ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں
"عظیم بھائی ۔۔ ہمارے ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں"
۔
میں یہ سن کر چونک گیا۔ ہم اس وقت شہر کراچی کے ایک مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں براجمان تھے۔ میرے سامنے بیٹھا دوست ایک کامیاب ترین کروڑ پتی بزنس مین تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ نرم دلی سے کئی غریب گھرانوں کا کفیل بنا ہوا ہے، کئی بے سہاروں کا سہارا ہے اور کئی فلاحی کام اسی کے دم سے چل رہے ہیں۔ آج جب ملاقات ہوئی تو وہ بجھا بجھا تھا۔ وجہ پوچھی تو پھٹ پڑا۔ "عظیم بھائی ۔۔ ہمارے ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں"۔
۔
میں سٹپٹایا اور قدرے درشت لہجے میں اسے جھڑکتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیوں کہتے ہو؟ ، اب اس نے دکھی لہجے میں بتایا کہ اس نے شہر کے پوش علاقے میں ریسٹورنٹ کھولنے کیلئے ایک دکان آٹھ نو کروڑ میں خریدی مگر افتتاح ہوتے ہی دکان کے عین سامنے ایک شخص غیرقانونی طور پر ٹائر پنکچر کی دکان کھول کر بیٹھ گیا ہے۔ جس سے ریسٹورنٹ کی جاذبیت اپنے ممکنہ کسٹمرز کیلئے آدھی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس پنکچر والے کو اس نے کئی بار سمجھانا چاہا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں ہٹوں گا، جو چاہے کرلو۔ اس کے اس اعتماد کی وجہ وہ رشوت ہے جو وہ ماہانہ پولیس والو کو دیتا ہے اور وہ بھتہ ہے جو وہ علاقے کے غنڈوں کو ادا کرتا ہے۔ اب ہمارا وہ دوست شدید پریشان تھا کہ اس غریب کے غیرقانونی قبضے سے وہ کیسے جان چھڑائے؟ اس نے بتایا کہ ماضی میں ایک بڑی دکان اس نے اسی لیئے چھوڑ دی تھی کہ اس کے سامنے گنے کے جوس والے آبیٹھے جن کی کسی بڑے بدمعاش سے سیٹنگ ہونے کے سبب وہ نجات حاصل نہیں کرپایا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر دوست بولا کہ یہ پیسہ میں نے دن رات محنت سے کمایا ہے۔ یہ کروڑوں میں نے حرام سے نہیں کمائے۔ آج جب اپنی انویسٹمنٹ کے ساتھ یہ زیادتی دیکھتا ہوں تو بہت دل کرتا ہے کہ ملک ہی ہی چھوڑ جاوں اور کسی مہذب جگہ اپنی جمع پونجی لگاوں۔ جہاں کم از کم غربت کے نام پر ہونے والی اس غنڈہ گردی سے محفوظ ہوسکوں۔
۔
میں اس کی یہ انوکھی پریشانی سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ میں اب اسکے جملے میں چیختی اسکی فرسٹریشن کو سمجھ پارہا تھا۔ واقعی میں نے آج تک اس زاویئے سے کبھی نہ سوچا تھا۔ میرے نزدیک تو غریب طبقہ ہر حال میں مظلوم اور امیر و متمول طبقہ ظلم کا استعارہ تھا۔ مانا کہ غریب کو کاوبار کا حق ہے مگر کسی امیر کے لیئے بھی یہ حق ہر ملک قبول کرتا ہے کہ اسکی جائز انویسٹمنٹ کو کسی غریب سمیت کوئی بھی غیرقانونی طور پر نقصان نہ پہنچاسکے۔ غریب کے حقوق کی پامالی کا تو ہم سب رونا روتے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غریب کو اسکی غربت کے سبب یہ اختیار دے دیں کہ وہ کسی امیر شہری کے حقوق کو پامال کرسکے؟ آج مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ امیر و غریب کے درمیان تنازع میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ امیر مظلوم ہو اور غریب ظالم۔ آج میں نے جانا تھا کہ کاروباری بھی اس شہر میں وہی زیادہ کامیاب ہے جو امیر ہونے کے ساتھ بدمعاشی بھی جانتا ہو۔
۔
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: وہ دوست رشوت اور بدمعاشوں کا سہارا نہیں چاہتا. مگر ان حالات میں خود کو مجبور پارہا ہے کہ وہ بھی غنڈوں اور کرپٹ پولیس والو کا سہارا لے)
۔
میں یہ سن کر چونک گیا۔ ہم اس وقت شہر کراچی کے ایک مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں براجمان تھے۔ میرے سامنے بیٹھا دوست ایک کامیاب ترین کروڑ پتی بزنس مین تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ نرم دلی سے کئی غریب گھرانوں کا کفیل بنا ہوا ہے، کئی بے سہاروں کا سہارا ہے اور کئی فلاحی کام اسی کے دم سے چل رہے ہیں۔ آج جب ملاقات ہوئی تو وہ بجھا بجھا تھا۔ وجہ پوچھی تو پھٹ پڑا۔ "عظیم بھائی ۔۔ ہمارے ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں"۔
۔
میں سٹپٹایا اور قدرے درشت لہجے میں اسے جھڑکتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیوں کہتے ہو؟ ، اب اس نے دکھی لہجے میں بتایا کہ اس نے شہر کے پوش علاقے میں ریسٹورنٹ کھولنے کیلئے ایک دکان آٹھ نو کروڑ میں خریدی مگر افتتاح ہوتے ہی دکان کے عین سامنے ایک شخص غیرقانونی طور پر ٹائر پنکچر کی دکان کھول کر بیٹھ گیا ہے۔ جس سے ریسٹورنٹ کی جاذبیت اپنے ممکنہ کسٹمرز کیلئے آدھی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس پنکچر والے کو اس نے کئی بار سمجھانا چاہا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں ہٹوں گا، جو چاہے کرلو۔ اس کے اس اعتماد کی وجہ وہ رشوت ہے جو وہ ماہانہ پولیس والو کو دیتا ہے اور وہ بھتہ ہے جو وہ علاقے کے غنڈوں کو ادا کرتا ہے۔ اب ہمارا وہ دوست شدید پریشان تھا کہ اس غریب کے غیرقانونی قبضے سے وہ کیسے جان چھڑائے؟ اس نے بتایا کہ ماضی میں ایک بڑی دکان اس نے اسی لیئے چھوڑ دی تھی کہ اس کے سامنے گنے کے جوس والے آبیٹھے جن کی کسی بڑے بدمعاش سے سیٹنگ ہونے کے سبب وہ نجات حاصل نہیں کرپایا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر دوست بولا کہ یہ پیسہ میں نے دن رات محنت سے کمایا ہے۔ یہ کروڑوں میں نے حرام سے نہیں کمائے۔ آج جب اپنی انویسٹمنٹ کے ساتھ یہ زیادتی دیکھتا ہوں تو بہت دل کرتا ہے کہ ملک ہی ہی چھوڑ جاوں اور کسی مہذب جگہ اپنی جمع پونجی لگاوں۔ جہاں کم از کم غربت کے نام پر ہونے والی اس غنڈہ گردی سے محفوظ ہوسکوں۔
۔
میں اس کی یہ انوکھی پریشانی سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ میں اب اسکے جملے میں چیختی اسکی فرسٹریشن کو سمجھ پارہا تھا۔ واقعی میں نے آج تک اس زاویئے سے کبھی نہ سوچا تھا۔ میرے نزدیک تو غریب طبقہ ہر حال میں مظلوم اور امیر و متمول طبقہ ظلم کا استعارہ تھا۔ مانا کہ غریب کو کاوبار کا حق ہے مگر کسی امیر کے لیئے بھی یہ حق ہر ملک قبول کرتا ہے کہ اسکی جائز انویسٹمنٹ کو کسی غریب سمیت کوئی بھی غیرقانونی طور پر نقصان نہ پہنچاسکے۔ غریب کے حقوق کی پامالی کا تو ہم سب رونا روتے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غریب کو اسکی غربت کے سبب یہ اختیار دے دیں کہ وہ کسی امیر شہری کے حقوق کو پامال کرسکے؟ آج مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ امیر و غریب کے درمیان تنازع میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ امیر مظلوم ہو اور غریب ظالم۔ آج میں نے جانا تھا کہ کاروباری بھی اس شہر میں وہی زیادہ کامیاب ہے جو امیر ہونے کے ساتھ بدمعاشی بھی جانتا ہو۔
۔
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: وہ دوست رشوت اور بدمعاشوں کا سہارا نہیں چاہتا. مگر ان حالات میں خود کو مجبور پارہا ہے کہ وہ بھی غنڈوں اور کرپٹ پولیس والو کا سہارا لے)
No comments:
Post a Comment