ثواب کیا ؟ نیک کون؟ شریعت کی پابندی کیوں؟
آپ کو بہت سے ایسے بھلے
مانس مسلمان ملیں گے جو آپ کو بتاییں گے کہ نماز سے کتنی اچھی جسمانی ورزش ہوتی ہے
یا
روزہ رکھنے سے انسان کتنا فٹ رہتا ہے. کچھ کہیں گے کہ ہاتھ سے کھانا اسلئےکھانا چاہیئے کہ آپ کہ ہاتھوں کی انگلیوں سے ایسی شعائیں نکلتی ہیں جن سے آپ کا ہاضمہ بہترین رہتا ہے. یا پھر یہ ارشاد ہوگا کہ داڑھی اسلیۓ رکھو کہ اس سے مردوں کو جلد کا کینسر نہیں ہوتا. اپنی بات کی تاویل میں عین ممکن ہے کہ وہ کسی گمنام سائنسی تحقیق کا بھی حوالہ دے ڈالیں. میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس بات میں کتنی صداقت پوشیدہ ہے یا پھر یہ سب صرف عقیدت پر مبنی مفروضے ہیں. بات جو بھی ہو پر سوچنا یہ ہے کہ ہم نماز روزہ یا کوئی اور مذہبی عمل اسلیۓ نہیں کرتے کہ اس سے کوئی جسمانی فائدہ حاصل ہو بلکے صرف خالص احکام الہی کی تعمیل میں کرتے ہیں. جسمانی تندرستی کے لئے اور بہت سے بہتر طریقے موجود ہیں. لہٰذا میری ناقص راۓ میں دینی احکام کو دنیاوی فوائد سے جوڑ کر پیش کرنا درست رویہ نہیں ہے. اس سے بعض دفع غلط پیغام جاتا ہے. اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ توپ سے آپ مکھی بھی مار سکتے ہیں ، مگر توپ کی فضیلت یا مصرف بتاتے ہوۓ کوئی بھی صاحب عقل اسکا ذکر نہیں کرے گا. دینی احکام کی حکمت و مقاصد بھی ان سطحی باتوں سے بہت بلند ہیں. اہل ایمان کی جانب سے بس اتنی دلیل کافی ہے کہ ہم دین پر عمل اپنے اخلاقی وجود کے تزکیے اور اپنے رب کے قرب کے واسطے کرتے ہیں.
روزہ رکھنے سے انسان کتنا فٹ رہتا ہے. کچھ کہیں گے کہ ہاتھ سے کھانا اسلئےکھانا چاہیئے کہ آپ کہ ہاتھوں کی انگلیوں سے ایسی شعائیں نکلتی ہیں جن سے آپ کا ہاضمہ بہترین رہتا ہے. یا پھر یہ ارشاد ہوگا کہ داڑھی اسلیۓ رکھو کہ اس سے مردوں کو جلد کا کینسر نہیں ہوتا. اپنی بات کی تاویل میں عین ممکن ہے کہ وہ کسی گمنام سائنسی تحقیق کا بھی حوالہ دے ڈالیں. میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس بات میں کتنی صداقت پوشیدہ ہے یا پھر یہ سب صرف عقیدت پر مبنی مفروضے ہیں. بات جو بھی ہو پر سوچنا یہ ہے کہ ہم نماز روزہ یا کوئی اور مذہبی عمل اسلیۓ نہیں کرتے کہ اس سے کوئی جسمانی فائدہ حاصل ہو بلکے صرف خالص احکام الہی کی تعمیل میں کرتے ہیں. جسمانی تندرستی کے لئے اور بہت سے بہتر طریقے موجود ہیں. لہٰذا میری ناقص راۓ میں دینی احکام کو دنیاوی فوائد سے جوڑ کر پیش کرنا درست رویہ نہیں ہے. اس سے بعض دفع غلط پیغام جاتا ہے. اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ توپ سے آپ مکھی بھی مار سکتے ہیں ، مگر توپ کی فضیلت یا مصرف بتاتے ہوۓ کوئی بھی صاحب عقل اسکا ذکر نہیں کرے گا. دینی احکام کی حکمت و مقاصد بھی ان سطحی باتوں سے بہت بلند ہیں. اہل ایمان کی جانب سے بس اتنی دلیل کافی ہے کہ ہم دین پر عمل اپنے اخلاقی وجود کے تزکیے اور اپنے رب کے قرب کے واسطے کرتے ہیں.
ہم نماز کی ہر رکعت میں 'اھد نا صراط المستقیم' کے الفاظ ادا کرکے الله رب العزت سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں ھدایت کا سیدھا رستہ دکھاۓ اور اس پر قائم فرماۓ. یہ جانتے ہوۓ کہ قران کی صورت میں ہدایت کا پورا نسخہ ہمارے پاس موجود ہے، ہمیں پھر بھی ہدایت کے حصول کی دعا کرتے رہنے کا حکم ہے. اس رویہ سے انسان کبھی جمود یا خودپرستی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت شعوری ارتقاء اور خود احتسابی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے. ضروری ہے کہ ہم خود کو عقل کل نہ سمجھ بیٹھیں بلکے یہ احساس ہر وقت ہمارے وجود کا حصہ ہو کہ کیا معلوم کہ کن قرانی ہدایات و تصورات کے بارے میں میری راۓ غلطی پر ہو ؟ اس احساس سے مزین ہو کر آپ دوسروں کی آراء کو نہ صرف احسن انداز سے برداشت کر سکیں گے بلکہ اپنی تصیح کرنے میں بھی کوئی اشکال محسوس نہیں کریں گے
ثواب ہر وہ کام ہے جس سے آپ کا روحانی و اخلاقی وجود ترقی پاتا ہے اور گناہ وہ اعمال ہیں جو آپ کی اس روحانی ترقی پر روک لگاتے ہیں یا نفس کو آلودہ کرتے ہیں. دوسرے الفاظ میں آپ کی شخصیت پر آپ کا ہر عمل ایک اثر مرتب کرتا ہے اور گناہ و ثواب کا فیصلہ اسی اثر کے تحت ہوتا ہے. ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ثواب کو اسکے اثر کی نیت سے نہیں بلکہ تعداد کے حساب سے کرتے ہیں. ہمیں یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ ہم عبادت یا اطاعت کے نام پر جو بھی عمل کریں اسے احسن انداز میں سرانجام دیں تاکہ اسکا بہترین نتی...جہ ہماری شخصیت پر منطبق ہو، بلکہ اسے برعکس ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ فلاں عمل اگر اتنی اتنی دفعہ کرو گے یا پڑھو گے تو زیادہ ثواب پاؤ گے. نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری نظر اعمال و اذکار کی روح پر نہیں بلکہ اعداد و شمار میں اٹک کر رہ گئی ہے. ہم یہ بھول گئے ہیں کہ روح سے خالی کوئی بھی عمل ہمارے منہ پر دے مارا جاۓ گا اور صحیح نیت سے کیۓ ہوے مٹھی بھر اعمال بھی ہماری بخشش کا سامان بن سکیں گے. یہ جو بیان ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز کا اتنا گنا ثواب زیادہ ہے یا کعبہ میں طواف کی جزا اتنی گنا زیادہ ہے، اس سب سے مراد وہی اثر کا زیادہ ہونا ہے جسکا حصول مسجد یا حرم میں کئی گنا آسان ہوتا ہے. تہجد کا وقت یا کوئی اور قبولیت کے وقت کا ذکر بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے کہ یہ وہ اوقات ہیں جن میں طبیعت پر زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے. اسے صرف تعداد میں الجھا کر دیکھنا، حقیقت سے دوری ہے. یہ بھی سمجھیں کہ اکثر احادیث کا اسلوب، اصول سے زیادہ ترغیب کا ہوتا ہے. اصول کو کتاب الله متعین کرتی ہے اوراحادیث میں اکثر ترغیب کی غرض سے عام انسانوں کو زیادہ سے زیادہ اجر دکھا کر عمل کی جانب بلایا جاتا ہے. اقبال کا الله سے وہ استفسار یاد آرہا ہے:
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل ؟
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی ؟
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کیا حاصل ؟
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی ؟
اگر میری عبادات میرے اخلاقی وجود کا تزکیہ نہیں کرتیں. اگر میرے بیوی
، بچے اور میرے قریبی اقرباء میرے اعلیٰ اخلاق کی گواہی نہیں دیتے. اگر میرا چہرہ
داڑھی سے تو سجا ہے مگر مسکراہٹ کی سنّت سے خالی ہے. اگر میں شرعی احکام کی پابندی
تو کرتا ہوں لیکن معاشرتی و سماجی معاملات میں بلکل کورا ہوں. اگر دین پر چلنے سے
میری طبیعت میں نرمی نہیں بلکے سختی آ گئی ہے اور اگر میں دعوت کی جگہ تکفیر کا رویہ اپنایا ہوا ہوں توجان لیں یہ وہ
اسلام نہیں ہے جسکی تعلیم پیارے نبی صلالله و الہے وسلم نے دی تھی اور جسے صحابہ
رضی الله نے اپنی زندگیوں میں سجایا تھا. ہم اپنی داڑھی کے طول اور شلوار کی
اونچائی سے الله رب العزت کو دھوکا نہیں دے سکتے، ہرگز نہیں دے سکتے.
بعض لوگ سچ کڑوا ہوتا ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے کی رٹ لگا کر ہر طرح کی بد تہذیبی کرتے جاتے ہیں. انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ بولنے والے کا انداز کڑوا ہوتا ہے. کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر تہذیب اور شائستگی سے کی جائے تو اس میں شیرنی گھل جاتی ہے. اگر آپ سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں تو یہ سچائی کا پرچار نہیں بلکہ آپ کی انا کی تسکین کا سامان ہے.
بعض لوگ سچ کڑوا ہوتا ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے کی رٹ لگا کر ہر طرح کی بد تہذیبی کرتے جاتے ہیں. انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ بولنے والے کا انداز کڑوا ہوتا ہے. کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر تہذیب اور شائستگی سے کی جائے تو اس میں شیرنی گھل جاتی ہے. اگر آپ سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں تو یہ سچائی کا پرچار نہیں بلکہ آپ کی انا کی تسکین کا سامان ہے.
الله نے انسان کو اپنی فطرت اور سمجھ کے مطابق
زندگی گزارنے کی پوری آزادی دی ہے. وہ صرف انہی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں جہاں
انسانی فہم کو دھوکا کھانے کا اندیشہ ہو. مثال کے طور پر تاریخ انسانی اس بات پر
شاہد ہے کہ گھانس پھونس کھانے والے گھریلو مویشیوں جسے گاۓ، بکری، اونٹ وغیرہ کے
گوشت سے ہمیشہ استفادہ حاصل کیا گیا ہے اور درندوں جیسے شیر، چیتے، ریچھ وغیرہ کے
گوشت سے انسانی فطرت نے ہر دور میں اجتناب کیا ہے. لہٰذا قران ان دونوں طرح کے
جانوروں کی حرمت کے بارے میں کوئی آیت پیش نہیں کرتا تاکہ انسان اسی فطری رغبت کو
جاری رکھے. لیکن خنزیر یا سور کے گوشت کی حرمت کے بارے میں انسانی سمجھ مغالطہ
کھاسکتی ہے. یہ ایک ایسا جانور ہے جو گھانس پھونس اور گوشت دونوں کھاتا ہے. یعنی
یہ بیک وقت چوپایوں اور درندوں دونوں کی صفات رکھتا ہے. قران نے اسی لیۓ مداخلت کرتے
ہوے انسانی فہم کو اس ضمن میں رہنمائی عطا کی اور اسے درندوں کی طرح حرام قرار دے
دیا. ایک اور مثال لیجنے ، انسانی فہم نے ہمیشہ ناحق قتل کو ایک گھناونا عمل جانا
ہے مگر انسانی عقل قاتل کی سزا کے بارے میں دو مختلف انتہاؤں کا شکار رہی ہے. کبھی
تو معاملہ یہ ہوتا ہے کہ قاتل کو حد سے زیادہ ازیت دے کر مارا جاتا ہے جیسے زندہ
انسان کی کھال اتار لینا یا اسکا ایک ایک عضو باری باری کاٹ دینا وغیرہ. اور دوسری
انتہا یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ انسان کہنے لگتا ہے کہ بھائی قاتل کا کوئی قصور
نہیں ہے، وہ تو اپنے گھریلو حالات کے نتیجے میں ایسا عمل کر بیٹھتا ہے، لہٰذا اسے
سزا نہ دی جائے بلکہ ہمدردی رکھ کر علاج کروایا جائے. قران نے انسانیت کو اس مخمصے
سے نکال کر ایک انتہائی سزا بیان کر دی او اسکا طریق بھی بتادیا. اب کسی بھی مومن
کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سزا کا فیصلہ کرتے وقت کوئی بھی انتہائی رویہ اختیار
کرے.
تقویٰ کا معیار یہ ہرگز نہیں ہے کہ کون کتنا
صاحب کرامت ہے؟ اس لیۓ میں کسی بزرگ سے محض اس لیۓ مرعوب نہیں ہو سکتا کہ وہ پانی
پر چلتے تھے یا ہوا میں اڑتے تھے. میرے نزدیک تو بس وہ ہی ولی الله ہے جس کی گفتار
قرآن ہو جس کا کردار قرآن ہو. بقول اقبال
... یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن !
.. قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن !
... یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن !
.. قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن !
====عظیم
نامہ====
No comments:
Post a Comment