Friday, 28 March 2014



گناہ کی لت کو کیسے چھوڑوں  ؟



ثواب ہر وہ کام ہے جس سے آپ کا روحانی و اخلاقی وجود ترقی پاتا ہے اور گناہ وہ اعمال ہیں جو آپ کی اس روحانی ترقی پر روک لگاتے ہیں یا نفس کو آلودہ کرتے ہیں. دوسرے الفاظ میں آپ کی شخصیت پر آپ کا ہر عمل ایک اثر مرتب کرتا ہے اور گناہ و ثواب کا فیصلہ اسی اثر کے تحت ہوتا ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ثواب کو اسکے اثر کی نیت سے نہیں بلکہ تعداد کے حساب سے کرتے ہیں. ہمیں یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم عبادت یا اطاعت کے نام پر جو بھی عمل کریں اسے احسن انداز میں سرانجام دیں تاکہ اسکا بہترین نتی...جہ ہماری شخصیت پر منطبق ہو، بلکہ اسے برعکس ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ فلاں عمل اگر اتنی اتنی دفعہ کرو گے یا پڑھو گے تو زیادہ ثواب پاؤ گے. نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری نظر اعمال و اذکار کی روح پر نہیں بلکہ اعداد و شمار میں اٹک کر رہ گئی ہے. ہم یہ بھول گئے ہیں کہ روح سے خالی کوئی بھی عمل ہمارے منہ پر دے مارا جاۓ گا اور صحیح نیت سے کیۓ ہوے مٹھی بھر اعمال بھی ہماری بخشش کا سامان بن سکیں گے. یہ جو بیان ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز کا اتنا گنا ثواب زیادہ ہے یا کعبہ میں طواف کی جزا اتنی گنا زیادہ ہے، اس سب سے مراد وہی اثر کا زیادہ ہونا ہے جسکا حصول مسجد یا حرم میں کئی گنا آسان ہوتا ہے. تہجد کا وقت یا کوئی اور قبولیت کے وقت کا ذکر بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے کہ یہ وہ اوقات ہیں جن میں طبیعت پر زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے. اسے صرف تعداد میں الجھا کر دیکھنا، حقیقت سے دوری ہے. یہ بھی سمجھیں کہ اکثر احادیث کا اسلوب، اصول سے زیادہ ترغیب کا ہوتا ہے. اصول کو کتاب الله متعین کرتی ہے اوراحادیث میں اکثر ترغیب کی غرض سے عام انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اجر دکھا کر عمل کی جانب بلایا جاتا ہے. اقبال کا الله سے وہ استفسار یاد آرہا ہے:

ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل ؟
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی ؟ 


  
اس امر سے تو ہم سب واقف ہیں کہ گناہوں سے پاک ہونے میں ہی ہماری عافیت پوشیدہ ہے. مگر ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان بعض اوقات چاہ کر بھی انسان اپنی اصلاح نہیں کرپاتا. گناہ کسی لاعلاج بیماری یا مستقل عادت کی طرح ہماری شخصیت سے چپک جاتے ہیں. سوال یہ ہے کہ وہ کون سے طریقے یا تدبیریں ہیں جو قران و سنت سے ثابت ہوں اور جنہیں اختیار کرکے ہم مختلف گناہوں کو ترک کرسکتے ہیں ؟

یہ مضمون اسی سلسلے میں ایک تحقیقی کاوش ہے


١. گناہ کو گناہ سمجھو


گناہ کو گناہ سمجھنا نہایت ضروری ہے، یہ بات بظاہر اہم محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان میں احساس ندامت باقی رہے تو پلٹ آنے کی امید باقی رہتی ہے. مگر اگر گناہ کی سنگینی کا احساس دل سے رفو ہو جائے تو پھر ایسا شخص پوری زندگی اسی عمل میں ملوث رہتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ ابلیس نے الله رب العزت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اور ہم اس سے بھی واقف ہے کہ آدم الہے سلام نے بھی ممنوعہ شجر کا پھل کھاکر الله رب العزت کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی. پھر وہ کون سا فرق تھا جس کی بنیاد پر ابلیس تاقیامت ملعون قرار پایا اور آدم الہے سلام کو پھر بھی خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی؟
فرق اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ابلیس نے اعتراف جرم کی بجائے ، الله تعالیٰ پر بھٹکانے کا الزام لگایا. جبکہ آدم الہے سلام نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے احساس ندامت ظاہر کیا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احساس ندامت رکھنا کس قدر موثر اور ضروری ہے.
بچپن میں میرے والد مجھے ایک کہانی سنایا کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ شروع شروع میں شیطان بہت پریشان رہا کرتا تھا، وہ بڑی سخت محنت کے بعد کسی کو گناہ پر آمادہ کرتا. اسے نماز پڑھنے سے روکتا یا جھوٹ بولنے پر اکساتا مگر جیسے ہی اس شخص کو اپنے گناہ کا احساس ہوتا تو وہ فوری الله پاک سے معافی مانگ لیتا. نتیجہ یہ کہ میری رب کی رحمت سے وو نہ صرف معافی حاصل کرلیتا بلکہ بعض اوقات اسکا مرتبہ بھی بڑھا دیا جاتا. یہ دیکھ کر شیطان نے ایک نئی پالیسی بنائی ، اور وہ یہ کہ انسان سے گناہ کچھ اس ڈھنگ میں کرواۓ جایئں کہ وہ انہیں گناہ سمجھ کر نہیں بلکہ ثواب جان کر انجام دے. اب جب کسی عمل کو گناہ سمجھا ہی نہ جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ اس سے آپ متقی ہو رہے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج لوگ ثواب سمجھ کر کبھی تو کسی پیر کو سجدہ کرتے ہیں تو کبھی ہزاروں بیگناہوں کو جان سے مار دیتے ہیں. ضروری ہے کہ کم از کم گناہ کو گناہ تسلیم کیا جائے ، اس کے کرنے کے لئے کوئی بہانہ یا تاویل نہ گھڑی جائے

٢. مستقل پاکیزگی کا اہتمام

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح باطن کی اصلاح ظاہر سے عیاں ہونے لگتی ہے، ویسے ہی ظاہر کو سنوارے رکھنا باطن کی تزئین میں مدد فراہم کرتا ہے. قران و حدیث میں جسمانی پاکیزگی پر خوب زور دیا گیا ہے. اگر انسان گناہوں سے بچنا چاہتا ہے یا انہیں ترک کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی صفائی پر دھیان دے. جیسے حدیث میں ارشاد ہے کہ 'صفائی نصف ایمان ہے'. رسول الله صلی الله و الہے وسلم نے اپنے اقوال و احوال دونوں سے ہمیں اس پاکیزگی کا درس دیا ہے. غسل کرتے رہنا، جسم کے غیر ضروری بالوں کو کاٹنا، ناخن تراشنا، صاف کپڑے پہننا، دن میں کئی بار مسواک کرنا، کھانا تناول کرنے کے آداب، سر کے بال سلیقے سے بنانا، تیل لگانا، خوشبو استمعال کرنا وغیرہ یہ سب وہ اطوار ہیں جو ہمیں حبیب پاک صلی الله و الہے وسلم سے بطور سنت عطا ہوئے ہیں. یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سفلی یا شیطانی عمل کرنے والے افراد بلخصوص گندگی اور غلاظت کو اختیار کرتے ہیں، ایسا کرنے سے انہیں شیاطین کی قربت حاصل ہوتی ہے. اس کے برعکس اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان شیاطین سے دوری رکھی جائے تو لازم ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ صفائی کا اہتمام کریں


٣. باوضو رہنا

وضو صرف ایک جسمانی فعل نہیں ہے بلکہ اس سے ہمیں ایک درجے میں روحانی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے. حدیث میں صراحت ہے کہ وضو کرتے ہوئے یہ تصور قائم رکھو کہ ہاتھ دھوتے ہوئے ہاتھ سے سرزد گناہ دھل رہے ہیں، منہ سے کلی کرتے ہوئے غیبت یا بد گوئی جیسے گناہ صاف ہو رہے ہیں وغیرہ. یہ احساس بڑا قیمتی ہے اور ایک درجہ میں حضوری کا تصور پیدا کرتا ہے. گناہ چھوڑنے والے سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ باوضو رہنے کی کوشش کرے. جب وضو ٹوٹے تو دوبارہ کرلے اور اگر وضو قائم بھی ہو تب بھی نماز کے وقت دوبارہ وضو کر لے. رسول پاک صلی الله و الہے وسلم نے وضو کو غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے تجویز بھی فرمایا ہے. سونے سے قبل باوضو ہونا بھی خواب و خیالات کی پاکیزگی میں مدد کرتا ہے


 ٤. گناہ کبیرہ سے گریز

یوں تو گناہ کے ہر کام سے بچنا ہم پر فرض ہے مگر کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کے فرق کو ملحوظ رکھ کر کم سے کم یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی حال بھی کبیرہ کا ارتکاب نہ ہو. یہ حقیقت بھی سامنے ہو کہ اگر کسی صغیرہ گناہ کو مستقل اختیار کرلیا جائے یعنی اسکی عادت ہی ہو جائے تو وہ صغریٰ گناہ اب صغیرہ نہیں رہتا بلکہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے

سورہ نساء کی ٣٠ آیت میں ارشاد ہے

اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے

1 comment: