تربیت
تعلیم سے زیادہ ہماری قوم کا المیہ تربیت کا فقدان ہے۔ یہاں ڈگری یافتہ نام نہاد پڑھے لکھے بھی نظم و ضبط کو ویسے ہی پامال کرتے ہیں جیسے تعلیم سے نابلد افراد۔ گویا اکثریت دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا بناء تعلیم کے جاہل اور دوسرا تعلیم یافتہ پڑھا لکھا جاہل۔ سڑکوں پر کچرا پھینکنے سے لے کر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے تک اور گاہکوں کی قطار توڑنے سے لے کر مخاطب کو غلیظ گالیاں دینے تک دونوں طبقوں کا حال ایک برابر ہے۔ کالج و مدارس کے اساتذہ میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو خود تربیت کرنا ہی نہیں جانتے۔ چنانچہ ہم لوگوں کوڈگری یافتہ تو بنارہے ہیں مگر انہیں تہذیب و اقدار سیکھانے سے قاصر ہیں۔
یہی حال ان والدین کا ہے جو اپنے بچوں کے سامنے نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ انہیں جھوٹ بولنا سیکھاتے ہیں۔ شہری ماحول میں تو اب بچے فحش ترین آئٹم سانگز گاتے پھرتے ہیں، ناچتے ہیں اور ماں باپ تالی بجاتے ہیں۔ دیہاتی ماحول میں بعض اوقات اولاد پر اتنا جبر کرتے ہیں کہ اسکی شخصیت و اعتماد مسخ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مانا کہ ریاستی سطح پر قوانین کا عدم اطلاق اس جہالت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مگر اسے وجہ بناکر تربیت کی بنیادی درسگاہوں یعنی گھر اور اسکول سے کیسے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟ ہم سب اپنے اردگرد موجود اس بے ہنگم ہجوم کا حصہ ہیں۔ ہم سب اس برپا لاقانونیت اور افراتفریح میں برابر کے مجرم ہیں۔ لازم ہے کہ ٹی وی و سوشل میڈیا سمیت ہر حاصل زرائع سے قوم کی تربیت کا اہتمام ہو۔ ضروری ہے کہ اب مسجد کے منبر کا ارتکاذ عبادات سے زیادہ معاملات پر ہو۔ اور اسکول و مدارس سے نکلنے والے فقط تعلیم یافتہ نہ ہوں بلکہ تربیت یافتہ بھی ہوں۔ ہم اگر دس ڈیم بھی بناڈالیں یا معجزاتی طور پر ملک کے تمام قرضے بھی اتار پھینکیں یا گوادر سے کراچی تک سڑکوں بلڈنگز کا جال بچھادیں۔ تب بھی ہم اس وقت تک ایک قوم نہیں کہلاسکتے جب تک ہم میں "سوک سینس" بیدار نہ ہوجائے۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment