عجز اور قدرت کا مفہوم
فعل نہ کر سکنے اور وجود میں نہ لانے کی عموما دو وجہیں ھوتی ہیں :
ایک۔۔۔فاعل کی ذات میں ایسی کمزوری ھو جس کی وجہ سے وہ فعل سر انجام نہ دے سکتا ھو
۔
دو۔۔۔مادہ اوراس شئ میں خرابی و نقص ھو جس پر فعل واقع ھو رھا ھے،اور اس خرابی و نقص کی وجہ سے اس میں فاعل کے فعل کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ھو ۔جیسے پانی میں کاتب کا کتابت نہ کر سکنا کاتب کا نقص نہیں بلکہ پانی کی کمزوری ھے کہ وہ کتابت کو قبول نہیں کرسکتا۔یا شیر خوار بچے کا تعلیم و تربیت کو نہ لینا معلم و مربی کا... عجز نہیں بلکہ بچے کا نقص ھے کہ اس میں تعلیم و تربیت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ھے ۔
دو۔۔۔مادہ اوراس شئ میں خرابی و نقص ھو جس پر فعل واقع ھو رھا ھے،اور اس خرابی و نقص کی وجہ سے اس میں فاعل کے فعل کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ھو ۔جیسے پانی میں کاتب کا کتابت نہ کر سکنا کاتب کا نقص نہیں بلکہ پانی کی کمزوری ھے کہ وہ کتابت کو قبول نہیں کرسکتا۔یا شیر خوار بچے کا تعلیم و تربیت کو نہ لینا معلم و مربی کا... عجز نہیں بلکہ بچے کا نقص ھے کہ اس میں تعلیم و تربیت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ھے ۔
عجز پہلی صورت کو کہا جاتا ھے نہ کہ دوسری صورت کو ۔اور عموما لوگ عجز کے مفہوم سے نا واقف ھونے کی وجہ سے ذات باری تعالی پر عجز کا الزام لگاتے ہیں (نعوذباللہ )چنانچہ اللہ تعالی کا اپنی مثل پیدا نہ کر سکنا اللہ کا عجز نہیں ھے بلکہ مادہ کا نقص ھے کہ اس میں مثل باری تعالی کی صلاحیت ہی نہیں ھے کہ اس سے مثل باری تعالی بنایا جائے ،یا اللہ کا ہمیں بیک وقت قاعد و قائم نہ کر سکنا اللہ کا عجز نہیں ،بلکہ ہمارا عجز وکمزوری ھے کہ ہم بیک وقت قائم و قاعد قائم نہیں رہ سکتے ،اسی طرح دیگر تمام ان صورتوں میں اصل عجز،نقص ،خرابی اور قصور مادہ اور مفعول کا ھے کہ اس میں اللہ کے فعل کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ،نہ کہ اللہ کی قدرت کی کمزوری و خرابی ۔اللہ تعالی تو قادر مطلق ھے ،بس اس کے فعل کو قبول کرنی کی صلاحیت مادہ میں نہیں ھوتی ،جس کی وجہ سے جہلاء مادے کی خرابی کو اللہ کی طرف منسوب کر تے ہیں ۔
============================
کائنات کے اندر رہتے ہوئے تمام چیزوں کو کائنات کے اصولوں کے مطابق پرکھا جائے گا۔ جیسے خالق و مخلوق ہے، علت و معلول ہے۔ پھر خالق بھی کسی خالق سے وجود میں آکر اس مفہوم میں مخلوق ہوگا۔ علت بھی کسی اور علت سے وجود میں آئے گی تو کہیں معلول بنے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت علت و معلول کے یہ رشتے ہی موجود نہ تھے اس وقت کسے علت کی ضرورت تھی؟یہ ایک بہت فرسود...ہ سوال ہوچکا ہے کہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی علت کیا ہے؟ یا ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا؟ پہلی تو بات یہ طے کی جائے گی کہ کائنات کے اصول کا اطلاق خدا پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟تو جواب یہی ہے کہ ظاہر ہے جب کائنات کو بنانے والا خدا ہے تو خدا پر مادی کائنات کے اصولوں کا اطلاق ممکن نہیں۔ کیونکہ خدا پر نہ تو کوئی زمانے کی پابندی ہے نہ کوئی مکان (بشمول خود مکمل کائنات) خدا کو اپنے آپ میں سما سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی موجودگی کائنات کے اندر ہی نہیں بلکہ اسکی سرحدوں سے بہت ماورا ہے جس پر کائنات کے اصول کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ جبکہ علت و معلول کے رشتے کی پابندی کا ماخذ ضروری ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیں۔ہم جانتے ہیں کہ بائیولوجیکل سائنس میں مائٹوکونڈریل ایو (Mitochondrial Eve) کا جو وجود ہے وہ انسانیت کی پہلی ماں ہے۔ ہم یہاں علت و معلول کے رشتے کے مقابلے پر ماں اور اولاد کے رشتے کو بطورِ مفروضہ مانتے ہیں۔ لیکن جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ایو جب تک اکیلی تھی اس وقت تک نوعِ انسان میں ماں اور اولاد کے رشتے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایو نے پہلے انسان کو جنم دیا تو اب وہ ماں بنی اور اس نے یہ اصول تخلیق کردیا کہ نوعِ انسان میں جو بھی عورت بچے کو جنے گی وہ انسان ہی ہوگا۔اب اگر آج کوئی یہ سوال کرے کہ جب انسان ماں ہمیشہ انسان بچے کو جنم دیتی ہے تو پہلا انسان بچہ کہاں سے آیا؟ تو اس کا معلوم جواب یہی ہے کہ پہلے انسان بچے کو کسی انسان ماں کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ انسان ماں سے انسان بچے کا اصول تو اس ایو کے بعد تخلیق ہوا ہے۔ اس سے ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ انسان اس وقت بھی تھا جب نوعِ انسان میں انسان ماں اور انسان اولاد کا اصول قائم نہیں ہوا تھا۔ جب یہ اصول ہی موجود نہیں تھا اس وقت ایو کو کہاں ضرورت تھی کہ وہ بھی اس اصول پر پوری اترے؟اسی مفروضے کا اگر علت و معلول کے رشتے پر اطلاق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ:1۔ علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔ 2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔ 3۔
جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
================================
ڈیفائین کرتے ہی ہم چیزوں کومحدود کردیتے ہیں
چیزوں کی تعریف کر کے ہم انہیں بہت محدود، مجسم، قید اور کومحدود کردیتے ہیں
چیزوں کی تعریف کر کے ہم انہیں بہت محدود، مجسم، قید اور (Limited) چونکہ ہر چیز لامحدود ہے جبکہ مائنڈ اور اس کا کینوس بہت محدود ہے اسی لیے وہ یہ سازش کرتا ہے۔
مثال کے طور پہ جس کمرے میں اس وقت بیٹھا ہوا ہوں، وہاں دنیا بھر کے ٹی وی چینلز کی نشریات ریڈیائی لہروں کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن میں اپنے حواس خمسہ کیمدد سے انہیں دیکھ یا سن نہیں سکتا، اس کے لیے ٹی وی آن کرنا پڑتا ہے، کہ ٹی وی ان ریڈیائی لہروں کا ڈی کورڈر ہے۔
وہ ان لہروں کو ڈی کوڈ کر کے سکرین پر چلتی پھرتی تصویروں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ فرض کریں کے بی۔بی۔سی کے ورلڈ چینل پر نیلسن منڈیلا کا انٹر ویو چل رہا ہے۔۔۔۔میرے کمرے میں مینڈیلا ریڈیائی لہروں کی صورت میں موجود ہے۔۔۔
بٹن دباتے ہی وہ سکرین پر باتیں کرتا ہوا ظاہر ہوجائے گا، کیا میرے کمرے میں منڈیلا کی تمام ریڈیائی لہریں میرے ٹی وی سیٹ میں سمادی گئی ہیں؟ قطعا نہیں، میں کمرے میں ایک اور ٹی وی سیٹ آن کر کے بی۔بی۔سی کا ورلڈ چینل لگاؤں تو اس میں بھی وہی مینڈیلا جلوہ گر ہو جائے گا۔۔۔۔
کمرے میں ہزار ٹی وی لگادوں ان سب پر مینڈیلا ہوگا، پہر بھی میرے کمرے میں اسکی ریڈیائی لہریں ختم نہیں ہوگی، میرا کمرہ ہی نہیں پورا کرہ ارض سٹیلائٹ کے ذریعے اسوقت مینڈیلا کی لہروں سے بھرا ہوگا، دنیا کے کسی بھی کونے میں مزکورہ چینل لگانے سے سکرین پر مینڈیلا ہی ظاہر ہوگا۔۔۔۔
پوری زمین ٹی وی سکرینوں بھر دی جائے تو بھر بھی ہر سکرین پر نظر آنے کے باوجود فضاؤں سے اسکا ریڈیائی وجود ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی کم۔ ٹی وی کی ہر تصویر اصل میں ریڈیائی لہر ہے، مختلف ٹی وی چینلز مختلف فریکوئینسیز پر اپنی نشریات براڈ کاسٹ کرتے ہیں۔۔۔۔چینل بدلنے سے فریکوئینسی اور اس کے ساتھ ہی نشریات/تصاویر بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد بھی سب کچھ ریڈیائی لہروں کی طرح ہے، سب کچھ انرجی ہے، ہر چیز اسی انرجی کی مختلف فریکوئنسی ہے، ہمارا مائنڈ ٹی وی سکرین کی مانند ہے۔ ہمارا دماغ مختلف فریکوئینسیز ڈی کوڈ کرتا ہے، مائنڈ اپنی سکرین پر اسکی تصویر دکھاتا ہے۔۔۔۔
جس طرح ٹی وی سکرین پر نظر آنے والا مینڈیلا مکمل مینڈیلا نہیں، سکرین بلکہ سکرینوں پر نظر آنے کے باوجود وہ ریڈیائی لہروں کی صورت میں پوریے کرہ ارض کی فصاء میں پھیلا ہوا ہے، جو چاہے جب چاہے، جہاں چاہے، اپنا ٹی وی چینل آن کر کے اسے سکرین میں سمیٹ کر دیکہ سکتا ہے۔۔۔بلکل اسی طرح ہمارے مائنڈ کی سکرین پر آنے والی ہر شکل بھی انرجی کی فریکوئنسی کی صورت میں پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔
ٹی وی نشریات کا دائرہ زمین تک محدود ہے، جبکہ ''قدرتی نشریات'' کا دائرہ آسمانوں سے بھی آگے، لا محدود ہے۔ ٹی وی سکرین پر مینڈیلا کی تصویر کا کرہ ارض پر اس کی ریڈیائی لہروں سے تناسب نکالا جائے، تو اعشاریہ کے ساتھ متعدد صفر لگانے کے بعد ہی کہیں جاکر کسی ہندسے کی باری آئیگی۔۔۔۔
اور اگر مائنڈ کی سکرین پر آنے والی کسی تصویر کا زمینوں پر پھیلی، آسمانو پہ چھائی اس کی انرجی فریکوئنسی سے تناسب نکالا جائے تو اعشاریہ کے بعد اتنے صفر لگانے پڑیں گے کہ کوئی ہندسہ شروع ہونے سے پہلے کمپیوٹر سکرین ختم ہو جائے گی۔ مائنڈ کے ذریعے کسی بھی چیز کی ''اصلیت'' جانتے/پہچانتے/مانتے ہیں، حقیقت سے اسکا تناسب بس اتنا ہے۔
اتنی معمولی سی نام نہاد ''اصلیت'' پر ہم حقیقت قربان کر دیتے ہیں۔ اسے ہی ہم پوری حقیقت سمھتے ہیں، ہمارے ارد گرد کی دنیا کی اوقات بس اتنی سی ''اصلیت'' پر مشتمل ہے، اسی لیے دنیا کو سراب کہا گیا ہے، مایا قرار دیا گیا یے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ارد گرد کچھ بھی نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے اصل میں وہ اہسا نہیں، حقیقت کے سامنے اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
جسے ہم اتنا اہم سمجھ رہے ہیں وہ بہت معمولی ہے، انبیاء/صوفیاء نے جسے ترک دنیا کہا اسکا مطلب جنگلوں میں نکل جانا نہیں بلکہ دنیا کی اصلیت جاننا ہے، کہ جسئ ہم سونا سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں مٹی کا ایک ڈھیلہ ہے۔
اتنی سی حقیقت کو پم حقیقت کے مقابل لاکر (Duality) پیدا کر دیتے ہیں، قطرے کا سمندر کو للکارتے ہی مائنڈ کا کام چل پڑتا ہے، ڈیفائین کرتے ہی ہم چیزوں کو (Confine) کردیتے ہیں، ان کی حقیقت کو نام نہاد ''اصلیت'' کا روپ دے دیتے ہیں۔ لامحدود کی حد بندی کر دیتے ہیں انکی حدود متعین کر دیتے ہیں، انہیں قید کرلیتے ہیں، پابند کر دیتے ہیں، غلام بنا لیتے ہیں، انہیں حقیقت سے الگ کر دیتے ہیں اور اسی چکر میں ہم خود بھی (Existence) سے جدا ہو جاتے ہیں۔
دوسروں کی حدیں بناتے بناتے خود اپنی حد بندی کر لیتے ہیں، حدود کی دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں، خود بھی قید ہو جاتے ہیں، پابند ہو جاتے ہیں، غلام بن جاتے ہیں۔ ہر چیز کی حقیقت کو نام نہاد ''اصلیت'' کا روپ دیتے دیتے، ہم خود بہروپیئے بن گئے ہیں۔ ہر حقیقت کو جسمت بخشتے بخشتے ہم خود اپنے ہی جسم کی بخشش بن کر رہ گئے ہیں۔
ہماری حقیقت بھی اس نام نہاد ''اصلیت'' میں مجسم ہوگئی ہے، اب یہ مریل جسم ہی سب کچھ ہے، یہی پیدا ہوتا ہے، یہی مرتا ہے، یہی جنت ہے یہی جہنم جاتا ہے، یہی جہنم جاتا ہے، دوسروں کو ڈیفائین کرتے کرتے ہم خود (Confine) ہوگئے ہیں۔ جب تک دوسروں کا ڈیفائین کرنا ہے تب تک خود کا (Confine) ہونا ہے۔
دوسروں کی پیمائش اصل میں اپنی آزمائش ہے۔ جب تک دوسروں کو جسامت میں ڈھالتے رہیں گے تب تک خود کو ہلاکت میں ڈالتے رہیں گے۔ جب تک دوسروں کو سمیٹتے رہیں گے تب تک خود سکڑتے رہیں گے، جب تک دوسروں کی حدود ناپتے رہیں گے تب تک خود اپنی حدود میں کانپتے رہیں گے۔
دوسروں کی حدود کا تعین کرنا اپنی حدود متعین کرنا ہے۔ یہ حد بندی ہی الحاد ہے۔ الحاد کا مطلب ''کسی ایک طرف مائل ہونا، جھک جانا'' ہے۔ اسی سے لفظ لحد بنا ہے جسکا مطلب قبر ہے۔ قبر کو لحد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ لوگوں سے الگ ہے، زندگی سے دوسری طرف ہے، زندگی مرکز میں ہے، حرکت کا نام ہے جبکہ مردہ مرکز میں نہیں، زندگی میں نہیں، زندگی سے دوسری جانب جھک گیا ہے، قبر میں محدود ہوگیا ہے۔ قبر ہی اب اس کی حد ہے اسی لیے لحد ہے۔
مرکز میں ہونا زندہ ہونا ہے اور مرکز سے دور ہونا، مرکز سے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے کہیں بھی ہونا مردہ ہونا ہے، ایسے ہی شخص کو ملحد کہتے ہیں۔ انبیاء/صوفیاء ایسے ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، انہیں مرکز میں لاتے ہیں، ملحد کو موحد بناتے ہیں۔۔
تحریر: عدم وجود
==================================
لوگ اسی لیے خدا کو مانتے ہیں کیونکہ وہ خدا کو جانتے نہیں،
جاننے کے بعد ماننے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔
جاننے کے بعد ماننے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔
===================================
''۔۔افسوس کے سیاستدانوں نے سقراط کو بھی فلاسفر بناکر پیش کیا۔۔''
حالانکہ سقراط ایتھنز میں وہی کچھ کہ رہا تھا جو چین میں لاؤتنز اور بہار میں بدھا کہ رہا تھا۔ اگر سقراط کو فلاسفر کہا جاتا ہے تو پھر لاؤتنز اور بدھا کو فلاسفر کیوں نہیں مانا جاتا؟؟؟
اگر لاؤتنز اور بدھا نبی/صوفی ہیں تو پھر سقراط کو نبی/صوفی کیوں نہیں گردانا جاتا؟؟؟ سقراط کو فلاسفر کہنا، سقراط کو گالی دینا ہے۔ سارے فلاسفر گفتار کے غازی... ہیں کردار کے یہ بیچارے ''شہید'' ہیں۔۔
ساری زندگی ان بیچاروں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھے رہے۔ تمام فلاسفر بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر اپنا کاروبار چلاتے رہے، رائی کا پہاڑ بناتے رہے اور پہر اسی پہاڑ کے نیچے دب کر اوپر جاتے رہے۔
ان کتابی کیڑوں کی زندگی ریشم کے کیڑے جیسی ہوتی ہے۔ محض لفظوں کی چگالی کرتے رہتے ہیں۔ ساری زندگی الفاظ کی ادھیڑ بن سے اپنا کفن بنتے ہیں۔ اپنے ہی نظریات کے قفس میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ یہ وہ اندھے ہیں جو دنیا کو قوس و قزح دیکھاتے پھر رہے ہیں، وہ گونگے ہیں جو گانے گاتے پھر رہے ہیں، وہ بہرے ہیں جو ترانے سنتے پھر رہے ہیں۔۔۔
بقل شخصے فلاسفر وہ شخص ہے جو اندھیری رات کو اندھیرے کمرے میں ایسی کالی بلی تلاش کرنے میں مصروف ہے کہ جو وہاں موجود ہی نہیں، کسی یونیورسٹی میں چلے جایئں، وہاں جو شخص مفلوک الحال نظر آئے، بال بکھرے ہوں، کپڑے پھٹے ہوں، عینک کا ایک شیشہ ٹوٹا ہو، دیکھتا پیچھے ہو چلتا آگے ہو، کبھی خواہ مخوہ ہنسنے لگے، کبھی بلا وجہ رونے لگے، تو سمجھ لیجئے گا کے موصوف بھیک مانگنے آئے ہیں یا فلسفہ پڑھانے آئے ہیں۔
سقراط کی بدنصیبی تھی کہ افلاطون کو چند روز اسکی صحبت میں گزارنے کا موقعہ مل گیا اور وہ خود کو سقراط کا شاگرد کہلوانے لگا، پھر ارسطو، افلاطون کا شاگرد تھا، ان دونوں نام نہاد شاگردوں کی زندگی کا واحد مقصد سقراط کو الٹا لٹکانا معلوم ہوتا ہے، لیکن سقراط کو الٹا لٹکاتے لٹکاتے خود لوجک کی چھت سے جا لٹکے۔۔۔
پورا مغربی فلسفہ اور سارے نام نہاد مزاہب ان دو ''چمکادڑوں'' کی دم سے لٹکے ہوئے ہیں، اسی لیے انہیں سب الٹا دکھائی دیتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی کسی نبی/صوفی کی تعلیمات کو اسکے کسی نام نہاد ''چند روزہ شاگرد'' نے الٹا لٹکانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں جو
بھی مزہب، نظریہ یا فقہ بنا وہ الٹا ہی پیدا ہوا۔۔۔
====================================
'حمزہ ہاشمی نے پوچھا کے تم کب سے رہبان بن گئے؟؟؟
تو سنوں حمزہ میں جب سے رہبان بنا،
جب میں نے ماں سے پوچھا کے ماں اللہ کون ہے؟؟؟
ماں نے پیار سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ
لے کر بولی عدم مجھے دیکھ میں کون ہوں،
میرے دل نے...
''الستُ بربکم''؟ کی آواز سُنی
اور روح پکار اٹُھی: ''بلٰی''۔
اگر کوئی جان سکتا ہے تو جان لے،
خمیر کے بغیر دودھ نہیں جمتا
خواہ وہ ابل ابل کر
سرخ کیوں نہ ہوجائے۔
عدم!
جب مسجدوں سے
بھاگ نکلے،
تو آنکھوں نے
مقصود کو پالیا۔
کہ پڑھے بغیر پڑھا جارہا ہے۔
کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں
اور سنے بغیر سنا جا رہا ہے۔
اور دیکھے بغیر دیکھائی دے رہا ہے۔
درد مند یہ اشارے سمجھ گئے۔۔۔۔۔۔
اور بے درد ۔۔۔۔۔۔۔ اگر
اسکو نہ سمجھیں
تو وہ جائے بھاڑ میں
تو سنوں حمزہ میں جب سے رہبان بنا،
جب میں نے ماں سے پوچھا کے ماں اللہ کون ہے؟؟؟
ماں نے پیار سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ
لے کر بولی عدم مجھے دیکھ میں کون ہوں،
میرے دل نے...
''الستُ بربکم''؟ کی آواز سُنی
اور روح پکار اٹُھی: ''بلٰی''۔
اگر کوئی جان سکتا ہے تو جان لے،
خمیر کے بغیر دودھ نہیں جمتا
خواہ وہ ابل ابل کر
سرخ کیوں نہ ہوجائے۔
عدم!
جب مسجدوں سے
بھاگ نکلے،
تو آنکھوں نے
مقصود کو پالیا۔
کہ پڑھے بغیر پڑھا جارہا ہے۔
کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں
اور سنے بغیر سنا جا رہا ہے۔
اور دیکھے بغیر دیکھائی دے رہا ہے۔
درد مند یہ اشارے سمجھ گئے۔۔۔۔۔۔
اور بے درد ۔۔۔۔۔۔۔ اگر
اسکو نہ سمجھیں
تو وہ جائے بھاڑ میں
==================================
''۔۔کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔۔''
جس طرح سانس کااندر آنا منظور اور باہر جانا نامنظور، نئے خلیئوں کا بننا قبول اور پرانے خلیؤں کا بکھرنا مسترد اور صرف کچن کا بنانا، ٹوائلٹ کا ڈھانا موت۔ بلکل اسی طرح ہر وہ چیز جسے مائنڈ اپنی سہولت کیلئے دو میں تقسیم کر دیتا ہے، اس میں سے کسی ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کرنا بھی ہلاکت ہے۔
جب ہم دوسرے کو قبول نہیں کرتے ہیں تو دوسرا بھی ہمیں مسترد کر دیتا ہے۔ جب ہم دوسرے کو دوست سمجھتے ہیں تو وہ ہمیں عزیز جانتا ہے۔ جسطرح ہم اندر آنے والی سانس کو محبت سے خوش آمدید کہتے ہیں، باہر جانے والی سانس کو بھی اسی محبت سے واپسی کے انتظار میں وداع کرتے ہیں۔ ہم اپنے خلیؤں کی تعمیر و تخریب کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ اس عمل میں پڑنے والی کسی بھی رکاوٹ کو فوری طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے کچن جتنے دلکش ہوتے ہیں ٹوئلٹ بھی اتنے جاذب نظر ہوتے ہیں۔ ہم دونوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں، اسی لئے زندگی رواں دواں ہے، ہم جنہیں دو سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں تو ایک ہی ہے۔
مثلا ہماری اندر آنے والی سانس باہر جانے والی سانس سے الگ اور مختلف نہیں ہے۔ سانس وہی ہے، اندر آکسیجن دیتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتی ہے۔ اور باہر جاکر اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء میں چھوڑتی ہے وہاں سے پھر آکسیجن بھر کر تازہ ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے پھیپڑوں کا دورہ کرتی ہے اورپھر سے میں آکسیجن دیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کھانے سے پہلے جو غزا ہے، چبانے کے چند گھنٹوں بعد وہی فضلہ ہے۔ یہ سوچ انتہائی نا معقول ہے کہ ایک قبول تو دوسرا فضول ہے، یہ فضول قبول کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔ ہر بائی پراڈکٹ اصل میں پراڈکٹ ہی کاحصہ ہے۔ جب ہم ایک کو قبول اور دوسرے کو فضول قرار دیتے ہیں، پراڈکٹ منظور کر کے بائی پراڈکٹ مسترد کرتے ہیں، تو یہی فضول پراڈکٹ ہماری جان لے لیتی ہے۔
جب ہم کاربن ڈائی آلسائیڈ خارج نہیں کرینگے تو مزید آکسیجن بھی جزب نہیں کرسکیں گے، خارج نہ ہونے کی وجہ وہی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے جسم میں زہر بن جائیگی، دوسری مثال کا اخراج نہ ہونے پر بھی ہمارا جسم زہر آلود ہوجائے گا۔
جب ہم دوسرے کو مسترد کرتے ہیں تو براہ راست ہم پہلے کو بھی مسترد کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اصل میں تو وہ دونوں ایک ہی ہوتے ہیں، وہ تو مائنڈ نے اپنی نااہلی اور مجبوری کی وجہ سے انہیں الگ الگ مختلف اور متضاد کے طور پر پیش کیا، اس مقام پر ہمارے لیے صرف اتنا جاننا ضروری اور کافی ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمیں الگ الگ، مختلف اور متضاد دکھائی دیتی ہے وہ اندر آنے اور باہر جانے والی سانس کی طرح اصل میں ایک ہی ہے۔
ہر ایک بظاہر دو ہے، جبکہ ہر دو اصل میں ایک ہیں، محبت اور نفرت ایک ہی انرجی کے اظہار کے مختلف انداز ہیں، دکھ سکھ ایک ہی حالت کی مختلف صورتیں ہیں، مرد و عورت ایک ہی انسان کے دو مختلف شکلیں ہیں۔
ہر چیز، ہر جزبہ انرجی ہی کی کوئی نہ کوئی شکل ہے اور اسکی متضاد صورتیں اصل میں اسی انرجی کے اظہار کی مختلف سمتیں ہیں۔ ایک کو قبول کرکے ہم دوسرے کو بھی لامحالہ قبول کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں اصل میں ایک ہی ہیں لیکن مائنڈ کے جہان سے میں آکر ہم اسکا اقرار نہیں کرتے، اسی سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، اور ہم مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔
جس طرح ایک کو قبول کرکے ہم بلا واسطہ طور پر دوسرے کو قبول کر رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے کو مسترد کر کے ہم پہلے کا بھی استرداد کر دیتے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں، الگ الگ نہیں رہ سکتے۔ یہاں بھی ہم مائنڈ کے چکر میں آکر تسلیم نہیں کرتے، اس سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، ہم عزاب جھیلتیں ہیں، مائنڈ اسی ٹینشن میں سروے کرتا ہے۔
جسمانی معاملات میں تو ہم مائنڈ کے جھانسے میں نہیں آتے کہ اسکا مطلب ہماری فوری موت ہے تاہم دیگر تمام معاملات میں ہم اسکے جھانسے میں آئے بغیر نہیں رہتے کہ اس میں اس کی موت ہے۔ ان معنوں میں (Duality) کا مطلب انرجی کی دونوں صورتوں کو محض جاننا، ماننا تسلیم کرنا نہیں بلکہ کسی ایک کے ساتھ وابستہ، نتھی ہوجانا ہے۔ اسے اپنی شناخت کی بنیاد بناکر وہیں سے دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دینا ہے۔
یہ تو بلکل ایسے ہی ہوا جیسے ہم کہیں کہ ایک گائیں کا سر دھڑ دو مختلف حصے ہیں، ہم پچھلے حصے کے ساتھ ہوجائیں کہ وہ دودھ دیتا ہے جبکہ اگلے کی مزمت کریں کے ہر وقت گھاس کھاتا رہتا ہے۔ گائے کو دم سے پکڑ کر گھسیٹتے پھریں کہ صرف پچھلا حصہ ہمارا ہے جبکہ اگلے حصہ سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ اسطرح سے گھسیٹے جانے پرتو وہ مسکین سی گائے بھی ہماری پشت پر دولتی رسید کرتے ہوئے دم چھڑوا کر بھاگ کھڑی ہوگی۔
اس توہین پر تو ایک گائے ہماری یہ درگت بنا سکتی ہے تو ہماری ''خدائی'' صفت انرجی تقسیم کی تزلیل پر ہمارا کیا حشر کرتی ہوگی؟؟؟ کلی (ٹوٹل) انرجی خود ہمیں خدا بنا دیتی ہے، آسمانوں پہ پہنچا دیتی ہے۔ منقسم انرجی خود شیطان بن جاتی ہے، دنیا بھر میں رسوا کر دیتی ہے
جس طرح سانس کااندر آنا منظور اور باہر جانا نامنظور، نئے خلیئوں کا بننا قبول اور پرانے خلیؤں کا بکھرنا مسترد اور صرف کچن کا بنانا، ٹوائلٹ کا ڈھانا موت۔ بلکل اسی طرح ہر وہ چیز جسے مائنڈ اپنی سہولت کیلئے دو میں تقسیم کر دیتا ہے، اس میں سے کسی ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کرنا بھی ہلاکت ہے۔
جب ہم دوسرے کو قبول نہیں کرتے ہیں تو دوسرا بھی ہمیں مسترد کر دیتا ہے۔ جب ہم دوسرے کو دوست سمجھتے ہیں تو وہ ہمیں عزیز جانتا ہے۔ جسطرح ہم اندر آنے والی سانس کو محبت سے خوش آمدید کہتے ہیں، باہر جانے والی سانس کو بھی اسی محبت سے واپسی کے انتظار میں وداع کرتے ہیں۔ ہم اپنے خلیؤں کی تعمیر و تخریب کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ اس عمل میں پڑنے والی کسی بھی رکاوٹ کو فوری طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے کچن جتنے دلکش ہوتے ہیں ٹوئلٹ بھی اتنے جاذب نظر ہوتے ہیں۔ ہم دونوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں، اسی لئے زندگی رواں دواں ہے، ہم جنہیں دو سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں تو ایک ہی ہے۔
مثلا ہماری اندر آنے والی سانس باہر جانے والی سانس سے الگ اور مختلف نہیں ہے۔ سانس وہی ہے، اندر آکسیجن دیتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتی ہے۔ اور باہر جاکر اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء میں چھوڑتی ہے وہاں سے پھر آکسیجن بھر کر تازہ ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے پھیپڑوں کا دورہ کرتی ہے اورپھر سے میں آکسیجن دیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کھانے سے پہلے جو غزا ہے، چبانے کے چند گھنٹوں بعد وہی فضلہ ہے۔ یہ سوچ انتہائی نا معقول ہے کہ ایک قبول تو دوسرا فضول ہے، یہ فضول قبول کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔ ہر بائی پراڈکٹ اصل میں پراڈکٹ ہی کاحصہ ہے۔ جب ہم ایک کو قبول اور دوسرے کو فضول قرار دیتے ہیں، پراڈکٹ منظور کر کے بائی پراڈکٹ مسترد کرتے ہیں، تو یہی فضول پراڈکٹ ہماری جان لے لیتی ہے۔
جب ہم کاربن ڈائی آلسائیڈ خارج نہیں کرینگے تو مزید آکسیجن بھی جزب نہیں کرسکیں گے، خارج نہ ہونے کی وجہ وہی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے جسم میں زہر بن جائیگی، دوسری مثال کا اخراج نہ ہونے پر بھی ہمارا جسم زہر آلود ہوجائے گا۔
جب ہم دوسرے کو مسترد کرتے ہیں تو براہ راست ہم پہلے کو بھی مسترد کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اصل میں تو وہ دونوں ایک ہی ہوتے ہیں، وہ تو مائنڈ نے اپنی نااہلی اور مجبوری کی وجہ سے انہیں الگ الگ مختلف اور متضاد کے طور پر پیش کیا، اس مقام پر ہمارے لیے صرف اتنا جاننا ضروری اور کافی ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمیں الگ الگ، مختلف اور متضاد دکھائی دیتی ہے وہ اندر آنے اور باہر جانے والی سانس کی طرح اصل میں ایک ہی ہے۔
ہر ایک بظاہر دو ہے، جبکہ ہر دو اصل میں ایک ہیں، محبت اور نفرت ایک ہی انرجی کے اظہار کے مختلف انداز ہیں، دکھ سکھ ایک ہی حالت کی مختلف صورتیں ہیں، مرد و عورت ایک ہی انسان کے دو مختلف شکلیں ہیں۔
ہر چیز، ہر جزبہ انرجی ہی کی کوئی نہ کوئی شکل ہے اور اسکی متضاد صورتیں اصل میں اسی انرجی کے اظہار کی مختلف سمتیں ہیں۔ ایک کو قبول کرکے ہم دوسرے کو بھی لامحالہ قبول کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں اصل میں ایک ہی ہیں لیکن مائنڈ کے جہان سے میں آکر ہم اسکا اقرار نہیں کرتے، اسی سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، اور ہم مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔
جس طرح ایک کو قبول کرکے ہم بلا واسطہ طور پر دوسرے کو قبول کر رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے کو مسترد کر کے ہم پہلے کا بھی استرداد کر دیتے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں، الگ الگ نہیں رہ سکتے۔ یہاں بھی ہم مائنڈ کے چکر میں آکر تسلیم نہیں کرتے، اس سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، ہم عزاب جھیلتیں ہیں، مائنڈ اسی ٹینشن میں سروے کرتا ہے۔
جسمانی معاملات میں تو ہم مائنڈ کے جھانسے میں نہیں آتے کہ اسکا مطلب ہماری فوری موت ہے تاہم دیگر تمام معاملات میں ہم اسکے جھانسے میں آئے بغیر نہیں رہتے کہ اس میں اس کی موت ہے۔ ان معنوں میں (Duality) کا مطلب انرجی کی دونوں صورتوں کو محض جاننا، ماننا تسلیم کرنا نہیں بلکہ کسی ایک کے ساتھ وابستہ، نتھی ہوجانا ہے۔ اسے اپنی شناخت کی بنیاد بناکر وہیں سے دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دینا ہے۔
یہ تو بلکل ایسے ہی ہوا جیسے ہم کہیں کہ ایک گائیں کا سر دھڑ دو مختلف حصے ہیں، ہم پچھلے حصے کے ساتھ ہوجائیں کہ وہ دودھ دیتا ہے جبکہ اگلے کی مزمت کریں کے ہر وقت گھاس کھاتا رہتا ہے۔ گائے کو دم سے پکڑ کر گھسیٹتے پھریں کہ صرف پچھلا حصہ ہمارا ہے جبکہ اگلے حصہ سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ اسطرح سے گھسیٹے جانے پرتو وہ مسکین سی گائے بھی ہماری پشت پر دولتی رسید کرتے ہوئے دم چھڑوا کر بھاگ کھڑی ہوگی۔
اس توہین پر تو ایک گائے ہماری یہ درگت بنا سکتی ہے تو ہماری ''خدائی'' صفت انرجی تقسیم کی تزلیل پر ہمارا کیا حشر کرتی ہوگی؟؟؟ کلی (ٹوٹل) انرجی خود ہمیں خدا بنا دیتی ہے، آسمانوں پہ پہنچا دیتی ہے۔ منقسم انرجی خود شیطان بن جاتی ہے، دنیا بھر میں رسوا کر دیتی ہے
================================
''۔۔ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے۔۔''
مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،
تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔
ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔
کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔
ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔
اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟
ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔
اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،
تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔
ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔
کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔
ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔
اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟
ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔
اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
''
۔۔ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے۔۔''
مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،
تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔
ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔
کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔
ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔
اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟
ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔
اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،
تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔
ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔
کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔
ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔
اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟
ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔
اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
============================
No comments:
Post a Comment