کیا اللہ، اسکی کتاب اور اسکے رسول سچے ہیں؟
.
اللہ اور اسکے دین کی سچی معرفت اسی کو ملنا ممکن ہے جس کیلئے تصور خدا فقط آبائی نہ ہو بلکہ ایک شعوری دریافت ہو. شکوک کی گھاٹی سے گزر کر ہی ایمان و یقین کی منزل ملا کرتی ہے. سوال پوچھنا ہر باشعور انسان کا حق ہے. مگر انسان کا یہ علمی سفر اگر مرحلہ وار نہ ہو یا درست ترتیب میں نہ ہو تو سالک بھول بھلیوں میں الجھ کر کبھی منزل کا نشان نہیں ڈھونڈھ پاتا. ایک ملحد جو خدا کے وجود ہی کے بارے میں مشکوک ہے. اسکے لئے پہلا اور واحد سوال یہ ہونا چاہیئے کہ 'کیا خدا ہے؟' .. جب تک اس سوال کا شافی جواب اسے حاصل نہ ہو دیگر سوالات میں الجھے رہنا وقت کا زیاں ہے. گویا ایک ملحد خدا کے وجود کو ہی نہیں مانتا اور آپ اسے سمجھانے لگیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک کیا تھی؟ تو یہ ایک بیکار کوشش ہے. ہمارے نزدیک کسی محقق کیلئے بلترتیب تین سوالات سب سے اہم ہیں.
.
١. کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟
٢. کیا قران حکیم اسی خالق کا کلام ہے؟
٣. کیا رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس خالق کے رسول ہیں؟
.
ان کا جواب اسے حاصل ہوجائے تو دیگر سوالات کا جواب بھی یا تو اسے خود بخود حاصل ہوجاتا ہے اور اگر وقتی طور پر نہ بھی ہو تو اسے یہ اطمینان نصیب ہوجاتا ہے کہ جواب موجود ضرور ہیں. بس ابھی اس کے علم میں نہیں ہے. اب ان میں سے ہر سوال کے جواب کو دس مختلف زاویوں سے راقم بیان کرسکتا ہے مگر اسکے لئے تو ایک ضحیم کتاب درکار ہوگی. ہم یہاں ان سوالات کے جوابات تمام موجود امکانات کا جائزہ لے کر ان میں سے بہترین امکان کا انتخاب کرکے دیں گے. قارئین میں سے جنہوں نے بھی ڈگری لیول تک تعلیم حاصل کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں 'ایم-سی-کیوز' کے طرز پر سوالات پوچھ جاتے ہیں. اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہر سوال کے نیچے تین یا چار آپشنز رکھے جاتے ہیں. جن میں سے فقط ایک درست ہوتا ہے اور باقی غلط. اگر سوال کا جواب آپ کو معلوم ہو تو آپ فوری جواب دے دیتے ہیں مگر اگر معلوم نہ ہو تو آپ موجود چاروں امکانات کو بغور دیکھتے ہیں. پھر ان میں سے ایک کے بعد ایک کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا آپشن جواب نہیں ہوسکتا. یوں آخر میں آپ کے پاس ایک ایسا آپشن رہ جاتا ہے جس کے بارے میں آپ کو اطمینان ہوتا ہے کہ جواب یہی ہوگا. کم از کم غالب ترین امکان آپ کو وہی نظر آتا ہے. آج کل کوئز شوز میں بھی لوگوں سے اسکرین پر اسی طرح سے سوالات اور اس سے متعلق ممکنہ جوابات پوچھ جاتے ہیں. چلیئے پہلے سوال سے آغاز کرتے ہیں:
.
١. کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟
======================
.
"کیا یہ بغیر کسی چیز کے از خود پیدا ہوگئے ہیں ؟ یا کیا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں ؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کردیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے والے نہیں ہیں"
.
سورہ الطور کی مندرجہ بالا آیات میں اللہ پاک انسان کو تخلیق کے عمل کے آغاز پر غور کرنے کی دعوت فکر دے رہے ہیں. اگر کوئی بھی شے وجود رکھتی ہے تو اس کے نقطہ آغاز کو سمجھنے کے لئے چار توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں:
.
پہلی یہ کہ وہ شے یا انسان خود بخود کسی بھی پیش تر چیز کے بغیر وجود میں آگیا ہو. یہ ظاھر ہے کہ ناممکن ہے. ہم جانتے ہیں کہ 'کچھ نہیں' سے 'کچھ نہیں' تخلیق ہوسکتا. کچھ تخلیق ہونے کے لئے لازم ہے کہ اس سے پہلے کچھ ہو. لہٰذا یہ توجیہہ فضول اور باطل ثابت ہوتی ہے
.
دوسری توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس شے یا اس انسان نے خود اپنے آپ کو تخلیق کرلیا ہو. یہ بات بھی سراسر احمقانہ اور تجربہ کے خلاف ہے. ہم جانتے ہیں کہ نہ تو انسان خود اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور نہ ہی کائنات کی دیگر مخلوقات اپنے آپ کو ازخود ڈیزائن کرتی ہیں. ہر معلول کو ایک پیشتر اور بیرونی علت کی حاجت لازمی ہوتی ہے. چنانچہ یہ توجیہہ بھی مسمار ہوجاتی ہے
.
تیسری توجیہہ یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ کیونکہ انسان اس معلوم کائنات میں سب سے زیادہ ذہین اور باشعور نظر آتا ہے لہٰذا وہ اپنے وجود کی توجیہہ نہ بھی کرسکتا ہو تب بھی بقیہ کائنات کا خالق وہ خود ہو. ظاہر ہے کہ انسان بخوبی واقف ہے کہ ان عظیم سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں، سمندروں، پہاڑوں وغیرہ میں سے کسی کا بھی وہ خالق نہیں ہے. اسلئے ایسی غیر حقیقی وجہ کو زبان پر لانا بھی اس کے لئے ناممکنات میں سے ہے
.
جب یہ تینوں توجیہات عقلی، عملی، علمی، تجرباتی اور ہر دوسرے ممکنہ زاویئے سے فاسد قرار پاتی ہیں تو صرف ایک اور توجیہ باقی بچتی ہے جو سب سے زیادہ قرین قیاس ہے اور جسے تسلیم کرنے میں انسانی فہم حق بجانب ہے. وہ چوتھی اور آخری توجیہہ یہ ہے کہ انسان اور اس پر ہیبت کائنات کی تخلیق کے پیچھے 'کوئی' ہے جو خود تخلیق ہونے سے آزاد ہے. جو زمان و مکان کی پابندیوں سے مارواء ہے، جس کے بارے میں انسانی علم نہایت محدود ہے. مگر جس کا ہونا اس کائنات کے ہونے اور ہمارے اپنے وجود کے ہونے سے صریح طور پر ثابت ہے. اتنے صاف صاف قرائن ہونے کے باوجود اگر کوئی انسان اس واحد قابل قبول توجیہہ یعنی ایک 'برتر وجود' کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کا شمار ان احمقوں میں ہوگا جو علمی حقیقتوں کو بھی ماننے کیلئے دیکھنے کی شرط لگاتے ہیں اور دلیل سمجھنے پر اکتفاء نہیں کرتے.
.
(نوٹ: اس سوال کا جواب کہ اگر کائنات کو خالق نے بنایا ہے تو خالق کو کس نے بنایا ہے؟ ہم اپنی ایک دوسری پوسٹ میں دے چکے ہیں)
.
٢. کیا قران حکیم اسی خالق کا کلام ہے؟
========================
.
اس سوال کے ضمن میں بھی چار امکانات پیدا ہوتے ہیں. پہلا امکان یہ کہ قران مجید کسی عجمی یعنی غیرعربی نے لکھا ہے. دوسرا امکان یہ کہ قران مجید کسی عربی نے لکھا ہے. تیسرا امکان یہ کہ قران مجید رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سے تحریر کیا ہے (معاذ اللہ). اور چوتھا یعنی آخری امکان یہ کہ قران مجید خالق کائنات کا اتارا ہوا ہے. پہلے امکان کا جائزہ لیجیئے تو یہ ایک نہایت کمزور ترین اور لغو امکان ہے کہ قران کریم جیسی فصیح و بلیغ عربی کتاب عرب معاشرے میں کسی غیر عربی نے لکھی ہو. آج تک لسانیات کے غیر مسلم ماہرین تک بھی قران کی فصاحت و بلاغت اور اس کے ادبی حسن کے قائل ہیں. دوسرا امکان یعنی یہ کہ قران حکیم کو کسی عرب انسان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھوایا (معاذ اللہ). اس امکان کی حیثیت بھی ایک خود ساختہ اور کمزور 'سازشی تھیوری' سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی. وہ عرب کون تھا؟ کب لکھواتا یا پڑھواتا تھا؟ کس سے لکھواتا تھا؟ کہاں لکھواتا تھا؟ یہ سب سوالات تشنہ ہی رہ جاتے ہیں. دھیان رہے کہ قران مجید کا نزول تیئیس برس تک ہوتا رہا اور اس میں اس دوران ہونے والے واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے. لہٰذا کسی کا یہ الزام کہ غار حرا میں ایسا ہوا ہوگا، ایک بے بنیاد اور بے ثبوت بات ہے.
.
تیسرا امکان یہ تھا کہ یہ کتاب خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر کی (معاذ اللہ). اس اعتراض یا امکان کے ابطال کیلئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے. ملاحظہ ہو: "اس سے پہلے تو آّپ کوئ کتاب پڑھتے نہ تھے اورنہ کسی کتاب کواپنے ھاتھ سے لکھتے تھے" العنکبوت ( 48 ) ۔ گویا قران کے بیان سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ اس سے پہلے پڑھتے تھے اور نہ لکھتے تھے. مکہ جیسے چھوٹے سی بستی میں موجود تمام مشرکین میں سے کسی نے اس اس دعویٰ کو چیلنج نہیں کیا. گویا اس بات کی صداقت تسلیم کی. اس دور میں ادب و شاعری اپنے عروج پر تھی. ایسے میں ایک امی ہوتے ہوئے اور ایک ایسا انسان ہوتے ہوئے جس نے چالیس برس کی عمر تک کبھی کوئی شعر نہیں کہا. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچانک قران کی تلاوت کرنے لگتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ کلام اللہ ہے اور اس کا یہ چیلنج ہے کہ تم سب شاعر و ادیب مل کر بھی اس کی مثال نہیں پیدا کرسکتے یہاں تک کہ ایک چھوٹی سی سورہ بھی اس پائے کی تخلیق نہیں کرسکتے. یہ کوئی معمولی چیلنج تھا؟ ملاحظہ کیجیئے: "اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔" سورۃ نمبر:4، النسآء، آیت نمبر82. اس کے بعد چوتھا امکان ہی قوی ترین باقی رہتا ہے کہ قران مجید فی الواقع من جانب اللہ ہے. ایک اور دعویٰ کے طور پر اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری رب کریم نے خود لی اور آج چودہ پندرہ سو سال بعد بھی قران حکیم لفظ با لفظ محفوظ ہے. اسی طرح لغوی، معنوی، تاریخی، سائنسی اور بیشمار قران ایسے ہیں جو قاری کو اس کے الہامی ہونے کا یقین دلادیتے ہیں.
.
٣. کیا رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس خالق کے رسول ہیں؟
=========================================
.
جب یہ ثابت ہوگیا کہ قران حکیم من جانب اللہ ہے تو لامحالہ یہ امر بھی ثابت ہوگیا کہ اس کتاب کو لانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے دعویٰ نبوت میں سچے ہیں. لیکن پھر بھی ہم تشفی قلب کیلئے اس سوال سے منسلک چھ امکانات کا جائزہ لے لیتے ہیں. پہلا امکان یہ کہ آپ نے دعویٰ نبوت مال کمانے کی خاطر کیا. اس امکان کو ہر غیر جانبدار محقق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ ترین زندگی دیکھ کر پل میں مسترد کردے گا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانستہ اپنے لئے فقر کا انتخاب کیا اور فقر بھی ایسا کہ کئی کئی روز کا فاقہ سہا کرتے تھے لہٰذا یہ سوچنا بھی فضول ہے کہ دعویٰ نبوت مال کمانے کے سبب تھا معاذ اللہ. دوسرا امکان یہ کہ دعویٰ نبوت حکومت حاصل کرنے کیلئے کیا گیا. یہ بھی تاریخی طور پر ایک فاسد امکان ہے. تیئیس برس کی انتھک کوشش اور قربانی میں آپ نے کبھی حق بات پر کمپرومائز کرکے اقتدار قبول نہ کیا. ورنہ مکی دور میں ہی سرداران مکہ نے آپ کو سرداری، دولت، عورت سمیت ہر طرح کی پیشکش کی جس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تاریخی الفاظ میں دیا تھا کہ ”اللہ کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لئے اۤمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں۔".
.
تیسرا امکان یہ کہ دعویٰ نبوت کیلئے دانستہ جھوٹ بولا (معاذ اللہ). یہ بات تمام مسلم و غیر مسلم تاریخ دانوں نے تسلیم کی ہے کہ نبوت سے قبل چالیس برس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا صاف اور مثالی تھا کہ قبائل مکہ آپ کو صادق اور امین کے خطاب سے پکارا کرتے تھے. چالیس برس کی پختہ عمر تک ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک پر سچ کا خیال رکھنے والا انسان اچانک دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے لگے کہ وہ رسول اللہ اہے جبکہ وہ رسول نہ ہو. ایسا ممکن نہیں. چوتھا امکان یہ کہ آپ کو معاذ اللہ کوئی ذہنی عارضہ تھا. یہ امکان بھی عجیب تر ہے کہ آپ کی سلیم العقلی، سلیم المزاجی، ذہانت، معاملہ فہمی اور قائدانہ صلاحیت کے معترف تو دشمنان اسلام بھی ہیں. ان گنت واقعات ایسے ہیں جن سے آپ کے ذہنی صحتمند ہونے کی قوی دلیل ملتی ہے. مثال کے طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات ہوئی تو اتفاق سے اسی روز سورج گرہن بھی ہوگیا. مومنین کی جماعت میں یہ بات ہونے لگی کہ سورج کو گرہن اسی سوگ میں لگا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری تصحیح کی کہ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے. پانچواں امکان یہ ہے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الہام و وحی شیاطین کی جانب سے تھی. یہ امکان اپنی اصل کے اعتبار سے ہی غلط محسوس ہوتا ہے. گویا وہ کتاب جس کا ہر صفحہ انسانی تذکیر اور اللہ سے مضبوطی تعلق کی بات کرتا ہے. جس کا آغاز ہی شیطان کو مردود رجیم کہہ کر اور رب کو رحمٰن کہہ کر ہوتا ہے. اس وحی الہی کو شیاطین سے منسوب کرنا فقط جسارت ہے. چھٹا اور آخری امکان یہی بچتا ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس دعویٰ رسالت میں سو فیصد سچے تھے اور ان پر وحی من جانب اللہ ہی ہوا کرتی تھی.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment