Monday, 17 September 2018

توہین آمیز کارٹونوں پر ردعمل



توہین آمیز کارٹونوں پر ردعمل

۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

۔
اقبال نے کس خوبی سے ہمیں یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ ہمیشہ سے کمزور کو طاقتور نے کچلا ہے۔ پھر وہ انسان ہو یا عالم حیوانات - کوئی فرق نہیں پڑتا۔ survival of the fitest کل بھی جاری تھا، آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ یونہی جاری رہے گا۔ طاقتور ساتھ میں انصاف پسند بھی ہو؟ ایسا تاریخ انسانی میں کم ہی ہوا ہے. لہٰذا طاقتور کو کوسنے دینے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنی کمزوری دور کی جائے. خود کو دانستہ کمزور رکھنا اور طاقتور بننے کے مواقع سے استفادہ نہ کرنا خودکشی کے مترادف اور ناقابل معافی جرم ہے۔ پھر فرد کے جرم کو تو پھر قدرت کبھی نظر انداز کردیتی ہے مگر اقوام کے جرائم کا بدلہ لازمی لیا جاتا ہے. جیسے اقبال ہی نے کہا:
.
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

.
پچاس سے زائد ممالک پر حکومت کے باوجود مسلم دنیا کی بین الاقوامی سطح پر مسلسل ذلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ جی۔8 ہو، جی-7 ہو، جی-5 ہو یا پھر اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم۔ ہماری مرضی تو دور ہماری رائے پوچھنا بھی اکثر گوارا نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ہماری کیفیت شادی ہال میں رکھے اس ڈھول جیسی ہے جسے ہر آتا جاتا باراتی بجا جاتا ہے. یا پھر اس فٹبال کی مانند جو راستے میں پڑی ہے اور جسے ہر چھوٹا بڑا لات مار کر ادھر سے ادھر پھینکے دیتا ہے. ہالینڈ نے آزادی رائے کی دلفریب نقاب میں ایک بار پھر آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے توہین آمیز کارٹونوں کا پلید عمل دہرانا چاہا ہے. جو ہر امتی کیلئے دلی اذیت کا سبب ہے. ایک بار پھر عوام میں غم و غصہ ہے. کوئی مذمت کر رہا ہے، کوئی ریلی نکال رہا ہے، کوئی ایمبیسی بند کرنا چاہتا ہے اور کوئی ان کی درآمدات کے بائیکاٹ کا نعرہ بلند کررہا ہے. تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم کمزور ہیں بلکہ بیغیرتی کے ساتھ ان ہی اقوام کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں. امداد کے نام پر ہم ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے بھیک مانگتے ہیں اور بھکاری کی عزت نفس کو کون دیکھتا ہے؟
.
اس دگرگوں صورتحال میں ہم یہی پھسپھسا سا احتجاج کرسکتے ہیں. کوسنے دے سکتے ہیں. کسی تازہ بیوہ کی مانند بددعائیں دے سکتے ہیں. راقم کے نزدیک اگر مسلمان فی الواقع ایسی ہرزہ سرائیوں پر روک لگانا چاہتے ہیں تو جب تک خلافت کی مانند مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی تشکیل نہیں پاتا تب تک انہیں تین کام کرنے چاہیئے.
.
١. ہر اس فرد یا گروہ کو روکا جائے جو احتجاج کے نام پر املاک کو نقصان پہنچائے یا کسی غیر مسلم بے گناہ پر وار کرے یا اور کسی بھی قسم کی جہالت اختیار کرے. ایسا کوئی بھی جذباتی اقدام مزید تخریب کا سبب بنتا ہے.
.
٢. مسلم ممالک کی عوام اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں پر مسلسل زور ڈالیں کہ وہ 'او-آئی-سی' کے پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر ایسے غیر مسلم ممالک کی سرزنش کریں جو توہین آمیز خاکے بناتے ہیں. پھر چاہے وہ مشترکہ طور پر ان کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ ہو یا دیگر تجارتی معاہدوں کا منقطع کرنا. ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے. (اس وقت تو یہ حال ہے کہ مسلمان ممالک کی یہ تنظیم اپنے نام کی طرح ہر مشکل پر Oh I see کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے)
.
٣. دنیا بھر کے علمی پلیٹ فارمز پر اس موضوع کو اٹھایا جائے اور فریڈم آف اسپیچ کے نام پر مغرب کی جانب سے اپنائی گئی منافقانہ پالیسی پر کڑی علمی تنقید کی جائے. جہاں ایک جانب ہولوکاسٹ سمیت دیگر موضوعات پر گفتگو جرم قرار پاتا ہے اور دوسری جانب اس پاکیزہ شخصیت کے اوپراوچھے حملے کیئے جاتے ہیں جو کروڑوں لوگوں کو اپنی اولاد، والدین اور جان سے زیادہ عزیز ہے. اس کوشش میں ان غیر مسلم مفکرین کو بھی ساتھ ملالیا جائے جو مسلمانوں کے موقف کو درست سمجھتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment