استنبول - میری نظر سے (قسط اول)
=====================
.
میں کچھ عرصہ قبل ترکی جاچکا ہوں اور انطالیہ، الانیہ، ائیوسلار، انسیکم، پاموکالے جیسے علاقے گھوم چکا ہوں. میرا یہ فیملی ہولیڈے توقع سے زیادہ بہترین گزرا تھا مگر ایک کمی پھر بھی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے اس خوبصورت ملک کا وہ شہر اب بھی نہیں دیکھا تھا جو اسکی شان ہے یعنی استنبول. ترکی کی سرزمین اور عوام دونوں نے ہی میرا دل جیت رکھا تھا. پچھلے سال ہی جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ کیوں نا ترکی کا ٹرانزٹ ویزہ لے کر تین روز استنبول قیام کرتے ہوئے کراچی جاؤں؟ ٹکٹ دیکھا تو قیمت کا معمولی سا فرق تھا. فوری ارادہ کرلیا اور اپنے قریبی دوست سے جو لندن میں مقیم ہے، اس کا ذکر کیا. پلان سن کر اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کردی. نہ صرف وہ بلکہ ہمارا ایک اور مشترکہ انگریز دوست بھی پلان سن کر چلنے کیلئے راضی ہوگیا. چنانچہ استنبول کے ایک سلطانی طرز کے چھوٹے سے خوبصورت ہوٹل میں دو کمرے نہایت مناسب قیمت میں بک کروالیے گئے اور مقررہ دن پر ہم استنبول جاپہنچے. کیا ہی حسین اور منفرد شہر ہے استنبول ! ہزار سالہ اسلامی تاریخ جاننی ہو، خلافت عثمانیہ کا جاہ و جلال محسوس کرنا ہو یا پھر شاہی طرز تعمیر دیکھنا ہو. استنبول اپنی مثال آپ ہے. اسے مساجد کا شہر کہا جاتا ہے. جس طرف نظر کرو وہاں ایک سے ایک حسین مسجد قائم نظر آتی ہیں. سیاحوں کے اژدہام کے باوجود صفائی اور نظم و ضبط اپنے عروج پر دیکھائی دیتا ہے. مسکراتے ہوئے، مدد کیلئے تیار اور صفائی پسند ترک عوام سیاح کے تجربے کو مزید مثبت بنادیتے ہیں. ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، پارک .. جہاں بھی جاؤ ہر طرف خوبصورت بلیاں آزادانہ گھوم رہی ہیں. یوں لگتا ہے کہ مقامی باشندوں کو ان سے خاص انس ہے. کتوں کی بھی ایک اچھی تعداد آزادانہ گھوم رہی ہے، جن کے ساتھ گورنمنٹ نے ٹریکر لگا رکھے ہیں. یہ کتے دیکھنے میں ہرگز بھی آوارہ کتے نہیں لگتے بلکہ مہنگی نسل کے محسوس ہوتے ہیں. نہ جانوروں کو مقامی انسانوں سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی رہائشیوں کو ان جانوروں سے کوئی خطرہ. مسلم ملک ہونے کی بناء پر تمام کھانے حلال ہیں. مقامی ڈشوں میں ہمیں سب سے زیادہ پسند ان کا ایک روایتی میٹھا آیا جس کا نام "کنافے" ہے اور جسے چیز یعنی پنیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے. اسی طرح ان کی مٹھیاں جو ٹرکش ڈیلائیٹ کہلاتی ہیں مزیدار ہیں. خریداری کے حوالے سے اگر صحیح سودا کیا جائے تو قیمتیں مناسب ہیں. ترکی کے نقش و نگاری سے مزین برتن اور نہایت خوبصورت قمقمے خریداروں کے پیر جکڑ لیتے ہیں. دکانداروں کے ایجنٹ ہر مصروف چوک پر خریداروں کی تاک میں رہتے ہیں. ایک قالین فروش نے تو ہمارے دوست کی چڑ بنالی. ہم جہاں جاتے وہ مل جاتا اور لپک کر اسکے پاس جاپہنچتا. آتے جاتے ہر جگہ لوگ قہوے یا سیب کی چائے سے تواضع کرتے. مجھے سبز سیب کی چائے بہت پسند آئی جو میں پینے کا موقع نہیں چھوڑتا.
.
ممتاز سیاحی مقامات قریب قریب واقع ہیں. سب سے پہلے ہم نے 'ہیگیہ صوفیہ' کو دیکھا. یہ عظیم الشان عمارت اپنے آپ میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے. یونانی کاریگروں کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تعمیر دراصل اپنی ابتداء میں ایک چرچ تھا اور کہا مشہور ہے کہ اس نے فن تعمیر کی انسانی تاریخ کو بدل ڈالا. زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلافت عثمانیہ نے اسے مسجد میں تبدیل کردیا. محراب، منبر اور مینار اس میں شامل کردیئے گئے مگر ١٩٣٥ میں اسے عوام کیلئے ایک میوزیم کی طرح کھول دیا گیا. اس کے وسیع ہال میں کھڑے ہوکر انسان مبہوت رہ جاتا ہے کہ ایک جانب تو اللہ عزوجل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسم مبارک آویزاں ہیں اور ساتھ ہی مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور ملائک کی تصاویر بھی چھت پر نقش ہیں. یہاں سے نکل کر ہم دوسرے مقبول ترین سیاحی مقام 'بلیو موسق' یانی نیلی مسجد میں داخل ہوئے. اس مسجد کا حقیقی مگر غیرمقبول نام سلطان احمد مسجد ہے اور اسے عثمانی خلافت کے جاہ و جلال کے ساتھ سلطاں احمد نے 'ہیگیہ صوفیہ' کے بلکل سامنے تعمیر کیا تھا. یہ ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار مسجد ہے. اس کا ایک حصہ تمام سیاحوں کیلئے کھلا ہے مگر قانون ہے کہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جسم اور سر ڈھانک کر اندر داخل ہوں. اسی مسجد کا دوسرا حصہ نمازیوں کیلئے خاص ہے. ہم تینوں دوستوں نے وہاں نماز ادا کی. اپنے غیر مسلم دوست کو وضو اور نماز کا طریق سیکھایا.
.
دوسرے روز ہم نے تاریخی مقامات میں خلافت عثمانیہ کا شاید سب سے بڑا مظہر 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' دیکھا. یہ ایک عالیشان محل ہے جو عثمانی سلطانوں یا خلفاء کی چار سو سال تک رہائش گاہ رہی ہے. یہ چار بڑے آنگنوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ہے. باغ، فوارے، سپاہیوں کی رہائش گاہیں، خاندان سلطان کا گھر، حرم، خدمت گزاروں کنیزوں کے ٹھکانے، مشاورت کی زبردست جگہیں، عدالتیں اور بیت المال. اس محل میں اتنا کچھ ہے کہ اسکی تفصیل پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی جاچکی ہیں. 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' کا ایک حصہ میوزیم بنادیا گیا ہے جہاں وہ وہ اسلامی تاریخی نوادرات موجود ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں. اہل بیت سے لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین تک کی بیشمار استعمال شدہ چیزیں یہاں موجود ہیں. پھر وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کرتا مبارک ہو، تیرہ سو سالہ پرانا قران حکیم ہو، غلاف کعبہ ہو یا پھر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں. تاریخ کا ایک خزانہ آپ کا منتظر ہے. تلواروں کا سائز دیکھ کر بے اختیار مجھے ان اصحاب کی جسمانی قد و قامت کا اندازہ ہونے لگا. حضرت جعفر بن طیار ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اجمعین کی تلواریں مجھے بقیہ تلواروں سے دیکھنے میں زیادہ بھاری محسوس ہوئیں. ایک حیرت انگیز مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ کچھ برتنوں اور تلواروں پر جو صحابہ کے زیر استمال تھے یا صحابہ کے دور سے بہت قریب تھے، تصاویر بنی ہوئی تھیں. ان تصاویر میں زیادہ تر شبیہہ شیر، عقاب یا ڈریگن کی تھی. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہید دندان مبارک، موئے مبارک اور نقش قدم بھی یہاں موجود ہے. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نشانیاں جیسے آپ کا خط یا انگوٹھی مبارک بھی موجود ہے. قدیم قرانی نسخہ ہو یا دیگر تحاریر مجھے اعراب نظر نہیں آئے. اسی میوزیم کا ایک اور حصہ دیگر انبیاء کی نوادرات سے آراستہ ہے. جیسے حضرت یوسف الیہ السلام کی پگڑی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا !! ان کا یہاں موجود ہونا میرے لئے نہایت حیرت کا سبب تھا اور میرے ذہن میں شکوک پیدا ہونے لگے. میں نے ایک ایک کر کے کئی لوگوں سے وہاں اسکے بارے میں دریافت کیا کہ اگر انبیاء کے یہ ہزاروں سال پرانے نوادرات سچے ہیں تو انہیں کہاں سے ملے؟ اور اسکا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت تو ظاہر ہے مجھے کوئی نہ مل سکا مگر ایک صاحب علم سے یہ معلوم ہوا کہ خلافت عثمانیہ جب آدھی دنیا پر راج کررہی تھی تب ان نوادرات کو مصر اور حجاز سے یہاں لے آیا گیا. گویا یہ نوادرات مختلف حصوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور آج اسے ہم اس محل میں دیکھ پارہے ہیں. بات میں کتنا سچ ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے مگر بہرحال ان کے صحیح یا غلط دونوں ہونے کا امکان موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====
(جاری ہے)
=====================
.
میں کچھ عرصہ قبل ترکی جاچکا ہوں اور انطالیہ، الانیہ، ائیوسلار، انسیکم، پاموکالے جیسے علاقے گھوم چکا ہوں. میرا یہ فیملی ہولیڈے توقع سے زیادہ بہترین گزرا تھا مگر ایک کمی پھر بھی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے اس خوبصورت ملک کا وہ شہر اب بھی نہیں دیکھا تھا جو اسکی شان ہے یعنی استنبول. ترکی کی سرزمین اور عوام دونوں نے ہی میرا دل جیت رکھا تھا. پچھلے سال ہی جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ کیوں نا ترکی کا ٹرانزٹ ویزہ لے کر تین روز استنبول قیام کرتے ہوئے کراچی جاؤں؟ ٹکٹ دیکھا تو قیمت کا معمولی سا فرق تھا. فوری ارادہ کرلیا اور اپنے قریبی دوست سے جو لندن میں مقیم ہے، اس کا ذکر کیا. پلان سن کر اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کردی. نہ صرف وہ بلکہ ہمارا ایک اور مشترکہ انگریز دوست بھی پلان سن کر چلنے کیلئے راضی ہوگیا. چنانچہ استنبول کے ایک سلطانی طرز کے چھوٹے سے خوبصورت ہوٹل میں دو کمرے نہایت مناسب قیمت میں بک کروالیے گئے اور مقررہ دن پر ہم استنبول جاپہنچے. کیا ہی حسین اور منفرد شہر ہے استنبول ! ہزار سالہ اسلامی تاریخ جاننی ہو، خلافت عثمانیہ کا جاہ و جلال محسوس کرنا ہو یا پھر شاہی طرز تعمیر دیکھنا ہو. استنبول اپنی مثال آپ ہے. اسے مساجد کا شہر کہا جاتا ہے. جس طرف نظر کرو وہاں ایک سے ایک حسین مسجد قائم نظر آتی ہیں. سیاحوں کے اژدہام کے باوجود صفائی اور نظم و ضبط اپنے عروج پر دیکھائی دیتا ہے. مسکراتے ہوئے، مدد کیلئے تیار اور صفائی پسند ترک عوام سیاح کے تجربے کو مزید مثبت بنادیتے ہیں. ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، پارک .. جہاں بھی جاؤ ہر طرف خوبصورت بلیاں آزادانہ گھوم رہی ہیں. یوں لگتا ہے کہ مقامی باشندوں کو ان سے خاص انس ہے. کتوں کی بھی ایک اچھی تعداد آزادانہ گھوم رہی ہے، جن کے ساتھ گورنمنٹ نے ٹریکر لگا رکھے ہیں. یہ کتے دیکھنے میں ہرگز بھی آوارہ کتے نہیں لگتے بلکہ مہنگی نسل کے محسوس ہوتے ہیں. نہ جانوروں کو مقامی انسانوں سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی رہائشیوں کو ان جانوروں سے کوئی خطرہ. مسلم ملک ہونے کی بناء پر تمام کھانے حلال ہیں. مقامی ڈشوں میں ہمیں سب سے زیادہ پسند ان کا ایک روایتی میٹھا آیا جس کا نام "کنافے" ہے اور جسے چیز یعنی پنیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے. اسی طرح ان کی مٹھیاں جو ٹرکش ڈیلائیٹ کہلاتی ہیں مزیدار ہیں. خریداری کے حوالے سے اگر صحیح سودا کیا جائے تو قیمتیں مناسب ہیں. ترکی کے نقش و نگاری سے مزین برتن اور نہایت خوبصورت قمقمے خریداروں کے پیر جکڑ لیتے ہیں. دکانداروں کے ایجنٹ ہر مصروف چوک پر خریداروں کی تاک میں رہتے ہیں. ایک قالین فروش نے تو ہمارے دوست کی چڑ بنالی. ہم جہاں جاتے وہ مل جاتا اور لپک کر اسکے پاس جاپہنچتا. آتے جاتے ہر جگہ لوگ قہوے یا سیب کی چائے سے تواضع کرتے. مجھے سبز سیب کی چائے بہت پسند آئی جو میں پینے کا موقع نہیں چھوڑتا.
.
ممتاز سیاحی مقامات قریب قریب واقع ہیں. سب سے پہلے ہم نے 'ہیگیہ صوفیہ' کو دیکھا. یہ عظیم الشان عمارت اپنے آپ میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے. یونانی کاریگروں کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تعمیر دراصل اپنی ابتداء میں ایک چرچ تھا اور کہا مشہور ہے کہ اس نے فن تعمیر کی انسانی تاریخ کو بدل ڈالا. زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلافت عثمانیہ نے اسے مسجد میں تبدیل کردیا. محراب، منبر اور مینار اس میں شامل کردیئے گئے مگر ١٩٣٥ میں اسے عوام کیلئے ایک میوزیم کی طرح کھول دیا گیا. اس کے وسیع ہال میں کھڑے ہوکر انسان مبہوت رہ جاتا ہے کہ ایک جانب تو اللہ عزوجل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسم مبارک آویزاں ہیں اور ساتھ ہی مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور ملائک کی تصاویر بھی چھت پر نقش ہیں. یہاں سے نکل کر ہم دوسرے مقبول ترین سیاحی مقام 'بلیو موسق' یانی نیلی مسجد میں داخل ہوئے. اس مسجد کا حقیقی مگر غیرمقبول نام سلطان احمد مسجد ہے اور اسے عثمانی خلافت کے جاہ و جلال کے ساتھ سلطاں احمد نے 'ہیگیہ صوفیہ' کے بلکل سامنے تعمیر کیا تھا. یہ ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار مسجد ہے. اس کا ایک حصہ تمام سیاحوں کیلئے کھلا ہے مگر قانون ہے کہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جسم اور سر ڈھانک کر اندر داخل ہوں. اسی مسجد کا دوسرا حصہ نمازیوں کیلئے خاص ہے. ہم تینوں دوستوں نے وہاں نماز ادا کی. اپنے غیر مسلم دوست کو وضو اور نماز کا طریق سیکھایا.
.
دوسرے روز ہم نے تاریخی مقامات میں خلافت عثمانیہ کا شاید سب سے بڑا مظہر 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' دیکھا. یہ ایک عالیشان محل ہے جو عثمانی سلطانوں یا خلفاء کی چار سو سال تک رہائش گاہ رہی ہے. یہ چار بڑے آنگنوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ہے. باغ، فوارے، سپاہیوں کی رہائش گاہیں، خاندان سلطان کا گھر، حرم، خدمت گزاروں کنیزوں کے ٹھکانے، مشاورت کی زبردست جگہیں، عدالتیں اور بیت المال. اس محل میں اتنا کچھ ہے کہ اسکی تفصیل پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی جاچکی ہیں. 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' کا ایک حصہ میوزیم بنادیا گیا ہے جہاں وہ وہ اسلامی تاریخی نوادرات موجود ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں. اہل بیت سے لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین تک کی بیشمار استعمال شدہ چیزیں یہاں موجود ہیں. پھر وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کرتا مبارک ہو، تیرہ سو سالہ پرانا قران حکیم ہو، غلاف کعبہ ہو یا پھر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں. تاریخ کا ایک خزانہ آپ کا منتظر ہے. تلواروں کا سائز دیکھ کر بے اختیار مجھے ان اصحاب کی جسمانی قد و قامت کا اندازہ ہونے لگا. حضرت جعفر بن طیار ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اجمعین کی تلواریں مجھے بقیہ تلواروں سے دیکھنے میں زیادہ بھاری محسوس ہوئیں. ایک حیرت انگیز مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ کچھ برتنوں اور تلواروں پر جو صحابہ کے زیر استمال تھے یا صحابہ کے دور سے بہت قریب تھے، تصاویر بنی ہوئی تھیں. ان تصاویر میں زیادہ تر شبیہہ شیر، عقاب یا ڈریگن کی تھی. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہید دندان مبارک، موئے مبارک اور نقش قدم بھی یہاں موجود ہے. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نشانیاں جیسے آپ کا خط یا انگوٹھی مبارک بھی موجود ہے. قدیم قرانی نسخہ ہو یا دیگر تحاریر مجھے اعراب نظر نہیں آئے. اسی میوزیم کا ایک اور حصہ دیگر انبیاء کی نوادرات سے آراستہ ہے. جیسے حضرت یوسف الیہ السلام کی پگڑی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا !! ان کا یہاں موجود ہونا میرے لئے نہایت حیرت کا سبب تھا اور میرے ذہن میں شکوک پیدا ہونے لگے. میں نے ایک ایک کر کے کئی لوگوں سے وہاں اسکے بارے میں دریافت کیا کہ اگر انبیاء کے یہ ہزاروں سال پرانے نوادرات سچے ہیں تو انہیں کہاں سے ملے؟ اور اسکا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت تو ظاہر ہے مجھے کوئی نہ مل سکا مگر ایک صاحب علم سے یہ معلوم ہوا کہ خلافت عثمانیہ جب آدھی دنیا پر راج کررہی تھی تب ان نوادرات کو مصر اور حجاز سے یہاں لے آیا گیا. گویا یہ نوادرات مختلف حصوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور آج اسے ہم اس محل میں دیکھ پارہے ہیں. بات میں کتنا سچ ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے مگر بہرحال ان کے صحیح یا غلط دونوں ہونے کا امکان موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment