Tuesday, 4 March 2014

تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں ؟

 

اگر خدا سب کا ہے تو پھر تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں بھیجے گئے ؟



 منکرین خدا میں ایک اعتراض خاصہ مقبول ہے اور وہ یہ کہ اگر الہامی مذاھب خدا کی جانب سے نازل کردہ ہیں تو پھر تمام  پیغمبر صرف عرب میں ہی کیوں آے ؟ اس سوال کو اٹھا کر یہ منکرین حسب عادت خود کو بڑا علامہ تصور کرتے ہیں. مگر قران حکیم کا کوئی بھی احقر طالب علم اس سوال کے بودےپن کا سوچ کر بھی مسکرا دیتا ہے. قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ الله رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ الله کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' .

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح الہے سلام یا حضرت آدم الہے سلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.

مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح الہے سلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے.

واللہ عالم بصواب

====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment