منکر حدیث کون ہے؟

.
ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بہت سے محدثین نے مختلف حدیثوں کو رد کیا ہے تو کیا وہ سب بھی منکر حدیث نہیں ہوئے؟ یہ ایک فکری مغالطہ ہے جو حدیث کا انکار کرنے والے اصحاب کی جانب سے عوام الناس کو دیا جاتا ہے. علم کی دنیا میں ایسے اعتراضات وزن نہیں رکھتے. مثال کے طور پر امام بخاری کو بھی معاذاللہ وہ اپنے ساتھ منکرین میں ، اس استدلال سے جوڑنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے بھی لاکھوں احادیث کی قبولیت سے انکار کیا تھا. یہ فرماتے ہوئے، وہ اس حقیقت سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ امام صاحب کا قبول و رد کا معیار خود ساختہ تفسیر پر نہ تھا بلکہ ان متفقہ تحقیقی اصولوں پر تھا جن کا اشارہ میں نے اس پوسٹ کی ابتداء میں درج کر دیا ہے. لہٰذا ان کی اس علمی تحقیق کو انکار حدیث کے فلسفے سے تشبیہہ دینا علمی بد دیانتی اور بھونڈی سازش کے سوا کچھ نہیں. مسلمانوں میں منکر حدیث ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو یا تو حدیث کا مکمل انکار کر دے یا صرف حدیث کے قبول کا ڈھونگ کرے. وہ تمام رائج تحقیقی میعارات کو بالاۓ طاق رکھ کر پہلے لغت یا الفاظ سے کھیل کر ایک خود ساختہ تفسیر ایجاد کرے اور پھر اس تفسیر کو کلام اللہ جان کر اپنی من پسند احادیث کا انتخاب کر لے.
.
ستم یہ ہے کہ اخبار احاد کو بنیاد بناکر یہ عقلمند حدیث متواتر کا بھی انکار کردیتے ہیں. جو اپنے آپ میں قران حکیم ہی کی طرح دین کا قطعی ماخذ ہیں. اکثر کو تو احاد اور تواتر کا فرق تک نہیں معلوم. قولی یا عملی تواتر وہ ہے جو یا تو نسل در نسل بناء کسی اصولی اختلاف کے منتقل ہوا ہو یا اتنے ذرائع اور روایات سے ہم تک پہنچا ہو کہ اب اس میں شک کی معمولی گنجائش بھی نہ رہے. جیسے صلاہ، صوم وغیرہ مگر منکرین حدیث کے گروہ میں وہ لوگ بھی بکثرت نظر آتے ہیں جو چند بظاہر متنازع اخبار احاد کو بخاری و مسلم سے نکال کر تواتر کے انکار کی حماقت کرتے ہیں. پھر نماز، روزہ، حج، قربانی، معجزات، ملائکہ، جنات غرض ہر ہر دینی تعبیر کو لغت کا کھیل، کھیل کر ایسے ایسے معنی پہناتے ہیں کہ سر پکڑلیں. اس پر طرہ یہ کہ ان کے آپس میں بھی بہت سے گروہ ہیں جو 'صرف قران' سے دین کو سمجھنے کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں مگر دین کی بنیادی تعبیرات میں مشرق و مغرب کا فرق رکھتے ہیں. اگر آپ کو کسی حدیث (خبر احاد) کی صحت پر اعتراض ہے تو اس کی اسناد کے حوالے سے تحقیق کریں، اگر نہیں تو صحیح اسناد والی احادیث کو بھی درایت کے اصول پر پرکھا جاسکتا ہے. اہل علم نے ہمیشہ یہ کام کیا ہے اور انہیں کسی نے منکر حدیث نہیں کہا. اسکی تازہ مثال ہمارے وقت کے مقبول ترین محدث شیخ ناصر الدین البانی کی ہے، آپ نے صحیح بخاری سمیت کئی کتب پر تحقیق کر کے کچھ روایات کو ضعیف ثابت کیا ہے اور انہیں ہر مکتب فکر کے نمائیندہ علماء نے سراہا ہے. یہ تو علمی کام ہے، ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہنا چاہیئے مگر قبول و رد کے پیچھے من مانی لغوی تفسیر یا عقل پرستی کو بنیاد بنانا صریح گمراہی ہے.
.
حدیث کے ذخیرے کا جائزہ لیجیے تو وہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے.
ایک اجتماعی احادیث یعنی وہ اعمال جنکی حفاظت و ترسیل کا اہتمام رسول پاک (ص) نے
ویسا ہی کیا جیسا کے قرآن کا کیا گیا. ان اعمال کو نہ صرف رسول الله (ص) نے پوری
امّت کو کرکے دکھایا بلکے پورے معاشرے میں اسے قایم بھی کیا. جس طرح قران ایک نسل
سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا آیا ہے، ٹھیک ویسے ہی یہ اعمال بھی نسل در نسل منتقل
ہوۓ. نماز، زکات، حج، روزہ وغیرہ یہ تمام وہ اعمال ہیں جنہیں نبی پاک (ص) نے پورے
معاشرے میں قایم فرمایا اور ان کی ترسیل بنا کسی رکاوٹ کے ایک نسل سے دوسری نسل کو
منقل ہوتی چلی گئی. ان اجتماعی احکام کے بارے میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہونا
چاہیے اور ان کا انکار اتباع رسول کا صریح انکار ہے. دوسرا حصہ انفرادی احادیث کا
ہے، یہ پیارے رسول (ص) کے بارے میں ایک
قیمتی خزانہ ہے. ہر امتی کی محبت کا لازمی تقاضہ ہے کہ وہ نبی (ص) سے ثابت ہر قول
و عمل کو اپنی زندگی میں داخل کرلے. انفرادی احادیث کے زریعے حاصل معلومات محبت
رسول کی عکاس ہوتی ہیں. ان پر عمل کرنے والا اجر پاتا ہے لیکن نہ کرنے والا گنہگار
نہیں شمار ہوتا. جیسے خوشبو لگانا، ہر کام سے پہلے مسنون دعا پڑھنا وغیرہ. انفرادی
احادیث کے سلسلے میں چونکہ ہم راوی کی سند کے محتاج ہوتے ہیں، لہٰذا اس پر علمی
تنقید و تصویب کا کام علماء کے درمیان جاری رہتا ہے. دھیان رہے کہ اس علمی تحقیق
کے لئے روایت اور درایت کے اصولوں پر قایم حدیث کآ ایک مکمل فن موجود ہے اور اس
علم کے ماہرین ہی یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment