اسلام تلوار کے زور پر یا امن کا دین؟
.
بحیثیت مسلمان ہم سب واقف ہیں کہ دین اسلام .. سلامتی کا دین ہے. مگر اس سلامتی سے مراد یہ قطعی نہیں ہے کہ وہ ظالم کو آہنی ہاتھ سے نہ روکے، سرکش کو سزا نہ دے یا جبر و استبداد کا آگے بڑھ کر خاتمہ نہ کردے. اسلام کی سلامتی دراصل انصاف کے قیام سے پروان چڑھتی ہے. گویا اسلام اپنی اصل میں عدل و انصاف کا دین ہے اور یہی عدل اسے فرد و معاشرے کیلئے امن کا مظہر بناتا ہے. اسلام جب فرد کو مخاطب کرتا ہے تو" لا إِکْراهَ فِی الدِّینِ" کا اصول دیتا ہے یعنی دین میں کوئی جبر نہیں. اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی فرد کو زور زبردستی سے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے. البتہ اسلام جب بطور نظام اپنا ظہور کرتا ہے تو پھر کسی بھی دوسرے زندہ فلسفے کی طرح وہ اپنا پھیلاؤ چاہتا ہے. کیپیٹلزم ہو، کمیونزم ہو، امپیریلزم ہو یا کوئی اور نظام ، تاریخ شاہد ہے کہ اس نے خود کو مخصوص سرحد میں محدود نہ رکھا بلکہ ممکنہ حد تک اپنے پھیلاؤ کی ہر کوشش کی. اسلام بھی اس ضمن میں کوئی استثنیٰ نہیں. گو مختلف وقت اور حالات میں اس پھیلاؤ کے مختلف طریق ہو سکتے ہیں. البتہ دعوت دین ہر حالت یا دور میں جاری رہتی ہے. اسلام نے جہاں ایک جانب ہمیں درگزر و رحمدلی کی ترغیب دی، بے گناہ کے قتل کو انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا. وہاں ساتھ ہی اس نے ہماری یہ تربیت بھی کی کہ اپنے ہتھیار اور گھوڑے بھی تیار رکھو.
.
جس زمانے میں حکومتیں مال و طاقت اور اپنے فلسفہ حکومت کے پھیلاؤ کیلئے مقابل کو صرف روندنا جانتی تھیں. اس وقت اسلام نے آکر عدل و انصاف اور نظام اسلامی کے قیام کیلئے جنگ کے علاوہ دعوت و جزیہ میں سے بھی چننے کا اختیار دیا. یہاں یہ بھی دھیان میں رہے کہ قبول اسلام کی دعوت کے آپشن سے مراد یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو طاقت کے زور پر کلمہ پڑھوا دیا جائے بلکہ اس سے مراد نظام خلافت کو بطور حکومتی نظم قبول کرنا تھا. تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب غیر مسلم حکمران کو اس کی حکمرانی کا اختیار واپس دے دیا گیا کہ اس نے اسلام کو بطور نظام قبول کرلیا تھا یا جزیہ دینے پر رضامندی ظاہر کردی تھی.اسی طرح پہلی اسلامی ریاست مدینہ ہو یا پھر مسلم اسپین. دونوں ریاستوں میں غیر مسلم آبادی کی اکثریت تھی اور مسلمان اقلیت میں. مگر نظام و قانون اسلام ہی کا رائج تھا. اسی بناء پر اقلیت ہونے کے باوجود انہیں آج بھی تاریخ میں مسلم ریاستیں کہا جاتا ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: پوسٹ لکھتے ہوئے ہم نے اس حقیقت کو پیش نظر رکھا ہے کہ علماء اور عوام کی عظیم ترین اکثریت اسلام کو ایک نظام زندگی تسلیم کرتی ہے. ہمارے مخاطب وہی ہیں. وہ احباب جو اسلام کو ایک نظام نہیں تسلیم کرتے، ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ یہاں اس کے نظام ہونے نہ ہونے کی بحث سے گریز کریں. اس بحث پر دونوں موقف کی جانب سے کتابوں کی کتابیں موجود ہیں. جن میں انہوں نے اپنا استدلال تفصیل سے پیش کیا ہے. پھر وہ چاہے اکابر علماء کی جانب سے نظام اسلامی کا بیان ہو یا پھر مولانا مودودی و ڈاکٹر اسرار کا لٹریچر. اسی طرح اس مقدمے کے رد میں مولانا اصلاحی، غامدی صاحب اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تصانیف بھی باآسانی دستیاب ہیں. ان دونوں مقابل موقف کو پڑھ کر قارئین اپنی رائے تشکیل دے سکتے ہیں)
No comments:
Post a Comment