چار بہترین پاکستانی ڈرامے
انڈین لوگ بڑے فلمی ہوتے ہیں، شائد اسی لئے انکی فلمیں مشہور ہیں؟
اور ہم پاکستانی بڑے ڈرامے باز ہوتے ہیں، شائد اسی لئے ہمارے ڈرامے زیادہ مشہور ہیں؟
.
آج ہم بات کریں گے ان ڈراموں کی ، جو روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کرتے ہیں.
.
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
.
صاحبو !
کہانی سننا اور کہانی سنانا غالباﹰ تاریخ انسانی کا سب سے قدیم اور سب سے محبوب مشغلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ افراد کی اکثریت کو اگر کوئی پیغام یا سوچ منتقل کرنی ہو تو کہانی سے موثر طریق دوسرا کوئی نہیں. شاعرانہ اسلوب گو کے پسند کیا جاتا ہے مگر اس سے پیغام اخذ کرنے والے بہت قلیل ہوتے ہیں. منطقی یا فلسفیانہ انداز کو تو اور بھی کم مخصوص طبیعتیں ہی سمجھ پاتی ہیں. لہٰذا آپ کی اپنی طبیعت سے یہ حقیقت میل کھائے یا نہ کھائے، لیکن بھائی اگر عوام الناس میں تبدیلی لانی ہے تو پھر کہانی سنانی ہے. اسی کہانی کو سنانے سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ڈرامہ نگاری ہے.
ہم آج آپ کو چار ایسے پاکستانی ڈراموں کا مختصر تعارف دے رہے ہیں جو فی الواقع آپ کی روحانی تربیت میں معاون ہوسکتے ہیں. تو دیر کس بات کی؟ چلیئے آغاز کرتے ہیں
.
چار: خدا اور محبت
===========
.
چوتھے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے رکھا ہے وہ جیو ٹی وی پر ٢٠١١ میں نشر ہونے والا ڈرامہ خدا اور محبت ہے. ہاشم ندیم صاحب کے لکھے اس ناول کو انجم شہزاد نے خوبی سے ڈائریکٹ کیا ہے. مجموعی اعتبار سے ہم اس ڈرامے کو شاہکار تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس کے کچھ سین ضرور ایسے ہیں جو انسان کی سوچ میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں اور معرفت کے کچھ سوالات کو جواب فراہم کرسکتے ہیں. یہ ایک ایسے امیر زادے کی داستان ہے جو ایک مولوی صاحب کی نیک دامن بیٹی سے عشق کر بیٹھتا ہے اور اس کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوتا ہے. اس لڑکے نے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر کیسے کیا؟ عبد کی محبت سے اٹھ کر معبود کی محبت تک کیسے پہنچا؟ یہ ڈرامہ اسی کی روداد ہے. اسی ڈرامے کا ایک سین میں نے اپلوڈ کردیا ہے، لنک اسکرین پر نظر آجائے گا اور یوٹیوب ڈسکرپشن میں بھی موجود ہے. دیکھ لیجیئے
.
تیسرا: میری ذات ذرہ بے نشاں
===================
.
احباب تیسرے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے جگہ دی ہے، وہ ہے میری ذات ذرہ بے نشاں. عمیرہ احمد صاحبہ کا یہ ناول بابر جاوید صاحب کی ڈائریکشن میں فی الواقع ایک بہترین ڈرامہ ہے. یہ ایک ایسی آزاد طبع ، سیکولر اور لبرل مائنڈ سیٹ رکھنے والی لڑکی کی داستان ہے جسے ایک آفرین نامی انسان سے محبت ہو جاتی ہے. آفرین خود بھی اس لڑکی سے بیحد محبت کرتا ہے اور نکاح کرنا چاہتا ہے مگر اس کے ماں باپ اس رشتے کے شدید مخالف ہوجاتے ہیں. بالخصوص اس کی متقی عبادت گزار والدہ ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ ان کی بہو ایسی آزاد خیال مغرب زدہ لڑکی بنے. مگر کیا کیجیے ان کی ایک نہیں چلتی اور بیٹا شادی پر مصر ہوجاتا ہے. شادی کی تیاریاں ہوتی ہیں لیکن شادی کے روز لڑکے کی ماں بہت عیاری سے ایک جال بچھاتی ہے اور اس لڑکی پر ایک اور لڑکے کے ساتھ بند کمرے میں بدکاری کرنے کا الزام لگا دیتی ہے. ظاہر ہے قیامت آجاتی ہے، لڑکی اپنی ہونے والی ساس کی جانب سے لگائی اس تہمت کو مسترد کرتی ہے. اس عالم میں آفرین اپنی ہونے والی بیوی سے کہتا ہے کہ اگر وہ سچی تو قران حکیم پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. وہ کہتی ہے ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھتی ہے کہ لڑکے کی ماں بھی قران پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اتنے حج کر چکی ہے نمازی پرہیزگار ہے، وہ کبھی قران پر جھوٹ نہیں بولیں گی. مگر یہ دیکھ کر وہ بت بن کر رہ جاتی ہے کہ اسکی ساس بڑے دھڑلے سے قران اٹھا کر جھوٹی قسم کھا لیتی ہے. قران کے اس اکرام میں یہ لڑکی قسم نہیں کھاتی اور یوں بدکاری نہ کرکے بھی ساری دنیا کے سامنے بدکار قرار پاتی ہے. لڑکی کی شادی زبردستی ایک خبیث النفس شکی بوڑھے سے ہوجاتی ہے. یہ صدمات اس لڑکی کی زندگی کو کیسے بدل دیتے ہیں؟ کیسے ایک دنیا پرست لڑکی خدا سے قریب اور عبادت گزار بندی بن جاتی ہے؟ کیسے جھوٹ بولنے والی وہ لڑکے کی ماں اپنے ایمان و عمل کو برباد کرلیتی ہے اور بلآخر بیٹے کو موت کے وقت بتا دیتی ہے؟ یہ سب واقعات دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں.
.
دوسرا: شہر ذات
===========
.
دوسرے نمبر پر ہے ڈرامہ شہر ذات. یہ بھی عمیرہ احمد ہی کی ایک عمدہ تصنیف ہے اور ہمارے نزدیک بجا طور پر شاہکار کہلا سکتی ہے. سرمد سلطان کھوسٹ نے اسے بھرپور انداز میں ڈائریکٹ کرکے چار چاند لگادیئے ہیں. یہ ایک مذہب بیزار بلکہ ملحدہ لڑکی کی داستان ہے. جو بیک وقت اسکی محبت کی روداد بھی ہے اور معرفت الہی کا سفر بھی. فلک ایک رئیس زادی ہے جو فائن آرٹ یعنی مجسمہ سازی کی طالبہ ہے. اسے مذہب وغیرہ سب قصے کہانی لگتے ہیں، وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کو سوچ کر ایک چہرہ بطور مجسمہ بناتی ہے. لیکن پھر ایک دن ٹھیک اسی صورت کا ایک وجیہہ مرد نظر آجاتا ہے. جس کی محبت میں وہ گرفتار ہوجاتی ہے. کوشش کے بعد اسکی شادی بھی اسی مرد سے ہوجاتی ہے. مگر پھر اسکی بے اعتنائی اور اپنے اندر کی خلش اسے پریشان کرکے رکھ دیتی ہے. وہ اپنے وجود کو سوچنے لگتی ہے، خدا کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے. وہ خدا کیلئے روتی ہے، چلاتی ہے، حالت ہیجان میں اپنی سوسایٹی اپنی ماں تک سے دست و گریباں ہوجاتی ہے. ایسے میں جابجا اسکے ساتھ روحانی وارداتیں ہوتی ہیں. بکریاں چرانے والی عورت سے لے کر ایک مجذوب تک کئی لوگ اسے ایسے ملتے ہیں جو اسے راہ خدا میں پکا کردیتے ہیں. وہ اپنی نانی سے ایک بار پھر قران سیکھتی ہے، نماز پڑھتی ہے. مزید آپ کو نہیں بتاتا کہ اس ڈرامے کا اصل لطف اسے دیکھنے میں ہی ہے سننے میں نہیں ! نہیں دیکھا تو ضرور دیکھیئے. میں نے اس ڈرامے میں موجود کچھ بہترین مناظر کو ایک کلپ میں یکجا کردیا ہے. اس کا لنک اسکرین پر بھی آجائے گا ورنہ یوٹیوب ڈسکرپشن میں لنک موجود ہے، دیکھ لیجیئے. لطف نا آجائے تو پیسے واپس
.
پہلا: منچلے کا سودا
=============
.
اول نمبر پر جو ڈرامہ ہے اس کے بارے میں آخر میں کیا کہوں ؟
اشفاق احمد صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ 'منچلے کا سودا' اور گلزار صاحب کی پیش کردہ فلم 'غالب' --- میں نہیں جانتا کہ میں کتنی بار دیکھ چکا ہوں اور جانے کتنی ہی بار پھر دیکھنا چاہوں گا. اگر آپ ادبی ذوق کے مالک ہیں یا روحانیت کے اسرار و رموز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے باوجود آپ نے یہ دونوں یا ان میں سے ایک شاہکار کو اب تک نہیں دیکھا ہے تو آپ کی اس محرومی پر مجھے افسوس بھی ہے اور تعجب بھی. مجھے تو اس شخص کو بھی صاحب ذوق ماننے میں تردد ہے جس نے انہیں فقط ایک بار دیکھنے پر اکتفاء کرلیا اور باطن میں دوبارہ دیکھنے کی پیاس نہ محسوس کی
یہ معرفت کے ایک مسافر کی داستان ہے. جو اپنا کروڑوں کا کاروبار چھوڑ کر بس فقیری اختیار کرنا چاہتا ہے. اسکے لئے وہ در در بھٹکتا ہے اور ہر اس نیک انسان کو اپنا روحانی استاد بنا لیتا ہے جو چھپا ہوا فقیر ہے. پھر وہ ڈاکیہ ہو یا موچی. گڈریا ہو یا جھاڑو لگاتا ہوا خاکروب. یہ ان سب کے قدموں میں بیٹھتا ہے. یہ سب اسے کہتے ہیں کہ واپس لوٹ جا اپنی دنیا میں چھوڑ دے یہ خیال. یہ اتنا آسان نہیں. مگر اس کے اندر کی بیچینی اور طلب اسے مزید سرگرداں رکھتی ہے. سکی بوڑھی ماں اور دوست احباب سب پریشان ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے. شیطان اسے طرح طرح سے لالچ دیتا ہے. خدا کی جانب سے بھی کئی امتحانات سے گزرتا ہے. معرفت کے اسی سفر میں کئی سال سائنسدان بنتا ہے، دنیا بھر کے اہل علم سے ملتا ہے. بلآخر اپنی منزل پالیتا ہے. کیسے ؟ کن مراحل سے ؟ یہ سب تو دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے.
دوستو میں نے تصوف کو بہت پڑھا ہے اور کسی حد تک خود کو بھی اس سے گزارا ہے. شیخ ابن عربی کی فتوحات مکیہ سے لے کر غزالی کی احیاء العلوم تک. شاہ ولی اللہ کی حجت اللہ البالغہ سے لے کر عبدالقادر جیلانی کی تصنیف تک میں نے بیسیوں کتب کا مطالعہ کیا ہے. اس سب کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ تصوف اور روحانیت کو جس عمدہ اسلوب میں اس ڈرامے کے اندر بیان کیا گیا ہے اسکی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی. اگر یہ ڈرامہ آپ نے نہیں دیکھا ہے تو ضرور دیکھیں. اگر دیکھ لیا ہے تو پھر دوبارہ اور پھر سہہ بارہ دیکھیں کہ یہ نایاب ڈرامہ اسی توقیر کا مستحق ہے. اس ڈرامے کے کچھ کلپ میں یوٹیوب ڈسکرپشن میں دے رہا ہوں، اسے ایک نظر دیکھ لیجیئے
.
دوستو اچھا مضمون، اچھا ڈرامہ یا اچھا ناول وہ نہیں جو آئینے کی طرح اس مجرم معاشرے کا سچا عکاس ہو. بلکہ ہماری دانست میں اچھا وہ ہے جو عکاسی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے کریہہ چہرے کی کسی درجے اصلاح بھی کرتا ہو. اگر آپ کو میری یہ ویڈیو پسند آئی ہے تو اسے لائیک اور شیئر کریں. یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنا نا بھولیں. جیسے ہی سبسکرائب کریں گے تو گھنٹی کا نشان نظر آئے گا اسے بھی دبا دیجیئے تاکہ میری آئندہ آنے والی ویڈیوز بھی آپ تک پہنچتی رہیں. تب تک کیلئے اللہ نگہبان !
.
====عظیم نامہ====
اور ہم پاکستانی بڑے ڈرامے باز ہوتے ہیں، شائد اسی لئے ہمارے ڈرامے زیادہ مشہور ہیں؟
.
آج ہم بات کریں گے ان ڈراموں کی ، جو روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کرتے ہیں.
.
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
.
صاحبو !
کہانی سننا اور کہانی سنانا غالباﹰ تاریخ انسانی کا سب سے قدیم اور سب سے محبوب مشغلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ افراد کی اکثریت کو اگر کوئی پیغام یا سوچ منتقل کرنی ہو تو کہانی سے موثر طریق دوسرا کوئی نہیں. شاعرانہ اسلوب گو کے پسند کیا جاتا ہے مگر اس سے پیغام اخذ کرنے والے بہت قلیل ہوتے ہیں. منطقی یا فلسفیانہ انداز کو تو اور بھی کم مخصوص طبیعتیں ہی سمجھ پاتی ہیں. لہٰذا آپ کی اپنی طبیعت سے یہ حقیقت میل کھائے یا نہ کھائے، لیکن بھائی اگر عوام الناس میں تبدیلی لانی ہے تو پھر کہانی سنانی ہے. اسی کہانی کو سنانے سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ڈرامہ نگاری ہے.
ہم آج آپ کو چار ایسے پاکستانی ڈراموں کا مختصر تعارف دے رہے ہیں جو فی الواقع آپ کی روحانی تربیت میں معاون ہوسکتے ہیں. تو دیر کس بات کی؟ چلیئے آغاز کرتے ہیں
.
چار: خدا اور محبت
===========
.
چوتھے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے رکھا ہے وہ جیو ٹی وی پر ٢٠١١ میں نشر ہونے والا ڈرامہ خدا اور محبت ہے. ہاشم ندیم صاحب کے لکھے اس ناول کو انجم شہزاد نے خوبی سے ڈائریکٹ کیا ہے. مجموعی اعتبار سے ہم اس ڈرامے کو شاہکار تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس کے کچھ سین ضرور ایسے ہیں جو انسان کی سوچ میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں اور معرفت کے کچھ سوالات کو جواب فراہم کرسکتے ہیں. یہ ایک ایسے امیر زادے کی داستان ہے جو ایک مولوی صاحب کی نیک دامن بیٹی سے عشق کر بیٹھتا ہے اور اس کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوتا ہے. اس لڑکے نے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر کیسے کیا؟ عبد کی محبت سے اٹھ کر معبود کی محبت تک کیسے پہنچا؟ یہ ڈرامہ اسی کی روداد ہے. اسی ڈرامے کا ایک سین میں نے اپلوڈ کردیا ہے، لنک اسکرین پر نظر آجائے گا اور یوٹیوب ڈسکرپشن میں بھی موجود ہے. دیکھ لیجیئے
.
تیسرا: میری ذات ذرہ بے نشاں
===================
.
احباب تیسرے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے جگہ دی ہے، وہ ہے میری ذات ذرہ بے نشاں. عمیرہ احمد صاحبہ کا یہ ناول بابر جاوید صاحب کی ڈائریکشن میں فی الواقع ایک بہترین ڈرامہ ہے. یہ ایک ایسی آزاد طبع ، سیکولر اور لبرل مائنڈ سیٹ رکھنے والی لڑکی کی داستان ہے جسے ایک آفرین نامی انسان سے محبت ہو جاتی ہے. آفرین خود بھی اس لڑکی سے بیحد محبت کرتا ہے اور نکاح کرنا چاہتا ہے مگر اس کے ماں باپ اس رشتے کے شدید مخالف ہوجاتے ہیں. بالخصوص اس کی متقی عبادت گزار والدہ ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ ان کی بہو ایسی آزاد خیال مغرب زدہ لڑکی بنے. مگر کیا کیجیے ان کی ایک نہیں چلتی اور بیٹا شادی پر مصر ہوجاتا ہے. شادی کی تیاریاں ہوتی ہیں لیکن شادی کے روز لڑکے کی ماں بہت عیاری سے ایک جال بچھاتی ہے اور اس لڑکی پر ایک اور لڑکے کے ساتھ بند کمرے میں بدکاری کرنے کا الزام لگا دیتی ہے. ظاہر ہے قیامت آجاتی ہے، لڑکی اپنی ہونے والی ساس کی جانب سے لگائی اس تہمت کو مسترد کرتی ہے. اس عالم میں آفرین اپنی ہونے والی بیوی سے کہتا ہے کہ اگر وہ سچی تو قران حکیم پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. وہ کہتی ہے ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھتی ہے کہ لڑکے کی ماں بھی قران پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اتنے حج کر چکی ہے نمازی پرہیزگار ہے، وہ کبھی قران پر جھوٹ نہیں بولیں گی. مگر یہ دیکھ کر وہ بت بن کر رہ جاتی ہے کہ اسکی ساس بڑے دھڑلے سے قران اٹھا کر جھوٹی قسم کھا لیتی ہے. قران کے اس اکرام میں یہ لڑکی قسم نہیں کھاتی اور یوں بدکاری نہ کرکے بھی ساری دنیا کے سامنے بدکار قرار پاتی ہے. لڑکی کی شادی زبردستی ایک خبیث النفس شکی بوڑھے سے ہوجاتی ہے. یہ صدمات اس لڑکی کی زندگی کو کیسے بدل دیتے ہیں؟ کیسے ایک دنیا پرست لڑکی خدا سے قریب اور عبادت گزار بندی بن جاتی ہے؟ کیسے جھوٹ بولنے والی وہ لڑکے کی ماں اپنے ایمان و عمل کو برباد کرلیتی ہے اور بلآخر بیٹے کو موت کے وقت بتا دیتی ہے؟ یہ سب واقعات دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں.
.
دوسرا: شہر ذات
===========
.
دوسرے نمبر پر ہے ڈرامہ شہر ذات. یہ بھی عمیرہ احمد ہی کی ایک عمدہ تصنیف ہے اور ہمارے نزدیک بجا طور پر شاہکار کہلا سکتی ہے. سرمد سلطان کھوسٹ نے اسے بھرپور انداز میں ڈائریکٹ کرکے چار چاند لگادیئے ہیں. یہ ایک مذہب بیزار بلکہ ملحدہ لڑکی کی داستان ہے. جو بیک وقت اسکی محبت کی روداد بھی ہے اور معرفت الہی کا سفر بھی. فلک ایک رئیس زادی ہے جو فائن آرٹ یعنی مجسمہ سازی کی طالبہ ہے. اسے مذہب وغیرہ سب قصے کہانی لگتے ہیں، وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کو سوچ کر ایک چہرہ بطور مجسمہ بناتی ہے. لیکن پھر ایک دن ٹھیک اسی صورت کا ایک وجیہہ مرد نظر آجاتا ہے. جس کی محبت میں وہ گرفتار ہوجاتی ہے. کوشش کے بعد اسکی شادی بھی اسی مرد سے ہوجاتی ہے. مگر پھر اسکی بے اعتنائی اور اپنے اندر کی خلش اسے پریشان کرکے رکھ دیتی ہے. وہ اپنے وجود کو سوچنے لگتی ہے، خدا کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے. وہ خدا کیلئے روتی ہے، چلاتی ہے، حالت ہیجان میں اپنی سوسایٹی اپنی ماں تک سے دست و گریباں ہوجاتی ہے. ایسے میں جابجا اسکے ساتھ روحانی وارداتیں ہوتی ہیں. بکریاں چرانے والی عورت سے لے کر ایک مجذوب تک کئی لوگ اسے ایسے ملتے ہیں جو اسے راہ خدا میں پکا کردیتے ہیں. وہ اپنی نانی سے ایک بار پھر قران سیکھتی ہے، نماز پڑھتی ہے. مزید آپ کو نہیں بتاتا کہ اس ڈرامے کا اصل لطف اسے دیکھنے میں ہی ہے سننے میں نہیں ! نہیں دیکھا تو ضرور دیکھیئے. میں نے اس ڈرامے میں موجود کچھ بہترین مناظر کو ایک کلپ میں یکجا کردیا ہے. اس کا لنک اسکرین پر بھی آجائے گا ورنہ یوٹیوب ڈسکرپشن میں لنک موجود ہے، دیکھ لیجیئے. لطف نا آجائے تو پیسے واپس
.
پہلا: منچلے کا سودا
=============
.
اول نمبر پر جو ڈرامہ ہے اس کے بارے میں آخر میں کیا کہوں ؟
اشفاق احمد صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ 'منچلے کا سودا' اور گلزار صاحب کی پیش کردہ فلم 'غالب' --- میں نہیں جانتا کہ میں کتنی بار دیکھ چکا ہوں اور جانے کتنی ہی بار پھر دیکھنا چاہوں گا. اگر آپ ادبی ذوق کے مالک ہیں یا روحانیت کے اسرار و رموز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے باوجود آپ نے یہ دونوں یا ان میں سے ایک شاہکار کو اب تک نہیں دیکھا ہے تو آپ کی اس محرومی پر مجھے افسوس بھی ہے اور تعجب بھی. مجھے تو اس شخص کو بھی صاحب ذوق ماننے میں تردد ہے جس نے انہیں فقط ایک بار دیکھنے پر اکتفاء کرلیا اور باطن میں دوبارہ دیکھنے کی پیاس نہ محسوس کی
یہ معرفت کے ایک مسافر کی داستان ہے. جو اپنا کروڑوں کا کاروبار چھوڑ کر بس فقیری اختیار کرنا چاہتا ہے. اسکے لئے وہ در در بھٹکتا ہے اور ہر اس نیک انسان کو اپنا روحانی استاد بنا لیتا ہے جو چھپا ہوا فقیر ہے. پھر وہ ڈاکیہ ہو یا موچی. گڈریا ہو یا جھاڑو لگاتا ہوا خاکروب. یہ ان سب کے قدموں میں بیٹھتا ہے. یہ سب اسے کہتے ہیں کہ واپس لوٹ جا اپنی دنیا میں چھوڑ دے یہ خیال. یہ اتنا آسان نہیں. مگر اس کے اندر کی بیچینی اور طلب اسے مزید سرگرداں رکھتی ہے. سکی بوڑھی ماں اور دوست احباب سب پریشان ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے. شیطان اسے طرح طرح سے لالچ دیتا ہے. خدا کی جانب سے بھی کئی امتحانات سے گزرتا ہے. معرفت کے اسی سفر میں کئی سال سائنسدان بنتا ہے، دنیا بھر کے اہل علم سے ملتا ہے. بلآخر اپنی منزل پالیتا ہے. کیسے ؟ کن مراحل سے ؟ یہ سب تو دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے.
دوستو میں نے تصوف کو بہت پڑھا ہے اور کسی حد تک خود کو بھی اس سے گزارا ہے. شیخ ابن عربی کی فتوحات مکیہ سے لے کر غزالی کی احیاء العلوم تک. شاہ ولی اللہ کی حجت اللہ البالغہ سے لے کر عبدالقادر جیلانی کی تصنیف تک میں نے بیسیوں کتب کا مطالعہ کیا ہے. اس سب کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ تصوف اور روحانیت کو جس عمدہ اسلوب میں اس ڈرامے کے اندر بیان کیا گیا ہے اسکی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی. اگر یہ ڈرامہ آپ نے نہیں دیکھا ہے تو ضرور دیکھیں. اگر دیکھ لیا ہے تو پھر دوبارہ اور پھر سہہ بارہ دیکھیں کہ یہ نایاب ڈرامہ اسی توقیر کا مستحق ہے. اس ڈرامے کے کچھ کلپ میں یوٹیوب ڈسکرپشن میں دے رہا ہوں، اسے ایک نظر دیکھ لیجیئے
.
دوستو اچھا مضمون، اچھا ڈرامہ یا اچھا ناول وہ نہیں جو آئینے کی طرح اس مجرم معاشرے کا سچا عکاس ہو. بلکہ ہماری دانست میں اچھا وہ ہے جو عکاسی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے کریہہ چہرے کی کسی درجے اصلاح بھی کرتا ہو. اگر آپ کو میری یہ ویڈیو پسند آئی ہے تو اسے لائیک اور شیئر کریں. یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنا نا بھولیں. جیسے ہی سبسکرائب کریں گے تو گھنٹی کا نشان نظر آئے گا اسے بھی دبا دیجیئے تاکہ میری آئندہ آنے والی ویڈیوز بھی آپ تک پہنچتی رہیں. تب تک کیلئے اللہ نگہبان !
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment