کیا تعلیم واقعی انسان کو بزدل بنادیتی ہے؟
سوچتا ہوں کہ کیا تعلیم واقعی انسان کو بزدل بنادیتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر
کیا وجہ ہے کہ تعلیم سے عاری افراد میں بہادری و جی داری کہیں زیادہ نظر
آتی ہے؟ تعلیم یافتہ افراد بھی کرپشن سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہوتے ہیں
مگر جرائم پیشہ افراد کے وہ گینگز جن میں جان جانے کا بھرپور اندیشہ ہو ان
میں آپ کو جاہل افراد ہی نظر آتے ہیں۔ اگر گنتی کے چند پڑھے لکھے شامل بھی
ہوں تو وہ منصوبہ ساز، لیڈر یا ٹیکنالوجی ایکسپرٹ بن کر پس پردہ بیٹھ جاتے
ہیں۔ اگر فوج کی مثال لیں تو زمانہ قدیم سے لے کر دور حاظر
تک صف اول کے دستوں میں جو سپاہی گولوں اور گولیوں کا سب سے پہلے سامنا
کرتے ہیں وہ جاہل یا کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کچھ انہیں رنگروٹ
بھی پکارتے ہیں۔ قدیم تاریخ انسانی میں بھی جن افواج نے حیرت انگیز جنگی
فتوحات حاصل کی ان کی ایک بڑی تعداد جاہل یا کم تمدن یافتہ تھی۔ پھر وہ
افغانستان کے تاتاری ہوں یا ہندوستان کے پنڈاری - سب ہی میں یہ قدر مشترک
نظر آتی ہے۔ ہر ملک کی فوج میں سب سے بڑی تعداد ان دیہاتوں سے بھرتی ہوکر
آتی ہے جہاں شرح خواندگی کم ہو۔ اسی طرح کسی بھی شہر کے پسماندہ و کم علم
علاقوں کے افراد عمومی طور پر زیادہ غصیلے اور جان پر کھیل جانے والے ہوتے
ہیں۔ جبکہ اسکے برعکس جو افراد پوش امیر علاقے میں بستے ہیں ان میں بزدلی
یا نزاکت کا عنصر زیادہ چھلکتا ہے۔ ملک عزیز میں ان کو 'برگر بچے' کہہ کر
لوگ دل لگی کیا کرتے ہیں۔ مالدار افراد میں بھی اگر ایک امیر ہونے کے ساتھ
جدید تعلیم یافتہ بھی ہو تو وہ اس دوسرے مالدار کی نسبت عموما زیادہ ڈرپوکی
کا مظاہرہ کرتا ہے جو مال تو بہت رکھتا ہو مگر علوم حاظر سے مطلق جاہل ہو۔
(سمجھنے کیلئے قاری پہلے شخص کو کسی امیر اسٹاک مارکیٹ بروکر اور دوسرے کو
کسی جابر وڈیرے کی صورت میں تصور کرسکتا ہے)
۔
اس بات کو سمجھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم میں ہر انسان اپنی نوجوانی میں زیادہ جوشیلا زیادہ بہادر ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے علم، تجربہ اور عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ جوش درجہ بدرجہ ہوش میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ گویا جب علم و تجربہ عمر کیساتھ جہالت کو مٹانے لگتا ہے تو جوش اور جرات دونوں ہی کم ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب اسلئے ہے کہ شعور کی ترقی علم سے براہ راست منسلک ہے۔ جب انسان کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ اسکی جان کوئی ردی مال نہیں بلکہ نہایت قیمتی ہے، جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسکی صحت و سلامتی بہت اہم نعمت ہے اور جب اسے یہ ادراک ملتا ہے کہ انسان کو اس دار العمل میں ایک ہی موقع نصیب ہے تو پھر وہ ان تمام انمول چیزوں کیلئے نہایت محتاط رویہ اپناتا ہے اوراس کا خصوصی اہتمام رکھتا ہے کہ کسی کمتر مقصد کیلئے انہیں گنوا نہ بیٹھے۔ البتہ اگر اسے بعد از تحقیق کوئی برتر مقصد حاصل ہوجائے جیسے اخروی ابدی کامیابی یا ظلم کا خاتمہ یا اپنے گھر کا دفاع تو پھر وہ کسی جاہل سے بھی زیادہ شجاع اور جان کی پرواہ نہ کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی جماعت اسی کی درخشاں مثال ہے۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: یہ تحریر راقم کا ایک احساس ہے جو عمومی مشاہدات پر مبنی ہے۔ استثنائی امثال بہرحال ہر دور میں پائی جاتی ہیں)
۔
اس بات کو سمجھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم میں ہر انسان اپنی نوجوانی میں زیادہ جوشیلا زیادہ بہادر ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے علم، تجربہ اور عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ جوش درجہ بدرجہ ہوش میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ گویا جب علم و تجربہ عمر کیساتھ جہالت کو مٹانے لگتا ہے تو جوش اور جرات دونوں ہی کم ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب اسلئے ہے کہ شعور کی ترقی علم سے براہ راست منسلک ہے۔ جب انسان کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ اسکی جان کوئی ردی مال نہیں بلکہ نہایت قیمتی ہے، جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسکی صحت و سلامتی بہت اہم نعمت ہے اور جب اسے یہ ادراک ملتا ہے کہ انسان کو اس دار العمل میں ایک ہی موقع نصیب ہے تو پھر وہ ان تمام انمول چیزوں کیلئے نہایت محتاط رویہ اپناتا ہے اوراس کا خصوصی اہتمام رکھتا ہے کہ کسی کمتر مقصد کیلئے انہیں گنوا نہ بیٹھے۔ البتہ اگر اسے بعد از تحقیق کوئی برتر مقصد حاصل ہوجائے جیسے اخروی ابدی کامیابی یا ظلم کا خاتمہ یا اپنے گھر کا دفاع تو پھر وہ کسی جاہل سے بھی زیادہ شجاع اور جان کی پرواہ نہ کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی جماعت اسی کی درخشاں مثال ہے۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: یہ تحریر راقم کا ایک احساس ہے جو عمومی مشاہدات پر مبنی ہے۔ استثنائی امثال بہرحال ہر دور میں پائی جاتی ہیں)
No comments:
Post a Comment