Tuesday, 4 March 2014

زلزلے آنے کا مقصد عذاب یا پھر آزمائش؟


زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیاعذاب دینا ہوتا ہے یا پھر آزمائش؟ 

 یہ وہ سوال ہے جو مسلمانوں میں خاصا مقبول ہے اور مختلف مولانا حضرات اس پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرہ فرماتے رہتے ہیں. میرے نزدیک زلزلے، طوفان، سیلاب جیسی قدرتی آفات دراصل فطرت کے مظاھر ہیں اور کائناتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں ہر صورت آنا ہی آنا ہے. ان کا آنا کسی عذاب یا آزمائش سے مشروط ہرگز نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ زلزلے ان دور دراز سیاروں پر بھی آتے ہیں جہاں زندگی موجود نہیں. سیلاب ان سمندروں کی تہوں میں بھی اٹھتے ہیں جہاں کوئی انسان نہیں بستا. طوفان ان صحراؤں میں بھی آتے ہیں جہاں کوئی زی روح سانس نہیں لیتا.
 یہ اور بات ہے کہ مومن کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہر آنے والی آفت یا پریشانی کو چاہے وہ کوئی زلزلہ ہو یا معمولی بخار، ایک آزمائش کی صورت میں دیکھتا ہے تاکہ صبر و شکر کو اپنا سکے. اسے یقین ہوتا ہے کہ اسکا رب زلزلے جیسی فطرتی مظاھر کو اپنی قدرت سے ٹال بھی سکتا ہے اور اسے اس میں مبتلا کرکے آزما بھی سکتا ہے. حضرت علی (رضی الله) سے منسوب ایک قول اسی کی ترجمانی کرتا ہے کہ اگر کوئی تکلیف تجھے خدا سے قریب کردے تو وہ تکلیف نہیں بلکے آزمائش ہے اور اگر کوئی تکلیف تمھیں خدا سے دور کردے تو وہ تکلیف نہیں عذاب ہے.
 رہی بات انبیاء کے ان قصوں کی جن میں نافرمان اقوام کو ان قدرتی آفات کے ذریعے الله نے عذاب میں پکڑ لیا ، وہاں جائزہ لیں تو معاملہ بلکل مختلف ہے. وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بستی پر سیلاب آیا تو اس میں اچھے برے سب پس گئے. بلکہ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ الله نیک افراد کو بد سے علیحدہ کر دیتا ہے اور انہیں عذاب کے وقت سے قبل اس علاقے سے نکال دیتا ہے جسے نوح اور لوط الہے سلام کا مشھور واقعہ. پھر وہ قدرتی آفات اپنے مقررہ وقت پر آتی ہیں اور
نافرمان بستی کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں.




====عظیم نامہ====




No comments:

Post a Comment