Wednesday, 5 March 2014

الحاد کا جائزہ - خدا کے وجود کو کیوں تسلیم کروں ؟



فلسفہ لادینیت کا تحقیقی جائزہ

 اور

 وجود باری تعالیٰ کے دلائل



اسد الله غالب کا ایک مشہور زمانہ شعر ہے

کچھ نہ تھا تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ؟

اہل علم انسان کو حیوان ناطق کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اسکی ایک واضح وجہ یہ ہے کہ انسان اور حیوان میں بے شمار اقدار مشترک ہیں. حیوان کھاتے پیتے ہیں، آرام کرتے ہیں .. ہم بھی کرتے ہیں. حیوان خوشی، درد، تکلیف محسوس کرتے ہیں .. ہم بھی کرتے ہیں. وہ جنسی تعلق قایم کرتے ہیں، قبیلوں میں رہتے ہیں .. ہم بھی یہی سب کرتے ہیں. وہ کہتے ہیں نا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہیں. تو وہ کونسی قدر ہے جو انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے ؟ علم و فلسفہ، مذھبی و لا دین سب اس سوال کا ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ عقل و شعور کی وہ عظیم نعمت ہے جسکے زریعے ایک عالم اسکے سامنے سرنگوں نظر آتا ہے. یہ عقل جہاں رکتی ہے وہاں ایک بت بن جاتا ہے. جہاں اس عقل کی جستجو رک جائے وہاں ایک بت خانہ تعمیر ہوجاتا ہے. اسکا مقدر مسلسل حالت سفر ہے. یہی تو اسکا اعجاز ہے اور یہی اسکا افتخار

کوئی شیخ، کوئی پیر، کوئی دانشور، کوئی سیاستداں، کوئی فلسفی، کوئی تحریک، کوئی مذھب اگر انسان کے اس عقلی سفر پر پابندی لگاتا ہے تو وہ دراصل اسکے شعوری ارتقاء کو روکتا ہے. اگر علم ، تحقیق، تنقید اور استدلال کی نفی کرتا ہے تو درحقیقت وہ انسان کو اسکے شرف سے محروم کرتا ہے. مکالمہ فہم و ادراک کے لئے ناگزیر ہے

غیب پر ایمان کا سادہ مطلب بنا دیکھے ایمان لانا ہے بنا سمجھے ہرگز نہیں. دنیا کے دیگر مذاھب اپنے پیروکاروں کو عقیدے کی افیون پلا کر انکے غور و فکر کی صلاحیت کو سلب کر لیتے ہیں. لیکن قرآن وہ واحد الہامی کلام ہے جو اپنے قاری کو تحقیق و تدبر پر ابھارتا ہے. وہ کہتا ہے ' افلا تعقلون ' (تم عقل کیوں نہیں استعمال کرتے؟) وہ کہتا ہے ' افلا یدبرون' (تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟) وہ اس انسان کو انسان ماننے تک سے انکار کرتا ہے جو اپنی عقل استمعال نہ کرے اور ایسے انسان کو بدترین جانور سے تعبیر کرتا ہے جو ساتھ ہی گونگا بہرہ بھی ہو. وہ دلیل پیش کرتا ہے اور جواب میں دلیل کا تقاضہ کرتا ہے. وہ اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید سے روکتا ہے. وہ کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو انجیل، تورات یا کوئی اور بڑی دلیل پیش کرو. وہ مکالمے کی فضا کو فروغ دیتا ہے اور جاہل کو بھی سلام کہہ کر چھوڑ دینے کو کہتا ہے. وہ غیر مذاھب کے خود ساختہ خداؤں کو بھی برا کہنے سے روک دیتا ہے. وہ زمین و آسمان پر غور کرنے کو عبادت بنا دیتا ہے اور تاریخ سے سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے.

دستک دو گے تو دروازہ کھولا جائے گا، سوال پوچھو گے تو جواب ملے گا. پوچھو گے نہیں تو سوال ختم نہیں ہوگا بلکہ لاشعور میں کہیں دفن رہے گا اور ایک تشکیک زدہ ایمان کا باعث بنے گا. ایک اندھا، بہرہ ، گونگا ایمان جو جب کسی دوسرے فلسفے کا سامنا کرے گا تو یا تو ہتھیار ڈال دیگا یا پھر جھنجھلاہٹ اور جذباتیت کے رستے راہ فرار ڈھونڈے گا. 


علمی قحط کے اس دور میں جب تدبر جرم قرار پایا ہے. جہاں تحقیق کی جگہ تقلید اور عقیدے کی جگہ عقیدت نے لے لی ہے. جب مذاھب نے مافیا کی صورت اختیار کرلی ہے. حتیٰ کہ وہ دین جسکا آغاز ہی لفظ 'اقراء'سے ہوا تھا ، اسکے نام لیوا بھی علمی دنیا کے سب سے نالائق بن گئے. لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی نوجوان نسل جو سائنسی اور مختلف مغربی فلسفوں کی موشگافیوں میں پلی بڑھی ہے ، وہ یا تو اپنے دین سے متنفر ہو کر لا دینیت کی جانب راغب ہوگئے یا پھر اپنی آنکھوں پر اندھی تقلید کا چشمہ لگا کر عقل و خرد کو طلاق دے بیٹھے. معمولی اختلاف پر انکی رگیں پھولنے لگتی ہیں اور آواز بلند ہوجاتی ہے. کاش وہ جان لیتے کہ آواز اونچی کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی دلیل کو مضبوط کرلیا جائے.

یقین اور تشکیک دونوں ہی تجسس کی گود میں پرورش پاتے ہیں. تجسس ہی وہ جذبہ ہے جو متلاشی حق کو شکوک کی گھاٹیوں سے گزار کر بلاخر اطمینان و یقین کی منزل پر پہنچا دیتا ہے. یہ ممکن نہیں کہ شعوری طور پر زندہ انسان تجسس سے خالی ہو. معرفت الہی بھی موروثی نہیں بلکہ شعوری دریافت کا نام ہے اور اسکا محرک تجسس ہی ہے. یہی تجسس جب الفاظ میں ڈھلتا ہے تو سوال بن کر ادا ہوجاتا ہے.

یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مسلم نوجوان نسل میں مقبول اسکالروں کی اکثریت آج روایتی مدرسوں کے فارغ التحصیل نہیں ہیں. ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر جاوید احمد غامدی تک، ڈاکٹر ذاکر نائیک سے لے کر شیخ احمد دیدات تک، مولانا مودودی سے لیکر پرفیسر احمد رفیق تک، یاسر قاضی سے لیکر نعمان علی خان تک. یہ سب اور بہت سے مزید مقبول اشخاص جو مسلم نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں وہ سب جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں. روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی روم کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہونگے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ ڈاکن کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا انکا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے. نتیجہ الحاد اور شکوک کی صورت میں برآمد ہوا

الحاد کے خد و خیال


اس وقت دنیا میں صرف دو ہی نظریات اور فلسفے پھل پھول رہے ہیں. پہلا دین اسلام جو مذہب کا مقدمہ پیش کر رہا ہے اور سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے. دوسرا فلسفہ لادینیت یعنی خدا کے انکار کا ہے ، یہ بھی روشن خیالی کے پردے میں اپنی پوری قوت سے پھل رہا ہے. ان دو فلسفوں کے علاوہ بقیہ جتنے بھی نظریات ہیں وہ یا تو منجمد ہیں یا پھر آھستہ آھستہ دم توڑ رہے ہیں اور ان دو فلسفوں میں سے کسی ایک کو اپنا رہے ہیں. بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر دہریت یا لادینیت کو اختیار کر چکے ہیں اور بیشمار منکرین خدا ایسے ہیں جو اسلام کی حقانیت کو پہچان کر اسے اپنی شناخت بنا چکے ہیں. میری ناقص راۓ میں آخری ٹکراؤ جسے مذہب اور دجالی قوتوں کا ٹکراؤ کہا جاتا ہے وہ انہی دونوں کے درمیان ہوگا. باقی بچے کھچے فلسفے محض تماشائی یا سپورٹنگ کریکٹر کا کردار ادا کریں گے. ضرورت ہے اس امر کی کہ مسلمان خود کو قرآن حکیم سے جوڑیں اور اسے پھیلانے کی کوشش کریں کہ صرف یہی لادینیت پر بند باندھ سکتا ہے

کہا فرعون نے خدا ہوں میں 
ڈارون بولا بوزنا ہوں میں

ہنس کر کہنے لگا میرا اک دوست
عقل ہرکس بقدر ہمت اوست


جس شخص نے بھی قران حکیم کو فکر و تدبر سے پڑھا ، اسکے لئے خدا کا تصور تصوراتی نہیں رہا بلکے ایک عقلی حقیقت بن کے اجاگر ہوگیا. قران کا خالق اس دین کی حقانیت پر اتنا پر اعتماد ہے یا یوں کہیئے کہ اتنا نازاں ہے کہ وہ انسانی عقل و شعور پر پہرے نہیں بٹھاتا بلکہ دعوت دیتا ہے غور و حوض کی. اسے پورا یقین ہے کہ جس کسی نے اس کتاب کا موطالع غیر جانبداری سے فہم کی روشنی میں کیا، اسکے لئے کوئی امکان نہیں کہ وہ خدا کے وجود کا منکر ہو سکے. الحاد اس وقت فروغ پاتا ہے جب ایک شخص دین پر تحقیق کا رستہ ترک کر دیتا ہے اور ارد گرد کے حالات و واقعات کو اسلام کی اصل سمجھ بیٹھتا ہے. وہ دین کا مقدمہ الہامی کتاب سے جاننے کے بجاے ، کسی مولوی صاحب کی ناقص سمجھ سے جاننا چاہتا ہے. اس غلط روش سے وہ الحاد کی جانب راغب ہوتا ہے اور اسے اپنی دریافت گردانتا ہے ، حالانکہ یہ اسکی عقلی خود کشی کا ثبوت ہے

 ایک مثال لیں، مجھے ہاکی اور باکسنگ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں لہٰذا میں اس کے بارے میں بات بھی نہیں کرتا. مجھے ایک خاص سبزی ناپسند ہے چنانچہ میں اسکا کوئی ذکر نہیں کرتا. مجھے کچھ سیاستدان اور لیڈر ظلم کی وجہ سے سخت برے لگتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ میں انکے بارے میں زیادہ بات کرنے سے اجتناب کرتا ہوں. مگر ملحدین یا منکرین خدا کا معاملہ عجیب ہے، یہ دعوا کرتے ہیں کہ مذھب جھوٹ یا شر پر مبنی ہے اور انہیں اس سے ذرا دلچسپی نہیں ! لیکن سارا سارا دن اور ساری ساری رات مذھب پر ہی بات کرتے رہتے ہیں. بات سیاست کی ہو یا سماجیات کی، سائنس کی ہو یا اخلاقیات کی .. یہ مذھب کو گھسیٹ لاتے ہیں. ہر مجرم کا جرم انہیں اسکی مذھبی وابستگی میں نظر آتا ہے. یوں لگتا ہے کہ ایک ملحد جتنا خدا کا ذکر کرتا ہے، اتنا ذکر توشائد ایک زاہد بھی نہیں کر پاتا. انسان کی نفسیات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اگر آپ زبان سے ایک بات کو شر کہیں ! اور پھر سارا وقت اسی شے کا راگ الاپتے رہیں تو درحقیقت لاشعوری طور پر آپ آج بھی اسی شے سے پوری طرح منسلک ہیں اور اپنی مخالفت یا تنقید یا ناپسندیدگی میں اپنے ہی آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں. اسے علم نفسیات کی اصطلاح میں 'گلٹی کانشیش (احساس جرم) ' کہا جاتا ہے.
.

آپ ملحدین سے الحاد کی تعریف پوچھ کر دیکھیے، بہت مشکل ہے کہ دو ملحد کوئی ایک تعریف آپ کے سامنے رکھ پائیں. کوئی خوش فہم ملحد اسے روشن خیالی کا نام دے گا تو کوئی مذہب کے خلاف مدافعت کا ! .. کوئی اسے عقل و شعور کی معراج بتاۓ گا تو کوئی اسے علمی انقلاب سمجھنے کے مرض میں گرفتار ہوگا. حقیقت یہ ہے کہ الحاد آج ایک خود ساختہ اور بند ذہن کے مذہب کی صورت اختیار کر گیا ہے. مذہب پر کیچڑ اچھالتے اچھالتے آج یہ خود ایک مذہب کا روپ دھار چکے ہیں. یہ صرف زبان سے دلیل کی بات کرتے ہیں مگر انکے کردار پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے. کسی نام نہاد جنونی مذھبی کی طرح ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہوجانا، گندی زبان کا استمعال کرنا، انسانیت کا صرف نام لینا مگر دوسرے انسانوں کی قابل احترام شخصیات کی تضحیک کرنا، دنیا کی ہر برائی کو زبردستی مذہب سے جوڑنا، الحاد پر کسی حوالے سے بھی تنقید نہ کرنا، صرف اپنے حق میں موجود کتابوں کا مطالعہ کرنا اور الہامی کتابوں پر تحقیق سے انکار کرنا، مکالمہ کی آڑ میں اپنی نفرت و بغض کا اظہار کرنا وغیرہ .. یہ سب آج کے ملحد کے خد و خال ہیں. 

ان کا حال یہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ کی مالا ایسے جپتے ہیں جیسے یہ ممالک ملحد ہوں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے. آج ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جو خود کو ملحد کہتا ہو اور دعا کریں کہ الله انسانیت کو انکا اقتدار نہ دکھاۓ. کیونکہ یہ تو ایسے تنگ نظر ہیں کہ جسکی کوئی مثال نہیں. تاریخ گواہ ہے کہ جوزف سٹالن اور مسولونی جیسے کتنے ہی ملحد ذہنیت کے افراد نے کروڑوں بیگناہوں کی جان لی مگر مذہب نے کبھی اس ظلم کا ناطا الحاد سے نہیں جوڑا. دوسری طرف ان ملحدین کا یہ حال ہے کہ یہ ہر سیاسی مقاصد پر کی گئی قتل و غارت کو بھی زبردستی مذہب سے جوڑ دیتے ہیں. آئین سٹائن ، نیوٹن جیسے ہزاروں لاکھوں سائنسدان گزرے جو خدا پر یقین رکھتے تھے اور جنہوں نے سائنس کو اسکی اصل بنیاد عطا کی مگر ہم نے کبھی سائنس کو دینیت اور لادینیت کی بحث میں نہیں الجھایا مگر انکا حال یہ ہے کہ آج جو سائنسدانوں میں ملحدین کی تعداد زیادہ ہے تو یہ پوری سائنس کو ہی اپنی ذاتی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں. سوچنا یہ ہے کہ آج تک انہیں اقتدار حاصل نہیں ہوا ہے تب یہ انسانیت کو اتنا نقصان پہنچاتے رہے ہیں، کہیں انہیں طاقت حاصل ہوگئی تو تنگ نظری کی وہ مثالیں قائم ہونگی جو انسان کو انسانیت کے شرف سے محروم کردیں.

یہ ممضمون اس امر کا تحقیقی جائزہ ہے کہ  وجود باری تعالیٰ کے متعلق دین اسلام کونسا عقلی و منتقی مقدمہ پیش کرتا ہے ؟
 
عمومی طور پر ہم کسی بھی واقعہ، شخصیت یا فلسفے کو جانچنے کے لئے  پانچ تحقیقی میعارات اختیار کرتے ہیں.  ان پانچ میں سے اگر کوئی ایک بھی صحت کے ساتھ ہم پر ثابت ہو جائے تو ہم اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں
.
١. فطرت کی گواہی
٢. عقلی  استدلال
٣. تاریخ کی شہادت
٤. معتبر گواہ
٥. قابل اعتبار ثبوت


میں ان پانچوں حوالوں سے وجود خدا اور دین کے مقدمے کو انشااللہ ثابت کروں گا اور آپ دیکھیں گے کہ کسی سلیم العقل شخص کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ اپنے خالق کا انکار کرسکے
  

فطرت کا تقاضہ


اس سے پہلے کہ ہم قرانی یا منتقی دلائل کو پیش کریں ، ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ کیا ہماری عقل و فہم  خالق کے وجود کا تقاضہ کرتی ہے ؟ کیا ہماری فطرت ایک برتر ہستی کے نظریے کوآگے بڑھ کر قبول کرتی ہے کیونکہ اگر ہماری فطرت میں یہ تقاضہ ہی موجود نہیں ہے تو پھر تو یہ ایسا ہے کہ ایک شخص کو پیاس نہ لگی ہو اور آپ زبردستی اسے پانی پلانے لگیں. ایسے میں اسکا جسم پانی اگل دیگا کیونکہ اس میں طلب ہی نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ کیا انسان میں ایک خالق کی پیاس ہے ؟ کیا اسکی فطرت اپنا پروردگار طلب کرتی ہے؟

تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایک برتر ہستی کے تصور کو تسلیم کیا ہے. ایک ثابت شدا چیز کو ثابت نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے رد کرنے والے سے استدلال طلب کیا جاتا ہے. انسانیت کی عدالت نے تاریخی اعتبار سے خدا کے وجود میں پیش کیۓ جانے والے مقدمے کو قبول کیا ہے، اب آپ لاکھ ان ثبوت و دلائل کا انکار کریں، اس تاریخی سچ کو بدلنے کی آپکی حیثیت نہیں ہے. یہ دعویٰ انسانیت نے ہر دور میں اجتمائی حثییت سے قبول کیا ہے،  اب اگر کچھ سر پھرے اٹھتے ہیں اور انسانیت کے اس متفقہ فیصلے کو رد کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جاۓ گا کہ استدلال پیش کریں . یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے انسان یہ خوب جانتا ہے کہ ممتا کا جذبہ ماں میں الہامی طور پر ودیعت شدہ ہے ، اسکا اظہار مختلف ماحول میں مختلف طریق سے ہوسکتا ہے مگر اس جذبے کا فطری ہونا سب کو قبول ہے. اسی طرح ایک خالق کا تصور ہمیشہ ہر ماحول میں انسانیت کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، اسے کبھی الله، کبھی خدا، کبھی پرماتما اور کبھی آسمانی باپ کہہ کر پکارا گیا. نام جو بھی دیں مگر ایک برتر ہستی کے تصور کو انسانیت نے ہمیشہ آگے بڑھ کر قبول کیا

خدا کا تصور صرف گردوپیش سے پیش نہیں ہوتا، الله کا تصور ہم محض تجربات و مشاہدات سے نہیں پاتے ، یہ ایک فکری مغالطہ ہے. حقیقت یہ ہے کے اس کی کونپل فطرت کی گود میں پروان پاتی ہے یہ اندر سے باہر کا سفر شروع کرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ  چاہے وہ امریکہ میں  پیدا ہوا ہو یا پاکستان میں ، چین سے تعلق رکھتا ہوں یا افریقہ کے زولو قبیلے سے .. وہ اپنے والدین سے بچپن میں یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ  مجھے کس نے بنایا ؟ یا میں کہاں سے آیا؟  . آپ اسے کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں  درخت سے توڑ لیا یا ایک فرشتہ ہمیں دے گیا یا  مارکیٹ سے خرید لیا. آپ اس بچے کو مطمئن کرنے کیلئے جو بھی جواب دیں، مگر اس کا یہ معصوم سوال اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ خدا کے وجود کی طلب انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے . انسانی رویوں پر کی جانے والی بہت سی تحقیقات ، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق بھی شامل ہے ، وہ سب یہی بتاتی ہیں کہ انسان میں فطری و جبلی طور پر ایسے داعیات موجود ہیں جو اسے ایک خدا پر ایمان رکھنے پر آمادہ کرتے ہیں. تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سخت ترین ملحد بھی انتہائی مشکل حالت میں بے اختیار ایک برتر ہستی کو پکار اٹھتا ہے

تو دل میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا 
بس جان گیا میں ، تیری پہچان یہی ہے

عقل کا استدلال






پس یہ تو ثابت ہوگیا کہ الله کے وجود کی پہلی گواہی، پہلا مطالبہ انسان کے اندر سے وقوع پزیر ہوتا ہے. اب ذرا اس بات کا بھی جائزہ لے لیتے ہے کہ کیا انسان کا عقلی تقاضہ بھی یہی ہے کہ ایک خالق کے تصور کو تسلیم کیا جائے؟ یا نہیں . اب میں  ایک کے بعد ایک کچھ عقلی تناظر پیش کرونگا، جنکا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرنے والا ہر شخص ضرور یہ جان لے گا کہ خالق کے وجود کو تسلیم کرنا نہ صرف فطرت کا تقاضہ ہے بلکہ عقل کی آواز بھی ہے

١. انسان کا جسمانی وجود 

میں جب کسی حضرت سے ملتا ہوں جو الله کے وجود کے منکر ہوں تو ان سے سوال پوچھتا ہوں کہ بھائی آپ کی آنکھوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ وہ ایک لمحہ سوچے بنا جواب دیتے ہیں کہ 'چیزوں کو دیکھنا' ... میں پوچھتا ہوں کہ آپ کے کانوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ فوری جواب ملتا ہے کہ 'آواز کو سننا' .. میں پوچھتا ہوں کہ یہ کہیے کے آپ کہ ہاتھوں کے وجود کا کا کیا مقصد ہے؟ جواب آتا ہے کہ 'چیزوں کو تھامنا' ..میں مزید استفسار کرتا ہوں کہ آپ کی ٹانگوں کے وجود کا کیا مقصد ہے؟ جھنجھلا کر کہتے ہیں کہ ' بھائی چلنا اور کیا ؟ !' .. میں آخری سوال پوچھتا ہوں کہ حضرت آپ کے اپنے وجود کا کیا مقصد ہے؟ ........... یہ وہ مرحلہ ہے جب میرا مخاطب پھٹی آنکھوں سے میری جانب دیکھتا ہے اور کچھ نہیں کہہ پاتا. لوگ پورا یقین رکھتے ہیں کہ ہر شے جس کا وجود ہے اس کا ایک مقصد ہے. لیکن اپنے وجود کے بارے میں خیال کرتے ہیں کہ وہ بغیر کسی مقصد کے اس دنیا میں موجود ہیں. یہ کیسی حماقت ہے؟

٢. انسان کا غیبی و نفسی وجود 

جب میں کہتا ہوں کہ فلاں کام 'میں' نے کیا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ 'میں' ہے کون ؟؟ ... کیا اس سے مراد میرا جسمانی وجود ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہو جو میرا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے اور میں اپنے ہاتھ یا پیر یا آنکھ سے محروم ہو جاؤں ؟ .. سوچنا یہ ہے کہ کیا پھر بھی میں 'میں' رہوں گا ؟؟ ... جواب ہے کہ بلکل رہونگا. میرے کسی حصے کے جسم سے الگ ہوجانے سے میری 'میں' کو کوئی فرق نہیں پڑتا. ثابت ہوا کہ یہ 'میں' میرا جسمانی وجود نہیں ہے بلکے یہ تو اس جسمانی ہیولے کے اندر چھپا کوئی نادیدہ روحانی وجود ہے جو مجھے 'میں' بناتا ہے. ہم اس وجود کا مشاہدہ نہیں کر سکتے لیکن ہماری اصل حقیقت یہی غیبی وجود ہے. جسطرح ہم اپنی اس چھپی ہوئی ذات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی اپنی 'میں' کے ہونے پر یقین رکھتے ہیں، اسی طرح الله کی ذات کا مشاہدہ بھی ہمارے ادراک سے باہر ہے مگر اس سے ہرگز یہ دلیل نہیں لی جاسکتی کہ وہ موجود نہیں ہے. بلکہ ہمارا اپنی غیبی وجود ، اس برتر غیبی وجود کے ہونے پر قوی دلیل ہے

٣. ارتقاء میں ذہانت 

کسی منکر خدا سے سوال کیجیے کہ بھائی یہ آپ کی ناک آپ کے چہرے پر کیوں واقع ہے؟ نظریہ ارتقاء کے اعتبار سے ایسا کیوں نہ ہوا کہ آپ کی یہ ناک مبارک آپ کے پیٹ یا گھٹنے پر نکل آتی ؟ یہ ہی کیوں ضروری تھا کہ اسکا وجود عین آپ کی آنکھوں کے نیچے اور منہ کے اپر یعنی ان دونوں کے درمیان واقع ہو؟ ... اس سوال کا جواب اس حقیقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ یہ دراصل ایک 'ذہانت بھرے ڈیزائن' کا نتیجہ ہے. ہم آنکھوں سے کسی شے کا جائزہ لیتے ہیں پھر ناک سے اسے سونگھ کر مزید جانتے ہیں اور پھر اگر اسے کھانے کے لائق پائیں تو منہ سے اسے چکھتے ہیں یا کھا جاتے ہیں. یہ خوبصورت 'ذہانت بھرا ڈیزائن' ایک ایسی ذہین ہستی کے وجود کا واشگاف اعلان کر رہا ہے جس نے اسے سوچ سمجھ کر وجود بخشا ہے. -- بس وہی خدا ہے.

یاد رکھیں انسان لاکھ غلطیاں کر کے بھی انسان رہ سکتا ہے مگر خدا ایک غلطی کر کے خدا نہیں رہ سکتا. وہ ہر طرح کی کوتاہی سے پاک ہے. قرآن الله کا قول ہے اور سائنسی دریافت الله کا فعل. کسی بھلے آدمی کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوا کرتا پھر الله رب العزت کے قول و فعل میں تضاد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

٤. کائنات کی تکوین 

گلاس کو زمین یا دیوار پر دے ماریں، وہ دھماکے سے کرچی کرچی ہوکر زمین پر بکھر جائے گا. آپ ایسا ایک بار کیجیۓ یا ہزار دفعہ، نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا. ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ گلاس خود بخود ٹوٹ کر پلیٹ یا چمچوں کا روپ دھار لے. ایسا تو صرف اسی صورت ممکن ہے جب اس دھماکے کے پیچھے کوئی ذہانت یا صاحب عقل ہو، جو اسے منظم کرکے اسکی صورت گری کرے. یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ دھماکے کا نتیجہ ہمیشہ تخریب کی صورت میں نکلتا ہے ، اس کے زریعے خود بخود ترتیب و تعمیر ممکن نہیں ہو سکتی. پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج سے کروڑوں سال قبل بگ بینگ نامی ایک دھماکہ ہو جس سے ہماری یہ عظیم الشان کائنات اور اسکا ناقابل یقین نظم خود بخود وجود میں آگیا ہو ؟ لازم ہے کہ اس عظیم دھماکے کے پیچھے بھی ایک عظیم تر ذہانت موجود ہو. قران اور سائنس دونوں بگ بینگ کے نظریے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں مگر کسی منکر خدا اور مومن میں فرق یہ ہے کہ ایک فریق اندھے بہرے مجنون مادے کی خدائی کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرا فریق برتر ذہانت والے مسبب الاسباب خدا کے نظریے کو مانتا ہے. ملحد کا دعوا یہ ہوتا ہے کہ گلاس ٹوٹ کر خود بخود ڈنر سیٹ بن سکتا ہے، جبکہ مومن کہتا ہے کہ گلاس کو ڈنر سیٹ بنانے کے لئے ذہانت درکار ہے.

یہ زمین یہ فلک ان سے آگے تلک
جتنی دنیائیں ہیں ، سب میں تیری جھلک

٥. تحریر شدہ خلیات  

ایک تجربے کے طور پر سیاہی کو کسی بھی سادہ کاغذ پر بکھیر دیجیۓ، یہی عمل آپ ہزار دفعہ دوہرایں، ممکن ہے کہ ہر بار ایک بھدا سا نشان پڑ جائے. یہ بھی امکان ہے کہ کسی وقت ایک جاذب نظر نقش ابھر آئے، جیسے کوئی ایبسٹریکٹ آرٹ کا نمونہ. مگر اس بات کا سرے سے کوئی امکان نہیں کہ اس سیاہی کو بکھیرنے سے کوئی تحریر وجود میں آجاۓ. یہ نہیں ہو سکتا کہ محض سیاہی کو پھینکنے سے کسی زبان کا مضمون تشکیل پاجائے. ثابت ہوا کہ امکانی یا حادثاتی قسمت سے یہ تو پھر شائد کسی کمتر درجے میں ممکن ہو کہ ایک دلکش نقش دکھائی دینے لگے مگر یہ ناقابل یقین ہے کہ کسی حادثے یا اتفاق کے نتیجے میں ایک تحریر یا معلومات پیدا ہو سکیں. اب ذرا اس سائنسی حقیقت پر غور کریں کہ ہمارا جسم جن لاکھوں کروڑوں خلیات پر مبنی ہے، ان میں سے ہر خلیہ اپنے اندر ایک معلومات کی ضحیم کتاب رکھتا ہے، جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ وہ انسان کیا رنگ رکھے گا؟ کیا رویہ اپناۓ گا ؟ اسکے خد و خال کیسے ہونگے ؟ وغیرہ. جس طرح انسانوں نے کمپیوٹر کے لئے مختلف کوڈ ایجاد کر رکھے ہیں، اسی طرح ہمارے ان خلیات میں ہمارے خالق نے ایسے کوڈ قدرتی طور پر ڈال رکھے ہیں جو آپس میں نہ صرف گفتگو کرتے ہیں بلکہ اسکے زریعے مختلف جسمانی حرکات انجام دیتے ہیں. سائنسدان اس طرح کے کوڈ کو - ڈی این اے کوڈ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں. سمجھنے والوں کے لئے یہ ایک واضح نشانی ہے کہ اس ذہین ترین نظام کو چلانے والی ایک برتر ذہانت موجود ہے.

٦. عقل کا ہونا عاقل خالق کی گواہی 

ایک سوال اور ذہن پر دستک دیتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا محض اجزاء کی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل ، ذہین اور باشعور وجود کا بن جانا ممکن ہے ؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ممکن ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم مردہ انسانی اجزاء کو آپس میں جوڑ کر ایک جیتا جاگتا عاقل وجود کھڑا کر دیں ؟ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ باوجود تمام تر علمی دریافتوں کے، ہم ایک باشعور وجود تو درکنار محض زندگی پیدا کردینے سے بھی قاصر ہیں. یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خود بیشمار تخلیقات کی ہیں ، جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹر یا روبوٹ وغیرہ. مگر ان تمام ذہین تخلیقات میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کو ذہین بنانے کے لئے اس میں ذہانت باہر سے ڈالنی پڑتی ہے، یہ اندر سے نہیں پھوٹتی. دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور یہ صرف اجزاء کی ترتیب سے ازخود حاصل نہیں ہوسکتی. کمپیوٹر کی مثال لیجنے ، آپ اس کے بیرونی اور اندرونی اجزاء کو جوڑ کر اسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت ڈالنے کے لئے آپ کو لازمی ایک جدا سافٹ وئیر کو انسٹال کرنے کی ضرورت ہو گی. محض ہارڈ وئیر کو ترتیب دے لینے سے یا اس میں برقی توانائی کے بہاؤ سے آپ 'ذہانت' نہیں پیدا کرسکتے. انسانی جسم کی ترتیب کا بھی یہی معاملہ ہے ، آپ حد سے حد جسمانی و کیمیائی اجزاء کو ہارڈ وئیرکی طرح یکجا کرسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ نفس (سول) نام کا سافٹ وئیر منطبق کیا جاۓ. اسکے علاوہ کسی اور راۓ کا اظہار محض حقیقت سے فرار ہے. کمپیوٹر ایک زہین تخلیق ہے اور وہ اپنے وجود سے یہ منادی کر رہی ہے کہ میرا تخلیق کار  انسان ایک عظیم تر ذہانت کا مالک ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نامی یہ زہین مخلوق بناء کسی خالق کے خود بخود وجود پا جائے؟

٧. غیر فانی طاقت کا عقلی اعتراف 

لطف کی بات یہ ہے کہ ملحدین سائنس کے قانون توانائی (لاء آف تھرمو ڈائیںمکس) کو بڑے زور و شور سے مانتے ہیں، جس کے حساب سے توانائی کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے. سادہ الفاظ میں توانائی غیر فانی ہے. لیکن اگر کہیں غلطی سے کوئی یہی صفات خدا کے نام سے بیان کردے تو سمجھیں قیامت آگئی. مومنین اور منکرین خدا کی جماعت میں بس اتنا فرق ہے کہ ایک  مجنون مادے یا توانائی کی خدائی کو تسلیم کرتا ہے اور دوسرا فریق برتر ذہانت والے مسبب الاسباب کی خدائی کا قائل ہے. ملحد کا دعوا یہ ہوتا ہے کہ گلاس ٹوٹ کر خود بخود ڈنر سیٹ بن سکتا ہے جبکہ مومن کہتا ہے کہ گلاس کو ڈنر سیٹ میں ڈھالنے کے لئے ذہاںت لازمی درکار ہے.

٩. حاضر کو دیکھ کر غیب پر یقین  

ہم ایک تصویر کو دیکھتے ہیں اور ایک مصور ہونے کا ہمیں یقین ہوجاتا ہے حالنکہ ہم نے مصور کو نہیں دیکھا ہوتا. ہم ایک گھر کو دیکھتے ہیں اور اسکے معمار کے وجود پر بناء دیکھیے ایمان لے آتے ہیں. الیکٹران، پروٹون جیسی بے شمار سائنسی حقیقتیں ایسی ہیں جن کا ہم نے آنکھ سے مشاہدہ نہیں کیا بلکہ علمی طور پر سمجھا ہے. اسکی ایک بڑی مثال کشش ثقل کی ہے، کشش ثقل کو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں دیکھا مگر اسکے اثرات کا جائزہ لیکر ہم پورے اطمینان سے اسے ایک سائنسی حق تسلیم کرتے ہیں. عقل محسوس سے غیر محسوس کا استنباط کرتی ہے، حاضر سے غیر حاضر کا سراغ پالتی ہے



 ١٠. مخلوق میں مقصدیت

گاۓ چارہ کھاتی ہے ہرا ، اس سے اسکا خون بنتا ہے لال ، پھر وہ گوبر کرتی ہے پیلا ... وہ چارہ میرے کسی کام کا نہیں، وہ خون میرے لیے شریعت میں حرام اور وہ گوبر اپنے اصل میں میرے لئے نجس ! .... یہ میرا پروردگار ہے جس نے اس حرام اور نجس کے بیچ میرے لئے دودھ کی صاف اور پاک فیکٹری لگا رکھی ہے. ذرا سوچیے ! مچھلی کے بچے کو تیرنا کس نے سکھا دیا ؟ سانپ کا سنپولا رینگنا کیسے سیکھ گیا ؟ ایک مرغی کا چوزا انڈے کے خول میں دوڑنا بھاگنا کیسے جان گیا ؟ ایک ناپاک پانی کے قطرے سے جیتا جاگتا باشعور انسان کیسے اٹھا کھڑا ہوتا ہے؟ ایک ماں کے سینے میں بچے کے پیدا ہوتے ہی دودھ کیسے اتر آتا ہے؟  آپ شیر کو گھانس دیں ، وہ کبھی نہیں کھاےگا. آپ بکری کو گوشت پیش کریں ، وہ صاف منہ پھیر لیگی کہ میرا پرہیز ہے. شیر کو گوشت دیں وہ کھاے گا ، بکری کو گھانس دیجئے وہ کھاے گی. انہیں یہ سمجھ کون سمجھا گیا ؟ اس کائنات کا زرہ زرہ زبان حال سے گواہی دے رہا ہے کہ

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے .. وہی خدا ہے 
دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے .. وہی خدا ہے


١١. سائنس کا دائرہ کار

مثال لیں کہ آپ کی والدہ نے آپ کے لئے بہت محبت سے ایک کیک بنایا. فرض کیجیئے کہ آپ اس کیک کو سمجھنے کیلئے کسی سائنسی ماہر سے رجوع کرلیتے ہیں. وہ کیک کے مادی و ظاہری وجود کا باریکی سے تجزیہ کرے گا اور بتا دے گا کہ اس میں کون کون سے اجزاء استمعال ہوئے ہیں، ان کا آپس میں تناسب کیا ہے؟ ان اجزاء میں کون سی چیز پہلے اور کونسی بعد میں شامل کی گئی ہے وغیرہ. مگر کیا وہ کبھی یہ بتا سکتا ہے ؟ کہ اس کیک کو بطور تحفہ پاکر آپ کے اندرونی احساسات کیا تھے؟ یا اس کیک کو بناتے ہوئے ایک ماں کی ممتا اس میں کیسے شامل رہی ؟ .. ایک انسان کے وجدانی وجود کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوسکتی ہے ؟ کہ کوئی ممتا کے اس پاکیزہ جذبہ کو محض ایک 'میکانکی کیمیکل ری ایکشن' کا نام دے دے. سائنس مادی علوم کا مجموعہ ہے ، یہ اس وقت تک معتبر رہتی ہے جب تک اس کا دائرہ مادی اشیاء تک ہی محدود رہے. جب بھی یہ اپنی حدود سے تجاوز کرے گی تو بھٹک کر غلط نتائج برآمد ہونگے. وجود باری تعالیٰ ، روح، ملائکہ یہ سب مادی کائنات سے تعلق رکھ کر بھی ان میں شامل نہیں ہیں. ان سب پر سائنس یعنی مادی علوم کا اطلاق کرنا حقیقت سے دوری ہے


١٢. ایک ہی نقطہ آغاز

وجود کو عدد سے جدا نہیں کیا جاسکتا .. اعداد کا آغاز " ایک " سے ہوتا ہے .. یعنی وجود کا آغاز " ایک " سے ہوتا ہے .. " ایک " سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا .. اس کچھ بھی نہیں کو خیالی طور پر سمجھنے کے لئے ہم " صفر " کہتے ہیں .. " ایک " ہی سے نقطہ آغاز ہے .. " ایک " ہی سے سب کی ابتدا ہے ... " ایک " ہی ہمیشہ سے ہے
.
کچھ نہ تھا تو خدا تھا .. کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے .. نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا


آپ نے دیکھا کہ نہ صرف فطری بلکہ عقلی طور پر بھی اس کائنات اور ہمارے اپنے وجود کی توجیح صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم ایک برتر ذہانت والے رب کے تصور کو قبول کریں. یہ چند عقلی دلائل ہیں جو میں نے پیش کر دئیے ، اسی طرح بیشمار اور زاویے بھی ہیں جو میں طوالت کے پیش نظر نہیں لکھ رہا. اس یقین کے ساتھ کہ ہر سلیم الفطرت شخص کے لئے مندرجہ بالا عقلی استدلال بہت کافی ہیں

=================================================

مندرجہ بالا دلائل صرف خدا کے وجود کے ہونے پر وکالت کرتے ہیں اور کسی بھی سچے طالب حق کی تلاش کے لئے کافی ہیں. ان دلائل کو اسلام کے مقدمہ سے نہیں بلکہ محض فطری و عقلی استدلال سے وپیش کیا گیا ہے. مجھے امید ہے کہ اس مقام پر آپ کو ایک برتر ہستی یا خالق کی موجودگی پر کوئی شک باقی نہ رہا ہوگا. لیکن اگر اب بھی کوئی ذہنی اشکال ہے تو آگے پڑھنے کے بجاۓ اپر درج استدلال کو ایک بار اور غور سے پڑھیں اور پھر دیانتداری سے اسکے منتقی یا غیر منتقی ہونے کا فیصلہ کریں. مجھے یقین ہے کہ ہر صاحب  شعور ایک صاحب اختیار خالق کو ماننے پر خود کو راضی پاۓ گا. 

=================================================

اب ہم مزید زاویوں سے الله کی موجودگی کا جائزہ لیں گے اور اب آزادانہ استدلال اسلام کی جانب سے بھی پیش ہوگا. اک ملحد اور مسلم میں بس اتنا فرق ہوتا ہے کہ ملحد کے بقول "کوئی خدا نہیں" اور مسلم کے بقول "کوئی خدا نہیں سوا الله کے" ، آدھا ایمان تو ملحد و مسلم کا مشترک ہے، بس اب دوسرے حصہ کو پرکھنا ہے

جو 'لا' کہا، وہ 'لا' ہوا 
وہ 'لا' بھی اسمیں 'لا'ہوا 

جزو 'لا' ہوا ، کل 'لا' ہوا 
پھر کیا ہوا ؟ الله ہوا 

 نسل در نسل علمی تواتر

ہم بہت سی حقیقتوں کو نہ فطرت کی گواہی سے مانتے ہیں اور نہ ہی عقلی استدلال سے ، بلکہ ان تک ہم علمی تواتر سے پہنچتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ غالب ایک شاعرگزرا ہے اور  دیوان غالب ان ہی کا کلام ہے. ہم مانتے ہیں کہ افلاطوں ایک عظیم .فلسفی گزرا ہے ، اس نے 'دی ریپبلک' تصنیف کی تھی . ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکندر اعظم تاریخ میں ایک بہت بڑا فاتح . رہا ہے. کیا آپ نے کبھی سوچا ؟ کہ ہم میں سے کوئی بھی ان شخصیات سے نہیں ملا لیکن ہم انکے وجود اور پیغام پر یقین رکھتے ہیں. وجہ اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ انکی ذات و تعلیمات کی خبر ہم تک نسل در نسل متواتر پہنچی ہے. دین کا مقدمہ اور وجود خدا کی شہادت بھی ہم تک اسی اسلوب سے نسل در نسل پہنچی ہے. تاریخ ثابت کرتی ہے کہ الله اور اسکے کلام کی خبر انسانیت کو کسی ایک وقت میں کسی ایک آدمی سے نہیں ملی بلکہ پے در پے رسول ہر دور میں اور ہر علاقے میں معبوث ہوۓ جنکی صداقت کو انسانیت نے رنگ و نسل سے بلند ہو کر محض صداقت کی بنیاد پر قبول کیا

آپ سے پوچھوں کہ آپ کے دادا کے دادا کے دادا کے دادا اس دنیا میں کبھی موجود رہے ہیں ؟ تو آپ کا یقینی جواب ہوگا کہ ہاں موجود رہے ہیں، مگر کیا ہو اگر میں آپ سے اسکا ثبوت مانگوں ؟ کیا آپ کبھی ان سے ملے ہیں؟.. آپ کے پاس اپنے دعوی کی دو ہی  ممکنہ دلیلیں ہوسکتی ہیں. پہلی یہ کے آپ کا اپنا اس دنیا میں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کےدادا .کے دادا کے دادا بھی کبھی موجود رہے ہونگے. دوسرا یہ  کہ انکے وجود کی خبر آپ تک نسل در نسل ہوتی ہوئی اپ کے دادا اور والدین سے پہنچی ہے لہٰذا آپ پورے اطمینان سے انکے وجود کا یقین رکھتے ہیں. اسی اصول پر آپ اب وجود خدا اور دین کے عمومی مقدمے کو دیکھ لیں ، تخلیق کا موجود ہونا خالق کے ہونے پر دلیل ہے اور اس خالق کے پیغام کی گواہی چاہے وہ پیغمبر ہوں، صحیفے ہوں یا معجزات ہم تک نسل در نسل منتقل ہوتی آائی ہے

معتبر گواہ

الله عزوجل نے انسانیت کی تربیت کے لیے ہر دور میں اپنی الہامی کتاب نازل کی. ان کتابوں کا بنیادی مقدمہ ہمیشہ یکساں رہا. قران کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء کو عطا کیا گیا اور ہر کتاب ایک آنے والے آخری نبی کی بشارت دیتی رہی. وہ توحید کا عقیدہ ہو یا سزا و جزا کی خبر، وہ ملائکہ و جنات پر ایمان کا معاملہ ہو یا وحی و تقدیر پر ایمان کا تقاضہ. تمام ایمانیات اسی طرح سے سابقہ الہامی کتابوں میں درج ہیں جس طرح قران حکیم میں مذکور ہیں.
یہی معاملہ من و عن عبادات کے حوالے سے بھی ہے، لہٰذا سابقہ مذاہب میں تحریف کے باوجود آج تک نماز کے حوالے سے پرستش کا تصور موجود ہے، چیرٹی کے نام پر زکات و صدقات کی ترغیب ہو یا روزہ، قربانی و حج کی دیگر روایات، تمام تر مالی و بدنی عبادات اصولی سطح پر ہر نبی کی امت کو عطا کی گئی. یہ اور بات ہے کہ انکے اظہار کی حرکات و سکنات اور وقت کا تعین زمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف رکھا گیا ہے جو 
کے معمولی و ثانوی بات ہے

یہاں یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ دین کا اصل مقدمہ تمام تر تحریفات کے باوجود بھی اپنی اصل میں یکساں ہے. مگر کوئی بھی عدالت کسی مقدمے کو سمجھنے کے لئے معتبر گواہ  کا مطالبہ کرتی ہے. اسلام کا مقدمہ یوں تو سب ہی پیغمبروں نے پیش کیا لیکن معلوم تاریخ میں اسکے نمائندہ گواہ و مبلغ رسول عربی محمد صلی الله الہے وسلم ہیں. اب یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کیا انکی گواہی کردار و تعلیمات کے حساب سے معتبر ہے ؟


اگرغور کریں توکوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ صرف تین صورتوں میں ہی کر سکتا ہے. 

پہلا یہ کہ وہ کردار کے لحاظ سے  جھوٹا ہو. 
دوسرا کہ وہ ذہنی حوالے سے دھوکے زدہ ہو. 
اور تیسرا یہ کے وہ اس دعوے سے کوئی مال و رتبے کا حصول چاہتا ہو. 

جب ہم محمد (ص) کی حیات کہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں فوری معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ تینوں الزام آپ (ص) پر نہیں لگ سکتے.
پہلا اعتراض
 نبوت سے پہلے ہی تمام اہل مکہ آپ کو اس درجے میں سچا تسلیم کرتے تھے کہ آپ کا لقب ہی صادق اور امین رکھ دیا گیا. لہٰذا تاریخ و منطق کے حساب سے آپ ہرگز جھوٹے نہ تھے.
دوسرا اعتراض
جب آپ (ص) کے اکلوتے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو اسی وقت سورج گرہن ہو گیا، صحابہ نے کہا کہ یہ ضرور رسول (ص) کا معجزہ ہے. آپ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ نہیں !! سورج گرہن ایک قدرتی مظہر ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا کسی کی زندگی موت سے وابستہ نہیں ہے. اگر آپ (ص) کسی ذہنی دھوکے کا شکار ہوتے تو کبھی اس کی تردید نہ فرماتے.
تیسرا اعتراض
 یہ بھی سچ ہے کہ جب شدید مشکل کے دور میں سردار مکہ نے یہ پیشکش رکھی کہ وہ آپ کو حکومت دینے، مال و دولت دینے اور خوبصورت عورتیں فراہم کرنے کو تیار ہیں، بس شرط اتنی ہے کہ آپ دعوت دین ترک کر دیں تو آپ (ص) نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لا رکھو تو میں کلمہ حق کہنے سے باز نہ آؤں گا. جب آخر میں حکومت، شہرت اور طاقت حاصل بھی ہوئی تو آپ نے دانستہ اپنے لیے فقر یعنی غربت کا انتخاب کیا تاکہ کل کوئی انگلی اٹھا کر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ (ص) نے دین کی محنت مال و رتبے کے لیے کی. جو کوئی دیانت داری سے آپ کی زندگی کا جائزہ لےگا وہ آپ (ص) کی حقانیت کو ضرور جان لے گا.

معتبر شہادت/ثبوت

یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ گواہ کی قبولیت کے لئے اسکا قابل اعتبار ہونا ضروری ہے، جو الحمداللہ ہم نے اپر اختصار سے بیان کردیا. البتہ گواہ کے ساتھ ساتھ کوئی بھی عدالت ثبوت کا بھی تقاضہ کرتی ہے. یوں تو تمام الہامی کتابیں دین کے مقدمے کا ثبوت ہے مگر اس کی سب سے بڑی اور محفوظ شہادت قران حکیم ہے.

تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بہت سے افراد نے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا اور کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے میں بھی کامیاب رہے مگر رسالت کا جھوٹا دعوا کوئی نہ کر پایا. وجہ یہ ہے کہ رسول صرف پچھلے پیغمبروں کی تائید ہی نہیں کرتا بلکے ایک الہامی کتاب بھی پیش کرتا ہےکسی صحیفے یا کتاب کو خدائی کلام کہنا اتنی بڑی جرات اور ہمت کا کام ہے کہ کوئی فریبی اسکا ارتکاب نہیں کرسکتا. اگر کوئی کر بھی بیٹھے تو کامیاب نہیں ہو سکتا. لہٰذا رسول عربی محمد (ص) کے بعد جتنے بھی افراد دین کی تعبیر لے کر آے انہوں نے یا تو نبوت و رسالت کا دعوا سرے سے کیا ہی نہیں جسے کہ گرو نانک، گرو رجنیش اوشو، سائیں بابا وغیرہ یا پھر اگر دعوا کیا بھی تو رسالت کا نہیں بلکے نبوت کا جھوٹا دعوا کیا جسے کہ مرزا قادیانی، مسلمہ کذاب، بہاالدین بہائی وغیرہ.

اس کتاب کے الہامی ہونے کے اتنے دلائل ہیں کہ اگر مجھ جیسا ناقص العلم بھی اسے بیان کرے تب بھی ایک پوری کتاب اسی موضوع پر درکار ہو. لہٰذا یہاں قران کے صرف اسلوب و زبان کے حوالے سےمختصر اشارے کیۓ جاییں گے

سوره یٰسین کی چالیسویں آیت میں ارشاد ہے کہ " نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے۔ اور آسمان میں سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں" ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قران نے عربی کے جن الفاظ کا انتخاب کیا ہے وہ کچھ یہ ہیں "کل فی فلک .. یسبحون " .. غور کیجنے آپ "کل فی فلک" کو دونوں جانب سے پڑھیں گے تو ایک ہی جملہ بنے گا یعنی یہ الفاظ بھی تسبیح کے مدار کی طرح گھوم رہے ہیں (ک ل ف 'ی' ف ل ک). کیا یہ کسی انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ جملے میں اپنا ...مدعا بیان کرتے ہوے اس جملے کی عملی شکل بھی اس پیغام کے مطابق کردے؟ .. ایک اور مثال ملاحظہ ہو سوره مدثر کی تیسری آیت میں الله رب العزت نے محمد (ص) کو حکم دیا ہے کہ " اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو" .. خوبصورت بات یہ ہے کہ یہاں بھی جن الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ ہیں "ربک فکبر" .. دونوں جانب سے پڑھ کر دیکھ لیجیے ایک ہی جملہ وجود اور ایک ہی ترتیب وجود پزیر ہوگی. (ر ب ک 'ف' ک ب ر). یہاں صرف دو امثال بیان کی گئی ہیں ورنہ قران اپنی زبان اور اسلوب دونوں حوالوں سے عجائب کا خزانہ ہے

قرآن مجید میں اعداد کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے جو اس کلام کے الہامی ہونے کی دلیل ہے. قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ الہے سلام کی مثال بلکل حضرت آدم الہے سلام جیسی ہے. حیرت انگیز طور پر دونوں پیغمبروں کا ذکر پچیس پچیس بار آیا ہے. قرآن میں لفظ مرد یعنی 'رجل' کا ذکر چوبیس بار آیا ہے اور عورت یعنی 'امرا' کا ذکر بھی چوبیس بار آیا ہے. قرآن میں شیطان کا ذکر اڑسٹھ ٦٨ بار آیا ہے اور فرشتے کا ذکر بھی اڑسٹھ ٦٨ بار ہی آیا ہے. قرآن اس دنیا کی زندگی کا ایک سو پندرہ ١١٥ بار تذکرہ کرتا ہے اور آخرت کی زندگی کا بھی ایک سو پندرہ ١١٥ بار ذکر کرتا ہے. ہم میں سے ہر ایک بتا سکتا ہے کہ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں لیکن سوچنے کہ قرآن دن یعنی یوم لفظ کا استمعال پورے تین سو پینسٹھ بار کرتا ہے. قرآن پاک میں سورہ توبہ کی آخری آیات میں الله عزوجل نے صاف فرما دیا ہے کہ اس نے ہر ایک چیز عدد میں گن رکھی ہے. ہر باشعور انسان جو دیانت داری سے غور کرے، اسکے لئے کوئی اس کتاب کے الہامی ہونے سے انکار کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا

12 comments:

  1. Jazak Allah Khair Azeeb bhai .. Allah swt .. imaan o ilm main mazeed barhotri farmay.. Ameen

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ اور آپ کے لئے بھی یہی دعا. امید ہے کہ آپ اپنی آراء دیتے رہیں گے

      Delete
  2. Ma-sha-ALLAh.. such an exceptional work :)

    ReplyDelete
  3. Azeem Bhai....very good post. I really liked and enjoyed it. I pray May Almighty bless you more wisdom....
    You have given strong replies to atheists.....they have no grounds to deny Almighty....

    ReplyDelete
  4. انسان کا غیبی وجود.. آپ فرما رہے ہیں کہ کسی عضو کے نقصان اور کمی کے باجود "میں" میں ہی رہوں گا تو ثابت ہوتا ہے کہ "میں" جسمانی وجود نہیں بلکہ روحانی وجود ہے،
    اس طرح کیا پھر درخت سے لے کر جانوروں تک سب کا نام اس کی مادی ساخت نہیں بلکہ روحانی ساخت ہے ؟
    ان میں بھی کوئی نقص آنے کے باجود وہ وہی جانور یا وہی درخت کے نام سے جانے جائیں گے ؟
    مجھے اسی بات کو سمجھنے میں دقت ہورہی ہے ، باقی مشاء اللہ قابل فہم اور زبردست ہے.

    ReplyDelete
    Replies
    1. کی روحانی کیفیت سٹڈی نهی کی جا سکتی یعنی اندر کا انسان سٹڈی کرنے سے قاصر هے جس کی وجہ سے میٹیریلزم کے ساتہ یہ احتیار نهی که انسان کی اصلاح کے لیے قوانین مرتب کرے۰یہ بات تو عقل بہی مانتی ہے

      Delete
    2. کی روحانی کیفیت سٹڈی نهی کی جا سکتی یعنی اندر کا انسان سٹڈی کرنے سے قاصر هے جس کی وجہ سے میٹیریلزم کے ساتہ یہ احتیار نهی که انسان کی اصلاح کے لیے قوانین مرتب کرے۰یہ بات تو عقل بہی مانتی ہے

      Delete
  5. ماشاء اللہ بہت اعلیٰ لکھا ہے اللہ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔ آمین

    ReplyDelete
  6. بہترین اللہ آپ کو اس کا اجر عطاء کرے

    ReplyDelete