Monday, 3 March 2014

زنا کی سزا اتنی عبرتناک کیوں؟




اسلام میں جرائم بلخصوص زنا کی سزا اتنی عبرتناک کیوں
ہے ؟


اسلامی معاشرے میں فحاشی کی روک تھام کے لئے قران نے تین مراحل بیان کیۓ ہیں. پہلے مرحلے پر وہ معاشرے کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے. وہ مردوں کو نظر نیچی رکھنے اور عورتوں کو محتاط لباس کی تلقین کرتا ہے. اس عمدہ اہتمام کے بعد بھی اگر کوئی مرد یا عورت جذبات سے مغلوب ہو کر زنا کر بیٹھتا ہے تو پھر دوسرے مرحلے پر ریاست کو تفتیش کا حکم دیتا ہے. یہ تفتیش کچھ اس انداز کی ہے کہ جس میں زانی پر جرم اسی وقت ثابت ہو پاۓ گا جب اس نے اسکا ارتکاب کھلے عام کیا ہو. وہ چار ایسے شریف گواہوں کا مطالبہ کرتا ہے، جنہوں نے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو. اب ظاہر ہے کہ یہ قریب قریب نا ممکن ہے. اسمیں مصلحت یہی ہے کہ جب تک یہ گناہ انفرادی حد میں ہے اور اسکے برے اثرات معاشرے کو پراگندہ نہیں کر رہے، تب تک اس جوڑے کو سزا سے محفوظ رکھا جائے. کیا معلوم وہ دونوں کب توبہ کر لیں؟


 یہ خوب جان لیں کہ یہاں چار گواہوں کی شرط زنا بالجبر یعنی ریپ کیلئے نہیں ہے. زنا بالجبر تو فساد فل ارض میں داخل ہے، جسکی سزا موت ہے اور جو جرم کے کسی بھی واضح ثبوت ملنے پر نافذ کی جا سکتی ہے. بدقسمتی سے ہمارے کچھ علماء نے چار گواہوں کی شرط کا اطلاق زنا بالجبر پر بھی کر دیا ہے جو قران کی منشاء سے میل نہیں کھاتا. اب تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس تمام تربیتی اہتمام اور ریاعیت کے باوجود بھی کوئی کھلے عام زنا کر بیٹھتا ہے تو اب عبرتناک سزا ہے. ایسی سزا جسکا نفاز معاشرے کے سامنے ہوگا تاکہ باقی افراد میں کسی بھی نا جائز شہوت کی حوصلہ شکنی ہو
 

 یہاں بھی قاضی مجرم کے حالات و تربیت کا جائزہ لیکر کوئی کمی یا تخفیف کر سکتا ہے. جیسے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے مشکل دور میں چوری کی سزا کو معطل کردیا تھا یا جیسے قران نے جہاں عام زانی کی سزا سو کوڑے مقرر کی وہاں لونڈیوں کی اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان پرصرف پچاس کوڑوں کی حد کا حکم صادر کیا. اس پورے سلسلے پر اعتراض صرف وہی کم فہم شخص کر سکتا ہے جس کی نظر صرف اسلامی سزا پر ہو اور وہ پہلے دو مراحل سے بلکل بےخبر ہو. 


====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment