Monday, 23 April 2018

مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان کا خلاصہ



مفتی تقی عثمانی صاحب کے بیان کا خلاصہ


۔
کل 'سو ایس یونیورسٹی آف لندن' میں ایک پروقار علمی نشست کا اہتمام ہوا جو اپنی حقیقت میں دو انگریزی کتابوں کی تقریب رونمائی تھی۔ پہلی کتاب اردن کے شہزادے اور پی ایچ ڈی اسکالر "پرنس غازی بن محمد" کی تصنیف تھی جو تدبر قران سے متعلق ہے اور دوسری کتاب "اسلام اینڈ پولیٹکس" (اسلام اور سیاست) "محترم مفتی محمد تقی عثمانی" کی تحریر کردہ تھی جو اسلام کے سیاسی نظام اور اس کے نفاز کی بات کرتی ہے۔ یہ تقریب بہترین نظم کے ساتھ ایک خوبصورت یونیورسٹی کے کشادہ آڈیٹویم میں منعقد ہوئی۔ میرے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ سامعین میں غیر مسلم طالبعلم بھی اچھی تعداد میں موجود تھے۔ ہم نے سب سے پہلے مفتی صاحب کی کتاب خریدی اور پھر بیچ کی ایک نشست پر براجمان ہوگئے۔ پروگرام کا آغاز ہوا اور قدآور علماء اکرام اسٹیج پر رکھی نشستوں پر بیٹھ گئے جن میں مفتی تقی عثمانی صاحب اور پرنس غازی محمد نمایاں تھے۔ ان معزز علماء کا مختصر مگر جامع تعارف دیا گیا اور پھر دونوں کتابوں کی اہمیت و پیغام پر گفتگو کی گئی۔ اردن کے شہزادے پرنس غازی محمد نے اپنی کتاب پر خود روشنی ڈالنے سے یہ کہہ کر عاجزی ظاہر کی کہ وہ استاد محترم مفتی تقی عثمانی صاحب کے سامنے یہ جرات نہیں کرسکتے۔ انہوں نے شاندار الفاظ میں مفتی صاحب کے علمی کارناموں کی مثالیں دے کر بتایا کہ وہ کس قدر غیر معمولی انسان ہیں۔ بلآخر کئی مراحل سے گزر کر مائیک مفتی تقی عثمانی صاحب کی جانب آیا اور انہوں نے بلیغ انداز میں اپنی کتاب کو بیان کیا۔ ہم اس کا مختصر خلاصہ یادداشست سے آپ احباب کیلئے لکھے دیتے ہیں۔
۔
سب سے پہلے انہوں نے بیان کیا کہ آج کس طرح ساری دنیا پر سیکولزم کا غلبہ ہے۔ انہوں نے سیکولرزم کو تھیوروکریسی کا ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تھیوروکریسی اپنی اصل میں غلط نہیں مگر اس کی عملی شکل جو دنیا کو دیکھائی گئی وہ غلط تھی۔ عیسائیت سمیت دیگر غیر اسلامی مذاہب میں سیاست کیلئے اسلام کی طرح واضح احکامات نہیں موجود ہیں۔ لہذا ان مذاہب نے خدا کی حکومت یعنی تھیوروکریسی کے نام پر مذہبی رہنماوں کی حکومت قائم کردی۔ جنہوں نے حرام کو حلال بناکر اپنی طاقت قائم رکھنا چاہی۔ اس مسلسل ظلم سے بددل ہوکر مغربی عوام نے تھیوروکریسی کا تختہ الٹا اور سیکولرزم کو مقابل پیش کیا۔ جس کے تحت الہامی ہدایات کا ملکی قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسلام اس نظریئے کو مسترد کرتا ہے اور یہ اصول دیتا ہے کہ زمین اللہ کی ہے تو اس پر قانون بھی اللہ ہی کا نافذ ہوگا۔ مسلمانوں میں وہی شخص حکمران ہوسکتا ہے جو اس اصول کو تسلیم کرتا ہو۔ خلافت راشدہ اور اسکے بعد بھی کچھ صالح خلفاء کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے کتاب و سنت کا بہترین حکومتی اطلاق کرکے دیکھایا۔ افسوس کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے خلیفہ ایسے گزرے جنہوں نے اس نفاز میں ذاتی مفاد کو محبوب رکھا۔ خلیفہ کو خلیفہ کہتے ہی اسلئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی نہیں چلاتا بلکہ وہ 'سب آرڈینیٹ'ہوتا ہے 'وائسرائے' ہوتا ہے جو پوری صلاحیت سے خدائی نظم کے نفاز کا قیام کرتا ہے۔ البتہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ آپ اسے خلیفہ کا ہی نام دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے کہ آج کے دور میں آپ اسے ملک کہیں، امیر کہیں یا پریذیڈینٹ۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مغالطہ ہے کہ خلیفہ ایک ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خلیفہ قرانی اصول شوری بینھم یعنی مشورے کو اپناتا ہے۔ 
۔
آج کے مسلمانوں نے اس ضمن میں دو مختلف انتہائیں اختیار کی ہیں۔ پہلا گروہ ان ماڈرنسٹ اہل علم کا ہے جو مغربی جمہوریت اور سیکولرزم کے داعی بن بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت یعنی ڈیموکریسی دراصل عوام کی حاکمیت کا نام ہے جو اس اصول کی نفی ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہوگی۔ اسلام میں قانون سازی کیلئے یا خلیفہ منتخب کرنے کیلئے صرف ووٹوں کا زیادہ ہونا کافی نہیں ہیں بلکہ ساتھ ہی کئی اور شرائط ہیں جن کا اس شخص میں موجود ہونا لازم ہے جو خلیفہ بنایا جائے گا۔ مسلمانوں میں دوسری انتہا ان گروہوں نے اپنائی ہے جو فقط خلافت ہی کے قیام و کوشش کو دین کا واحد مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ جس طرح تجارت کے قوانین و ہدایات اسلام کا حصہ ہیں ویسے ہی حکومت چلانے کے قوانین و احکامات بھی اسلام میں شامل ہیں۔ کسی ایک حصے کو پورا مدعا بنالینا درست نہیں۔ اس گروہ میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اسی غلو کے تحت حج کو بھی عبادت کی بجائے ایک انٹرنیشنل میٹنگ برائے خلافت کہتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے بہت سے انبیاء خلافت نہیں قائم کرپائے تو کیا وہ ناکام رہے؟ جواب میں وہ معازاللہ کہتے ہیں کہ وہ دین کے بنیادی مقصد کو قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔ یہ دوسری انتہا ہے۔ انہوں نے سیاست کو اسلامی کرنے کی چاہ میں اسلام کو سیاسی بناڈالا۔ حدیث کے مطابق کوئی مسلمان خلیفہ بننے کی تگ و دو نہیں کرتا یا اسکی لالچ نہیں رکھتا جیسا کہ آج اسکے برعکس سیاسی رہنماء کرسی کیلئے تحریکیں چلاتے ہیں۔ دور خلافت میں کچھ اہل دانش کا انتخاب ہوا کرتا تھا جو مل کر کسی اہل شخص کو حکومتی مظم کیلئے بطور خلیفہ نامزد یا مقرر کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مجلس کا قیام ممکن نہیں رہا۔ اپنی اس کتاب میں مفتی عثمانی صاحب نے اس کا حل پیش کیا ہے جو اسوقت راقم کے علم میں نہیں۔ 
۔
انہوں نے خلافت سے متعلق غلط فہمیوں کا بھی جواب دیا جیسے انہوں نے ثابت کیا کہ خلافت میں غیر مسلم کو برابر کے شہری حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔ جزیہ ایک ٹیکس ہے جو غیر مسلم دیتے ہیں۔ اس کے مقابل زکات ہے جو صرف مسلم ادا کرتے ہیں۔ جزیہ کی شرح ہمیشہ زکات سے کم رکھی گئی ہے۔ لہذا جزیہ کو ظلم سمجھنا بلکل غلط ہے۔ آج خلافت کے قیام پر آپ جزیہ کا کوئی اور نام رکھ سکتے ہیں۔ اسمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسی طرح یہ بھی غلط فہمی ہے کہ خلافت غیر مسلم ممالک سے حالت جنگ میں رہتی ہے۔ انہوں نے مثالیں دے دے کر یہ واضح کیا کہ کس طرح خلافت دیگر ممالک سے عمومی طور پر امن معائدہ کرکے رکھتی ہے۔ نشست کی طوالت کے سبب سوال و جواب کا سیشن منسوخ کرنا پڑا اور یوں یہ بہترین محفل اپنے اختتام پر پہنچی۔ مغرب کی امامت تقی عثمانی صاحب نے کی بعد از نماز اچانک عوام میں ایک مانوس چہرہ نظر آیا۔ وہ استاد نعمان علی خان تھے جو بالخصوص مفتی صاحب کا بیان سننے آئے تھے۔ میں ان تک پہنچا اور کچھ دیر ہلکی پھلکی گفتگو کی۔ ان کا شکریہ ادا کیا کہ فہم قران میں ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ الحمدللہ۔
۔
(نوٹ: تحریر راقم کی اپنی سمجھ اور یادداشت پر مبنی ہے۔ لہذا اس میں کمی بیشی کا امکان ہے۔ درست تفصیل قاری اس پروگرام کی ریکارڈنگ سن کر کرسکتا ہے جو باآاسانی دستیاب ہے)
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment