Monday, 23 April 2018

وزیراعظم غریب عوام میں گھل مل گئے




وزیراعظم غریب عوام میں گھل مل گئے !


۔
یہ کوئی راز نہیں کہ آج مسلم معاشرے میں جس سدھار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ان کے "معاملات" ہیں۔ یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں "عبادات" جیسے نماز، روزہ، حج، صدقات سب کا اہتمام قابل قدر درجے میں کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ایک دوسرے سے بحیثیت شوہر یا بیوی، باپ یا ماں، بیٹا یا بیٹی، نوکری پیشہ یا کاروباری، مزدور یا سیٹھ ۔۔۔ سب حیثیتوں میں ہمارے مجموعی معاملات اسلامی اقدار سے بہت دور محسوس ہوتے ہیں۔ اسی ضرورت کو محسوس کرکے آج دانشوروں سے لے کر مسجد کے صاحبان منبر تک کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ وہ اپنا فوکس عبادات سے زیادہ معاملات کے سدھار پر مرکوز کریں۔ میرا اپنا احساس یہ ہے کہ اب مساجد کے منبر سے فی الواقع حقوق العباد اور معاملات کے سدھار کی بات ماضی سے زیادہ کی جارہی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ معاشرتی سطح پر کمتر درجے میں بھی سدھار نہیں پیدا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہر صاحب شعور کو یہ سوچنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے؟
۔
ہماری احقر رائے میں اس کا ایک بڑا سبب روایتی اصطلاحات کے ساتھ روایتی طرز خطابت ہے جسکی وجہ سے بات کی اثر انگیزی زائل ہوجاتی ہے۔ ہماری اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال پر غور کریں۔ ہم بچپن سے ٹی وی پر ایک مخصوص الفاظ کی رپورٹنگ سنتے آرہے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ "پاک فوج کی توپوں نے دشمن کو 'منہ توڑ'جواب دیا اور دو چوکیاں تباہ کردی" ۔۔۔ یا پھر بتایا جائے گا کہ "وزیر اعظم نے فلاں متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور غریب عوام میں 'گھل مل' گئے" وغیرہ۔ اب اس طرح کی جملے بازی یا رپورٹنگ اتنی کثرت سے کی گئی ہے کہ اپنی اثر انگیزی کھو بیٹھی ہے۔ یہ گھسے پٹے الفاظ ہماری سماعتوں پر گرتے تو ضرور ہے مگر قلب و ذہن تک اپنا رستہ نہیں بنا پاتے۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے یہاں معاملات کے سدھار کا درس تو دیا جارہا ہے مگر ایسے روایتی الفاظ، مخصوص طرز خطابت اور بار بار دہرائی گئی ان احادیث کیساتھ جنہیں سن کے سامعین تقدس سے گردن تو جھکا لیتے ہیں مگر اپنی زندگی کو اس سے relate نہیں کرسکتے یعنی مطابقت قائم نہیں کرپاتے۔ اگر ہم واقعی لوگوں کی انفرادی و معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ انداز و الفاظ اختیار کریں جو مخاطبین کی زندگیوں سے میل کھاتا ہو۔ ایسے حالات حاظرہ، آپ بیتیاں اور تاریخی واقعات سنائے جائیں جو سننے والے کی توجہ پوری طرح جذب کرلیں اور انہیں یہ موقع فراہم کریں کہ وہ ان واقعات کے آئینے میں اپنے معاملات یا اخلاقی شخصیت کا عکس دیکھ سکیں۔ ان مسائل کا زکر ہو جو ہماری زندگیوں سے براہ راست متعلق ہیں جیسے ٹریفک قوانین کی پابندی، پان گٹکے وغیرہ سے پرہیز یا مہذب مکالمے کی اہمیت وغیرہ۔ ہم یہ قطعی نہیں کہہ رہے کہ بیان کرتے وقت آیات و احادیث نہ سنائی جائیں۔ عرض فقط اتنی ہے کہ روایتی انداز و الفاظ سے اجتناب برتا جائے تاکہ الفاظ صرف الفاظ بن کر واہ واہ میں نہ ڈھلیں بلکہ اخلاق بن کر کردار میں موجزن ہوں۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment