Sunday, 29 September 2019

حکایت

حکایت ہے کہ کسی درویش کے پاس ایک یونیورسٹی پروفیسر مہمان بن کر گیا. جاتے ہی اس نے چھپے طنز کے ساتھ سوال داغا "مجھے بتایئے کہ حکمت کیا ہے؟ "
.
درویش نے خاموشی برقرار رکھی اور تواضع کیلئے پروفیسر کے سامنے موجود پیالے میں چائے انڈیلنا شروع کی. کچھ ہی دیر میں پیالہ لبالب بھر گیا مگر درویش بدستور چائے مزید انڈیلتا گیا. چائے پیالے میں جانے کی بجائے اب چاروں طرف گرنے اور پھیلنے لگی. پروفیسر نے ابتداء میں ضبط کیا مگر پھر بلآخر چلا اٹھا. "ارے پیالہ لبالب بھرا ہوا ہے اور آپ پھر بھی چائے انڈیلے جارہے ہیں ! اس میں مزید چائے نہیں جاسکتی"
.
یہ سن کر درویش مسکرایا اور دھیمے لہجے میں مخاطب ہوا "ٹھیک کہتے ہو پروفیسر .. مگر اس پیالے کی طرح ... تمھاری ذات کا پیالہ بھی اپنے خیالات، فلسفوں اور قیاس سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ اب مزید اس میں کوئی گنجائش نہیں. میں اس وقت تک تمہیں حکمت سمیت کچھ بھی کیسے سیکھا سکتا ہوں؟ جب تک تم اپنا پیالہ کسی درجے خالی نہ کرلو؟"
.
دوستو ہم انسانوں میں بھی اکثر اپنی ذات کے پیالے کو خیالات و نظریات سے کچھ اس طرح لبالب بھر لیتے ہیں کہ پھر اس میں نئی تحقیقات، نتائج یا نظرثانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی. ہمیں ساری زندگی ایک طالبعلم کی حیثیت سے سیکھنا ضرور ہے مگر ساتھ ہی اپنی ذات کے پیالے کو کشادہ کرتے رہنا ہے. تاکہ کبھی بھی سیکھنے اور تصحیح کا عمل رک نہ سکے.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment