Monday, 3 March 2014

اگر خدا ہے تو پھر یہاں اتنا ظلم کیوں؟




 اگر خدا کا دین سچا ہے تو پھر یہاں اتنا ظلم کیوں؟ ظالم کوظلم کی آزادی کیوں؟



ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. مگر افسوس کہ جب بات سب سے اونچے حق یعنی الله کے وجود کی آتی ہے تو لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میرا سارا پیسہ لٹ گیا اسلیے خدا نہیں ہے. میری محبت مجھے چھوڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. میری اولاد مجھ سے بچھڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. فلاں جگہ سیلاب یا زلزلہ آگیا اسلیے خدا نہیں ہے. الله کا وجود سب سے بڑا حق ہے اور اس کا ہونا ہمارے جذبات و حالات سے مشروط ہرگز نہیں ہے.


دین نے کبھی یہ دعوا نہیں کیا کہ اس دنیا میں سب کو انصاف حاصل ہوگا. بلکے وہ تو بتاتا ہے کہ اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا گیا ہے. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کبھی تو قاتل صاف بچ نکلتے ہیں تو کبھی معصوم پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ظالم مظلوم کا استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی وہ بے انصافی ہے جو انسان میں اس فطری تقاضے کو پیدا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا وجود ضرور ہو جہاں ہر اچھے کو اسکی اچھائی اور ہر برے کو اسکی برائی کا پورا پورا بدلہ ملے. دین اسی نئی دنیا کی بشارت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس آنے والی دنیا میں انصاف کے تقاضے اپنی کامل ترین صورت میں نافذ ہونگے. دین کے اس واضح اور کھلے مقدمے کے بعد بھی اگر کوئی الله کے وجود کا اسلیے انکار کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں فلاں جگہ بھوک، جنگ یا نا انصافی ہے تو یہ اسکی لاعلمی اور کج فہمی کا ثبوت ہے، جس پر اس سے ہمدردی سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا






اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے. ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزاۓ موت بھی نافز کردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجاۓ ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے.

انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ مجموئی اعتبار سے کبھی بھی ناممکن کا تقاضہ نہیں کرتا. یعنی وہ یہ دعا ہرکز نہیں کرتا کہ اسکے دو کی جگہ چار ہاتھ نکل آئیں، وہ یہ تمنا نہیں رکھتا کہ کاش ! دو اور دو چار نہ ہوتے بلکے پانچ ہوتے. مگر کیا یہ عجب نہیں ہے؟ کہ یہی انسان فطری طور پر تمنا رکھتا ہے کہ اسے موت نہ پکڑے، وہ ہمیشہ کی زندگی جئے . اسے بیماری نہ ستائے ، وہ ہمیشہ صحت سے بھرپور رہے. اس پر بڑھاپا نہ سوار ہو، وہ ہمیشہ جوانی کے شباب میں رہے. یہ تقاضے اس لیے ہماری فطرت میں موجود ہیں کہ بھلے اس دنیا میں ان کی تعبیر ناممکن محسوس ہو لیکن ایک اور دنیا ایسی ضرور سجائی جائے گی جہاں ان فطری تقاضوں کی تکمیل ہوگی. دین اسی دنیا کی بشارت دیتا ہے

====عظیم نامہ=====



No comments:

Post a Comment