حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر کیا تھی ؟ اور کم عمری میں نکاح کیوں ؟
ایک سوال جو اسلام کے حوالے سے اکثر پوچھا جاتا ہے ، وہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر کے متعلق ہے. آپ کی عمر کو لے کر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام ایک ظالم اور غیرفطری دین ہے. یہ پوچھا جاتا ہے کہ وقت کا نبی کیسے ایک کم عمر لڑکی سے نکاح کرسکتا ہے ؟ . چلیں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ الزام واقعی درست ہے ؟ اور اسے دیکھنے کے کیا ممکنہ پہلو ہوسکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ جہاں علماء کی ایک بڑی تعداد کچھ صحیح احادیث کی بنیاد پر یہ راۓ رکھتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر بوقت نکاح ٩ برس تھی. وہاں علماء کے ایک گروہ کی راۓ دوسری احادیث کی بنیاد پر یہ بھی ہے کہ آپ کی عمر نکاح کے وقت ٩ برس ہرگز نہیں بلکہ ٢١ برس تھی. یہ راۓ انہوں نے حضرت اسماء رضی الله عنہا کی ثابت شدہ عمر اور وقت وفات سے اخذ کی ہے. مورخین کے حساب سے حضرت اسماء حضرت عائشہ سے پورے دس سال بڑی تھی اور دونوں کی ولادت و وفات کی تاریخوں سے یہ لگتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نکاح کے وقت ٢١ سال کی تھی. اسی طرح سے کچھ محققین نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر ١٩ برس بیان کی ہے ، وہ اپنی دلیل عربی زبان کے اسلوب سے پکڑتے ہیں جہاں کبھی ١٧ کو ٧ اور ١٩ کو ٩ کہا جاتا ہے. لہٰذا ان حضرات کے بقول جو احادیث حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر ٩ برس کہہ رہی ہیں وہاں مراد ١٩ برس ہے.
سوال یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کون سی راۓ زیادہ مستند ہے بلکہ سوچنا یہ ہے کہ اگر آپ رضی الله عنہا کی عمر مبارک میں ممکنہ اختلاف موجود ہے تو کیا اس بنیاد پر کوئی بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے ؟ کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ ایک تاریخ سے متعلق بات جو پوری طرح ثابت نہیں ہے، اسے موضوع بنایا جاۓ ؟ مجھے امید ہے کہ آپ کا جواب بھی میری طرح نفی میں ہوگا. لیکن چلیں ہم اسے مزید کھوجتے ہیں.
کیا آپ جانتے ہے ؟ کہ صحیح احادیث کے اعتبار سے حضرت عائشہ راضی الله عنہا کا نکاح رسول پاک صلی الله و الہے وسلم سے قبل ایک اور جگہ طے تھا ؟ اب اسکی دو ہی توجیہات کی جاسکتی ہیں. پہلی توجیح یہ کہ عرب میں کم عمر میں نکاح ہوجانا ہرگز بھی معیوب نہ تھا اور دوسری توجیح یہ کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی عمر اسوقت اتنی تھی جس میں لڑکیوں کا نکاح کیا جاسکے. دونوں صورتوں میں ہی رسول پاک صلی الله الہے وسلم پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا. یہ بھی سوچیں کہ وہ مشرکین مکہ جو نبی کریم صلی الله الہے وسلم پر الزام لگانے کے معمولی مواقع بھی نہیں جانے دیتے تھے ، وہ کیونکر اتنے بڑے واقعہ پر خاموشی سادھے رہے ؟ اس سے تو یہی ظاہر ہے کہ جو ہوا وہ معاشرے میں ہرگز معیوب نہ تھا. پھر حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے والد حضرت ابو بکر رضی الله عنہ رسول پاک صلی الله الہے وسلم کے قریبی ترین ساتھ ہیں. کیا وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کسی غیرمنصفانہ اقدام پر رنجیدہ نہ ہوتے ؟ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کیا اپنی ساری عمر میں اس پر ایک بار بھی احتجاج نہ کرتی ؟
یہاں اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ رضی الله عنہا کی عمر کیا تھی ؟ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ عمر میں اختلاف ہے اور وہ عمر جتنی بھی تھی بہرحال حاضرین کے لئے معیوب یا قابل اعتراض ہرگز نہ تھی. اس تمام تحقیق کے باوجود اگر ہم اس ٩ برس والی راۓ پر ہی اکتفا کرنا چاہتے ہیں تب بھی میرے نزدیک اسمیں کوئی حرج نہیں. لیکن پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسی اجازت کیوں دی گئی؟ اسی پہلو کا اب ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں.
اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اپنے نوزائدہ بچے کو اٹھا کر ایک بہتے دریا میں پھینک دیں ؟ تو آپ کی راۓ میرے بارے میں کیا ہوگی؟ ... یا پھر اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دیں ، تو آپ میری اس بات کو کس طرح سے لیں گے ؟ .. کیا آپ میری بات مان جائیں گے؟ .. ظاہر ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس ظالمانہ بات پر آپ مجھ سے الجھ بھی پڑیں مگر ذرا سوچیں جب یہی بات حضرت موسیٰ الہے سلام کی ماں سے کہی گئی کہ اپنے نوزائدہ بچے کو دریا میں ڈال دو ! اور جب یہی حکم حضرت ابراہیم الہے سلام کو دیا گیا کہ اپنے اکلوتےبیٹے کو ذبح کردو ! تو نہ صرف ان دونوں نے بلاجھجھک ایسا کیا بلکہ ہم آج تک انکی اس بات کی تعریف کرتے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے. کیوں؟؟ اسلیے کہ وہ حکم الله رب العزت کی جانب سے تھا اور وہ بظاہر ظالمانہ حکم الله کی مشیت و حکمت میں ظالمانہ نہیں تھا اور وقت نے یہ ثابت بھی کیا.، جب حضرت موسیٰ الہے سلیم کی جان بچ گئی اور حضرت اسمعیل الہے سلام کو بچا لیاگیا
ثابت ہوا کہ اگر کوئی امر الله کی جانب سے ہو تو ہم اس عمل کے ظاہر کو دیکھ کر اسکے غیر فطری ہونے کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ الله کے علم و مشیت پر بھروسہ کرتے ہیں . حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے نکاح کا فیصلہ بھی الله ہی کی جانب سے تھا جو صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق رسول الله صلی الله و الہے وسلم کو ویسے ہی خواب میں دیا گیا جیسے ابراہیم الہے سلام کو قربانی کے متعلق دیا گیا تھا. یہ آپ صلی الله الہے وسلم کی پسند یا ناپسند نہ تھی بلکہ وحی الہی کا معاملہ تھا. وقت نے ثابت کیا کہ بی بی عائشہ رضی الله عنہا عورتوں میں سب سے بڑی عالمہ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کے بعد سب سے زیادہ احادیث کو پہچانے والی بنی
====عظیم نامہ====
بہت اچھا انداز ہے
ReplyDelete