احساس ندامت
۔
اپنے کسی گناہ، غلطی یا جرم پر احساس ندامت کا ہونا بھی ایک مومن کیلئے بہت بڑی نعمت ہے۔ بلاشبہ اپنے نفس کی اصلاح وہی کرسکتا ہے یا اپنے گناہ سے تائب وہی ہوسکتا ہے جو اپنی کی گئی غلطی کو غلطی مان کر اس پر پر نادم ہو یعنی اپنے اندر احساس ندامت رکھتا ہو۔ اب جو غلط کو غلط ہی نہ سمجھے یا جو اپنی غلطی کی تاویلیں پیش کرکے اس کا دفاع کرے تو ایسے شخص سے کبھی توبہ کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ احساس ندامت انسان کے قلب میں بوجھ بن کر ضمیر کو ملامت کرنے پر اکساتا ہے۔اسے گناہ کا احساس دلاتا ہے۔ اسے کچوکے لگاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بلآخر اپنی غلطی سے تائب ہو اور واپس رجوع کرلے۔
۔
لیکن کسی دوسرے انسان کو غلط طور پر کسی احساس ندامت کی مستقل اذیت میں مبتلا کردینا ایک قبیح عمل ہے۔ پھر چاہے آپ کی نیت دوسرے کو نیکی کی جانب بلانے کی ہی کیوں نہ ہو؟ آپ کسی کو اس داخلی عذاب میں مبتلا نہیں کرسکتے۔ میرا اشارہ ان دینی بہن بھائیو کی جانب ہے جو اپنے مخاطبین کو کبھی جہنم کا ڈراوا دے کر اور کبھی نفل کام کو فرض بتا کر کسی اچھائی کی جانب بلاتے ہیں۔ ہمیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی مرضی سے دین کو تبدیل کردیں۔ اور دین کو تبدیل کردینا یہی نہیں کہ آیات و احادیث کے قطعی پیغام کو بدلنے کی کوشش ہو بلکہ دین کو بدلنا یہ بھی ہے کہ آپ کسی فرض کو نفل یا نفل عمل کو فرض کی طرح پیش کرنے لگیں۔ مثال کے طور پر فرض رکعات کے علاوہ سنتوں یا نوافل کا اہتمام مستحب تو ضرور ہے مگر فرض نہیں ہے۔ لہذا کسی کا اپنے مخاطب کو یہ خوف دلانا کہ تم نے نماز میں سنتوں یا نوافل کا اہتمام نہ کیا تو جہنم میں جاو گے یا تراویح کا اہتمام نہ کیا تو روزوں کا کوئی فائدہ نہیں یا فلاں اذکار نہیں پڑھے تو گناہ کا وبال تمہارے سر ہوگا۔ ایک نہایت غلط روش ہے۔ اس طرح آپ دوسرے انسان کو مستقل احساس جرم و ندامت میں ڈالے رکھتے ہیں جس سے بعض اوقات وہ دین سے متنفر ہوجاتا ہے اور کبھی اپنی بخشش کی امید ہی چھوڑ بیٹھتا ہے۔ خدارا اپنا تقوی دوسرے پر فتوی بناکر مسلط نہ کریں۔ کسی نفل عمل کی چاہے کتنی ہی فضیلت کیوں نہ ہو؟ اسے فرض جیسا بنا کر پیش کرنا مجرمانہ فعل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ اہل علم دانستہ دینی احکام میں موجود رعایتوں کو اس خدشے کے سبب بیان ہی نہیں کرتے کہ عوام انہیں معمول نہ بنالیں جیسے حالت سفر میں نماز کو قصر کرنا یا ظہر عصر، مغرب عشاء کو ملا کر ادا کرنا وغیرہ. حالانکہ آپ معمول نہ بنانے کی مخاطب کو تنبیہ تو کرسکتے ہیں مگر کسی موجود آسانی کو چھپا نہیں سکتے.
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment