Sunday, 29 September 2019

ستارے



پرسکون رات میں آسمان پر بکھرے ستاروں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ان میں سے معلوم نہیں کتنے ہی ستارے ایسے ہیں جو سینکڑوں سال پہلے ختم ہوچکے ہیں؟ یہ میری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ مجھے آج بھی یہ ایسے نظر آرہے ہیں جیسے ان کا وجود باقی ہو. ثابت شدہ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ ہماری آنکھ کسی بھی شے کو اسی وقت دیکھ پاتی ہے جب روشنی اس شے سے نکل کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ کی پتلی سے واپس ٹکرائے. ہم بہت سے ستارے اور دیگر اجرام فلکی آج اس لئے دیکھ پاتے ہیں کہ وہ کسی زمانے میں ہم سے سینکڑوں ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر موجود ہوا کرتے تھے جن سے روشنی ٹکرا کر یا نکل کر آج جب واپس ہماری آنکھ تک پہنچی تو سینکڑوں سال روشنی پہنچنے کے اس سفر میں گزر گئے. اس دوران وہ ستارے یا اجرام فلکی مٹ چکے ہیں، تباہ ہوچکے ہیں، اپنا وجود کھو چکے ہیں مگر ہماری آنکھ آج بھی ان کی ہزاروں سال پرانی تصویر دیکھ رہی ہے. گویا ہم اس وقت اپنے "حال" میں کائنات کے دوسرے حصے کا "ماضی" دیکھ رہے ہیں۔
۔
زرا سوچیئے کہ اگر کوئی مخلوق ان دورافتادہ ستاروں پر مقیم ہو اور ان کی آنکھ سیارہ زمین اور اس میں آباد زندگی کو دیکھ سکتی ہو تو کیا عجب ہے کہ اسے آج زمین پر ڈائناسورز چلتے نظر آرہے ہوں؟ یا پھر جناح اور گاندھی تقاریر کرتے دیکھائی دیں؟ وہ آج کی تاریخ میں ہمارے ماضی کو دیکھ رہے ہوں گے۔ یعنی ہمارا حقیقی "ماضی" ان دیکھنے والو کیلئے ہمارا "حال" ہوگا اور ہمارا موجودہ "حال" ان دیکھنے والو کیلئے ہمارا "مستقبل" ! گویا جو ان کے نزدیک ہمارے ساتھ ابھی ہوا نہیں ہے بلکہ ہونا ہے وہ حقیقت میں ہمارے لئے ہوچکا ہے ! اس بات پر اپنے ایک پیارے دوست عمران شمشاد کا شعر یاد آگیا
۔
تم نے یہ ماجرہ سنا ہے کیا ؟
جو ہونا ہے ۔۔ ہوچکا ہے کیا ؟
۔
یہ جو تدبیر کررہا ہوں میں ۔۔
یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے کیا ؟
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment