اوورسیز پاکستانی
ایک
بدنصیبی ہماری یہ بھی ہے کہ ہماری ایک بڑی تعداد دیار غیر میں بسے
پاکستانیو کو محب وطن ماننے کو تیار نہیں۔ انکے نزدیک چونکہ فلاں شخص
پاکستان سے باہر نوکری کرتا ہے اسلئے اسے ملک سے محبت نہیں ہوسکتی۔ میں خود
انگلینڈ کا رہائشی ہوں اور مجھے ان گنت بار دوران گفتگو ایسے تلخ اور
طنزیہ جملوں کا سامنا ہوتا رہا ہے، جب متکلم آپ کے موقف کو دلائل سے قبول
یا رد کرنے کی بجائے طعنہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر اتنا ہی ملک سے پیار ہے
تو کب واپس آرہے ہو پاکستان؟ جتنے تحقیری جملے ہم اوورسیز پاکستانیو
پر کستے ہیں، شائد ہی کوئی دوسری قوم اپنے اوورسیز طبقے کیلئےاختیار کرتی
ہو۔ دنیا کا کوئی ملک بسمیت انگلینڈ امریکہ وغیرہ کے ایسا نہیں ہے جس کے
لاکھوں کروڑوں شہری اپنے ملک کی بجائے کسی دوسرے ملک میں نہ بستے ہوں تو
کیا جب وہ اپنے آبائی ملک کی بہتری کیلئے بات کریں تو ان پر بھی طنز کے
نشتر برسائے جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ انہیں اپنے آبائی ملک کا سفیر سمجھا
جاتا ہے، جہاں وہ بسے ہیں اس ملک میں اپنے سفارتی تعلقات کی مضبوطی کیلئے
ان سے رابطہ رکھا جاتا ہے ساتھ انہیں یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے
آبائی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔
۔
اوورسیز پاکستانی فکر معاش، اعلی تعلیم، صحت کی خرابی سمیت متعدد مختلف وجوہات کی بناء پر اپنے وطن سے باہر سکونت اختیار کیئے ہوئے ہیں مگر ان کے دل آج بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کیلئے دھڑکتے ہیں۔ آج بھی جب ان کے سامنے ٹائمز میگزین لندن اور جنگ اخبار کراچی رکھا ہو تو انکے ہاتھ اپنے ملک کے حالات جاننے کیلئے اپنے اخبار کی جانب بڑھتے ہیں۔ آج بھی کرکٹ میچ ہو تو پہلی ہمدردی انکی پاکستان ہی کی جانب ہوتی ہے۔ آج بھی وہ تمام تر خطرات و خدشات کے باوجود دنیا کے دیگر محفوظ ممالک چھوڑ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اب ایسے میں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انکے اپنے ملک سے اس تعلق کو تذلیل کا نشانہ بنائیں یا پھر انکی ویسی ہی قدر کریں جیسی قدر مہذب اقوام اپنی اوورسیز کمیونٹی کا کرتی ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
اوورسیز پاکستانی فکر معاش، اعلی تعلیم، صحت کی خرابی سمیت متعدد مختلف وجوہات کی بناء پر اپنے وطن سے باہر سکونت اختیار کیئے ہوئے ہیں مگر ان کے دل آج بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کیلئے دھڑکتے ہیں۔ آج بھی جب ان کے سامنے ٹائمز میگزین لندن اور جنگ اخبار کراچی رکھا ہو تو انکے ہاتھ اپنے ملک کے حالات جاننے کیلئے اپنے اخبار کی جانب بڑھتے ہیں۔ آج بھی کرکٹ میچ ہو تو پہلی ہمدردی انکی پاکستان ہی کی جانب ہوتی ہے۔ آج بھی وہ تمام تر خطرات و خدشات کے باوجود دنیا کے دیگر محفوظ ممالک چھوڑ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اب ایسے میں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انکے اپنے ملک سے اس تعلق کو تذلیل کا نشانہ بنائیں یا پھر انکی ویسی ہی قدر کریں جیسی قدر مہذب اقوام اپنی اوورسیز کمیونٹی کا کرتی ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment