Monday, 17 September 2018

اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے ہیں؟


اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے ہیں؟ 


سوال:
عظیم بھائی میرے چھوٹے سے بھتیجے نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے رھتے ھیں؟ میں نے اسے تو مختلف باتیں کرکے مطمئن کردیا مگر میں خود مطمئن نہیں برائے مہربانی مجھے مزید اس حوالے سے بتائیں.
.
جواب:
ہمارے پاس ظاہر ہے کہ رب کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہے کہ وہ صبح کیا کرتے ہیں، دن میں کیا کام انجام دیتے ہیں اور شام رات کو انکی کیا مصروفیات ہوتی ہیں؟ زمان اور مکان کی قیود میں جکڑے انسان میں یہ استعداد بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود سمجھ سے لامحدود کا ادراک کرسکے. اسی طرح یہ فقط معبود کو شایاں ہے کہ وہ اپنے عبد کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھے. مخلوق کی یہ بساط نہیں کہ وہ اپنے خالق کی مصروفیات کا احاطہ کرنے کا تقاضہ کرے. البتہ چند اشارے ایسے ضرور موجود ہیں جن سے ہم رب العزت کی 'کچھ' مصروفیات کے بارے میں جان سکتے ہیں. یہ اشارے ہمیں خدا کے واحد حتمی ریکارڈ یعنی قران حکیم سے حاصل ہوتے ہیں.
.
رب کریم نے اپنا تعارف 'رب زمین' کہہ کر نہیں کروایا بلکہ 'رب العالمین' کے طور پر دیا. گویا اللہ پاک صرف اس دنیا کے رب نہیں بلکہ دنیاؤں کے رب ہیں. اب دنیاؤں سے مراد کیا ہے؟ یہ صیغہ راز میں ہے اور اس پر متعدد اقوال موجود ہیں. کچھ کے نزدیک یہ اشارہ ہے کہ ہماری اس دنیا میں ہی مختلف مخلوقات کی دنیائیں آباد ہیں. جیسے عالم انسان، عالم حیوانات، عالم نباتات، عالم جمادات، عالم جنات وغیرہ. کچھ کے نزدیک یہ عالم امر اور عالم خلق کی نشاندہی ہے. کچھ کے نزدیک یہ متوازی دنیاؤں یعنی پیرالیل یونیورسز کی تھیوری کو تقویت دیتا ہے اور کچھ کے لئے یہ دیگر کہکشاؤں میں موجود سیاروں پر زندگی کا استعارہ ہے. ان میں سے کوئی ایک تشریح ٹھیک ہو یا تمام امکانات یکجا ہوکر ایک حقیقت کا حصہ ہوں. دونوں ہی حوالوں سے ان دنیاؤں کے نظم و نسق کو بطور رب چلانا اور پالنا اللہ پاک ہی کی شان ہے.
.
اسی طرح اللہ پاک نے اپنے صفاتی ناموں سے اپنا تعارف ہمیں دیا ہے. ان کی ہر ہر صفت جیسے المنتقم سے لے کر القابض تک ہر لمحے مختلف شان سے جلوہ گر ہے. مثال کے طور پر وہ الخالق ہیں اور ہر لمحے کائنات کو مختلف تخلیفی مراحل سے گزار رہے ہیں. جیسے اقبال نے کہا
.
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون
.
ایک اور بات جو رب ارض و سماء نے اپنے بندوں کو بتائی ہے وہ یہ کہ اس نے ہمیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا ہے بلکہ وہ ہماری دعاؤں کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے. لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
.
"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔" (٢:١٨٦)
.
یہ وہ چند اشارے ہیں جو راقم نے اپنی یادداشت سے درج کردیئے ہیں. ایسے ہی کئی اور اشارے کلام پاک سے ہمیں حاصل ہوسکتے ہیں. گو جسے ابتداء ہی میں عرض کیا کہ رب کریم کی مصروفیات کا احاطہ کسی طور ممکن نہیں اور نہ ہی ہماری ایسی مجال ہے.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment