رشتہ نبھانے کے دو بڑے فلسفے
۔
شادی کے بعد محبت اور رشتہ نبھانے کے دو بڑے فلسفے ہیں۔ پہلا فلسفہ بتاتا ہے کہ محبت ایک دوسرے کو اپنانے کیساتھ ساتھ ایک دوسرے کیلئے خود کو بدلنے کا بھی نام ہے۔ دوسرا فلسفہ اس کے برعکس دعوی کرتا ہے کہ محبت تو بس ایک دوسرے کو اسی طرح اپنائے رکھنے کا نام ہے جس طرح وہ شادی سے قبل تھے۔ گویا پہلا فلسفہ محبوب کی خوشی اور ایک دوسرے سے نباہ کیلئے اپنی عادات و مزاج میں مطابقت پیدا کرنا سیکھاتا ہے۔ جس میں کوشش دونوں جانب سے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کسی کیلئے اپنی فطرت و خصلت کو بدلنا ممکن نہیں۔ نہ ہی اپنے تشخص کو مکمل گنوا بیٹھنا کوئی عقلمندی کہلا سکتی ہے۔ البتہ اس پہلے فلسفے کے حساب سے اپنی عادات و اطوار کو یا اپنے مزاج و پسند کو کسی حد تک محبوب کی چاہ کے مطابق کرلینا شادی شدہ بندھن کی مضبوطی اور محبت کے دوام کی بڑی علامت ہے۔
۔
دوسری جانب دوسرا فلسفہ اپنے محبوب و ہمسفر کیلئے کسی ایسی قربانی دینے کو یا رشتہ نبھانے کیلئے خود کو بدلنے کی کوشش کو حماقت سے تعبیر کرتا یے۔ اپنی آزادی و اختیار پر قدغن سمجھتا ہے۔ اس کیلئے محبت کی توہین ہے کہ محبوب کی خوشی کیلئے خود کو بدلا جائے۔ یہ دوسرا فلسفہ رومانوی فلموں کا فلسفہ ہے جو نوجوان اذہان بلخصوص لڑکیوں کو بہت جاذب محسوس ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں کامیاب و پریکٹکل فلسفہ وہی پہلا ہے جہاں کوئی جوڑا ایک دوسرے کی پسند و ترغیبات کو مدنظر رکھ کر خود کو تھوڑا تھوڑا ایک دوسرے کی مرضی میں ڈھال لیتا ہے۔ یہی دوطرفہ کوشش کامیاب رشتے کی کلید بھی ہے اور محبت کی سچی تعریف بھی۔ یہ اور بات کہ محبت اگر کسی کیس میں عشق بن جائے تو غیرفطری شدت اختیار کرلیتی ہے۔ عشق چونکہ اکثر یکطرفہ ہوتا ہے اسلئے اس میں محبوب کیلئے خود کو ڈھالنا بھی یکطرفہ ہوجاتا ہے۔ بقول شاعر
۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں، آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینو دھیدو رانجھا، ہیر نہ آکھو کوئی
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment