اللہ اکبر
احباب
آپ سب کو میری جانب سے محبت بھری عید مبارک۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب واقف
ہی ہونگے کہ مسلمانوں کو عید کے ان ایام میں بکثرت تکبیرات پڑھنے کا حکم
ہے۔ یعنی مردوں کا بلند آواز سے اور خواتین کا دھیمے سے یہ پکارتے رہنا کہ
"اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ لاالہ الاللہ ۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔
وللہ الحمد۔ کبھی وجد کی سی حالت میں اور کبھی تفکر سے معمور ہوکر ان
تکبیرات کا کہتے رہنا عبد کی زبان سے اپنے معبود کی بڑائی کا اعلان و
اعتراف ہے۔ اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ جب یہ بات الفاظ
سے گزر کر قلب و ذہن میں جاگزین ہوتے ہیں تو پھر انسان کسی بھی معصیت کی
کشش سے یہ سوچ کر بچ پاتا ہے کہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے۔ وہ جب اس
کائنات کے ناقابل یقین مظاہر اور ان میں پنہاں حکمت کا مشاہدہ کرتا ہے تو
بے اختیار زبان حال سے پکار اٹھتا ہے اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے۔
۔
پنج وقتہ فرض نمازیں ہوں یا پھر تہجد و قیام اللیل کی مانند نفل عبادات۔ سب میں ہر رکن سے قبل تکبیر کہی جاتی ہے۔ اگر کوئی رفع الیدین کا قائل ہو تو اور بھی زیادہ لیکن اگر نہ بھی ہو تب بھی نماز کی ابتداء سے لے کر رکوع میں جانے تک اور سجدہ ریز ہونے سے لے کر واپس حالت قیام میں لوٹنے تک ہر نمازی تکبیر یعنی اللہ اکبر پکارا کرتا ہے۔ یوں تو یہ نمازی کے ذوق و مزاج پر ہے کہ وہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے ، کہتے ہوئے رب کی کبریائی کا کون سا منظر ذہن میں سجاتا ہے؟ وہ چاہے تو خدا بزرگ و برتر کی تخلیقات کو بھی سوچ سکتا ہے، وہ کلام اللہ کے حسن میں بھی کھو سکتا ہے اور وہ عرش عظیم کی ہیبت بھی محسوس کرسکتا ہے۔ مگر راقم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب جب دوران نماز یہ پکارتا ہے کہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے تو سب سے پہلے یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ان خیالات سے بھی بڑا ہے جو ٹھیک اسی وقت اسکےذہن میں وارد ہورہے ہوتے ہیں۔ اس کا یقینی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہن کی تختی پر موجود ہر وہ دنیاوی خیال جو ماسوائے اللہ ہو غائب ہوجاتا ہے اور رب کے سامنے حضوری کی کیفیت غالب آجاتی ہے۔ یوں دوران نماز ہر تکبیر پر ممکنہ تطہیر ہوتی رہتی ہے اور خشوع بڑھ جاتا ہے۔ آزمودہ ہے ، اب قارئین میں سے کوئی چاہے تو بلعموم کبھی بھی اور بلخصوص دوران نماز اس کا تجربہ کرسکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
پنج وقتہ فرض نمازیں ہوں یا پھر تہجد و قیام اللیل کی مانند نفل عبادات۔ سب میں ہر رکن سے قبل تکبیر کہی جاتی ہے۔ اگر کوئی رفع الیدین کا قائل ہو تو اور بھی زیادہ لیکن اگر نہ بھی ہو تب بھی نماز کی ابتداء سے لے کر رکوع میں جانے تک اور سجدہ ریز ہونے سے لے کر واپس حالت قیام میں لوٹنے تک ہر نمازی تکبیر یعنی اللہ اکبر پکارا کرتا ہے۔ یوں تو یہ نمازی کے ذوق و مزاج پر ہے کہ وہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے ، کہتے ہوئے رب کی کبریائی کا کون سا منظر ذہن میں سجاتا ہے؟ وہ چاہے تو خدا بزرگ و برتر کی تخلیقات کو بھی سوچ سکتا ہے، وہ کلام اللہ کے حسن میں بھی کھو سکتا ہے اور وہ عرش عظیم کی ہیبت بھی محسوس کرسکتا ہے۔ مگر راقم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب جب دوران نماز یہ پکارتا ہے کہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے تو سب سے پہلے یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ان خیالات سے بھی بڑا ہے جو ٹھیک اسی وقت اسکےذہن میں وارد ہورہے ہوتے ہیں۔ اس کا یقینی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہن کی تختی پر موجود ہر وہ دنیاوی خیال جو ماسوائے اللہ ہو غائب ہوجاتا ہے اور رب کے سامنے حضوری کی کیفیت غالب آجاتی ہے۔ یوں دوران نماز ہر تکبیر پر ممکنہ تطہیر ہوتی رہتی ہے اور خشوع بڑھ جاتا ہے۔ آزمودہ ہے ، اب قارئین میں سے کوئی چاہے تو بلعموم کبھی بھی اور بلخصوص دوران نماز اس کا تجربہ کرسکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment