اتنے نبی کیوں بھیجے؟ اور اب نبوت کیوں ختم کی؟
الله عزوجل نے انسانیت کی تربیت کے لیے ہر دور میں اپنی الہامی کتاب نازل کی. ان کتابوں کا بنیادی مقدمہ ہمیشہ یکساں رہا. قران کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء کو عطا کیا گیا اور ہر کتاب ایک آنے والے آخری نبی کی بشارت دیتی رہی. وہ توحید کا عقیدہ ہو یا سزا و جزا کی خبر، وہ ملائکہ و جنات پر ایمان کا معاملہ ہو یا وحی و تقدیر پر ایمان کا تقاضہ. تمام ایمانیات اسی طرح سے سابقہ الہامی کتابوں میں درج ہیں جس طرح قران حکیم میں مذکور ہیں.
یہی معاملہ من و عن عبادات کے حوالے سے بھی ہے، لہٰذا سابقہ مذاہب میں تحریف کے باوجود آج تک نماز کے حوالے سے پرستش کا تصور موجود ہے، چیرٹی کے نام پر زکات و صدقات کی ترغیب ہو یا روزہ، قربانی و حج کی دیگر روایات، تمام تر مالی و بدنی عبادات اصولی سطح پر ہر نبی کی امت کو عطا کی گئی. یہ اور بات ہے کہ انکے اظہار کی حرکات و سکنات اور وقت کا تعین زمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف رکھا گیا ہے جو کے معمولی و ثانوی بات ہے.
یہاں یہ فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پیغام ایک ہی تھا تو اتنی مختلف کتابوں کے نزول کی حکمت ہی کیا تھی ؟ یہ بھی تو ممکن تھا کہ بس ایک ہی کتاب بھیجی جاتی جسے پروردگار ہر طرح کی تحریف سے محفوظ فرما دیتا. اسکا ایک منطقی جواب تو یہ ہے کہ الله نے انسانوں کی اصلاح کے لئے انکی شعوری استعداد کے حساب سے نبوت کو ہر دور و علاقے میں ہمیشہ جاری رکھا مگر جب خالق نے اپنے علم کل سے یہ جانا کہ اب ذرائع ابلاغ کے ایسے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں کہ الہامی پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جا سکتا ہے اور انسانی شعور زمانی ارتقاء سے گزر کر اپنی بلوغت کو پہنچ چکا ہے تو اس نے نبوت کو ختم فرما کر قران کی حفاظت کا خدائی اعلان فرمادیا.
اسکا دوسرا جواب خدا خود اپنی آخری کتاب سورہ مائدہ کی ٤٨ آیت میں دیتا ہے یہ کہتے ہوۓ کہ اگر ہم چاہتے تو تمام امتوں کو ایک ہی امت بنادیتے لیکن چونکہ ہم نے یہ دنیا امتحان کے اصول پر بنائی ہے ، لہٰذا ہماری حکمت کا یہ لازمی پرتو ہے کہ ہم نے ایسے حالات کا انتظام کیا ، جس میں حق و باطل کی کشمکش واضح ہو سکے. اسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب اختلاف ہوگا اور پھر دیکھا جائے گا کہ کون اس اختلاف میں علم و انصاف کی راہ اپناتا ہے اور کون محض آباء کی اندھی تقلید سے خود کو پراگندہ کرتا ہے؟
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment