ہدایت کسےملتی ہے؟اور متقی کون ہوتے ہیں؟
قران مجید کے آغاز میں ہی یعنی سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں بیان ہوا کہ.. "اس کتاب (قران) میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقین کے لئے" ... یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قران کا ایک قاری اس سے علم کے خزائن تو حاصل کر سکتا ہے ، معلومات کے ذخائر تو دریافت کرسکتا ہے، شائد تفسیر کی قابلیت بھی حاصل کر لے لیکن اگر وہ قاری ہدایت کی دولت حاصل کرنے کا متمنی ہے تو لازم ہے کہ اس میں تقویٰ موجود ہو مال، دولت، اولاد اور بہت سی نعمتیں الله رب العزت اکثر بناء مانگے بھی عطا فرما دیتے ہیں مگر ہدایت وہ قیمتی گوہر ہے جو بناء تقویٰ اور طلب کے عطا نہیں کیا جاتا . تقویٰ کوئی اضافی صفت نہیں بلکہ ایک مستقل رویہ کا نام ہے، ایک ایسا رویہ جو سلیم الفطرت اشخاص کو ہی حاصل ہوتا ہے. یہ خیر اور شر میں تفریق کرنے کی اس صلاحیت کا ظہور ہے جو ہر انسان کی فطرت میں الہامی طور پر مضمر ہے. متقی وہ ہے جس میں حق کو جاننے اور باطل سے بچنے کی چاہ ہو. اس طلب سے خالی انسان نہ متقی کہلا سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت پاسکتا ہے
سکی مثال یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص مصروف سڑک پر گاڑی چلا رہا ہے ، اسکی رہنمائی کیلئے منتظمین کی جانب سے طرح طرح کی ہدایات کناروں پر آویزاں کی جاتی ہیں. جیسے رفتار کم کر لیں یا اتنا فاصلہ رکھیں یا پھر لائٹ جلا لیں وغیرہ. اب ان ہدایات سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو بچ بچ کر چلنا چاہتا ہے. جو ایسا چاہتا ہی نہیں وہ لامحالہ ان ہدایات کو پڑھ کر بھی ان پر عمل نہ کرے گا اور کسی حادثہ کا شکار ہوکر خود کو ہلاکت میں ڈال لے گا. اس بچ بچ کے چلنے والے کو متقی کہا جاتا ہے اور قران میں موجود ہدایت ایسے ہی شخص کے لئے خاص ہے. اسی لئے قران خود کو ہدایت کہتا ہے اور اس ہدایت کے حصول کے لئے تقویٰ کا مطالبہ کرتا ہے
سکی مثال یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص مصروف سڑک پر گاڑی چلا رہا ہے ، اسکی رہنمائی کیلئے منتظمین کی جانب سے طرح طرح کی ہدایات کناروں پر آویزاں کی جاتی ہیں. جیسے رفتار کم کر لیں یا اتنا فاصلہ رکھیں یا پھر لائٹ جلا لیں وغیرہ. اب ان ہدایات سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو بچ بچ کر چلنا چاہتا ہے. جو ایسا چاہتا ہی نہیں وہ لامحالہ ان ہدایات کو پڑھ کر بھی ان پر عمل نہ کرے گا اور کسی حادثہ کا شکار ہوکر خود کو ہلاکت میں ڈال لے گا. اس بچ بچ کے چلنے والے کو متقی کہا جاتا ہے اور قران میں موجود ہدایت ایسے ہی شخص کے لئے خاص ہے. اسی لئے قران خود کو ہدایت کہتا ہے اور اس ہدایت کے حصول کے لئے تقویٰ کا مطالبہ کرتا ہے
ہم نماز کی ہر رکعت میں 'اھد نا صراط المستقیم' کے الفاظ ادا کرکے الله رب العزت سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں ھدایت کا سیدھا رستہ دکھاۓ اور اس پر قائم فرماۓ. یہ جانتے ہوۓ کہ قران کی صورت میں ہدایت کا پورا نسخہ ہمارے پاس موجود ہے، ہمیں پھر بھی ہدایت کے حصول کی دعا کرتے رہنے کا حکم ہے. اس رویہ سے انسان کبھی جمود یا خودپرستی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت شعوری ارتقاء اور خود احتسابی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے. ضروری ہے کہ ہم خود کو عقل کل نہ سمجھ بیٹھیں بلکے یہ احساس ہر وقت ہمارے وجود کا حصہ ہو کہ کیا معلوم کہ کن قرانی ہدایات و تصورات کے بارے میں میری راۓ غلطی پر ہو ؟ اس احساس سے مزین ہو کر آپ دوسروں کی آراء کو نہ صرف احسن انداز سے برداشت کر سکیں گے بلکہ اپنی تصیح کرنے میں بھی کوئی اشکال محسوس نہیں کریں گے
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment