Monday, 23 April 2018

کتابیں پڑھنے کے شوق پر فیس بک کے اثرات



کتابیں پڑھنے کے شوق پر فیس بک کے اثرات 



.
ایک مقبول عام رائے یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور بلخصوص فیس بک کے بڑھتے رجحان نے لوگوں کو کتاب سے دور کردیا ہے. یہ رائے کسی حد تک درست بھی ہے مگر پورا سچ نہیں ہے. یہ درست ہے کہ واقعی سوشل میڈیا کے اس سیلاب نے ہمارے وقت پر کچھ اس طرح قبضہ کرلیا ہے کہ مجھ سمیت بہت سے کتب بینی کے شوقین افراد کا کتاب سے رشتہ کمزور ہوا ہے. مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسی فیس بک پر موجود تحریروں کی بدولت بیشمار لوگوں میں مطالعہ کی ہمت و شوق پیدا ہوا ہے. اب وہ افراد بھی کتابیں پڑھ رہے ہیں جو فیس بک پر جڑنے سے قبل کورس کی کتابوں کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے. نہ ہی انہیں اس کا شوق تھا نہ ہی ہمت. فیس بک پر موجود نت نئے موضوعات پر تحریریں، اردو بلاگز اور پی-ڈی-ایف ڈیجیٹل کتابوں نے انہیں یہ حوصلہ دیا ہے کہ اگر وہ ایک طویل تحریر شوق سے پڑھ سکتے ہیں تو پھر یقیناً پوری کتاب بھی پڑھ سکتے ہیں. انہیں یہ بات سمجھ آئی ہے کہ جاسوسی ناول اور رومانوی ڈائجسٹ کے علاوہ سنجیدہ موضوعات بھی دلچسپ ہوسکتے ہیں. اس کا ایک بڑا ثبوت ملک بھر میں ہونے والے وہ کتابی میلے ہیں جنہیں منتظمین کے بقول ماضی سے کہیں زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی. نوجوانوں سے لے کر ادھیڑ عمر تک کے مرد و زن ان میلوں میں امڈ آئے اور کتابوں کی ریکارڈ فروخت ہوئی. 
۔
بات اتنی ہی نہیں ہے کہ لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق بیدار ہورہا ہے بلکہ اس زریعے سے سینکڑوں ہزاروں نئے لکھاری بھی وجود میں آئے ہیں۔ جن میں سے کئی کی تو کتب بھی شائع ہوگئی ہیں۔ ان لکھاریوں کی اکثریت سوشل میڈیا کے اس انقلاب سے قبل خود بھی اپنے بارے میں یہ امر نہیں جانتی تھی کہ وہ اچھا لکھ سکتے ہیں۔ ان ہی تحریروں سے اردو زبان کا فروغ بھی ملک بھر اور بیرون ممالک میں اردو سمجھنے والو کیلئے ہوا ہے۔ ورنہ مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی ایک تعداد تو اردو پڑھنا یا لکھنا ہی بھول گئے تھے اور صرف اردو بولنے سننے پر گزارہ تھا۔ فرقہ واریت کی وہ دیوار جو مذہبی حلقوں نے اپنے اپنے مسالک پر یہ کہہ کر لگا رکھی تھی کہ مخالف مسلک کی کتب پڑھنا ناجائز ہے۔ منافرت کی وہ دیوار فیس بک کی دیوار کی تاب نہ لاسکی۔ یہاں قاری ہر مسلک سے وابستہ افراد کو پڑھنے پر مجبور ہے جس سے عدم برداشت کم ہوئی ہے اور بہتر موقف اختیار کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ مدرسے اور کالج کا جو فرق دینی و دنیاوی تعلیم کی تفریق پر قائم کیا گیا تھا وہ بھی اس ریلے میں بہہ گیا ہے۔ اب مدرسے کا ایک طالبعلم کسی یونیورسٹی کے پروفیسر سے گپ لگاتا ہے تو کالج کا طالبعلم کسی مفتی و عالم سے تالی مار کر گفتگو کرلیتا ہے۔ عوام الناس جو اب تک پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کی ذہنی غلام بنی رہی ہے۔ آج اسے فیس بک، ٹوئیٹر جیسے سوشل میڈیا کے وہ ذرائع میسر آئے ہیں جن سے وہ اپنی رائے کا موثر طور پر اظہار کرسکیں۔ یہ تحریری اظہار اتنا طاقتور ہے کہ انقلابی تحریک بن کر کئی ممالک سے جابر حکمرانوں کا تختہ پلٹ چکا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ملک کا مین اسٹریم میڈیا بھی کئی معاملات میں سوشل میڈیا سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہے۔ فیس بک کا اعتدال سے ہٹ کر یا غلط استعمال نقصان دہ ضرور ہے مگر ہماری رائے میں اس کے ان گنت فوائد ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment