قندوز
لب بھی خاموش ہیں، ہر زباں بے صدا
کیا حسین آگئے ؟ کیوں ہے یہ کربلا ؟
.
آج ہے میرا گھر .. کل کوئی اور ہے
مسئلہ دوستو .. قابل غور ہے
.
امن و انصاف کا بے سبب شور ہے
بن گیا ہے وہ منصف، جو خود چور ہے
.
قندوز افغانستان میں آج ایک بار پھر انسانیت کا نوحہ پڑھا گیا. تاریخ میں مسلمانوں کی بے بسی، کم ہمتی، نقاہیت اتفاق کا ایک اور خون آلود باب رقم ہوا. مغرب کے خود ساختہ انسانیت کے دوہرے معیار کو چشم فلک نے پھر مشاہدہ کیا. ان افغان نونہالوں کی گوری رنگت بھی انہیں گوروں کے حقوق نہ دلاسکی. شائد اسلئے کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمان کا خون آج محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً پانی سے زیادہ سستا ہے. جس طرح چیونٹیوں کے کچلے جانے پر کوئی واویلہ نہیں کرتا، کسی کا دل رنجیدہ نہیں ہوتا ویسے ہی آج ہم مسلمان حشرات الارض کی مانند ہیں. جو روز کبھی اغیار کے بوٹوں تلے اور کبھی اپنے منافق استعمار کے تسلط کے نیچے کچلے جاتے ہیں. کس کس کو روئیں؟ شام ؟ برما ؟ کشمیر ؟ افغانستان ؟ پاکستان ؟ عراق ؟ فلسطین ؟ لیبیا ؟ میانمار ؟ ... اور کیا ہمارا کام بس رونا ہے ؟ جھولی بھر بھر کے بددعائیں دینا ہے ؟ ابو داؤد کی یہ حدیث پڑھیئے: ... ”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے مل کر سازشیں کریں گی ... اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے ... لذیذ کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“
.
آج یہی حال ہے اس امت مسلمہ کا ... اب امت نظر نہیں آتی بلکہ گروہ در گروہ تقسیم دیکھائی دیتی ہے. اللہ کی قسم اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس مسلسل پستی سے نکلنے کا رستہ کیا ہے تو میرا جواب تین باتوں پر بلترتیب عمل کرنا ہوگا. سب سے پہلے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا، اس کے بعد اتحاد بین المسلمین اور پھر قیام خلافت. جب تک مسلمان ممالک مل کر یورپی یونین یا اقوام متحدہ کی طرز پر ایک جھنڈے کے نیچے اپنا کوئی موثر اتحاد قائم نہیں کرلیتے تب تک ایک کے بعد ایک یونہی روندے جاتے رہیں گے. جیسا کہ اقبال نے کہا تھا .. ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات !
.
کیا حسین آگئے ؟ کیوں ہے یہ کربلا ؟
.
آج ہے میرا گھر .. کل کوئی اور ہے
مسئلہ دوستو .. قابل غور ہے
.
امن و انصاف کا بے سبب شور ہے
بن گیا ہے وہ منصف، جو خود چور ہے
.
قندوز افغانستان میں آج ایک بار پھر انسانیت کا نوحہ پڑھا گیا. تاریخ میں مسلمانوں کی بے بسی، کم ہمتی، نقاہیت اتفاق کا ایک اور خون آلود باب رقم ہوا. مغرب کے خود ساختہ انسانیت کے دوہرے معیار کو چشم فلک نے پھر مشاہدہ کیا. ان افغان نونہالوں کی گوری رنگت بھی انہیں گوروں کے حقوق نہ دلاسکی. شائد اسلئے کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمان کا خون آج محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً پانی سے زیادہ سستا ہے. جس طرح چیونٹیوں کے کچلے جانے پر کوئی واویلہ نہیں کرتا، کسی کا دل رنجیدہ نہیں ہوتا ویسے ہی آج ہم مسلمان حشرات الارض کی مانند ہیں. جو روز کبھی اغیار کے بوٹوں تلے اور کبھی اپنے منافق استعمار کے تسلط کے نیچے کچلے جاتے ہیں. کس کس کو روئیں؟ شام ؟ برما ؟ کشمیر ؟ افغانستان ؟ پاکستان ؟ عراق ؟ فلسطین ؟ لیبیا ؟ میانمار ؟ ... اور کیا ہمارا کام بس رونا ہے ؟ جھولی بھر بھر کے بددعائیں دینا ہے ؟ ابو داؤد کی یہ حدیث پڑھیئے: ... ”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے مل کر سازشیں کریں گی ... اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے ... لذیذ کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“
.
آج یہی حال ہے اس امت مسلمہ کا ... اب امت نظر نہیں آتی بلکہ گروہ در گروہ تقسیم دیکھائی دیتی ہے. اللہ کی قسم اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس مسلسل پستی سے نکلنے کا رستہ کیا ہے تو میرا جواب تین باتوں پر بلترتیب عمل کرنا ہوگا. سب سے پہلے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا، اس کے بعد اتحاد بین المسلمین اور پھر قیام خلافت. جب تک مسلمان ممالک مل کر یورپی یونین یا اقوام متحدہ کی طرز پر ایک جھنڈے کے نیچے اپنا کوئی موثر اتحاد قائم نہیں کرلیتے تب تک ایک کے بعد ایک یونہی روندے جاتے رہیں گے. جیسا کہ اقبال نے کہا تھا .. ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات !
.
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
.
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
.
====عظیم نامہ====
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
.
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment