Monday, 23 April 2018

جناح سیکولر تھے یا مذہبی



جناح سیکولر تھے یا مذہبی ؟


.
یہ سوال قیام پاکستان سے لے کر آج تک دو طبقات فکر کے درمیان گونجتا رہا ہے. ایک کے نزدیک قائد اعظم محمد علی جناح (رح) ایک سیکولر دماغ کے انسان تھے جن کا مقصد پاکستان کی صورت میں ایک 'پروگریسو سیکولر' ریاست کا قیام تھا. دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ایک مذہبی دماغ کے ساتھ ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کے متمنی تھے جہاں قران و سنت کے احکام کا اطلاق کیا جاسکے. یہ دونوں گروہ ایک دوسرے پر تاریخ مسخ کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور اپنی اپنی رائے کے دلائل میں محمد علی جناح کے خطبات و تحریری یادداشتیں پیش کیا کرتے ہیں. پریشان کن امر یہ ہے کہ جناح کی تقاریر میں جہاں جابجا ایک 'اسلامی' قوانین پر مبنی ریاست کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے وہاں کچھ مقامات ایسے بھی ہیں جہاں اس نئی ریاست سے متعلق ان کے نظریات سیکولر محسوس ہوتے ہیں.
سیکولر طبقہ فکر اپنے موقف کے حق میں گیارہ اگست کی تقریر سے اقتباسات پیش کرتے ہیں. ایک نمونہ درج ذیل ہے:
.
"آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔"
.
مگر اس تقریر کے بعد کی وہ تقاریر جو ریکارڈ پر موجود ہیں بتاتی ہیں کہ جناح پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے. جیسا کے 30اکتوبر1947ء کو یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ:
"اب میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقتِ ضرورت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔"
.
اسی طرح 25جنوری 1948ء میں کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایاکہ:
.
"وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ قائد اعظم نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔‘‘
.
یہ دونوں موقف رکھنے والو کی جانب سے ایک دو مثالیں ہیں. ورنہ ایسی ہی اور بہت سی شہادتیں دونوں طبقہ فکر پیش کرتے ہیں. ہماری دانست میں بناء کسی جانبداری کے جب ہم اس پورے سلسلے کا جائزہ لیتے ہیں تو کچھ بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں. سب سے پہلے تو اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ جناح پہلے دن سے ایک دیانتدار، ذہین اور سچے مزاج کے حامل تھے مگر ان کی زندگی کا بیشتر حصہ کسی روایتی مذہبی انسان کا نہیں ہے. مغربی چال ڈھال اور رہن سہن ان کی زندگی سے واضح تھا. ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مذہب سے بلکل ہی دور رہے ہوں لیکن مذہب سے غیر معمولی لگاؤ بھی نہیں محسوس ہوتا. جناح کی سوچ میں انقلابی بدلاؤ علامہ اقبال سے رفاقت کے سبب ہوا. یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے جناح کو لندن سے واپس ہندوستان آنے پر مجبور کردیا. ورنہ جناح ہندوستانی سیاست سے کنارہ کش ہوکر لندن جاچکے تھے. اقبال اپنی فراست سے یہ اجنتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو جس قیادت کی ضرورت ہے وہ جناح ہی کی صورت میں انہیں میسر آسکتی ہے. ان دونوں عالی دماغوں نے موجود صورتحال کا جائزہ لے کر بلآخر اس امر پر اتفاق کرلیا کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن ناگزیر ہے. جناح کی جانب سے اقبال کو بھیجا گیا ایک خط اس کا ثبوت ہے. اس دور میں جناح اپنی تقاریر میں اسلام کے نظریات پر بات کرتے، وہ عوامی مقامات میں اسلامی روایات کا ذکر کرتے۔ جناح اقبال کی سوچ سے کس حد تک متاثر تھے کا اندازہ 1940ء میں کی گئی انکی ایک عوامی تقریر سے لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ"اگر مستقبل میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی مملکت قائم ہوئی اور مجھ سے کہا جائے کہ اس طرز حکمرانی اور اقبال کے کام میں بہتر کونسا ہے تو میں ،مؤخر الذکر کو ہی چنوں گا۔" اقبال کے انتقال کے بعد تحریک پاکستان میں جناح کے دست بازو کے طور پر علامہ شبیر احمد عثمانی رح کھڑے نظر آتے ہیں. جناح علامہ عثمانی کی اس قدر کرتے تھے کہ غیر مسلک ہونے کے باوجود اپنے ایام انتقال میں یہ وصیت کرکے گئے کہ ان کی نماز جنازہ شبیر احمد عثمانی ہی پڑھائیں. 
.
یہ ممکن ہے کہ نوجوانی میں مغربی فلسفوں یا سیکولرزم کا رنگ آپ کی فکر پر رہا ہو مگر اپر درج اور اس جیسے کئی اور امور اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح کی اصل جدوجہد کے آخری سال ایک مذہبی یا مسلم دماغ کے حامل رہے ہیں. یہ خارج از امکان نہیں کہ آخری دور تک ان کی گفتگو میں کچھ جھلک ان کے سابقہ خیالات کی بھی نظر آجاتی ہو مگر اسے جھٹلانا ممکن نہیں کہ بطور قائد وہ پوری دیانتداری سے ایک ایسی ریاست کے خواہاں تھے جہاں قران و سنت کے اصولوں کا اطلاق کیا جاسکے. گو انہیں زندگی نے اس کے پورے اظہار کی مہلت نہ دی. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم خود کو تاریخ کا کوئی بہت اچھا طالبعلم نہیں سمجھتا لہٰذا اس پوسٹ کو ایک عامی کی رائے سمجھا جائے. جسے قاری چاہے تو بناء کوئی تلخی پھیلائے رد کرسکتا ہے
)

No comments:

Post a Comment