، نہ ہی کپڑوں پر بارود اور نہ ہی گولی کا کوئی نشان. سینیٹر طلحہ کے بقول اس ملاقات کے وقت بھی ڈاکٹر عافیہ شدید زخمی تھیں اور ان کا گردہ متاثر ہوا تھا. 
.
عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی اور جرنلسٹ 'ایون ریڈلی' کی انتھک کوششوں کے بعد بلآخر ان کا مقدمہ امریکی عدالت میں پیش ہوا جہاں بناء کسی ٹھوس ثبوت انہیں ٨٦ (چھیاسی) سال کی سزا سنائی گئی. یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ فردجرم میں دہشت گردی کی معاونت یا بم بنانے والے کمکلز کیساتھ گرفتاری کا زکر ہی نہیں بلکہ سزا دوران قید فوجیوں پر جان لیوا ناکام حملہ کرنے کی پاداش میں دی گئی۔ حالات، واقعات، شواہد، گواہ سب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیگناہی کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. اس کیس میں تین ممالک شامل ہیں اور تینوں مجرم ہیں. سب سے پہلا مجرم پاکستان جسکے حکمرانوں نے اپنی بیٹی عافیہ کو اغیار کے حوالے کر دیا. حالانکہ اگر اس پر کوئی الزام تھا بھی یا کوئی جرم ہوا بھی تھا تو مقدمہ پاکستان میں چلنا چاہیئے تھا. حکومتوں نے وعدوں کے نام پر ڈھکوسلے دیئے اور عافیہ کی واپسی کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی. دوسرا مجرم افغانستان ہے جس کی جیلوں میں ظلم کی بدترین تاریخ مرتب ہوئی اور اس نے جانتے بوجھتے کچھ نہ کیا. اور تیسرا مجرم ہے امریکہ. جس نے پہلے ایک غلط الزام میں گرفتار کیا اور پھر مظالم و زیادتیوں کا ایک ایسا سلسلہ جاری کیا کہ اب عافیہ کی رہائی اسکے جنگی جرائم کا پردہ چاک کرسکتی ہے. ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مجرم مجھ سمیت ہم سب ہیں. آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور اذیت کو پورے پندرہ سال پورے ہونے جارہے ہیں. روز قیامت اگر ہماری اس بہن، ہماری اس ماں، ہماری اس بیٹی نے ہمیں بھی خاموش رہنے کا الزام دیا تو سوچیں ہم رب العزت کیا کہیں گے؟
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: فراہم کردہ معلومات مختلف ذرائع ، تحریروں، ویڈیوز سے حاصل کی گئی ہیں اور تفصیل میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے)

No comments:

Post a Comment