معتزلہ اور ہم
.
معتزلہ تاریخ اسلامی کا وہ گروہ ہے جو آج مسلمانوں میں عموماً اچھی شہرت کا حامل نہیں سمجھا جاتا. مگر ذرا دقت نظر سے دیکھیئے تو ہمیں ان کی قدر محسوس ہونے لگتی ہے. سوچیئے اگر معتزلہ اتنے ہی برے تھے تو انہیں کیسے عالم اسلام میں ایک عرصے تک مقبولیت حاصل رہی؟ کیسے خلیفہ مامون کی خلافت میں انہیں سرکاری فکر کا درجہ حاصل ہوگیا؟ آخر کوئی تو وجہ رہی ہوگی؟ یہ تو ان کے مخالف بھی مانتے ہیں کہ وہ کوئی یہودی ایجنٹ نہیں تھے. ان کی فکر میں خامیاں چاہے جتنی ہوں مگر ان کی نیک نیتی پر شک کرنا درست نہیں. ہوا کچھ یوں کہ خلافت کے غیرمعمولی پھیلاؤ کے سبب جب سادہ مزاج عربوں کا سامنا ایران اور رومن تہذیبوں سے ہوا تو وہ وہ سوال اٹھائے جانے لگے جو پہلے کبھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے. فلسفہ جبر و قدر، مسئلہ نقل و عقل، صفات خداوندی عین ذات ہیں یا نہیں، عالم امثال، کائنات محدود یا لامحدود، خدا محدود یا لامحدود، موجود شر میں خدائی انصاف اور اسی طرح دیگر سوالات مسلم اذہان کو متاثر کرنے لگے. محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت کے مذہبی علماء ان متفرق فلسفوں کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے. نئی مسلمان نسل میں ایک اچھی خاصی تعداد ان گریک اور رومن فلسفوں سے اس درجے متاثر ہوئی کہ مذہب سے ہی بدظن ہوگئے. کچھ نے الحاد میں پناہ ڈھونڈھی تو کچھ عیسائیت کی موشگافیوں سے زیر ہونے لگے.
.
ایسے میں ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو عقلی و علمی سطح پر ان جدید فلسفوں کا جواب دے سکیں. لہٰذا مسلمانوں میں سے کچھ فلاسفہ پیدا ہوئے جنہوں نے یونانی فلسفے کے زیر اثر اسلام کی جدید تفسیر کی مگر ان کے اذہان پر فلسفہ اس درجے حاوی تھا کہ اس کاوش میں وہ دین کے کئی قطعی احکامات و آیات کا انکار کر بیٹھے. پھر اسی مقصد کو لے کر دوسری صدی حجرہ میں ایک نیا گروہ سامنے آیا جنہیں تاریخ میں 'معتزلہ' کے نام سے جانا جاتا ہے. یہیں سے علم الکلام کا باقاعدہ آغاز ہوا. معتزلہ سے منسلک متکلمین نے خارج سے آئے جدید فلسفوں کو ان ہی کی زبان اور میزان پر موثر جواب دینا شروع کیا. معتزلہ نے نہ صرف غیرمسلم فلسفے کا موثر ترین جواب دیا بلکہ ان سیاسی سوالات کے بھی جواب دیئے جو اس وقت عوام کی دل کی آواز تھے. معتزلہ کی اسی 'ریشنلسٹ اپروچ' نے انہیں مسلمانوں میں تیزی سے مقبولیت عطا کی. ہمیں بھی ان کا معترف ہوتے ہوئے ماننا چاہیئے کہ یہ ایک وقت کی ضرورت اور بڑی خدمت تھی جو اس گروہ نے انجام دی. المیہ یہ ہوا کہ وہ بھی مقابل کو ان ہی کی میزان پر جواب دیتے دیتے ایسا بہے کہ قران و سنت کو کسوٹی رکھنے کی بجائے ان ہی فلسفیانہ اصولوں پر اپنی تحقیق کی بنیاد بھی اٹھانے لگے. گویا ان کی نیت خالص تھی، ان کا طرز استدلال عمدہ تھا، ان کا غیر اسلامی فسلفوں کے مقابل دفاع قابل تعریف تھا مگر ان کا اکثر معاملات میں عقل کو نقل پر حکم بنانا انہیں اعتدال سے ہٹا گیا. چنانچہ اشعری اور ماتریدی فکر سے وابستہ علماء نے ان پر علمی تنقید کی اور بلاخر غلبہ پایا. انہیں آج جماعت اہل السنہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.
.
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معتزلہ نے اسلام کو اسوقت درپیش چیلنجز کا موثر جواب دے کر ایک خدمت انجام دی تھی. مگر وہ اپنی خامیاں دیکھنے سے قاصر رہے. یہاں تک کہ روایتی فکر نے ان پر دوبارہ غلبہ پایا. گو یہ روایتی فکر بھی اس علمی ارتقاء سے لاشعوری طور پر فیضیاب ہوئی اور دین کی بہتر سمجھ تک پہنچ سکی. آج بھی اسلام کو فکری سطح پر نیا معرکہ اور جدید چیلنجز درپیش ہیں. الحاد سمیت دیگر مغربی فلسفوں نے مسلم نوجوان اذہان کو ہلا رکھا ہے. ہمارا روایتی مذہبی طبقہ نہ اس کا کوئی موثر جواب دے پا رہا ہے اور نہ ہی جدید ذہن کو مخاطب کر سکا ہے. فرقہ پرستی، اکابر پرستی اور علمی جمود نے دین کے سادہ احکامات کو بھی مشکل بنا دیا ہے. دین میں موجود مختلف رخصتوں سے عوام کو لاعلم رکھا جاتا ہے اور نوافل و سنتوں کو فضائل کے بیان سے فرض جیسا بنا کر پیش کیا جاتا ہے. یہ اور اس جیسے کئی عوامل نئی نسل کو روایتی مذہبی سمجھ سے دور لے گئے ہیں. ایسے میں ایک بار پھر مسلمانوں میں سے وہ گروہ برآمد ہو رہے ہیں جنکی کوشش ہے کہ وہ ان مغربی فلسفوں کا موثر جواب دے سکیں اور دینی سمجھ میں موجود خامیوں کو دور کریں. ان گروہوں میں سابقہ مسلم فلاسفہ کی طرح کے افراد بھی ہے جو دین کے قطعی احکامات کی بھی جداگانہ تشریح پیش کرہے ہیں. یہ گروہ کبھی بھی قبول عام تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ اپنی موت آپ مر جائیں گے. ان ہی گروہوں میں سے معتزلہ کی طرح سے 'ریشنلسٹ اپروچ' والے بھی برآمد ہوئے ہیں جو مغربی فلسفوں کا موثر جواب تو دے رہے ہیں اور اسکے نتیجے میں جدید نسل میں تو مقبولیت پارہے ہیں مگر اس وقت اپنی خامیاں دیکھنے سے قاصر ہیں. ہمارے نزدیک یہ 'موڈرنیسٹ' مخلص ہیں، علم دوست ہیں اور اخلاص دل سے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں. مگر بہرحال ان کی فکر میں اصولی سقم موجود ہے. جس کا ادراک ممکن ہے کئی دہائیوں کے بعد ہو. ہم مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایک دوسرے کو اسلام دشمن نہ سمجھیں بلکہ اس کشمکش کو علمی ارتقاء کی کڑیاں سمجھیں. ہمارا احساس ہے کہ کل پھر روایتی فکر ہی غالب ہوگی مگر اس علمی و فکری ٹکراؤ سے بہت کچھ سیکھ کر اور شائد کافی کچھ اپنا کر.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment