Friday, 28 September 2018

سفر اپنا اپنا


سفر اپنا اپنا


Image may contain: ‎‎2 people, ‎including ‎عظیم الرحمٰن عثمانی‎‎‎, people smiling, beard and close-up‎
.
انگلینڈ سمیت تمام یورپ یا امریکہ کی سڑکوں پر موجود گھروں سے محروم مفلوک الحال غریبوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے. ہر حساس دل ان کیلئے کسی نہ کسی درجے میں درد محسوس کرتا ہے. میں بذات خود متعدد بار ان کی مسلسل اذیت و تنہائی دیکھ کر غمزدہ ہوجاتا ہوں. مگر کچھ ماہ قبل میری نظر اپنے محلے میں سڑکوں پر بسے ایک ایسے انسان کے چہرے پر پڑی ، جس نے مجھے پوری طرح گرفت میں لے لیا. میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی کشش تھی جو مجھے اس بوسیدہ حال کی جانب کھینچے جارہی تھی. سخت ترین مسائل کے باوجود بھی مجھے اس کا چہرہ عجیب سا سکون لئے نظر آیا. اسکی آنکھوں میں کرب و محرومی نہیں بلکہ ایک نادیدہ گہرائی تھی. میں نے نوٹ کیا کہ وہ کسی سے پیسے مانگتا نہیں ہے اور جو خود اسے کچھ دے دے اسے نہایت خوش دلی سے شکر کیساتھ قبول کرلیتا ہے. گنجلک داڑھی، رنگ گندمی، پرانے کپڑے اور کمر پر لدا ہوا بوریا بستر. مجھے وہ کینیا یا موریشئیس کا پیدائشی لگتا تھا. میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اس کا حال پوچھنا چاہتا تھا مگر چاہ کر بھی نہیں کرپاتا. ہمیشہ رک جاتا. شائد میری انا ، میرا تکبر مجھے ایک سڑک چھاپ سے گفتگو کرنے سے روک رہا تھا (استغفرللہ) مگر اسکے باوجود میں اسے جب بھی دیکھتا تو بے چین ہوجاتا. میری بیوی میری اس بے چینی سے آگاہ تھی، میرا ایک دوست بھی میرے اس لگاؤ سے واقف تھا. میں نے ایک بار اسے کچھ پیسے دیئے مگر بات کرنے کی ہمت پھر بھی نہ جوڑ پایا. کیوں؟ میں نہیں جانتا. ایک بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے اردگرد منڈلاتا رہا کہ شائد وہ مجھے سے کچھ کہے، کچھ مانگے اور مجھے گفتگو کرنے کا موقع مل جائے. مگر نہیں. وہ تو جیسے میری موجودگی سے مکمل طور پر غافل تھا. 
.
دن یونہی گزرتے گئے. یہاں تک کہ کوئی دس بارہ روز قبل میں آفس سے واپسی میں ، اپنے خیالات میں مگن گھر جارہا تھا، جب اچانک اس سے مڈبھیڑ ہوگئی. وہ فٹ پاتھ/ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا اور میں اسے تب دیکھ پایا جب بلکل اس کے سر پر جاپہنچا. بناء سوچے سمجھے میرے منہ سے ہیلو نکلا. جس کا اس نے جواب دیا. یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس سے گفتگو کا آغاز کردیا. میں نے اس سے درخوست کی کہ کیا میں اس سے اس کے بارے میں پوچھ سکتا ہوں؟ جس کا جواب اس نے ہاں میں سر ہلا کر دیا. میں فٹ پاتھ پر ہی اس کے برابر آلتی پالتی مار کر براجمان ہوگیا. ابتداء ہی میں مجھ پر حیرت کا پہاڑ تب ٹوٹا جب اس نے بتایا کہ یہ مفلوک الحال زندگی اس کی مجبوری نہیں بلکہ اس کی پسند ہے. وہ اس حال میں اپنی مرضی سے ہے. وہ معرفت کا مسافر ہے اور خود کو کھوج رہا ہے. میں نے حیرت سے وجہ دریافت کی تو اس نے اپنا سفر بتایا. کیسے اس کے تعلقات اپنے باپ سے نہایت کشیدہ تھے؟ کیسے گھریلو تشدد کے سبب اس کی نفسیات اور شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی؟ کیسے اسے اپنا گھر بار چھوڑ کر علیحدہ گھر میں منتقل ہونا پڑا؟ کیسے اس نے بہترین نوکریاں کیں؟ کیسے وہ ایک پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوا؟ کیسے سالہا سال وہ تنہا کمرے میں بند اپنا علاج کراتا رہا؟ - اس نے یہ کہہ کر مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا دیا کہ وہ مسلمان ہے اور دل سے اسلام کو درست مانتا ہے. اس نے بتایا کہ اس کا باپ مسلمان اور ماں بدھ مت تھی. اسے بدھ مت اور اسلام دونوں کے ٹھیکیداروں سے شدید نفرت ہوگئی. اسے مولوی کا وہ اسلام ذرا نہیں پسند آیا جو تکفیر اور تنگ نظری پر مبنی ہے. جو صرف ظاہر ہی میں الجھا ہوا ہے اور جو جنت پر کاپی رائٹ جماتا ہے. اس نے بتایا کہ اسی نفرت کے دوران اسے ترکی سے آئے ایک مشہور صوفی بزرگ شیخ ناظم الحقانی سے لندن میں ملاقات نصیب ہوئی. جہاں سے اس نے تصوف کی راہ کو اختیار کیا. مگر کچھ عرصے بعد وہ اسے بھی ترک کر گیا. 
.
پھر ایک روز اپنی شدید علالت کے دوران ہی اچانک جیسے قلب کھل گیا. اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو کھوجے گا. میں کون ہوں؟ حق کیا ہے؟ حق کا راستہ کیا ہے؟ - یہ وہ تجربے سے جانے گا. اس نے گورنمنٹ سے ملنے والی مراعات کو لینے سے انکار کیا، گھر واپس کر دیا اور سڑک پر جا بسا. یہاں آکر معلوم ہوا کہ سڑک پر بھی سیاست و اجارہ داری ہے. خود کو مسلمان بتانا تو جیسے مصیبت کو دعوت دینا ہے. لہٰذا اس نے سڑک پر ایک علیحدہ شناخت اختیار کرلی اور گلی گلی نگر نگر جانے لگا. کم و بیش دو سال سے وہ سڑک پر ہے اور اسے یہاں خدا کی معرفت نصیب ہوگئی ہے. اس نے اپنے ساتھ ہوے والے روزمرہ کے وہ واقعات بیان کرنے شروع کیئے جن میں خدا نے اسے ہمیشہ مشکل سے بچا لیا. اسی دوران اس کے باپ کا انتقال ہوا، وہ اسکے جنازے میں شرکت کیلئے دوسرے شہر برمنگھم پہنچا تو باپ کی میت سامنے رکھی تھی. اس نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے اپنے باپ کے چہرے پر کبھی ایسا سکون نہ دیکھا تھا. یوں لگا جیسے میرے دل سے نفرت، غصہ، شکایت - ہر منفی جذبہ رخصت ہوگیا ہو. میں خود بھی سکون اور خوشی سے نہال ہوگیا. سالوں بعد میرے کزنز مجھ سے ملے ، مجھے گلے لگایا، میری خیریت پوچھی. پھر واپس سڑکوں پر آگیا. اب اس نے مجھ سے میری زندگی پوچھی. معرفت کا جو میرا ٹوٹا پھوٹا سفر ہے، وہ میں نے اسے بیان کیا. اسے محبت سے سمجھایا کہ اسلام کا حقیقی پیغام کیا ہے؟ اسے رغبت دلائی کہ وہ نماز کو دوبارہ ادا کرنا شروع کرے. وہ میری گفتگو سے اتنا ہی خوش تھا جتنا شائد میں اسے سن کر. وہ کہنے لگا کہ آپ کو خدا ہی نے میرے پاس بھیجا ہے اور آپ کی باتوں میں میرے سوالات کے جوابات موجود ہیں. میں نے کہا کہ یہ ممکن ہے. خدا یونہی اسباب پیدا کرتا ہے. اردگرد موجود افراد و حالات سے آپ کیلئے رستہ کھول دیتا ہے. میں نے اسے بتایا کہ کس طرح میں مہینوں سے اس سے گفتگو کیلئے بے چین تھا اور کیسے میں اس کی جانب آج تک ایک غیر معمولی کشش محسوس کرتا رہا. اس نے خوشی سے کہا کہ میں یہ سمجھ سکتا ہوں. اگر آپ میرے پاس مبلغ بن کر آتے تو نہ میں کبھی آپ کی بات تسلیم کرتا نہ ہی اپنے دل کی آپ کو بتاتا. مگر آپ تبلیغ کیلئے نہیں آئے بلکہ صرف محبت لئے آئے. اس نے نماز کا ارادہ کیا اور ساتھ یہ کہا کہ وہ جانتا ہے کہ اب اسے سڑک چھوڑ کر دوبارہ زندگی میں لوٹنا ہے. جہاں وہ اپنی روزی کمائے اور اب تک کے سفر میں سیکھے اسباق سے ایک بہتر انسان بن کر جیئے.
.
میں نے گھڑی دیکھی تو دو گھنٹے فٹ پاتھ پر بیٹھے اسی گفتگو میں گزر چکے تھے. دوران گفتگو لوگ آتے رہے، کسی راہگیر نے سکے اچھالے، کسی نے مزاج پوچھا اور کسی نے چاکلیٹ دی. میں نے اس سے جانے کی اجازت مانگی. اسے ایک بڑا نوٹ مالی مدد کے طور پر دینا چاہا تو اس نے ہاتھ تھام کر منع کردیا. کہنے لگا کہ ہمیں اس پیاری ملاقات کو پیسوں سے داغدار نہیں کرنا چاہیئے اور جو اسے ملاقات میں حاصل ہوا ہے وہ کسی بھی مالی مدد سے بہت زیادہ ہے. یہی احساسات میرے بھی تھے. ہم نے ہاتھ ملایا، ایک تصویر کھینچی اور دلوں میں سکون و مسرت لئے جدا ہوگئے. 
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment