Sunday, 29 September 2019

استنبول - میری نظر سے (قسط دوم-ختم شد)

استنبول - میری نظر سے (قسط دوم-ختم شد)
=============================
۔
شام ہوتے ہوتے جسم دکھنے لگا. مشورہ آیا کہ کیوں نا ٹرکش حمام جایا جائے؟ استنبول کے ایک قدیم ترین حمام کا پتہ ہمیں معلوم ہوا، وہاں پہنچے تو ایسا لگا جیسے وقت کا پہیہ سینکڑوں سال پیچھے چلا گیا ہو. یہ زمین دوز حمام پرانے طرز تعمیر کا نمونہ تھا. مساج کیلئے پہلوان نما ترک مرد بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ ہمیں گھور رہے تھے. ایک لمحے کو دل چاہا کہ الٹے قدموں بھاگ لیں مگر کچھ تذبذب کے بعد حامی بھر لی. ستر ڈھانپنے کو ہمیں ایک بڑا تولیہ دیا گیا، جسے ہم نے سختی سے لپیٹ لیا اور برہنگی نہ ہونے کو یقینی بنایا. ہمیں ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا جہاں گرم پانی کے قدیم نلکے جاری تھے. چاروں طرف کسی لمبے برش سے جھاگ ہی جھاگ میں لپیٹ دیا گیا اور بیس پچیس منٹ بعد گرما گرم پانی کے کٹورے سر پر انڈیلے جانے لگے. جسم میں سکون اور درد دونوں محسوس ہورہا تھا. اس کے بعد ان پہلوان نما مردوں نے مساج کے نام پر وہ پہلوانی کی جو آپ نے انگریزی ریسلنگ میں بھی نہ دیکھی ہوگی. دائو پیچ سے کڑاکے نکل رہے تھے۔ ہم تینوں کو اس دوران ہنسی بھی آرہی تھی اور چیخیں بھی نکل رہی تھیں. بہرحال یہ جان لیوا مرحلہ بھی ختم ہوا اور ہم نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے واپس اپنے ہوٹل کی راہ لی. اگلے روز ایک اور اسلامک ہسٹری کا میوزیم دیکھا جہاں ایسے ایسے نوادرات دیکھنے کو ملے کہ حیرت ہونے لگی. رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی نشانیاں اتنے قریب سے دیکھنا فرحت کا سبب تھا. اسکے بعد ہم نے "بیسی لیکا سسٹرن" دیکھا. یہ سینکڑوں سال پرانا پانی کا ذخیرہ ہے جو استنبول شہر کے نیچے یعنی زمین دوز ہے. یہ چھٹی صدی میں رومن سلطنت نے قائم کیا تھا. اب اس پانی کے ذخیرے میں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں. یہاں دیومالائی داستان کی کردار 'میڈوسا' کے دو سر بھی ستونوں کے ساتھ نسب ہیں. کہتے ہیں کہ انہیں رومن سلطنت کے آخری ادوار میں یہاں منتقل کیا گیا تھا. 'میڈوسا' کی یونانی داستان بڑی دلچسپ ہے. جس کے مطابق میڈوسا عورت کی شکل کی ایک بلا تھی جس کے پر تھے اور جس کے سر پر بالوں کی جگہ سانپ لٹکتے تھے. جو اسے دیکھ لے وہ پتھر کا بن جاتا تھا. میڈوسا کا سر ایک یونانی ہیرو پرسیس نے قلم کردیا تھا. جو پھر بعد میں اس کے سر کو اپنی ڈھال سے لگا کر رکھتا اور دشمن کو پتھر کا بنا دیتا. کہانی طویل ہے مگر ایک وقت آتا ہے جب میڈوسا کا سر خود کو آئینے میں دیکھتا ہے اور خود پتھر کا بن جاتا ہے. یہی وہ پتھر کا سر ہے جو اس عمارت میں نسب ہے. ظاہر ہے کہ کہانی فرضی ہے مگر گریک متھولوجی کے شوقین لوگوں کیلئے یہ ایک تحفے سے کم نہیں. سسٹرن کی اس عمارت میں ہی ہم تین دوستوں نے سلطانی لباس اور تلواریں سنبھال کر کچھ تصاویر بھی کھنچوائی اور اس بچپنے میں ہمیں خوب مزہ آیا.
.
یہاں سے فارغ ہوکر ہم پتھر سے بنے "گلاٹا ٹاور" گئے. اس عظیم الشان عمارت کی اونچائی پر پہنچ کر پرانے استنبول کا نظارہ کرنا خوش کن تجربہ تھا۔ بگلے ہمارے آس پاس آکر بیٹھ رہے تھے. کچھ دیر بعد ہی ہم نے واپسی کی راہ لی. شام میں ہم نے ایک بحری جہاز کا ٹرپ بک کروا لیا تھا جو ہمیں خوش قسمتی سے کافی مناسب پیسوں میں دستیاب ہوگیا تھا. یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت جہاز تھا جو ہمیں آبی راستے سے پورا استنبول گھماتا رہا. جہاز کے اندر بہترین کھانے کا اہتمام تھا. طرح طرح کے پروگرام پیش کیئے جانے لگے جیسے سلطانی طرز کا ڈرامہ، روایتی رقص، تلوار زنی، میجک شو وغیرہ. سب سے عمدہ پروگرام صوفی رقص تھا، جس میں ایک صوفی نے پہلے سیاہ اور پھر سرخ رنگ کے کپڑوں میں پورے اہتمام سے گول گھوم کر ایک وجدانی رقص پیش کیا. پہلی بار اس صوفی رقص کا فلسفہ سمجھ آیا۔ میں جہاز کے اپر ڈیک پر چلا گیا اور کتنی ہی دیر استنبول کی مختلف تعمیرات دیکھتا رہا. رات دیر کو ہم تینوں دوستوں نے "تقسیم اسکوائر" جانے کا پلان بنایا جو بلاشبہ استنبول کی رونق کا نمونہ ہے. خوبصورت علاقہ، بیشمار دکانیں، روشنیاں، ان گنت لوگ ایک سحر سا پیدا کردیتے ہیں. یہاں ہم نے پہلی بار یہاں کا روایتی میٹھا "کنافا" تناول کیا، جس کا ذائقہ اسوقت بھی زبان پر محسوس ہورہا ہے. رات گئے یہاں گھومتے رہے اور پھر ہوٹل واپس آکر نڈھال سو گئے. صبح ناشتے کے وقت اپنے ایک مقامی دوست کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اسکی بحث ایک اور مقامی سے ہونے لگی. ہمارا دوست طیب اردگان کا پرزور حامی تھا اور دوسرا شخص اردگان کا پرجوش دشمن جو کہہ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے دھماکے ہورہے ہیں، سیاحت متاثر ہورہی ہے. جب کہ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ یہ دھماکے اردگان کو روکنے کیلئے کیئے جارہے ہیں جس نے اس معاشرے میں ایک بار پھر اسلامی اقدار بحال کی ہیں. میں نے خاموشی سے ان کی باتیں سننے اور سوالات کرنے تک خود کو محدود رکھا. ایک بزرگ خاتون ہاتھوں میں کچھ اخروٹ تھامے اسے بیچنے کی کوشش کررہی تھے، میں نے ان سے کچھ زیادہ دام دے کر وہ لے لئے تو انہوں نے میرا چہرہ تھام کر اتنی دعائیں دیں کہ دل خوشی سے بھر گیا. ہم نے اپنے اس دوست سے طے کیا کہ ہم کسی اور کو پیسے دینے کی بجائے تمہیں پیسے دیں گے، تم ہمیں اپنی گاڑی میں کچھ روحانی مقامات لے کر جاؤ. چانچہ ہم اسکے ساتھ روانہ ہوئے. سب سے پہلے وہ ہمیں 'یوسھا ہل ' لے گیا جو خاصی اونچائی پر ایک خوبصورت مقام تھا. یہاں ہم کچھ دیر قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوئے.
اس کے بعد ایک لمبی ڈرایو کرکے پڑوسی شہر 'آیوپ' گئے جہاں حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مدفون ہیں. فاتحہ پڑھی اور نماز بھی اسی مسجد میں ادا کی. دعاؤں سے فراغت کے بعد باہر علاقہ گھومنے لگے تو ہمارا مقامی دوست اچانک خوشی سے چلانے لگا. وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس نے کچھ اور پاکستانی دیکھے ہیں جو اردو بول رہے ہیں. اسے لگتا تھا کہ یہ ہمارے لئے نہایت خوشی کی بات ہوگی. بہرحال اسکے جذبے کو دیکھ کر میں اس کے ساتھ گیا تو وہ سبز پگڑیوں میں ملبوس دعوت اسلامی کے کچھ بھائی تھے. ان سے دعا سلام ہوئی اور ہم واپس گاڑی میں سوار ہوگئے. ہمارا یہ دوست ہمیں ایک بہت معروف دینی بزرگ محمد تقادی کے مزار پر لے گیا جہاں اردگرد خوبصورت پھول موجود تھے. ہم نے پھر فاتحہ پڑھی، کچھ دیر رکے اور واپسی کی راہ لی. اسکے بعد ایک نہایت خوبصورت مسجد گئے جسے سلطنت عثمانیہ میں تعمیر کیا گیا تھا. اس کا نام ہے 'سکولو محمود پاشا مسجد'. خوبصورت طرز تعمیر اور نقش و نگاری کے علاوہ یہاں حجر اسود کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی موجود ہے. مسجد کا وہ حصہ بند کیا جاچکا تھا مگر ہمارے دوست نے جب ہمارے بارے میں بتایا تو اس ترک بزرگ نگہبان نے ہمیں کچھ دیر وہاں جانے کی اجازت دے دی. حجر اسود کے اس ٹکڑے کو انگلی کے لمس سے محسوس کیا اور دعائیں کی. یوں ہمارا یہ سفر بھی ختم ہوا. استنبول کے دو بازار بہت مشہور ہیں پہلا ہے گرینڈ بازار اور دوسرا ہے اسپائس بازار. کافی دیر ہم دکانیں دیکھتے رہے، سودے بازیاں کرتے رہے اور مقامی تحفے تحائف خریدتے رہے. میں نے اپنے دوستوں کیساتھ خوبصورت نقوش والی کچھ پلٹیں خریدی. واپسی کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا ہم تینوں نے ہوٹل سے سامان اٹھایا اور ٹیکسی سے ائیرپورٹ کی راہ لی. ہمیں یقین نہیں آرہا تھا اور ہم ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے کہ صرف تین دنوں میں ہم نے اتنے سارے مقامات گھوم لئے. گو ابھی بھی کئی ایسے مقامات ہیں جن کا مضمون میں ذکر ہونے سے رہ گیا ہے.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment