Tuesday, 31 December 2019

تعارف

تعارف  

 "ڈوبتے سورج نے اہل زمین سے پوچھا ، "میرے بعد اس دنیا کو کون روشن کرے گا ؟

ایک ٹمٹماتا چراغ بولا ، میں کوشش کروں گا


میرا نام عظیم الرحمٰن ہے. میں نہ تو عالم ہوں نہ فاضل اور نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار. زبان اردو میں اگر کوئی لفظ میرا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے مرکب لفظ 'طالب علم' . میں ایک معمولی طالبعلم ہوں کتاب الله قران کا اور دین الله اسلام کا

علماء کے قحط اور علمی انحطاط کے اس دور میں جب اجتہاد و تحقیق اجنبی الفاظ بن گۓ اور سوچنا جرم قرار پایا ہے. یہ امر لازم ہوگیا ہے کہ قران حکیم اور جدید علوم دونوں  سے آگاہی رکھنے والے افراد سامنے آکر یہ جائزہ لیں کہ قران پاک نئی تحقیقات کی روشنی میں کیا مطالب فراہم کر رہا ہے ؟
عبدالله ابن عباس رضی الله عنہ کو مفسر اعظم تسلیم کیا جاتا ہے، جب آپ کے انتقال کے ایام قریب تھے تو لوگوں نے استفسار کیا کہ اے عبداللہ ! آپ کے بعد کون ہمیں قران کے خزائن بتاۓ گا ؟ کون قران کی تفسیر کرے گا ؟ اس موقع پر آپ رضی الله عنہ نے وہ تاریخ ساز الفاظ کہے جو وقت اور اذہان دونوں پر ثبت ہو گئے. آپ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ

"قران ہر آنے والے دور میں اپنی تفسیر خود فراہم کرتا ہے"

المیہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کی ایک کثیر تعداد نے خود کو تقلید اور تفرقے کے خول میں قید کرلیا. دنیا اور دین کے علوم میں فرق کرکے ایسی تخصیص کی کہ جدید فلسفوں سے بلکل نابلد ہو گئے. بقول اقبال

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایت میں کھو گئی


یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مسلم نوجوان نسل میں مقبول اسکالروں کی اکثریت آج روایتی مدرسوں کے فارغ التحصیل نہیں ہیں. ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر جاوید احمد غامدی تک، ڈاکٹر ذاکر نائیک سے لے کر شیخ احمد دیدات تک، مولانا مودودی سے لیکر پرفیسر احمد رفیق تک، یاسر قاضی سے لیکر نعمان علی خان تک. یہ سب اور بہت سے مزید مقبول اشخاص جو مسلم نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں وہ سب جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں
روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہونگے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ ڈاکن کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا انکا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے. نتیجہ الحاد اور شکوک کی صورت میں برآمد ہوا
یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسا احقر طالبعلم اپنی تمام تر ناقص العلمی کے اعتراف کے باوجود یہ کاوش کرنے پر مجبور ہے کہ ان جدید فلسفیانہ شکوک کے جوابات دے، دین کی گم گشتہ حکمت کو کھوجنے کی کوشش کرے اور پھر اہل علم کو اپنی اس کوشش پر علمی تنقید و اصلاح کی دعوت دے. یہ بلاگ اسی کی کڑی ہے. میری اپنے رب سے دعا ہے کہ وہ اسے قبول کرے. آمین یا رب العالمین 

===عظیم نامہ====

Sunday, 29 September 2019

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ ؟ کون سی فکر اسلام کی درست ترجمان ہے؟ ==================================================== . اگر اس جوابی بیانیہ سے آپ کی مراد وہ فکری تحریک ہے جو آج رائج و مقبول روایتی اسلامی فکر کے مقابل ہر دوسرے مذہبی موضوع کو للکار رہی ہے، اسے نئی تشریح فراہم کررہی ہے تو پھر یہ کوئی آسان سوال نہیں ہے. اس کا جواب کسی ایک کے مکمل اثبات و انکار میں دینا علمی دیانت کے خلاف ہوگا. میں حد سے حد آپ کو وہ زاویہ نظر دے سکتا جس سے میں خود اس موجودہ فکری کشمکش کو دیکھ پاتا ہوں. مگر اس سے پیشتر آپ کو ایک سادہ علمی نظریہ سمجھنا ہوگا. . مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفہ سے ماخوز ایک نظریہ صاحبان دانش میں ہمیشہ معروف رہا ہے. اس نظریئے کے کی رو سے انسانی فکر کا سفر تھیسس (thesis) ، اینٹی تھیسس (antithesis) اور سینتھسس (synthesis) کے ذریعے اپنے شعوری مدارج طے کرتا آیا ہے. میں اسی فکر کو آج اپنے زاویہ نظر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. آسان الفاظ میں کسی موضوع پر سب سے پہلے ایک تھیسس پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس موضوع کا بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے. اس بیانیہ (thesis) کو عقل عام و خاص قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک لمبا وقت اسے پیش کئے گزر جاتا ہے تو کچھ نئے وقتی تقاضے پیدا ہونے لگتے ہیں، کچھ اس فکر کی خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، کچھ نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، کچھ نئے زاوئیے جنم لیتے ہیں. اب اس مقام پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان تازہ دریافتوں کا خیر مقدم کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا. بلکہ اس روایتی بیانیہ سے افراد گہرے تقدس میں مبتلا ہوجاتے ہیں. وہ نہ صرف کسی نئی تحقیق کو قبول کرنے میں شدید تردد ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ سارا زور کسی ناقدانہ جدید سوچ کو کچلنے میں لگادیتے ہیں. اجتہاد کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور عقائد عقیدے کا لباس پہن لیتے ہیں. اس غیرفطری روک سے انسانوں میں ایک فکری بغاوت جنم لیتی ہے جو رستہ نہ پا کر اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے مگر دم نہیں توڑتی بلکہ ہر گزرتا وقت اسے ایک خاموش طوفان بناتا رہتا ہے. بلاخر ایک وقت آتا ہے جب یہ بغاوت اس تھیسس (thesis) یعنی بیانیہ کے رد کی صورت میں برآمد ہوتی ہے. اسی رد کو اینٹی تھیسس (antithesis) کہا جاتا ہے. یہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چونکہ اس رد بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) کو ایک زمانے تک زبردستی دبایا گیا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کا ابھرنا ردعمل کی نفسیات کو ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے. جہاں روایتی بیانیہ یعنی تھیسس (thesis) فکری جمود اور عقیدت کی چادر اوڑھ لینے کے بعد ایک انتہا کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ، وہاں یہ جوابی بیانیہ (antithesis) یعنی اینٹی تھیسس اپنے آپ میں ایک دوسری انتہا لئے ہوئے آتا ہے اور اس کے داعی بھی اکثر نئے نتائج کی لاشعوری تقلید اپنالیتے ہیں. . اب اس تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) یا بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی فکری کشتی ہوتی ہے جو ایک لمبا عرصہ جاری رہتی ہے. اس گھمسان کی لڑائی میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو نہ صرف فریقین کیلئے اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی تھرتھراہٹ طاری رکھتی ہے. یہ خاموش ناظرین بیچارے بہت ہی قابل رحم ہوتے ہیں. ہوا کے جھونکوں کی طرح کبھی یہ ایک جانب قلابازی کھاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے زور بیان سے اس کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں. آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) کو بظاہر زیادہ کامیابی ہوتی نظر آتی ہے. جس کی بہت سی وجوہات ہیں. جیسے کچھ خاموش اقلیت روایتی بیانیہ (thesis) سے پہلے ہی ناراض بیٹھی ہوتی ہے. اس لئے وہ نئی فکر کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہے. اسی طرح روایتی بیانیہ (thesis) کی خامیاں یا کچھ ناکامیاں .. جوابی بیانیہ (antithesis) پیش کرنے والے کے سامنے موجود ہوتی ہیں. جس کا وہ کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں. جب کے اسکے برعکس جوابی بیانیہ (antithesis) کی اپنی خامیاں اور ناکامیاں ابھی وقت کے امتحان سے نہ گزرنے کے سبب سامنے نہیں آئی ہوتیں. لہٰذا فطری طور پر آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) یا جوابی بیانیہ ایک انقلابی سوچ کے طور پر نمودار ہوتا ہے. مگر جب اس علمی تصادم میں کچھ وقت گزر جاتا ہے تو اب بیانیہ (thesis) کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ (antithesis) کی خامیاں بھی کھل کے سامنے آنے لگتی ہیں. پہلی بار یہ حاملین کو سمجھ آتا ہے کہ پیش کردہ تنقید یا فکر کے کئی حصے جزوی یا کلی طور پر غلط ہیں. یہی وہ مقام ہے جہاں کچھ اہل علم دونوں آراء میں تطبیق پیدا کرتے ہیں اور دونوں جانب کی مظبوط تر باتوں کو لے کر ایک مشترکہ بیانیہ پیش کردیتے ہیں. اسی مشترکہ بیانیہ کو سینتھیسس (synthesis) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اب یہ سینتھیسس (synthesis) جو تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) دونوں کا نچوڑ اور علمی اعتبار سے افضل ہوتا ہے .. وقت گزرنے کے بعد پھر سے ایک نیا تھیس (thesis) بن جاتا ہے. پھر کوئی اینٹی تھیسس (antithesis) پیش کرتا ہے. پھر جنگ ہوتی ہے. پھر سینتھیسس (synthesis) نکالا جاتا ہے اور یوں انسانی فکر کا ارتقاء جاری رہتا ہے. . عزیزان من ، اس ساری تمہید و تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ بالغ نظر ہوکر اسلام کی مذہبی فکری تشکیل نو کو نگاہ بصیرت سے دیکھ سکیں. علامہ اقبال رح نے اسی لئے اپنے خطبات پر مشتمل واحد کتاب کا نام 'اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو' رکھا تھا. آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں یہ فکری تصادم اپنی جولانیوں پر نظر آرہا ہے. جو اپنے آپ میں ایک عامی کیلئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے. مگر اس صورت سے مایوس ہرگز نہ ہوں. جان لیں کہ آپ دو انتہاؤں میں سفر کر رہے ہیں ، آپ تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے تصادم میں زندہ ہیں مگر ابھی سینتھیسس (synthesis) پیش ہونا ہے جو انشاللہ سراسر خیر کا پیش خیمہ ہوگا. جان لیں کہ آپ کا رب .. فرعون کے گھر میں آسیہ اور موسیٰ کو پروان چڑھاتا ہے. وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور شر سے بھی خیر کو برآمد کردیتا ہے. عقلمند وہ ہے جو دونوں فکری گروہوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیتا رہے. جو نہ روایتی فکر کو جہالت سمجھے اور نہ جدید فکر کو گالی دے. وقت کی کسوٹی جلد یا بدیر کھرے کو کھوٹے سے جدا کردے گی. روایتی بیانیہ سے منسلک دوستوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر جدید تشریحات فاسد ہیں تو جلد ہی انکار حدیث یا معتزلہ جیسے فلسفوں کی طرح دم توڑ دیں گی. آپ بس ان کے موقف کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں اور اگر غلط پائیں تو دلیل سے ان کی غلطی ثابت کرتے رہیئے. دوسری طرف جوابی بیانیہ سے منسلک احباب کو سمجھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو دلیل سے تنقید کی اجازت ہے ، وہاں مختلف موضوعات پر مسلمانوں کی پوری علمی روایت کیلئے تحقیر کا لب و لہجہ اپنانا صریح ظلم ہے. ایک دوسرے کو عزت دینے کی اداکاری نہ کیجیئے بلکہ فی الواقع عزت دیجیئے. مقابل نقطہ نظر کیلئے دل میں حقیقی محبت پیدا کیجیئے کہ دونوں گروہوں کی نیت مبنی بااخلاص ہے. اگر سامنے والے کی سمجھ میں غلطی ہوسکتی ہے تو پیغمبر آپ بھی نہیں ہیں. سمجھ کی غلطی آپ کو بھی ہوسکتی ہے. چنانچہ مدمقابل کی دلیل کو وسعت قلبی سے سنیں اور پھر شائستگی سے رد یا قبول کرلیں. . (نوٹ: پوسٹ میں درج بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی اصطلاحات کا استعمال صرف خلافت و جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قدیم و جدید تشریحات کا تصادم ہے) . ====عظیم نامہ====

روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ ؟ کون سی فکر اسلام کی درست ترجمان ہے؟
====================================================
.
اگر اس جوابی بیانیہ سے آپ کی مراد وہ فکری تحریک ہے جو آج رائج و مقبول روایتی اسلامی فکر کے مقابل ہر دوسرے مذہبی موضوع کو للکار رہی ہے، اسے نئی تشریح فراہم کررہی ہے تو پھر یہ کوئی آسان سوال نہیں ہے. اس کا جواب کسی ایک کے مکمل اثبات و انکار میں دینا علمی دیانت کے خلاف ہوگا. میں حد سے حد آپ کو وہ زاویہ نظر دے سکتا جس سے میں خود اس موجودہ فکری کشمکش کو دیکھ پاتا ہوں. مگر اس سے پیشتر آپ کو ایک سادہ علمی نظریہ سمجھنا ہوگا.
مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفہ سے ماخوز ایک نظریہ صاحبان دانش میں ہمیشہ معروف رہا ہے. اس نظریئے کے کی رو سے انسانی فکر کا سفر تھیسس (thesis) ، اینٹی تھیسس (antithesis) اور سینتھسس (synthesis) کے ذریعے اپنے شعوری مدارج طے کرتا آیا ہے. میں اسی فکر کو آج اپنے زاویہ نظر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. آسان الفاظ میں کسی موضوع پر سب سے پہلے ایک تھیسس پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس موضوع کا بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے. اس بیانیہ (thesis) کو عقل عام و خاص قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک لمبا وقت اسے پیش کئے گزر جاتا ہے تو کچھ نئے وقتی تقاضے پیدا ہونے لگتے ہیں، کچھ اس فکر کی خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، کچھ نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، کچھ نئے زاوئیے جنم لیتے ہیں. اب اس مقام پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان تازہ دریافتوں کا خیر مقدم کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا. بلکہ اس روایتی بیانیہ سے افراد گہرے تقدس میں مبتلا ہوجاتے ہیں. وہ نہ صرف کسی نئی تحقیق کو قبول کرنے میں شدید تردد ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ سارا زور کسی ناقدانہ جدید سوچ کو کچلنے میں لگادیتے ہیں. اجتہاد کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور عقائد عقیدے کا لباس پہن لیتے ہیں. اس غیرفطری روک سے انسانوں میں ایک فکری بغاوت جنم لیتی ہے جو رستہ نہ پا کر اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے مگر دم نہیں توڑتی بلکہ ہر گزرتا وقت اسے ایک خاموش طوفان بناتا رہتا ہے. بلاخر ایک وقت آتا ہے جب یہ بغاوت اس تھیسس (thesis) یعنی بیانیہ کے رد کی صورت میں برآمد ہوتی ہے. اسی رد کو اینٹی تھیسس (antithesis) کہا جاتا ہے. یہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چونکہ اس رد بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) کو ایک زمانے تک زبردستی دبایا گیا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کا ابھرنا ردعمل کی نفسیات کو ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے. جہاں روایتی بیانیہ یعنی تھیسس (thesis) فکری جمود اور عقیدت کی چادر اوڑھ لینے کے بعد ایک انتہا کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ، وہاں یہ جوابی بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) اپنے آپ میں ایک دوسری انتہا لئے ہوئے آتا ہے اور اس کے داعی بھی اکثر نئے نتائج کی لاشعوری تقلید اپنالیتے ہیں. 
.
اب اس تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) یا بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی فکری کشتی ہوتی ہے جو ایک لمبا عرصہ جاری رہتی ہے. اس گھمسان کی لڑائی میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو نہ صرف فریقین کیلئے اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی تھرتھراہٹ طاری رکھتی ہے. یہ خاموش ناظرین بیچارے بہت ہی قابل رحم ہوتے ہیں. ہوا کے جھونکوں کی طرح کبھی یہ ایک جانب قلابازی کھاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے زور بیان سے اس کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں. آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) کو بظاہر زیادہ کامیابی ہوتی نظر آتی ہے. جس کی بہت سی وجوہات ہیں. جیسے کچھ خاموش اقلیت روایتی بیانیہ (thesis) سے پہلے ہی ناراض بیٹھی ہوتی ہے. اس لئے وہ نئی فکر کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہے. اسی طرح روایتی بیانیہ (thesis) کی خامیاں یا کچھ ناکامیاں .. جوابی بیانیہ (antithesis) پیش کرنے والے کے سامنے موجود ہوتی ہیں. جس کا وہ کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں. جب کے اسکے برعکس جوابی بیانیہ (antithesis) کی اپنی خامیاں اور ناکامیاں ابھی وقت کے امتحان سے نہ گزرنے کے سبب سامنے نہیں آئی ہوتیں. لہٰذا فطری طور پر آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) یا جوابی بیانیہ ایک انقلابی سوچ کے طور پر نمودار ہوتا ہے. مگر جب اس علمی تصادم میں کچھ وقت گزر جاتا ہے تو اب بیانیہ (thesis) کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ (antithesis) کی خامیاں بھی کھل کے سامنے آنے لگتی ہیں. پہلی بار یہ حاملین کو سمجھ آتا ہے کہ پیش کردہ تنقید یا فکر کے کئی حصے جزوی یا کلی طور پر غلط ہیں. یہی وہ مقام ہے جہاں کچھ اہل علم دونوں آراء میں تطبیق پیدا کرتے ہیں اور دونوں جانب کی مظبوط تر باتوں کو لے کر ایک مشترکہ بیانیہ پیش کردیتے ہیں. اسی مشترکہ بیانیہ کو سینتھیسس (synthesis) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اب یہ سینتھیسس (synthesis) جو تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) دونوں کا نچوڑ اور علمی اعتبار سے افضل ہوتا ہے .. وقت گزرنے کے بعد پھر سے ایک نیا تھیس  (thesis) بن جاتا ہے. پھر کوئی اینٹی تھیسس (antithesis) پیش کرتا ہے. پھر جنگ ہوتی ہے. پھر سینتھیسس (synthesis) نکالا جاتا ہے اور یوں انسانی فکر کا ارتقاء جاری رہتا ہے. 
.
عزیزان من ، اس ساری تمہید و تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ بالغ نظر ہوکر اسلام کی مذہبی فکری تشکیل نو کو نگاہ بصیرت سے دیکھ سکیں. علامہ اقبال رح نے اسی لئے اپنے خطبات پر مشتمل واحد کتاب کا نام 'اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو' رکھا تھا. آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں یہ فکری تصادم اپنی جولانیوں پر نظر آرہا ہے. جو اپنے آپ میں ایک عامی کیلئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے. مگر اس صورت سے مایوس ہرگز نہ ہوں. جان لیں کہ آپ دو انتہاؤں میں سفر کر رہے ہیں ، آپ تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے تصادم میں زندہ ہیں مگر ابھی سینتھیسس (synthesis) پیش ہونا ہے جو انشاللہ سراسر خیر کا پیش خیمہ ہوگا. جان لیں کہ آپ کا رب .. فرعون  کے گھر میں آسیہ اور موسیٰ کو پروان چڑھاتا ہے. وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور شر سے بھی خیر کو برآمد کردیتا ہے. عقلمند وہ ہے جو دونوں فکری گروہوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیتا رہے. جو نہ روایتی فکر کو جہالت سمجھے اور نہ جدید فکر کو گالی دے. وقت کی کسوٹی جلد یا بدیر کھرے کو کھوٹے سے جدا کردے گی. روایتی بیانیہ سے منسلک دوستوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر جدید تشریحات فاسد ہیں تو جلد ہی انکار حدیث یا معتزلہ جیسے فلسفوں کی طرح دم توڑ دیں گی. آپ بس ان کے موقف کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں اور اگر غلط پائیں تو دلیل سے ان کی غلطی ثابت کرتے رہیئے.  دوسری طرف جوابی بیانیہ سے منسلک احباب کو سمجھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو دلیل سے تنقید کی اجازت ہے ، وہاں مختلف موضوعات پر مسلمانوں کی پوری علمی روایت کیلئے تحقیر کا لب و لہجہ اپنانا صریح ظلم ہے. ایک دوسرے کو عزت دینے کی اداکاری نہ کیجیئے بلکہ فی الواقع عزت دیجیئے. مقابل نقطہ نظر کیلئے دل میں حقیقی محبت پیدا کیجیئے کہ دونوں گروہوں کی نیت مبنی بااخلاص ہے. اگر سامنے والے کی سمجھ میں غلطی ہوسکتی ہے تو پیغمبر آپ بھی نہیں ہیں. سمجھ کی غلطی آپ کو بھی ہوسکتی ہے. چنانچہ مدمقابل کی دلیل کو وسعت قلبی سے سنیں اور پھر شائستگی سے رد یا قبول کرلیں. 
.
(نوٹ: پوسٹ میں درج بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی اصطلاحات کا استعمال صرف خلافت و جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قدیم و جدید تشریحات کا تصادم ہے)
.
====عظیم نامہ====

ناس پیٹی فیس بک


کوئی کھیرا شریف کے چھلکوں سے تقدس سیکھا رہے ہیں تو کوئی اسٹرابیری کو زرقوم کہہ کر ممنوع بتا رہے ہیں. کوئی ایک سے زائد شادی کرنے کو فرض کررہے ہیں تو کوئی خوبصورت لڑکیوں سے بات کو مستحب بنارہے ہیں. کوئی مریدوں کو روحانیت کے کرنٹ لگارہے ہیں تو کوئی متعدد حوروں سے تعلق کا نقشہ سمجھا رہے ہیں.
.
ہائے رے ناس پیٹی فیس بک تو نے گھر بیٹھے ہمیں کیا کیا دیکھا دیا !

america

http://daleel.pk/2016/12/31/22965?fbclid=IwAR2OO6AzgL1EsPr0pxKC1zfOd6VFUbdW0zVGQNWfDmutkI_hG9AcHP_Tzh4

مولانا طارق جمیل


مولانا طارق جمیل - 'تبلیغی جماعت' کا یقینی طور پر سب سے زیادہ مقبول نام ہے. آپ بلا شبہ عالم اسلام کی ایک عظیم المرتبت شخصیت ہیں. جن کا پراثر طریقہ تعلیم خواص وعوام دونوں کو دین سے جوڑتا آیا ہے. آپ دور حاضر میں وحدت امت کے بہت بڑے داعی ہیں اور تفرقہ ختم کردینے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں. دیگر بہت سے احباب کی طرح میں بھی مولانا سے کئی فکری اختلافات رکھتا ہوں مگر ساتھ ہی میں آپ کی وسعت قلبی، جذبہ ایمانی اور پر سوز واعظانہ قابلیت کا تہہ دل سے مداح رہا ہوں. میں ہمیشہ ان کے لئے دل میں بے پناہ محبت اور عزت محسوس کرتا ہوں. شائد اسلئے کہ میں ان میں دوسروں کی طرح محقق یا مجدد تلاش نہیں کرتا بلکہ ایک واعظ اور داعی کو دیکھتا ہوں. میں ان میں ایک ایسا عظیم مبلغ پاتا ہوں جو شیخ عبدلقادر جیلانی رح کی طرح آپ کے روحانی وجود کو سادہ باتوں کے زریعے جھنجھوڑ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے. ان کے خطبات، میں علمی وسعت کیلئے نہیں سنتا بلکہ اسلئے سنتا ہوں کہ مجھے اپنی موت یاد آجائے اور میری آنکھیں ندامت سے بھیگ سکیں. یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سننے والا مولانا کو بناء تعصب کو سنے اور اسے فکر آخرت محسوس نہ ہو. میرا احساس یہ ہے کہ اللہ پاک نے مولانا کی دین میں محنت کے سبب ان کی زبان میں عجب سا اثر پیدا کردیا ہے. وہی جملہ اور وہی الفاظ جو کوئی اور ادا کرے تو عام سے محسوس ہوں وہی جب مولانا کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو مخاطب کے قلب میں جا اترتے ہیں. کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل انگلینڈ تشریف لائے تو حسن اتفاق سے آپ سے ملاقات ہوئی. آپ کے ساتھ بیٹھے، نماز پڑھی اور خطاب سنا. مولانا کو اس سے پہلے بھی کئی بار سامنے سن چکا تھا مگر آپ سے باقاعدہ ملاقات پہلی بار تھی. آپ کا ایک ایک انگ دین کی محنت سے سجا محسوس ہوا. اس عمر میں اتنا سفر اور مشقت اٹھانا صرف دین کی تبلیغ و ترویج کیلئے آپ ہی کا خاصہ ہے.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.

مجذوب فقیر

حکایت ہے کہ کسی شخص نے ایک اللہ والے مجذوب فقیر کی شہرت سنی تو منت سماجت کرکے اسے اپنے گھر لے آیا۔ اس کے گھر والو نے فقیر کی دل کھول کر خدمت کی، بہترین پکوان کھلائے، مہنگے کپڑے دیئے، اس کے پیر دبائے اور بیش قیمتی تحائف پیش کیئے۔ آخر میں اس شخص نے فقیر سے التجا کی کہ وہ اسکے گھر اور خاندان کیلئے دعا کرے۔ چنانچہ فقیر نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ یوں کہا "اللہ کرے کہ پہلے تیرا باپ مرے، پھر تو مرے، پھر تیری اولاد مرے آمین"۔ یہ الفاظ سنتے ہی اس شخص کی ساری عقیدت یکلخت ختم ہوگئی اور اس نے غم و غصہ سے فقیر کو گریبان سے جکڑ کر کہا کہ کمبخت تو کیسا انسان ہے؟ میں نے تیری اتنی خدمت کی، میری اولاد نے تیرے پیر دبائے اور میرے والد نے تجھے سرآنکھوں پر رکھا۔ مگر تو نے ہمیں اتنی گھٹیا دعا دی؟
۔
فقیر نے محبت سے خود کو چھڑوایا اور کہا کہ اس میں کچھ بھی گھٹیا نہیں بلکہ یہ انتہائی رحمت والی دعا ہے۔ موت تو برحق ہے، جسے کوئی ٹال نہیں سکتا مگر خیر اسی میں ہے کہ رب موت کو فطری ترتیب میں دے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے ضعیف باپ اور معصوم بچوں کو بے سہارا چھوڑ کر پہلے تم خود مرجائو؟ یا پھر تم یہ چاہتے ہو کہ تم سے پہلے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری نوجوان اولاد مر جائے؟ میں نے تو رب سے یہی دعا و درخواست کی ہے کہ تم اس اضافی کرب و اذیت سے بچ سکو اور تمہارے گھر میں موت ترتیب سے آئے یعنی "اللہ کرے کہ پہلے تیرا باپ مرے، پھر تو مرے، پھر تیری اولاد مرے آمین"
۔
====عظیم نامہ====

استنبول - میری نظر سے (قسط اول)

استنبول - میری نظر سے (قسط اول)
=====================
.
میں کچھ عرصہ قبل ترکی جاچکا ہوں اور انطالیہ، الانیہ، ائیوسلار، انسیکم، پاموکالے جیسے علاقے گھوم چکا ہوں. میرا یہ فیملی ہولیڈے توقع سے زیادہ بہترین گزرا تھا مگر ایک کمی پھر بھی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ میں نے اس خوبصورت ملک کا وہ شہر اب بھی نہیں دیکھا تھا جو اسکی شان ہے یعنی استنبول. ترکی کی سرزمین اور عوام دونوں نے ہی میرا دل جیت رکھا تھا. پچھلے سال ہی جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو خیال آیا کہ کیوں نا ترکی کا ٹرانزٹ ویزہ لے کر تین روز استنبول قیام کرتے ہوئے کراچی جاؤں؟ ٹکٹ دیکھا تو قیمت کا معمولی سا فرق تھا. فوری ارادہ کرلیا اور اپنے قریبی دوست سے جو لندن میں مقیم ہے، اس کا ذکر کیا. پلان سن کر اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کردی. نہ صرف وہ بلکہ ہمارا ایک اور مشترکہ انگریز دوست بھی پلان سن کر چلنے کیلئے راضی ہوگیا. چنانچہ استنبول کے ایک سلطانی طرز کے چھوٹے سے خوبصورت ہوٹل میں دو کمرے نہایت مناسب قیمت میں بک کروالیے گئے اور مقررہ دن پر ہم استنبول جاپہنچے. کیا ہی حسین اور منفرد شہر ہے استنبول ! ہزار سالہ اسلامی تاریخ جاننی ہو، خلافت عثمانیہ کا جاہ و جلال محسوس کرنا ہو یا پھر شاہی طرز تعمیر دیکھنا ہو. استنبول اپنی مثال آپ ہے. اسے مساجد کا شہر کہا جاتا ہے. جس طرف نظر کرو وہاں ایک سے ایک حسین مسجد قائم نظر آتی ہیں. سیاحوں کے اژدہام کے باوجود صفائی اور نظم و ضبط اپنے عروج پر دیکھائی دیتا ہے. مسکراتے ہوئے، مدد کیلئے تیار اور صفائی پسند ترک عوام سیاح کے تجربے کو مزید مثبت بنادیتے ہیں. ہوٹل، ریسٹورنٹ، سڑکیں، پارک .. جہاں بھی جاؤ ہر طرف خوبصورت بلیاں آزادانہ گھوم رہی ہیں. یوں لگتا ہے کہ مقامی باشندوں کو ان سے خاص انس ہے. کتوں کی بھی ایک اچھی تعداد آزادانہ گھوم رہی ہے، جن کے ساتھ گورنمنٹ نے ٹریکر لگا رکھے ہیں. یہ کتے دیکھنے میں ہرگز بھی آوارہ کتے نہیں لگتے بلکہ مہنگی نسل کے محسوس ہوتے ہیں. نہ جانوروں کو مقامی انسانوں سے کوئی خوف ہے اور نہ ہی رہائشیوں کو ان جانوروں سے کوئی خطرہ. مسلم ملک ہونے کی بناء پر تمام کھانے حلال ہیں. مقامی ڈشوں میں ہمیں سب سے زیادہ پسند ان کا ایک روایتی میٹھا آیا جس کا نام "کنافے" ہے اور جسے چیز یعنی پنیر کے ساتھ بنایا جاتا ہے. اسی طرح ان کی مٹھیاں جو ٹرکش ڈیلائیٹ کہلاتی ہیں مزیدار ہیں. خریداری کے حوالے سے اگر صحیح سودا کیا جائے تو قیمتیں مناسب ہیں. ترکی کے نقش و نگاری سے مزین برتن اور نہایت خوبصورت قمقمے خریداروں کے پیر جکڑ لیتے ہیں. دکانداروں کے ایجنٹ ہر مصروف چوک پر خریداروں کی تاک میں رہتے ہیں. ایک قالین فروش نے تو ہمارے دوست کی چڑ بنالی. ہم جہاں جاتے وہ مل جاتا اور لپک کر اسکے پاس جاپہنچتا. آتے جاتے ہر جگہ لوگ قہوے یا سیب کی چائے سے تواضع کرتے. مجھے سبز سیب کی چائے بہت پسند آئی جو میں پینے کا موقع نہیں چھوڑتا.
.
ممتاز سیاحی مقامات قریب قریب واقع ہیں. سب سے پہلے ہم نے 'ہیگیہ صوفیہ' کو دیکھا. یہ عظیم الشان عمارت اپنے آپ میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے. یونانی کاریگروں کے ہاتھوں تیار کردہ یہ تعمیر دراصل اپنی ابتداء میں ایک چرچ تھا اور کہا مشہور ہے کہ اس نے فن تعمیر کی انسانی تاریخ کو بدل ڈالا. زمانے کے بہت سے سرد و گرم دیکھنے کے بعد خلافت عثمانیہ نے اسے مسجد میں تبدیل کردیا. محراب، منبر اور مینار اس میں شامل کردیئے گئے مگر ١٩٣٥ میں اسے عوام کیلئے ایک میوزیم کی طرح کھول دیا گیا. اس کے وسیع ہال میں کھڑے ہوکر انسان مبہوت رہ جاتا ہے کہ ایک جانب تو اللہ عزوجل، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسم مبارک آویزاں ہیں اور ساتھ ہی مریم علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور ملائک کی تصاویر بھی چھت پر نقش ہیں. یہاں سے نکل کر ہم دوسرے مقبول ترین سیاحی مقام 'بلیو موسق' یانی نیلی مسجد میں داخل ہوئے. اس مسجد کا حقیقی مگر غیرمقبول نام سلطان احمد مسجد ہے اور اسے عثمانی خلافت کے جاہ و جلال کے ساتھ سلطاں احمد نے 'ہیگیہ صوفیہ' کے بلکل سامنے تعمیر کیا تھا. یہ ایک خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار مسجد ہے. اس کا ایک حصہ تمام سیاحوں کیلئے کھلا ہے مگر قانون ہے کہ مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جسم اور سر ڈھانک کر اندر داخل ہوں. اسی مسجد کا دوسرا حصہ نمازیوں کیلئے خاص ہے. ہم تینوں دوستوں نے وہاں نماز ادا کی. اپنے غیر مسلم دوست کو وضو اور نماز کا طریق سیکھایا.
.
دوسرے روز ہم نے تاریخی مقامات میں خلافت عثمانیہ کا شاید سب سے بڑا مظہر 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' دیکھا. یہ ایک عالیشان محل ہے جو عثمانی سلطانوں یا خلفاء کی چار سو سال تک رہائش گاہ رہی ہے. یہ چار بڑے آنگنوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی عمارتوں پر مشتمل ہے. باغ، فوارے، سپاہیوں کی رہائش گاہیں، خاندان سلطان کا گھر، حرم، خدمت گزاروں کنیزوں کے ٹھکانے، مشاورت کی زبردست جگہیں، عدالتیں اور بیت المال. اس محل میں اتنا کچھ ہے کہ اسکی تفصیل پر کتاب لکھی جاسکتی ہے اور لکھی جاچکی ہیں. 'ٹوپ کاپی پیلس (محل)' کا ایک حصہ میوزیم بنادیا گیا ہے جہاں وہ وہ اسلامی تاریخی نوادرات موجود ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں. اہل بیت سے لے کر صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین تک کی بیشمار استعمال شدہ چیزیں یہاں موجود ہیں. پھر وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کرتا مبارک ہو، تیرہ سو سالہ پرانا قران حکیم ہو، غلاف کعبہ ہو یا پھر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواریں. تاریخ کا ایک خزانہ آپ کا منتظر ہے. تلواروں کا سائز دیکھ کر بے اختیار مجھے ان اصحاب کی جسمانی قد و قامت کا اندازہ ہونے لگا. حضرت جعفر بن طیار ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اجمعین کی تلواریں مجھے بقیہ تلواروں سے دیکھنے میں زیادہ بھاری محسوس ہوئیں. ایک حیرت انگیز مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ کچھ برتنوں اور تلواروں پر جو صحابہ کے زیر استمال تھے یا صحابہ کے دور سے بہت قریب تھے، تصاویر بنی ہوئی تھیں. ان تصاویر میں زیادہ تر شبیہہ شیر، عقاب یا ڈریگن کی تھی. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہید دندان مبارک، موئے مبارک اور نقش قدم بھی یہاں موجود ہے. ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر نشانیاں جیسے آپ کا خط یا انگوٹھی مبارک بھی موجود ہے. قدیم قرانی نسخہ ہو یا دیگر تحاریر مجھے اعراب نظر نہیں آئے. اسی میوزیم کا ایک اور حصہ دیگر انبیاء کی نوادرات سے آراستہ ہے. جیسے حضرت یوسف الیہ السلام کی پگڑی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا !! ان کا یہاں موجود ہونا میرے لئے نہایت حیرت کا سبب تھا اور میرے ذہن میں شکوک پیدا ہونے لگے. میں نے ایک ایک کر کے کئی لوگوں سے وہاں اسکے بارے میں دریافت کیا کہ اگر انبیاء کے یہ ہزاروں سال پرانے نوادرات سچے ہیں تو انہیں کہاں سے ملے؟ اور اسکا کیا ثبوت ہے؟ ثبوت تو ظاہر ہے مجھے کوئی نہ مل سکا مگر ایک صاحب علم سے یہ معلوم ہوا کہ خلافت عثمانیہ جب آدھی دنیا پر راج کررہی تھی تب ان نوادرات کو مصر اور حجاز سے یہاں لے آیا گیا. گویا یہ نوادرات مختلف حصوں میں نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں اور ان سب کو سلطنت عثمانیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا اور آج اسے ہم اس محل میں دیکھ پارہے ہیں. بات میں کتنا سچ ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانے مگر بہرحال ان کے صحیح یا غلط دونوں ہونے کا امکان موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====
(جاری ہے)

استنبول - میری نظر سے (قسط دوم-ختم شد)

استنبول - میری نظر سے (قسط دوم-ختم شد)
=============================
۔
شام ہوتے ہوتے جسم دکھنے لگا. مشورہ آیا کہ کیوں نا ٹرکش حمام جایا جائے؟ استنبول کے ایک قدیم ترین حمام کا پتہ ہمیں معلوم ہوا، وہاں پہنچے تو ایسا لگا جیسے وقت کا پہیہ سینکڑوں سال پیچھے چلا گیا ہو. یہ زمین دوز حمام پرانے طرز تعمیر کا نمونہ تھا. مساج کیلئے پہلوان نما ترک مرد بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ ہمیں گھور رہے تھے. ایک لمحے کو دل چاہا کہ الٹے قدموں بھاگ لیں مگر کچھ تذبذب کے بعد حامی بھر لی. ستر ڈھانپنے کو ہمیں ایک بڑا تولیہ دیا گیا، جسے ہم نے سختی سے لپیٹ لیا اور برہنگی نہ ہونے کو یقینی بنایا. ہمیں ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا جہاں گرم پانی کے قدیم نلکے جاری تھے. چاروں طرف کسی لمبے برش سے جھاگ ہی جھاگ میں لپیٹ دیا گیا اور بیس پچیس منٹ بعد گرما گرم پانی کے کٹورے سر پر انڈیلے جانے لگے. جسم میں سکون اور درد دونوں محسوس ہورہا تھا. اس کے بعد ان پہلوان نما مردوں نے مساج کے نام پر وہ پہلوانی کی جو آپ نے انگریزی ریسلنگ میں بھی نہ دیکھی ہوگی. دائو پیچ سے کڑاکے نکل رہے تھے۔ ہم تینوں کو اس دوران ہنسی بھی آرہی تھی اور چیخیں بھی نکل رہی تھیں. بہرحال یہ جان لیوا مرحلہ بھی ختم ہوا اور ہم نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے واپس اپنے ہوٹل کی راہ لی. اگلے روز ایک اور اسلامک ہسٹری کا میوزیم دیکھا جہاں ایسے ایسے نوادرات دیکھنے کو ملے کہ حیرت ہونے لگی. رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی نشانیاں اتنے قریب سے دیکھنا فرحت کا سبب تھا. اسکے بعد ہم نے "بیسی لیکا سسٹرن" دیکھا. یہ سینکڑوں سال پرانا پانی کا ذخیرہ ہے جو استنبول شہر کے نیچے یعنی زمین دوز ہے. یہ چھٹی صدی میں رومن سلطنت نے قائم کیا تھا. اب اس پانی کے ذخیرے میں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں. یہاں دیومالائی داستان کی کردار 'میڈوسا' کے دو سر بھی ستونوں کے ساتھ نسب ہیں. کہتے ہیں کہ انہیں رومن سلطنت کے آخری ادوار میں یہاں منتقل کیا گیا تھا. 'میڈوسا' کی یونانی داستان بڑی دلچسپ ہے. جس کے مطابق میڈوسا عورت کی شکل کی ایک بلا تھی جس کے پر تھے اور جس کے سر پر بالوں کی جگہ سانپ لٹکتے تھے. جو اسے دیکھ لے وہ پتھر کا بن جاتا تھا. میڈوسا کا سر ایک یونانی ہیرو پرسیس نے قلم کردیا تھا. جو پھر بعد میں اس کے سر کو اپنی ڈھال سے لگا کر رکھتا اور دشمن کو پتھر کا بنا دیتا. کہانی طویل ہے مگر ایک وقت آتا ہے جب میڈوسا کا سر خود کو آئینے میں دیکھتا ہے اور خود پتھر کا بن جاتا ہے. یہی وہ پتھر کا سر ہے جو اس عمارت میں نسب ہے. ظاہر ہے کہ کہانی فرضی ہے مگر گریک متھولوجی کے شوقین لوگوں کیلئے یہ ایک تحفے سے کم نہیں. سسٹرن کی اس عمارت میں ہی ہم تین دوستوں نے سلطانی لباس اور تلواریں سنبھال کر کچھ تصاویر بھی کھنچوائی اور اس بچپنے میں ہمیں خوب مزہ آیا.
.
یہاں سے فارغ ہوکر ہم پتھر سے بنے "گلاٹا ٹاور" گئے. اس عظیم الشان عمارت کی اونچائی پر پہنچ کر پرانے استنبول کا نظارہ کرنا خوش کن تجربہ تھا۔ بگلے ہمارے آس پاس آکر بیٹھ رہے تھے. کچھ دیر بعد ہی ہم نے واپسی کی راہ لی. شام میں ہم نے ایک بحری جہاز کا ٹرپ بک کروا لیا تھا جو ہمیں خوش قسمتی سے کافی مناسب پیسوں میں دستیاب ہوگیا تھا. یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت جہاز تھا جو ہمیں آبی راستے سے پورا استنبول گھماتا رہا. جہاز کے اندر بہترین کھانے کا اہتمام تھا. طرح طرح کے پروگرام پیش کیئے جانے لگے جیسے سلطانی طرز کا ڈرامہ، روایتی رقص، تلوار زنی، میجک شو وغیرہ. سب سے عمدہ پروگرام صوفی رقص تھا، جس میں ایک صوفی نے پہلے سیاہ اور پھر سرخ رنگ کے کپڑوں میں پورے اہتمام سے گول گھوم کر ایک وجدانی رقص پیش کیا. پہلی بار اس صوفی رقص کا فلسفہ سمجھ آیا۔ میں جہاز کے اپر ڈیک پر چلا گیا اور کتنی ہی دیر استنبول کی مختلف تعمیرات دیکھتا رہا. رات دیر کو ہم تینوں دوستوں نے "تقسیم اسکوائر" جانے کا پلان بنایا جو بلاشبہ استنبول کی رونق کا نمونہ ہے. خوبصورت علاقہ، بیشمار دکانیں، روشنیاں، ان گنت لوگ ایک سحر سا پیدا کردیتے ہیں. یہاں ہم نے پہلی بار یہاں کا روایتی میٹھا "کنافا" تناول کیا، جس کا ذائقہ اسوقت بھی زبان پر محسوس ہورہا ہے. رات گئے یہاں گھومتے رہے اور پھر ہوٹل واپس آکر نڈھال سو گئے. صبح ناشتے کے وقت اپنے ایک مقامی دوست کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اسکی بحث ایک اور مقامی سے ہونے لگی. ہمارا دوست طیب اردگان کا پرزور حامی تھا اور دوسرا شخص اردگان کا پرجوش دشمن جو کہہ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے دھماکے ہورہے ہیں، سیاحت متاثر ہورہی ہے. جب کہ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ یہ دھماکے اردگان کو روکنے کیلئے کیئے جارہے ہیں جس نے اس معاشرے میں ایک بار پھر اسلامی اقدار بحال کی ہیں. میں نے خاموشی سے ان کی باتیں سننے اور سوالات کرنے تک خود کو محدود رکھا. ایک بزرگ خاتون ہاتھوں میں کچھ اخروٹ تھامے اسے بیچنے کی کوشش کررہی تھے، میں نے ان سے کچھ زیادہ دام دے کر وہ لے لئے تو انہوں نے میرا چہرہ تھام کر اتنی دعائیں دیں کہ دل خوشی سے بھر گیا. ہم نے اپنے اس دوست سے طے کیا کہ ہم کسی اور کو پیسے دینے کی بجائے تمہیں پیسے دیں گے، تم ہمیں اپنی گاڑی میں کچھ روحانی مقامات لے کر جاؤ. چانچہ ہم اسکے ساتھ روانہ ہوئے. سب سے پہلے وہ ہمیں 'یوسھا ہل ' لے گیا جو خاصی اونچائی پر ایک خوبصورت مقام تھا. یہاں ہم کچھ دیر قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوئے.
اس کے بعد ایک لمبی ڈرایو کرکے پڑوسی شہر 'آیوپ' گئے جہاں حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مدفون ہیں. فاتحہ پڑھی اور نماز بھی اسی مسجد میں ادا کی. دعاؤں سے فراغت کے بعد باہر علاقہ گھومنے لگے تو ہمارا مقامی دوست اچانک خوشی سے چلانے لگا. وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اس نے کچھ اور پاکستانی دیکھے ہیں جو اردو بول رہے ہیں. اسے لگتا تھا کہ یہ ہمارے لئے نہایت خوشی کی بات ہوگی. بہرحال اسکے جذبے کو دیکھ کر میں اس کے ساتھ گیا تو وہ سبز پگڑیوں میں ملبوس دعوت اسلامی کے کچھ بھائی تھے. ان سے دعا سلام ہوئی اور ہم واپس گاڑی میں سوار ہوگئے. ہمارا یہ دوست ہمیں ایک بہت معروف دینی بزرگ محمد تقادی کے مزار پر لے گیا جہاں اردگرد خوبصورت پھول موجود تھے. ہم نے پھر فاتحہ پڑھی، کچھ دیر رکے اور واپسی کی راہ لی. اسکے بعد ایک نہایت خوبصورت مسجد گئے جسے سلطنت عثمانیہ میں تعمیر کیا گیا تھا. اس کا نام ہے 'سکولو محمود پاشا مسجد'. خوبصورت طرز تعمیر اور نقش و نگاری کے علاوہ یہاں حجر اسود کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی موجود ہے. مسجد کا وہ حصہ بند کیا جاچکا تھا مگر ہمارے دوست نے جب ہمارے بارے میں بتایا تو اس ترک بزرگ نگہبان نے ہمیں کچھ دیر وہاں جانے کی اجازت دے دی. حجر اسود کے اس ٹکڑے کو انگلی کے لمس سے محسوس کیا اور دعائیں کی. یوں ہمارا یہ سفر بھی ختم ہوا. استنبول کے دو بازار بہت مشہور ہیں پہلا ہے گرینڈ بازار اور دوسرا ہے اسپائس بازار. کافی دیر ہم دکانیں دیکھتے رہے، سودے بازیاں کرتے رہے اور مقامی تحفے تحائف خریدتے رہے. میں نے اپنے دوستوں کیساتھ خوبصورت نقوش والی کچھ پلٹیں خریدی. واپسی کا وقت ہوچکا تھا لہٰذا ہم تینوں نے ہوٹل سے سامان اٹھایا اور ٹیکسی سے ائیرپورٹ کی راہ لی. ہمیں یقین نہیں آرہا تھا اور ہم ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے کہ صرف تین دنوں میں ہم نے اتنے سارے مقامات گھوم لئے. گو ابھی بھی کئی ایسے مقامات ہیں جن کا مضمون میں ذکر ہونے سے رہ گیا ہے.
.
====عظیم نامہ====

مخلص اور ایمان دار


آپ کا مخلص اور ایمان دار ہونا آپ کے عقلمند اور درست ہونے کی دلیل نہیں ہے.
۔
آپ بیک وقت نہایت مخلص اور انتہائی احمق ہوسکتے ہیں.
۔
اسی طرح آپ کا پوری ایمان داری سے تحقیق کرنا آپ کے صحیح ہونے کا حتمی ثبوت نہیں ۔
۔
آپ بیک وقت اچھے محقق اور مکمل غلط ہوسکتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

نیکی

یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات اپنی کسی نیکی کا بیان دوسروں کیلئے ترغیب کا سبب بن جاتا ہے. مگر کچھ نیکیاں اپنے نامہ اعمال میں ایسی ضرور رکھیں جو صرف آپ کے اور آپ کے رب کے درمیان مخفی رہیں. ایمان پوشیدہ ہے اور پوشیدہ نیکیوں سے قوی ہوتا ہے.
.
====عظیم نامہ====

فطرت کی رہنمائی

اگر عقل اپنے مدارج، فطرت کی رہنمائی میں طے کرے تو اسکا لازمی نتیجہ ایک ایسا سکون ہے جو آپ کا قلبی و عقلی شخصیت کا مکمل احاطہ کرلیتا ہے. قران حکیم میں اسکی مثال حکیم لقمان علیہ سلام کی صورت میں دی گئی ہے، قران کے اسلوب سے واضح ہے کہ وہ غالباً نہ تو نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیرو. مگر انہوں نے اپنی عقل کا استمعال فطرت کی رہنمائی میں کیا تو اسی حکمت کے وارث بن گئے جو انبیاء کی میراث ہے. ابراہیم علیہ سلام بھی نبوت ملنے سے قبل اسی فطرت کی رہنمائی میں اپنی عقل کا استمعال کرتے رہے، کبھی سوچا کہ سورج میرا رب ہے، پھر مسترد کیا. پھر چاند ، ستاروں کو رب کہا مگر عقل و فطرت نے اسے بھی مسترد کردیا. بلاخر فطرت کی رہنمائی میں اس عقلی ارتقاء سے وہ یہ جان گئے کہ یہ سب خود مخلوق ہیں اور خالق وہ ہے جو انہیں ایک نظام کا پابند کرتا ہے. نبوت انہیں اس دریافت کے بعد عطا ہوئی. عام انسانی تاریخ میں فیثا غورث اور سقراط اسی عقل و فطرت کے امتزاج کا بہترین نمونہ ہیں. میرا ماننا یہ ہے کہ جب اخلاص فطرت کی رہنمائی میں تعقل کے درجہ پر پہنچتا ہے تو حقیقت الہام کردی جاتی ہے.
.
====عظیم نامہ====

نحوست


گناہوں کی یہی نحوست کتنی غلیظ ہے کہ بندہ ذوق عبادت کھو بیٹھے، ذکر کی حلاوت سے محروم ہونے لگے اور سجدے کی توفیق اس سے چھننے لگے. ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے کہ نماز کی پابندی گناہوں سے روکتی ہے مگر اس میں یہ پیغام بھی مضمر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا الٹ ہوجائے یعنی گناہ کی دانستہ کثرت بندے کو نماز کی پابندی سے روکنے لگے.
.
===عظیم نامہ====

آپ سوچا کیئے

آپ نے کیا کیا؟ آپ دیکھا کیئے، آپ سوچا کیئے!
============================
.
آپ ایسے جیئے، اپنے لب سی لئے!
اس نے آنسو دیئے، آپ نے پی لئے!
.
سر پر تلوار تھی، خوف میں جی لئے!
آپ پھرتے رہے، لاش اپنی لئے!
.
آپ کا گھر بچا، باقی سب جل گیا!
آپ نے کیا کیا؟ آپ دیکھا کیئے، آپ سوچا کیئے!
.
آج ہے میرا گھر، کل کوئی اور ہے!
مسئلہ دوستو قابل غور ہے!
.
امن و انصاف کا بے سبب شور ہے!
بن گیا ہے وہ منصف، جو خود چور ہے!
.
آپ کو لوٹ کر، اس نے گھر بھر لیا !
آپ نے کیا کیا؟ آپ دیکھا کیئے، آپ سوچا کیئے!

نعت

اعتراف: جب دماغ پر بوجھ ہو، طبیعت اداس ہو اور دل اچاٹ ہو تو ایسے میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سننا بہت سکون دیتا ہے

بہتر چیز

جہاں تک ممکن ہو بہتر چیز اپنے مسلم یا غیر مسلم بھائی کو آفر کردیں اور اپنے نفس کو کمتر پر راضی رکھیں. جب کسی کے ساتھ ہوں تو اپنے دل سے پوچھیں کہ میرے نفس کو اس وقت کیا محبوب ہے؟ اور پھر اس انتخاب کو اپنے بھائی کیلئے آفر کرکے قربان کردیں. گویا غیرمحسوس انداز میں بہتر نشست بیٹھنے کیلئے یا کھانے کا بہتر حصہ تناول کرنے کیلئے انہیں پیش کردیں. ابتداء میں یہ عمل طبیعت پر شدید گراں گزرے گا مگر اگر کر گئے تو ان شاء اللہ تہذیب نفس میں بہت معاون ثابت ہوگا اور ایک ایسی اندرونی فرحت کا سبب بنے گا، جس کی مثال نہیں.
.
====عظیم نامہ====

روز قیامت معاف

اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ اللہ رب العزت آپ کے بڑے بڑے ان گنت گناہوں کو روز قیامت معاف فرمادیں تو پھر اپنا دل بڑا کریں اور ہر اس انسان کو بلاتفریق و تمیز سچے دل سے معاف کردیں جس نے کبھی آپ کا کوئی حق مارا ہو، آپ کو نقصان پہنچایا ہو یا آپ کی دل آزاری کی ہو. ہرگز یہ نہ کہیں کہ اس شخص کا فلاں گناہ یا جرم اتنا بڑا ہے کہ میں معاف نہیں کرسکتا. اگر میں کسی کی زیادتی کو بڑا سمجھ کر معاف نہیں کرسکتا تو مجھے کیا حق ہے کہ اپنے بڑے جرائم بناء سزا معاف ہوجانے کی رب سے امید رکھوں؟ ہاں یہ درست ہے کہ رب کریم رحمٰن و رحیم ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ اپنے بندے سے وہی معاملہ کریں گے جیسا معاملہ اس نے اپنے اختیار سے دیگر مخلوق کیساتھ کیا ہوگا. اس حدیث کو دیکھیئے
.
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی آرزو ہو کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے تو اس کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کی شہادت دیتا ہو اور وہ لوگوں سے بھی وہی معاملہ کرے جو اپنے لئے چاہتا ہو‘‘۔( الطبرانی)
.
گویا اگر کوئی انسان اپنے لئے روز قیامت معافی چاہتا ہے تو چاہیئے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو معاف کرنے کی عادت ڈال لے. بیشمار آیات و احادیث میں ہماری یہی تربیت کی گئی ہے. اگر یہ حقیقت آپ کو سمجھ آگئی ہے تو راقم بحیثیت بھائی آپ سے یہ استدعا کرتا ہے کہ آج ہی اس انسان کو فون کریں یا اس سے ملاقات کریں جس کے خلاف آپ کے دل میں رنجش ہے، اس سے پوری محبت سے بات کریں اور اسے صدق دل سے اللہ کی رضا کیلئے معاف کردیں.
.
دھیان رہے کہ معاف کردینا محض الفاظ کا ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اپنے دل کو مخاطب کی جانب سے صاف کرلینے کا نام ہے. مشاہدہ ہے کہ خواتین کو خاص کر یہ مرحلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اگر الفاظ سے معاف کر بھی دیں تو ساری زندگی دل صاف نہیں کر پاتی. ان کا دل بدستور اس زیادتی پر زخمی رہتا ہے اور بعض اوقات تو وہ منتظر رہتی ہیں کہ کب فلاں شخص اسی دنیا میں اپنی برائی کی سزا پالے. ایسا معاف کرنا کسی زاویئے سے بھی معاف کرنا نہیں ہے. اگر آپ بھی خود میں اسی روش کو موجود پاتے ہیں تو جان لیں کہ یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس سے آپ کو نجات حاصل کرنی چاہیئے. ایسی صورت میں ایک آزمودہ علاج یہ ہے کہ اس زیادتی کرنے والے انسان کیلئے دن رات خیر کی دعا کریں چاہے خود پر جبر کرکے کرنی پڑے. ساتھ ہی اللہ پاک سے اپنے لئے بھی دعا مانگیں کہ وہ آپ کے دل کو راضی فرما دے.
.
====عظیم نامہ====

بدبو


شراب ہو یا ہیروئن گانجے کی طرح کوئی بھی نشہ سب سے ایک ناگوار بدبو اٹھتی ہے۔ یہ اصول تو نہیں ہے مگر مشاہدہ ہے کہ روزمرہ کی خورونوش کی اشیاء میں اکثر طیب چیزیں خوشبودار اور غیر طیب چیزیں بدبودار ہوتی ہیں۔ کچا گوشت چاہے مچھلی کا ہو یا کسی اور جانور کا، جب تک کچا رہتا ہے اسے کھایا نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ اسے اتنا پکایا جاتا ہے کہ وہ گلنے لگے اور بدبو خوشبو میں تبدیل ہوجائے۔ جیسے ابتداء ہی میں عرض کیا کہ یہاں اصولی بات نہیں ہورہی بلکہ راقم اپنا ایک احساس قاری سے بانٹ رہا ہے۔ کئی ایسی حلال اشیاء بھی ہیں جن کی بو خوشگوار نہیں جیسے پیاز یا لہسن وغیرہ۔ مگر اول تو انکی بو اتنی بری بھی نہیں ہوتی کہ انسان کو کھڑے رہنا دوبھر ہوجائے اور دوم یہ کہ ان کو کھا لینے کے بعد سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منہ کی اضافی صفائی کے اہتمام کی تلقین کرتی ہے اور اس بدبو کیساتھ مساجد آنے سے منع کرتی ہے۔ اونٹ کے گوشت میں چونکہ اضافی بو ہوتی ہے، اسلئے ایک فقہ میں تو اس قدر احتیاط ہے کہ اونٹ کا گوشت تناول کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنے کا حکم ہے۔
۔
رفع حاجت سے جو بدبودار فضلہ باہر آتا ہے، اس کی بدبو ہی سلیم الفطرت انسان کو اس سے جلدازجلد نجات پر ابھارتی ہے۔ یہی معاملہ الٹی ہوجانے یا ریح کے خارج ہونے کا ہے، اسکی معیوبیت کی اصل بدبو ہی ہے۔ بہترین قیمتی کھانا بھی اگر سڑ گل جائے تو بدبودار ہوکر کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ انسان نہائے نہیں، گندہ رہے تو اس سے بدبو اٹھنے لگتی ہے۔ گویا کسی شے کی بدبو اور خوشبو اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر اس شے کا مخفی و ظاہری احوال سناتی ہے۔ کھانے پینے یا استعمال کی وہ چیزیں جن کے حلال، حرام یا مکروہ ہونے میں آدمی کو بعض اوقات اشکال ہوتا ہے۔ ان کی بو ہمیں محتاط کرسکتی ہے یا سمجھنے میں کسی قدر معاون ہوسکتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص سنتوں میں سے ایک سرفہرست سنت خوشبو لگانا ہے اور دوسری سرفہرست سنت ہر وضو کے وقت مسواک کرنا ہے۔ مسواک دانتوں کی صفائی کرکے نہ صرف بدبو یا گندگی دور کرتی ہے بلکہ لکڑی کی مہک خوشبو بھی چھوڑجاتی ہے۔ اگر ہم اسی روح کو سمجھتے ہوئے دور حاضر میں موجود کسی اور جدید طریق کو اختیار کرتے ہیں جو حرام نہ ہو اور خوشبو بھی پیدا کردے تو راقم کے نزدیک ایسا کرنا احسن عمل ہے۔ اسکی ایک مثال ان ماوتھ فریشنرز کا استعمال ہے جو حلال اجزاء پر مبنی ہیں اور منہ کی بو دور کردیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایک مسلم و مومن کیلئے بدبو سے بچنا اور خوشبو کا اہتمام رکھنا ضروری ہے۔ کچھ احادیث کے مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بدبو ملائکہ کو اذیت دیتے ہیں اور انہیں آپ سے دور رکھتے ہیں۔ جبکہ نیک اعمال کے ساتھ صفائی اور خوشبو کا اہتمام ملائک کو اپ سے نزدیک رکھتا ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

سائنسی مزاج

زیادہ سائنسی مزاج کے لوگ نئی تحقیق کے نام پر چیزوں کو مضر صحت اور زیادہ مذہبی مزاج کے افراد مذہب کے نام پر چیزوں کو حرام یا مکروہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. سچ یہ ہے کہ اپنی اصل میں نہ سائنسی ذوق رکھنا غلط ہے اور نہ ہی مذہبی مزاج ہونا معیوب ہے. لیکن جس طرح کسی بھی شے کی زیادتی مضر ہے. ویسے ہی سائنس یا مذہبیت کا ہیضہ طاری ہوجانا غلط ہے. ہم امت وسط ہیں اور ہمیں ہر معاملے میں اعتدال کی تلقین کی گئی ہے
.
====عظیم نامہ ====

حسن کیا ہے؟

حسن کیا ہے؟
========
.
یہ سچ ہے کہ چہرے کے نقوش، رنگت یا جسمانی خدوخال کسی بھی مرد و زن کے حسن کو بیان کرتے ہیں. مگر 'حسن' فقط ان ہی چند عوامل پر مشتمل نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے. انسان کی انفرادیت، اس کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، گفتگو کا اسلوب، استدلال کا طریق، لہجے کا ٹہراؤ، علمی وسعت، بالوں کا سلیقہ، پراعتماد انداز، زبان پر عبور، کپڑوں کا انتخاب، مسکراہٹ، ظاہری صفائی، عمومی اخلاق اور دیگر اداؤں سمیت ڈھیر سارے عوامل ایسے ہوا کرتے ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کو حسن عطا کردیتے ہیں. یہ بہت ممکن ہے کہ کوئی مرد یا عورت کچھ حوالوں سے حسین ہو مگر دیگر حوالوں سے بھدا. لہٰذا چہرے مہرے سے بظاہر کوئی خوبصورت نظر آنے والی حسینہ اگر زبان کھولتے ہی گفتگو سے اجڈ گنوار سنائی دے تو ساری جاذبیت پل میں رفوچکر ہوسکتی ہے. اسی طرح کوئی وجیہہ خوبصورت مرد اگر پسینے سے متعفن زدہ رہے تو اسکی وجاہت کسی کام کی نہیں رہتی. لوگ اس سے دور ہی بھاگیں گے. لوگ کہتے ہیں کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے. لیکن کیا یہ واقعی سچ ہے؟ راقم کے نزدیک یہ بات استثنیٰ کے طور پر کسی درجے میں قبول ہوسکتی ہے مگر اسے اصولی نہیں سمجھا جاسکتا. اصول یہی ہے کہ حسین شے کو ہر دیکھنے والی آنکھ حسین ہی پکارتی ہے. جیسے گلاب کی خوبصورتی، چاند کے حسن یا ببر شیر کی وجاہت پر کم و بیش پوری انسانیت متفق ہے. ویسے ہی کوئی انسان جو فی الواقع حسین ہو، اسے ہر ایک حسین ہی پکارا کرتا ہے.
.
البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی فرد کو دوسرے فرد کا کوئی خاص حسن کا پہلو اس درجے بھا جائے کہ اسے دیگر پہلوؤں پر نظر کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے. عموماً یہی وجہ ہوتی ہے کہ کوئی حسین لڑکی کسی کم صورت لڑکے پر فقط اس کے علم، اعتماد اور انداز گفتگو کے سبب فدا ہوجاتی ہے. یا پھر کوئی زبردست شخصیت کا مرد کسی کم شکل لڑکی پر اسکی حیاء یا ادا دیکھ کر دل دے بیٹھتا ہے. دنیا چونکہ اس خاص پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دیتی بلکہ دیگر پہلو دیکھ رہی ہوتی ہے. اسلئے تحقیری جملے کسنے لگتی ہے جیسے کہ حور کے ساتھ لنگور ہے یا شہزادے کے ساتھ بھنگن ہے وغیرہ. درحقیقت اس لڑکے یا لڑکی نے بھی انتخاب اکثر 'حسن' ہی کی کی بنیاد پر کیا ہوتا ہے مگر یہ حسن کسی خاص پہلو سے متعلق ہوتا ہے جو اس فرد کے لئے سب سے زیادہ جاذب ہوا کرتا ہے. کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بعض اوقات کسی فلمی ہیرو کو حسین کہہ کر بہت سی لڑکیاں دیوانی ہورہی ہوتی ہیں لیکن اصل میں وہ ایک انتہائی عام صورت انسان ہوتا ہے. جسے اگر شہرت حاصل نہ ہوئی ہوتی تو کوئی شائد نوٹس تک نہیں کرتا. یہی حال مرد ناظرین کا کسی ڈرامہ کی خاتون کے بارے میں ہوتا ہے. وجہ یہ ہے کہ اپنی فلموں ڈراموں کے ذریعے مختلف انداز و ڈائلاگز سے اس ہیرو یا ہیروئن نے خود کو خوبصورت 'منوا' لیا ہوتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی انسان بھی مکمل بدصورت نہیں ہے اور نہ ہی کامل خوبصورت ہے. بلکہ خوبصورتی و بدصورتی مختلف پہلوؤں کی صورت ہر انسان میں الگ الگ موجود ہوتی ہے. سوال اصل یہ ہے کہ کون اپنی خوبصورتی نکھارتا ہے؟ اور کون بدصورتی کے پہلوؤں کو خود پر طاری ہونے دیتا ہے. یاد رکھیں کہ باطن کی خوبصورتی تو سب سے اہم ہے ہی مگر ایک مسلمان کو اپنی ظاہری خوبصورتی کا بھی اہتمام رکھنا چاہیئے. کلام کا اختتام صحیح مسلم کی اس حدیث سے کرتا ہوں، جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
.
جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ، توایک شخص کہنے لگا آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اورجوتے اچھے ہوں ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتا ہے ، تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جاۓ اور لوگوں کوحقیر اوراپنے آپ کواونچا سمجھا جاۓ. صحیح مسلم حدیث نمبر ( 131 ) ۔
.
====عظیم نامہ====

چار شادیاں کرنا

کئی مغربی ممالک کے قانون کے مطابق مسلمان مرد اپنی مذہبی آزادی کو بنیاد بنا کر ایک سے زائد شادی نہیں کر سکتے. اس پابندی پر کوئی شور نہیں مچایا جاتا بلکہ تمام مسلمان خاموشی سے اس قانون کی پاسداری کرتے ہیں. وجہ یہ ہے کہ اسلام میں چار شادیوں تک کی 'اجازت' ضرور ہے مگر چار شادیاں کرنا 'لازمی' ہرگز نہیں ہے. یہی اجازت اور لازمی کا فرق اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کون سا حکومتی حکم ایک مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں تسلیم کرسکتا ہے اور کون سا نہیں؟ چانچہ اگر خدانخواستہ حکومت کی جانب سے کسی فرض حکم الہی جیسے نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی جائے یا روزے رکھنے کو ممنوع قرار دے دیا جائے تو ایسے میں ایک مسلم اس حکومتی حکم کو تسلیم نہیں کرے گا. اور اسے ہمارا مشورہ بھی یہی ہوگا کہ جلد از جلد وہ ایسی سرزمین سے ہجرت کرجائے جہاں اسے دین کے بنیادی ارکان یا احکام پورے کرنے کی آزادی نہیں. اس سے کمتر کوئی 'اجازت' کی نوعیت والی پابندی اگر حکومت کی جانب سے لاگو ہو تو مسلم پر فرض ہے کہ وہ ملکی نظم و قانون کی پابندی کرے.
.
اسی طرح 'گائے' کا گوشت کھانے کی مسلمان کو اجازت ضرور ہے مگر اسے کھانا 'فرض' ہرگز نہیں ہے. لہٰذا اگرہندوستانی حکومت کی جانب سے اس پر حالات کے پیش نظر پابندی لگائی گئی ہے تو راقم کی ناقص سمجھ میں اس پر عمل کرنا ہر ہندوستانی مسلم شہری کی ذمہ داری ہے. ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا کہ ہندو دھرم جو کہ بھارت کا غالب ترین مذہب ہے، اس میں گائے کو ماں کی صورت غیر معمولی تقدس حاصل ہے. چنانچہ بحیثت مسلم ہم اس کے مقدس ہونے یا نہ ہونے پر مہذب گفتگو تو کرسکتے ہیں مگر تحقیری انداز اختیار کرکے مذاق نہیں اڑا سکتے. حال ہی میں انتہا پسند ہندووں کی جانب سے گائے کے ذبیحہ کو لے کر پے درپے کئی مسلم جانیں تلف کی گئیں اور کئی کو غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ظاہر ہے اس امر کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بھارت میں کسی بھی پسماندہ ملک کی طرح جہالت و انتہاپسندی موجود ہے۔ مسلم ممالک باسمیت پاکستان میں بھی ایسے عناصر موجود رہے ہیں جو مذہبی جذباتیت کا سہارا لے کر مخالف مسلک یا مذہب کے افراد کو ظلم کا نشانہ بنادیتے ہیں۔ پڑھا لکھا طبقہ البتہ ایسے کسی اقدام یا رویئے کی مذمت کرتا ہے اور یہی معاملہ بھارت میں بھی اس مدعا کے متعلق رہا ہے۔ حکومت یا صاحب رائے طبقہ اگر گائے کی حرمت کیلئے اتنا ہی حساس ہوتا تو آج انڈیا دنیا بھر میں بیف میٹ کا نمائندہ ایکسپورٹر نہ ہوتا۔ مگر چونکہ عوامی سطح پر انتہاپسند پرتشدد عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں، اسلئے قوانین بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ لازمی ہے کہ بھارتی مسلمان اس حساسیت کو سمجھیں اور کسی ضد بحث کے بغیر گائے کے ذبیحہ سے مکمل اجتناب کریں۔ البتہ اس پابندی کے خاتمے اور عوامی آگہی کیلئے کوئی بھی پرامن کوشش ضرور کریں۔ مسلمان انڈیا میں ایک اقلیت ہیں اور اقلیت بہرحال اقلیت ہونے کی قیمت ادا کرتی ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

چارلی چیپلن

ذہین ترین سائنسدان البرٹ آئین اسٹائن کی جب مشہور مزاحیہ ایکٹر چارلی چیپلن سے ملاقات ہوئی تو اس نے چیپلن سے کہا کہ "جو چیز تمہارے آرٹ کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ تمہاری آفاقیت ہے۔ تم ایک لفظ نہیں کہتے لیکن دنیا میں سب تمہیں سمجھتے ہیں"
۔
"یہ سچ ہے" چیپلن نے جواب دیا "مگر تم مجھ سے بڑی شہرت کے حامل ہو۔ دنیا میں کوئی تمہیں نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی سب متاثر ہوتے ہیں"

براہ مہربانی انتظار فرمایئے

براہ مہربانی انتظار فرمایئے
=================
.
انسان میں حقیقی سکون اور عاجزی ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ایسا انسان الجھے بناء انتظار کرسکتا ہے. سکون سے عاری یا خود پسند انسان پر انتظار پہاڑ بن کر گزرتا ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم انتظار کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی ترغیب نہیں دے رہا، نہ ہی یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے مقصد کو کم وقت میں حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اسکی مراد وہ مواقع ہیں جب انسان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوا کرتا.
.
دیہات میں بسنے والے لوگ عمومی طور پر زیادہ پرسکون ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں کسی آفس یا قطار میں دو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑجائے تب بھی وہ پورے سکون سے یہ وقت بناء شکایت گزار لیتے ہیں. اس کے برعکس اگر آپ کسی پڑھے لکھے شہری کو بیس پچیس منٹ بھی انتظار کا کہہ دیں تو اس کے پورے وجود پر بے چینی سوار ہوجاتی ہے اور وہ ہر دوسرے منٹ گھڑی تکتا رہتا ہے. اسے لگتا ہے کہ یہ انتظار اس کی جان لے رہا ہے یا اسے ایسا کرنا اپنی بے عزتی محسوس ہوتا ہے یا پھر اسے گمان ہوتا ہے کہ اس انتظار کی وجہ سے اس کے فلاں فلاں کام نہ ہو پائیں گے. حقیقت یہ ہے کہ اکثر وہ اس دیہاتی سے زیادہ مصروف نہیں ہوتا جو کھیتوں میں ھل جوتتا ہے یا سخت مزدوری کرتا ہے. اس کیلئے مال کا حصول بھی اصولی طور پر اتنا ضروری نہیں ہونا چاہیئے جتنا کے ایک غریب یا مفلس دیہاتی کیلئے. مگر چونکہ یہ شہری مادیت کا شکار ہوتا ہے، سکون سے خالی ہوتا ہے اسلئے یہ سکون سے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا، خود سے مخاطب نہیں ہوسکتا، اپنی ذات میں جھانک نہیں سکتا، خاموشی کو سن نہیں سکتا، توجہ کا ارتکاز نہیں کرسکتا اور انتظار میں صبر و شکر سے نہیں رہ سکتا.
.
====عظیم نامہ====

انتظار - زحمت یا رحمت

انتظار - زحمت یا رحمت ؟
================
.
سوچیں تو ایک مسلم کیلئے شب و روز میں معمول سے زیادہ فارغ وقت میسر آجانا بڑی نعمت ہے. لہٰذا اگر حالت سفر میں ٹریفک کے سبب یا کسی آفس کی قطار میں غیر معمولی رش کے سبب اسے توقع سے زیادہ انتظار سے گزرنا پڑے تو وہ الجھنے کی بجائے فوراً اس وقت کو تلاوت قران پاک، ذکر اذکار، تسبیحات، تفکر و تدبر اور صحتمند مطالع سے مزین کرلیتا ہے. یوں یہ فارغ وقت اسکی آخرت کا کبھی نا مٹنے والا سرمایہ بن جاتا ہے. چانچہ مشورہ یہ ہے کہ اس مصروف زندگی میں جب کبھی انتظار سے گزرنا پڑے تو جھنجھلانے اور غصہ ہونے کی بجائے الحمدللہ کہیں اور ذکر کا اہتمام کرنے لگیں. آپ دیکھیں گے کہ پھر یہ انتظار زحمت نہیں رحمت محسوس ہوگا.
.
====عظیم نامہ====

صندوق

حکایت ہے کہ ایک چوکیدار کسی شاہ کے پاس اس ذمہ داری پر مامور تھا کہ تمام ملازمین پر نظر رکھے تاکہ محل سے وہ کوئی چیز چوری کرکے نہ لے جاسکیں۔ ایک روز اس نے تلاشی کے دوران ایک نئے ملازم کے ہاتھ میں چھوٹا سا صندوق دیکھا تو کرختگی سے پوچھا کہ "کیا ہے اس صندوق میں؟" ملازم نے منمنا کر کہا کہ اس میں محل کے بچے ہوئے کچھ باسی چاول ہیں۔ چوکیدار نے بدستور کرخت لہجے میں کہا کہ "کھول اس صندوق کو اور تلاشی دے" چنانچہ ملازم نے صندوق کھول کر دیکھایا۔ اس میں واقعی باسی چاول تھے۔ اگلے روز پھر قطار میں صندوق پکڑے کھڑا تھا۔ چوکیدار نے پھر تلاشی لی تو وہی باسی چاول برامد ہوئے۔ تیسرے، چوتھے، پانچویں روز بھی یہی ہوا۔ چوکیدار کے دل میں بدستور شک تھا کہ کچھ تو غلط ہے چھٹے روز چوکیدار نے بہت ہی باریکی سے تلاشی لی۔ صندوق کی لکڑی بھی کریدی، ٹھوک پٹخ کر بھی دیکھا مگر کیا نکلنا تھا ؟ نکلے تو صرف وہی باسی چاول۔
۔
ساتویں دن حسب معمول ملازم صندوق کیساتھ کھڑا تھا۔ اس نے ملازم کو کونے میں بلایا اور نہایت بیچارگی سے مخاطب ہوا کہ "دیکھو مجھے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ تم کچھ چراتے ہو مگر میں کوشش کے باوجود نہیں معلوم کرپایا کہ وہ ہے کیا؟ میں تمہیں زبان دیتا ہوں کہ تمہیں نہ گرفتار کروں گا نہ کسی سے شکایت لگاوں گا۔ بس مجھے اتنا بتا دو کہ تم آخر چراتے کیا ہو؟؟" ملازم نے مسکرا کر چوکیدار کے کان میں سرگوشی کی۔
۔
"صاحب میں ۔۔۔ میں صندوق چراتا ہوں !"
۔
قارئین آپ اسے حکایت کہیں، کہانی کہیں یا پھر لطیفہ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم سب بھی اکثر معاملات کو ازخود پیچیدہ بنادیتے ہیں۔ سامنے کی بڑی اور واضح حقیقت کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کرکے غیرضروری تفصیل میں الجھ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ہم اپنے دین کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ بنیادی عقائد، ذمہ داریاں اور فرائض جو دین کی اثاث ہیں اور ہر کسی کے سامنے موجود ہیں۔ ان میں روز و شب لگانے کی بجائے ان فروعی معاملات میں زندگی کھپادیتے ہیں۔ جن کا حاصل کچھ بھی نہیں۔
۔
====عظیم نامہ====

بندر

کہتے ہیں کہ کچھ افریقی قبائل بندروں کو پکڑنے کیلئے ایک انوکھی ترکیب اختیار کرتے ہیں۔ وہ ناریل میں ایک سوراخ کردیتے ہیں جس میں بمشکل بندر اپنا ہاتھ ڈال سکے۔ ناریل کے اس خول کے اندر وہ بندر کی کچھ من پسند چیزیں بھر دیتے ہیں۔ بندر آتے ہیں اور اس خول میں ہاتھ ڈال کر ان چیزوں کو مٹھی میں بھر لیتے ہیں مگر جب بھری مٹھی کے ساتھ ہاتھ باہر نکالنا چاہتے ہیں تو سوراخ چھوٹا ہونے کے سبب نہیں کرپاتے۔ اب عقل کی بات تو یہ ہے کہ مٹھی خالی کرکے ہاتھ کو خول سے چھڑا لیا جائے مگر بندر کو مٹھی میں دبی اشیاء چھوڑنا گوارا نہیں ہوتا۔ یہ بندر چیختے ہیں، دہائیاں دیتے ہیں مگر بھری مٹھی نہیں نکال پاتے۔ شکاری آتے ہیں اور بندروں کو پکڑ پکڑ کر پنجرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یوں اپنی حماقت سے بندر آزادی اور خوشی دونوں گنوا بیٹھتے ہیں۔
۔
سوچیں تو ہم انسانوں کی اکثریت بھی ان بندروں جیسی ہی ہے۔ جو اپنی اپنی مٹھی میں کچھ تھامے قیدی بنے بیٹھے ہیں۔ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں شکوے شکایات کررہے ہیں مگر مٹھی کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ کسی مٹھی میں دولت کا جنون ہے، کسی میں کسی سے بچھڑنے کا دکھ ہے، کسی میں غم و غصہ ہے، کسی میں حسرتیں ہیں اور کسی میں کچھ یادیں۔ یہ سب افراد اپنی مٹھی میں دبے جذبات و نظریات کے اسیر ہیں۔ اگر آج اپنی اپنی مٹھی کھول کر ان چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے دیں تو وہ سب بھی آزاد ہوسکتے ہیں، خوشی و سکون پاسکتے ہیں۔ مگر نہیں۔ ان سب کو شائد ہمیشہ بندر بنے رہنا ہے اور اس نادیدہ مگر خودساختہ پنجرے میں خود کو مقید رکھنا ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

حکایت

حکایت ہے کہ کسی درویش کے پاس ایک یونیورسٹی پروفیسر مہمان بن کر گیا. جاتے ہی اس نے چھپے طنز کے ساتھ سوال داغا "مجھے بتایئے کہ حکمت کیا ہے؟ "
.
درویش نے خاموشی برقرار رکھی اور تواضع کیلئے پروفیسر کے سامنے موجود پیالے میں چائے انڈیلنا شروع کی. کچھ ہی دیر میں پیالہ لبالب بھر گیا مگر درویش بدستور چائے مزید انڈیلتا گیا. چائے پیالے میں جانے کی بجائے اب چاروں طرف گرنے اور پھیلنے لگی. پروفیسر نے ابتداء میں ضبط کیا مگر پھر بلآخر چلا اٹھا. "ارے پیالہ لبالب بھرا ہوا ہے اور آپ پھر بھی چائے انڈیلے جارہے ہیں ! اس میں مزید چائے نہیں جاسکتی"
.
یہ سن کر درویش مسکرایا اور دھیمے لہجے میں مخاطب ہوا "ٹھیک کہتے ہو پروفیسر .. مگر اس پیالے کی طرح ... تمھاری ذات کا پیالہ بھی اپنے خیالات، فلسفوں اور قیاس سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ اب مزید اس میں کوئی گنجائش نہیں. میں اس وقت تک تمہیں حکمت سمیت کچھ بھی کیسے سیکھا سکتا ہوں؟ جب تک تم اپنا پیالہ کسی درجے خالی نہ کرلو؟"
.
دوستو ہم انسانوں میں بھی اکثر اپنی ذات کے پیالے کو خیالات و نظریات سے کچھ اس طرح لبالب بھر لیتے ہیں کہ پھر اس میں نئی تحقیقات، نتائج یا نظرثانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی. ہمیں ساری زندگی ایک طالبعلم کی حیثیت سے سیکھنا ضرور ہے مگر ساتھ ہی اپنی ذات کے پیالے کو کشادہ کرتے رہنا ہے. تاکہ کبھی بھی سیکھنے اور تصحیح کا عمل رک نہ سکے.
.
====عظیم نامہ====

قسمت


ایک خدا ترس کسان کا گھوڑا جنگل میں گم ہوگیا۔ دیہات کے لوگ افسوس کرنے آئے تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ کسان کو اس نقصان کا کچھ بھی ملال نہیں۔ پھر بھی کہنے لگے کہ ہائے تمہاری بری قسمت، ایک ہی گھوڑا تھا وہ بھی نہ رہا۔ کسان نے پرسکون انداز میں جواب دیا "سبحان اللہ مگر اس میں بری قسمت یا اچھی قسمت کی کیا بات؟ میرے رب کی جانب سے ایک واقعہ ہونا تھا سو ہوکر گزرگیا۔" سب دیہاتی منہ بسورتے رخصت ہوگئے۔ دو ہی روز میں وہ گھوڑا خود لوٹ آیا اور اپنے ساتھ دو اور جنگلی گھوڑوں کو لے آیا۔ دیہات والو کو معلوم ہوا تو وہ خوشیاں مناتے مبارکباد دینے پہنچے۔ کہا کہ تمہاری اتنی اچھی قسمت۔ اپنا گھوڑا بھی واپس آگیا اور ساتھ ہی دو توانا گھوڑے ساتھ لے آیا۔ کسان نے یہ سنا تو پرسکون انداز میں جواب دیا "الحمدللہ مگر اس میں اچھی قسمت یا بری قسمت کی کیا بات؟ میرے رب کی جانب سے ایک واقعہ ہونا تھا سو ہوکر گزرگیا۔" دیہات والے پھر سر جھکائے لوٹ گئے۔
۔
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان نئے جنگلی گھوڑوں کو سدھانے کی کوشش میں کسان کا بیٹا شدید چوٹ لگا بیٹھا۔ دیہات والے عیادت کیلئے جمع ہوئے اور کہنے لگے، ہائے بری قسمت جو گھوڑے بدکنے سے اتنا بڑا حادثہ ہوگیا۔ کسان نے دھیمے پرسکون انداز سے وہی جواب دیا کہ "سبحان اللہ مگر اس میں بری قسمت یا اچھی قسمت کی کیا بات؟ میرے رب کی جانب سے ایک واقعہ ہونا تھا سو ہوکر گزرگیا۔" دیہات والے اس بار باقاعدہ ناراض ہوگئے کہ یہ کیسا عجیب انسان ہے؟ ۔۔ کچھ روز بعد ہی اچانک شاہی فوج آئی اور دیہات کے تمام نوجوانوں کو شاہی حکم کے تحت فوج میں بھرتی کرنے کیلئے گرفتار کرلیا مگر کسان کے بیٹے کی زخمی حالت دیکھ کر اسے چھوڑ گئے۔
۔
اب سوال قارئین سے یہ ہے کہ یہ کیا اچھی قسمت تھی یا بری قسمت؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک سچا مومن تقدیر الہی پر کامل بھروسہ رکھتا ہے۔ وہ اس عالم اسباب میں اپنی سی کوشش اور تدبیر ضرور کرتا ہے مگر ساتھ ہی اللہ کے ماسٹر پلان سے راضی رہتا ہے۔ لہذا حالات و واقعات سے قطع نظر پرسکون رہ پاتا ہے۔ اسے فطری طور پر دکھ یا تکلیف ضرور پہنچتی ہے مگر وہ اس کے حواس پر غالب نہیں ہوپاتی۔
۔

پوری زندگی ضائع

ایک غریب ملاح کی کشتی میں دو انتہائی تعلیم یافتہ مگر خودپسند اور مغرور انسان سوار ہوئے. ان میں سے ایک اپنے وقت کا معروف فلسفی تھا اور دوسرا مشہور ریاضی دان. سمندر میں دوران سفر فلسفی نے ریاضی دان پر دھاک بٹھانے کیلئے ملاح کو مخاطب کرکے پوچھا "کیا تمہیں فلسفہ آتا ہے؟" .. ملاح نے متانت سے جواب دیا "نہیں محترم" .. فلسفی نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ "پھر سمجھو تم نے فلسفہ نہ سیکھ کر اپنی پچیس فیصد زندگی ضائع کردی" .. کچھ دیر کشتی میں خاموشی رہی. اب ریاضی دان نے فسلفی کو نیچا دکھانے کی ٹھانی اور ملاح کو بالواسطہ مخاطب کیا "کیا تمھیں ریاضی آتی ہے؟" ملاح نے بے بسی سے نفی میں گردن ہلائی اور کہا "نہیں صاحب" .. اب کے قہقہہ ریاضی دان نے لگایا اور رعونت سے بولا "پھر سمجھو تم نے ریاضی نہ سیکھ کر اپنی آدھی زندگی ضائع کردی"
.
کشتی میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی. اچانک ملاح نے فلسفی اور ریاضی دان کو مخاطب کیا اور پوچھا "کیا آپ دونوں دانشوروں کو تیراکی آتی ہے؟" .. دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور گردن نفی میں ہلاتے ہوئے بولے "نہیں مگر کیوں؟" .. ملاح نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ "پھر سمجھو آپ نے تیراکی نہ سیکھ کر اپنی پوری زندگی ضائع کردی ... کشتی میں سوراخ ہوگیا ہے اور بچنے کی واحد صورت اس وقت تیراکی ہی ہے"
.
یہ ایک فرضی داستان ہے مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ علم و ہنر کے کسی شعبے میں مہارت رکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان متکبر ہوجائے یا یہ غلط فہمی پال لے کہ علم و ہنر کے دوسرے شعبے کمتر ہیں. ایک کمہار بھی اپنے فن میں اتنا ہی مشاق ہے جتنا کوئی آئی ٹی پروفیشنل. ایک مدرسے کا عالم دین بھی ایسے ہی قابل عزت ہے جیسے ایک کالج کا پروفیسر. ہم انسان مختلف علوم میں مہارت رکھتے ہیں اور ہمیں انکسار و باہمی ادب کے ساتھ ایک دوسرے سے مستفید ہونا چاہیئے. سائنس کے شعبے انسانیت کیلئے فی الواقع تکریم کے حامل ہیں مگر اس سے ہرگز یہ مراد نہیں لینی چاہیئے کہ سائنسدان کسی فلسفی، شاعر یا مصور سے زیادہ زہین ہوتے ہے. حقیقت فقط اتنی ہے کہ ان سب کی ذہانت جدا جدا ہے اور مختلف شعبوں سے وابستہ ہے.
.
====عظیم نامہ====

تا کہ وہ

ایک غریب یہ دعا کیا کرتا کہ وہ امیر ہوجائے تاکہ وہ غریبوں کی خدمت کرسکے۔ پھر ہوا یوں کہ اسکا ایک انعام نکل آیا اور وہ راتوں رات امیر ہوگیا۔ آج وہ ایک عیاش شخص ہے جسے غرباء کی کوئی خاص پرواہ نہیں۔
۔
ایک خاتون یہ سوچا کرتی کہ اگر اسے ایکسرسائز مشین گھر پر حاصل ہوجائے تو وہ ضرور ورزش سے خود کو فٹ کرلے گی۔ پھر ہوا یوں کہ اسے بہترین یکسرسائز مشین مل گئی۔ آج اس پر ایکسرسائز نہیں بلکہ صرف کپڑے سوکھائے جاتے ہیں۔
۔
ایک بزنس مین یہ تمنا کیا کرتا کہ اسے اس مصروف ترین زندگی میں کچھ فرصت کے پل میسر آجائیں تاکہ وہ اصلاحی کتب کا مطالعہ کرسکے۔ پھر ہوا یوں کہ اسے کئی مہینے فرصت کے میسر آگئے مگر اس نے وہ تمام وقت سو سو کر اور فلمیں دیکھ دیکھ کر ضائع کردیا۔
۔
ایک لڑکا یہ کہا کرتا کہ ابھی جوانی ہے، زرا بڑھاپا آجائے تو توبہ کرکے نیک ہوجاوں گا۔ آج وہ معمر اور ضعیف ہوچکا ہے مگر اب بھی وہ عبادات سے دور اور گناہوں کا دلدارہ ہے۔
۔
عزیزان من ! یاد رکھیں کہ آپ آسانی میں وہی کام زیادہ کرسکیں گے جو آج مشکل میں کم مگر کر پاتے ہیں۔ یہ انسان کا خود کو دھوکہ ہے کہ وہ کوئی بھلائی تب ہی کرسکے گا یا اپناسکے گا جب اسے فلاں فلاں سہولت یا حالت حاصل ہوجائے۔ اسی کو قران حکیم میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔
۔
'جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتےہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے' (سورہ آل عمران 134)
۔
====عظیم نامہ====

کس کو


آپ سیاست میں کس کو لیڈر مانتے ہیں؟ ... عمران ؟ نواز ؟ بھٹو ؟ الطاف ؟ فضل الرحمٰن ؟ سراج الحق ؟ یا کوئی اور؟
.
آپ کسے اپنا پسندیدہ مذہبی عالم گردانتے ہیں؟ ... مولانا مودودی ؟ مفتی تقی ؟ غامدی صاحب ؟ ڈاکٹر اسرار؟ علامہ طاہر القادری ؟ مولانا وحید الدین؟ یا کوئی اور ؟
.
کیا آپ نے اپنی اس پسندیدہ سیاسی یا دینی شخصیت پر کبھی کھل کر تنقید کی ہے ؟
کیا آپ اس شخصیت کی مجموعی سمجھ کے کچھ پہلوؤں سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف رکھتے ہیں؟
کیا آپ اس شخصیت سے اپنے کوئی تین بڑے اختلافات بتاسکتے ہیں ؟
.
اگر نہیں تو قوی امکان ہے کہ آپ شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں. جس پر آپ کو متنبہ رہنا چاہیئے. کسی رہنما یا اسکالر کو پسند کرنا فطری ہے مگر اس کی ہر اچھی بری بات کا دفاع کرتے رہنا نفسیاتی بیماری کی دلیل ہے
.
====عظیم نامہ====

ایک عرصہ سے

کیا آپ ایک عرصہ سے دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہے ہیں ؟ ... اگر ہاں تو ایک بار اپنے ذاتی کتب کے اس ذخیرہ کو سامنے رکھیئے جو آپ پڑھ چکے ہیں اور دیانتداری سے جائزہ لیجیئے کہ کہیں ان کتب کی غالب ترین اکثریت کسی ایک مکتب فکر یا کسی خاص عالم سے متعلق تو نہیں ہیں ؟ ... اگر جواب ہاں میں ہے تو آپ کی تحقیق کا غیرجانبدار ہونا ناممکن ہے.
۔
ایک سچا محقق ہر مکتب فکر کا ایمانداری سے مطالعہ کرتا ہے. وہ جہاں کسی عالم یا مسلک کی کسی بات سے علمی اختلاف رکھتا ہے وہاں اس میں اتنی اخلاقی جرات بھی ہوتی ہے کہ وہ اسی عالم یا مسلک کی کسی دوسری بات کی تعریف کرسکے. ایک انسان چاہے وہ کسی روایتی مسلک سے وابستہ ہو یا کسی جدید مفکر کا معتقد، اگر اس کا عمل یہ ہے کہ وہ ایک ہی نکتہ نظر کی کتب کو پڑھنا پسند کرتا ہے اور دیگر آراء پر مرتب کتب اس کی طبعیت پر شدید گراں گزرتی ہیں تو یہ شخص یقینی طور پر اندھی تقلید کا حامل ہے. چاہے اسے اپنے غیرجانبدار ہونے کے بارے میں کتنا ہی اطمینان کیوں نہ حاصل ہو. اس شخصیت پرستی یا مسلک پرستی کا شکار صرف روایتی مسالک نہیں ہیں بلکہ اندھے مقلد آپ کو جدید اہل علم جیسے غامدی صاحب ، پروفیسر احمد رفیق اور مولانا وحید کے ہاں بھی بکثرت مل جاتے ہیں. گو کے اکثر جدید و قدیم اہل علم یا محققین اپنی اندھی تقلید سے روکتے رہے ہیں
.
====عظیم نامہ=====

فیس بک

فیس بک پر ایک ادھیڑ عمر صاحب سارا وقت سیاسی پوسٹیں لکھتے اور بعض اوقات مخالف سیاسی پارٹی سے متعلق نہایت نامناسب الفاظ استعمال کرجاتے. ایک دن ان کی علالت کی خبر آئی اور پھر کچھ ہی دن میں وہ انتقال فرما گئے.
.
ایک نوجوان لکھاری جو ملحدین سے مباحثہ کرنے میں سب سے آگے تھا. اسکی کچھ پوسٹیں علمی رد پر بھی ہوتی تھیں مگر کچھ پوسٹوں میں وہ اخلاقی حدود سے گر کر بھی ملحدین کو مخاطب کیا کرتا. مجھ سے بھی متعدد بار میسج کے ذریعے گفتگو کرتا رہا. ایک دن اچانک خبر آئی کہ اس کی وفات ہوگئی ہے.
.
ایک انکل میری ہر پوسٹ سے جڑے رہتے. ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے، شفقت سے پیش آتے. اختلاف کرتے تو تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے. انہیں کینسر ہوا اور کوئی سال بھر پہلے انتقال ہوگیا.
.
ایک نوجوان بہن بہت سے سوالات کیا کرتی. کبھی پوسٹ پر اور کبھی پرائیویٹ میسجز میں. ایک دن معلوم ہوا کہ اس کی وفات ہوگئی ہے.
.
کراچی میں میری انجینئرنگ یونیورسٹی کا جونئیر جو اصل میں فیصل آباد کا رہائشی تھا اور ایک بہترین مقرر بھی تھا. فیس بک پر ایک مخصوص سیاسی پارٹی کا مخلص کارکن بنا رہا اور مخالف پارٹی کے بارے میں وہ پوسٹ بھی لگا دیا کرتا جو نہ صرف جھوٹ پر مبنی ہوتی بلکہ اخلاقی طور پر بھی معیوب ہوتی. میں سمجھاتا تو بحث کرتا. کچھ ماہ پہلے اس کا گلے کے کینسر سے انتقال ہوگیا.
.
آج پھر ایک خبر آئی ہے کہ ایک خوبرو ماڈل چہرے کا نوجوان جو میری فرینڈ لسٹ میں داخل ہونے کا متمنی تھا. آج اس کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا.
.
اناللہ وانا الیہ راجعون. رب العزت ان سب احباب کی کامل مغفرت فرمائیں. آمین.
.
دوستو میری یا آپ کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں. آج ہم کسی سیاسی یا مسلکی وابستگی کے زیر اثر جو بھی سوشل میڈیا پر تحریر کر رہے ہیں. وہ ہمارے نامہ اعمال میں مسلسل داخل ہورہا ہے. ہمارا کوئی کمنٹ یا اسٹیٹس اگر جھوٹ پر مبنی ہے، اخلاق سے گرا ہوا ہے یا پھر مخاطبین کی دل آزاری کرتا ہے تو سوچیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری توبہ سے قبل یہ زندگی ہم سے چھین لی جائے اور روز قیامت ہم سوشل میڈیا سے وابستہ مجرمین میں داخل ہوں.
.
====عظیم نامہ====

کسی مسلم کو

کسی مسلم کو اپنی موت کے وقت یہ پچھتاوا ہو کہ اس نے زندگی گناہوں میں بسر کر دی اور نیکیاں نہ سمیٹ پایا تو سمجھ آتا ہے.
مگر کسی مسلم کو مرتے ہوئے یہ افسوس ہو کہ اپنی دنیاوی حسرتیں نہ نکال سکا؟ یا اولاد کی شادی نہ دیکھ سکا یا مزید نہ جی سکا؟ - یہ شائد مسلم کو شایاں نہیں.
ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا سرائے جیسی ہے جہاں کچھ سستا کر نکل جانا ہے. لہٰذا خواہش فقط اتنی ہی ہونی چاہیئے کہ بلاوہ آئے تو نفس المطمئنہ حاصل ہو، میرا رب مجھ گنہگار سے راضی ہو۔ باقی موت آنی ہے تو کل آئے یا اسی وقت کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر موت طلب کرنا منع ہے تو طویل زندگی کا حریص ہونا بھی درست نہیں.
.
اس زندگی کے ہیں دو جہاں
ایک یہ جہاں .. ایک وہ جہاں
.
ان دونوں جہانوں کے درمیاں
بس فاصلہ ہے .. سانس کا !
.
جو چل رہی تو یہ جہاں
جو رک گئی تو وہ جہاں
.
====عظیم نامہ====

امل تنویم

ایک علمی محفل میں شرکت کرکے واپس گھر جارہا ہوں۔ یہ ایک تجربہ کار اور ذہین "عامل تنویم" یعنی ہپناٹسٹ کی کلاس تھی جس میں ہپناٹزم کے رموز سے متعلق تعلیم دی گئی مگر جو جلد ہی مجھ سے مسلسل مکالمہ میں تبدیل ہوگئی۔ کوئی ڈھائی گھنٹے وہ انگریز ہپناٹسٹ اور میں اپنی اپنی سمجھ ایک دوسرے کے سامنے رکھتے اور سمجھتے سمجھاتے رہے۔ لاشعور کیا ہے؟ ذہن اور دماغ میں کیا فرق ہے؟ نفس یا انسان کے مخفی وجود سے کیا مراد ہے؟ خدا کون ہے؟ جہنم کیوں ہے؟ فطرت انسانی کی کیا حقیقت ہے؟ کیا کوئی روحانی متوازی دنیا بھی ہے؟ اگر ہے تو اس سے رابطہ کیسے ممکن ہے؟ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ حقیقی سکون کیا ہے؟ سوچ ہوتی کیا ہے؟ قانون جازبیت یعنی لاء آف ایٹریکشن کام کیسے کرتا ہے؟ صحائف الہامی ہیں یا لوگوں نے گھڑ لئے ہیں؟ رسول کی ضرورت بھی ہے یا انسان مراقبہ و مجاہدے سے براہ راست وحی و الہام حاصل کرسکتا ہے؟ سچ یا حقیقت کا کوئی وجود بھی ہے یا ہر کسی کا اپنا سچ ہے؟
۔
یہ اور اس طرح کے اور کئی سوالات موضوع بنے۔ وہ اپنے علم و تجربات سے استدلال پیش کرتی رہی۔ میں تائید و تنقید کی صورت اپنی علمی اور تجرباتی سمجھ قران حکیم کے زیر سایہ اسے پیش کرتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ کئی زاویئے نمایاں ہوئے اور کئی باتیں سمجھنے کو ملی۔ یہ بھی امید ہے بلکہ یقین ہے کہ عاجز کی گفتگو نے بھی اسے اپنی فکری غلطیوں کو سمجھنے میں مدد دی ہوگی۔ نشست کی تفصیل چاہ کر بھی لکھنے سے قاصر ہوں کہ یہ موضوعات فیس بک پر شافی انداز میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لہذا اس اجمال پر ہی اکتفاء کیجیئے۔
۔
====عظیم نامہ====

لاکوٹا قبیلہ


لاکوٹا قبیلہ
========
۔
کچھ روز قبل معلوم ہوا کہ لندن کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں ریڈ انڈین "لاکوٹا" قبیلے کی ایک معزز شخصیت خطاب کرے گی۔ میں چونکہ مختلف فلسفوں اور طریق حیات کو جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں، اسلئے میں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔ ناظرین میں غالب ترین اکثریت انگریزوں کی تھی اور جو اپنے حلیئے اور اطوار سے ہی "اسپروچئلسٹ" نظر آرہے تھے۔ کوئی رنگ برنگی مالائیں پہنا ہوا ہے تو کوئی نارنجی کرتا زیب تن کیا ہوا ہے۔ کسی کے بال منفرد طرز سے بنے ہوئے ہیں تو کسی کی داڑھی سینے سے نیچے جارہی ہے۔ ہم نے بھی ٹکٹ خریدا اور ایک مناسب نشست پر براجمان ہوگئے۔ "لاکوٹا" قبیلہ درحقیقت امریکہ کے ان حقیقی رہائشیوں کی نسل ہے جو کرسٹوفر کولمبس کی امریکہ دریافت سے قبل وہاں مقیم تھے۔ اس کے بعد کرسٹوفر کولمبس اور دیگر اثرورسوخ رکھنے والو کے زیر سایہ لاکوٹا افراد کا فکری و عملی استحصال کیا گیا۔ لاکوٹا قبیلے کی اپنی تہزیب تھی، اپنے عقائد تھے، اپنی معاشرت تھی۔ انہوں نے جدید معاشرت کو اپنانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں درندے اور گنوار کہہ کر قابض فوج نے سالہا سال ان کی نسل کشی کی۔ مرد و عورت کو قتل کیا گیا اور بچوں کو زبردستی اغوا کرکے انہیں دور علاقوں میں جدید معاشرت کیلئے بھیج دیا گیا۔ عدالتوں نے ایسے قوانین بنائے جن کے تحت ان کی مرضی کو سلب کرلیا گیا اور خلاف ورزی کو قانون شکنی کہہ کر جیلیں بھر دی گئیں۔ ان کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا اور ظلم کی وہ داستانیں رقم کیں جو انسانیت پر دھبہ ہیں۔
۔
لاکوٹا کے لوگ سیارہ زمین کو اپنی ماں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کائناتی شعور کی ماں قرار دیتے ہیں۔ بقیہ کہکشاوں کو وکاشا کہتے ہیں یعنی ستاروں کا تحفہ۔ لاکوٹا افراد کے مطابق موت خاتمہ نہیں ہے بلکہ صرف صورت کی تبدیلی ہے۔ وقت کا کوئی آغاز یا اختتام نہیں ہے۔ درخت، پتھر، جانور، انسان غرض ہر موجود شے باشعور ہے۔ ایک ننھے سے بیج میں یہ شعور ہے کہ کیسے درخت بننا ہے؟ وہ اپنے آپ میں ایک ہائیڈرولوجسٹ ہے۔ ایک نیومرولوجسٹ ہے۔ کوئی شعور نہ دوسرے سے برتر ہے نہ کمتر۔ ہر شے ایک حسن توازن کیساتھ ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہے۔ درخت یہ نہیں سوچتے کہ میں کتنا لمبا ہوں؟ یا میں کتنا ہرابھرا ہوں؟ وہ تو بس بے لوث اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ انسان کو بھی یہی کرنا چاہیئے۔ علم طاقت نہیں ہے بلکہ علم اچھے اخلاق کا نام ہے۔ ہمیں زمین کے اوپر امن قائم نہیں کرنا بلکہ زمین کیساتھ مل کر امن قائم کرنا ہے۔ آج ہمارا شعور انسانی صورت میں ہے لیکن ممکن ہے کہ کل دھول کی صورت ہو۔ ہمارے اردگرد جو پیڑ پودے ہیں جو دھول ہے، کیا معلوم کہ ان میں سے کون کون کبھی ہمارے آباء و اجداد تھے؟ یہ سب ہماری مدد کرتے ہیں، مشورہ دیتے ہیں۔ اگر ہم انہیں سننا سیکھ لیں۔ اپنے اردگرد موجود ہر شے کا شکریہ ادا کرو۔ لاکوٹا افراد کیلئے جنگلی بھینسے (اوکس) زمینی انرجی کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ گائے بکریاں جب گھاس پودے چرتے ہیں تو اکثر پودے کی جڑ بھی اکھیڑ ڈالتے ہیں۔ مگر جنگلی بھینسے زمینی ماں کا احترام کرتے ہوئے گھاس پودوں کی زندگی چھینے بناء صرف اوپر سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں۔ لاکوٹا قبیلے کو زک پہنچانے کیلئے امریکی فوج نے لاکھوں جنگلی بھینسے مارے اور انکی کھونپڑیوں کے مینار بنائے۔ یہاں تک کے یہ بھینسے ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئے۔
۔
لاکوٹا افراد شعور ہی کو سب کچھ مانتے ہیں اور کسی ایسے خدا کے منکر ہیں جو جواب دہی کرتا ہو۔ ان کے نزدیک جنت جہنم نہیں ہیں۔ ان کی زبان میں ایمان کیلئے کوئی لفظ نہیں صرف یقین کیلئے لفظ ہے۔ موجودہ دنیا مذہب، سائنس اور سیاست کی تکون بنی ہوئی ہے مگر لاکوٹا کے نزدیک زندگی ایک مسلسل مستقل دائرہ ہے۔ ان کی موسیقی انتہائی مسحور کن ہے۔ لاکوٹا قبیلے سے آئے اس معزز مہمان نے ہمیں آٹھ مختلف بانسریوں سے یکے بعد دیگرے دھیمے گہرے سروں میں ایسی دھنیں سنائی کہ لگا کوئی دل کو بھینچ رہا ہے، وجود میں جھانک رہا ہے اور آنسووں کو بہہ جانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ لاکوٹا قبیلہ امریکہ میں آج بھی موجود ہے اور ریاستی مظالم سے نبرد آزما اپنی تہذیب و تمدن کو واپس لانے کیلئے کوشاں ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

تتلی

تتلی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسکی زندگی کا دورانیہ صرف ایک روز یعنی چوبیس گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے. سوچتا ہوں کہ بحیثیت انسان مجھے اس کی زندگی انتہائی مختصر نظر آتی ہے. مگر ان ہی چوبیس گھنٹوں میں یہ تتلی پیدا ہوتی ہے، بچپن گزارتی ہے، لڑکپن میں داخل ہوتی ہے، جوان ہوجاتی ہے، ادھیڑ عمری سے گزرتی ہے، بڑھاپا سہتی ہے اور پھر مر جاتی ہے. اس ایک دن کے دورانیئے میں گویا وہ زندگی کے ہر اس دور سے گزرتی ہے، جس سے ایک انسان اپنی ساٹھ ستر برس کی زندگی میں گزرا کرتا ہے. "وقت" کا گزرنا یا اس کا طویل یا مختصر ہونا فقط ہماری سوچ ہے، زاویہ نظر ہے. جو ہمارے لئے مختصر ہے، بہت ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے بہت طویل ہو. اور جو ہمارے لئے طویل ہے، عین ممکن ہے کہ کسی دوسری مخلوق کیلئے انتہائی مختصر ہو. کئی بار جب ہم اپنی دھن میں مست ہوں تو گھنٹے ایسے گزرتے ہیں جیسے ایک لمحہ گزرتا ہو. لیکن حالت انتظار یا اضطرار میں ایک لمحہ بھی سالوں پر محیط محسوس ہوتا ہے. بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواب میں ہم پاکستان سے انگلینڈ تک کئی ممالک گھوم آتے ہیں مگر اچانک جو بیدار ہوتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ صرف دو منٹ کی جھپکی تھی. کچھ ایسا ہی اس وقت درپیش ہوگا جب ہمیں روز جزاء میں حاضری کیلئے موت سے بیدار کیا جائے گا. یہ نئی منتظر دنیا جہاں اور بہت سے فطری قوانین اور زاویوں سے ہماری موجودہ دنیا سے مختلف ہوگی. وہاں وقت کی تعریف اور گزری زندگی کے دورانیئے سے متعلق ہمارے احساس کو بھی بدل دے گی. آج ہمارا ذہن وقت کے اختصار یا طوالت کا فیصلہ حاضر حالات و تجربات کی روشنی میں کرتا ہے. کل حیات اخروی میں یہی ذہن ہمیں اس وقت موجود حالات و انکشافات کی روشنی میں وقت کی نئی تصویر فراہم کرے گا. قران حکیم کی کچھ آیات ملاحظہ ہوں
.
" اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تم زمین میں باعتبار برسوں کی گنتی کے کس قدر رہے؟ وه کہیں گے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم، گنتی گننے والوں سے بھی پوچھ لیجیئے. اللہ تعالیٰ فرمائے گا فی الواقع تم وہاں بہت ہی کم رہے ہو اے کاش! تم اسے پہلے ہی سے جان لیتے؟" (سورہ المومنون ١١٢ سے ١١٤)
.
"اور ان کو وه دن یاد دﻻئیے جس میں اللہ ان کو جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وه (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے۔ واقعی خسارے میں پڑے وه لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وه ہدایت پانے والے نہ تھے" (سورہ یونس ٤٥)
.
====عظیم نامہ====

ستارے



پرسکون رات میں آسمان پر بکھرے ستاروں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ان میں سے معلوم نہیں کتنے ہی ستارے ایسے ہیں جو سینکڑوں سال پہلے ختم ہوچکے ہیں؟ یہ میری آنکھ کا دھوکہ ہے کہ مجھے آج بھی یہ ایسے نظر آرہے ہیں جیسے ان کا وجود باقی ہو. ثابت شدہ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ ہماری آنکھ کسی بھی شے کو اسی وقت دیکھ پاتی ہے جب روشنی اس شے سے نکل کر یا ٹکرا کر ہماری آنکھ کی پتلی سے واپس ٹکرائے. ہم بہت سے ستارے اور دیگر اجرام فلکی آج اس لئے دیکھ پاتے ہیں کہ وہ کسی زمانے میں ہم سے سینکڑوں ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے پر موجود ہوا کرتے تھے جن سے روشنی ٹکرا کر یا نکل کر آج جب واپس ہماری آنکھ تک پہنچی تو سینکڑوں سال روشنی پہنچنے کے اس سفر میں گزر گئے. اس دوران وہ ستارے یا اجرام فلکی مٹ چکے ہیں، تباہ ہوچکے ہیں، اپنا وجود کھو چکے ہیں مگر ہماری آنکھ آج بھی ان کی ہزاروں سال پرانی تصویر دیکھ رہی ہے. گویا ہم اس وقت اپنے "حال" میں کائنات کے دوسرے حصے کا "ماضی" دیکھ رہے ہیں۔
۔
زرا سوچیئے کہ اگر کوئی مخلوق ان دورافتادہ ستاروں پر مقیم ہو اور ان کی آنکھ سیارہ زمین اور اس میں آباد زندگی کو دیکھ سکتی ہو تو کیا عجب ہے کہ اسے آج زمین پر ڈائناسورز چلتے نظر آرہے ہوں؟ یا پھر جناح اور گاندھی تقاریر کرتے دیکھائی دیں؟ وہ آج کی تاریخ میں ہمارے ماضی کو دیکھ رہے ہوں گے۔ یعنی ہمارا حقیقی "ماضی" ان دیکھنے والو کیلئے ہمارا "حال" ہوگا اور ہمارا موجودہ "حال" ان دیکھنے والو کیلئے ہمارا "مستقبل" ! گویا جو ان کے نزدیک ہمارے ساتھ ابھی ہوا نہیں ہے بلکہ ہونا ہے وہ حقیقت میں ہمارے لئے ہوچکا ہے ! اس بات پر اپنے ایک پیارے دوست عمران شمشاد کا شعر یاد آگیا
۔
تم نے یہ ماجرہ سنا ہے کیا ؟
جو ہونا ہے ۔۔ ہوچکا ہے کیا ؟
۔
یہ جو تدبیر کررہا ہوں میں ۔۔
یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے کیا ؟
۔
====عظیم نامہ====

Wednesday, 4 September 2019

چار بہترین پاکستانی ڈرامے


چار بہترین پاکستانی ڈرامے


انڈین لوگ بڑے فلمی ہوتے ہیں، شائد اسی لئے انکی فلمیں مشہور ہیں؟
اور ہم پاکستانی بڑے ڈرامے باز ہوتے ہیں، شائد اسی لئے ہمارے ڈرامے زیادہ مشہور ہیں؟
.
آج ہم بات کریں گے ان  ڈراموں کی ، جو روحانی اعتبار سے انسان کی تربیت کرتے ہیں.
.
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
.
صاحبو !

کہانی سننا اور کہانی سنانا غالباﹰ تاریخ انسانی کا سب سے قدیم اور سب سے محبوب مشغلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ افراد کی اکثریت کو اگر کوئی پیغام یا سوچ منتقل کرنی ہو تو کہانی سے موثر طریق دوسرا کوئی نہیں. شاعرانہ اسلوب گو کے پسند کیا جاتا ہے مگر اس سے پیغام اخذ کرنے والے بہت قلیل ہوتے ہیں. منطقی یا فلسفیانہ انداز کو تو اور بھی کم مخصوص طبیعتیں ہی سمجھ پاتی ہیں. لہٰذا آپ کی اپنی طبیعت سے یہ حقیقت میل کھائے یا نہ کھائے، لیکن بھائی اگر عوام الناس میں تبدیلی لانی ہے تو پھر کہانی سنانی ہے. اسی کہانی کو سنانے سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ڈرامہ نگاری ہے.

ہم آج آپ کو چار ایسے پاکستانی ڈراموں کا مختصر تعارف دے رہے ہیں جو فی الواقع آپ کی روحانی تربیت میں معاون ہوسکتے ہیں. تو دیر کس بات کی؟ چلیئے آغاز کرتے ہیں
.
چار: خدا اور محبت
===========
.
چوتھے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے رکھا ہے وہ جیو ٹی وی پر ٢٠١١ میں نشر ہونے والا ڈرامہ خدا اور محبت ہے. ہاشم ندیم صاحب کے لکھے اس ناول کو انجم شہزاد نے خوبی سے ڈائریکٹ کیا ہے. مجموعی اعتبار سے ہم اس ڈرامے کو شاہکار تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس کے کچھ سین ضرور ایسے ہیں جو انسان کی سوچ میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں اور معرفت کے کچھ سوالات کو جواب فراہم کرسکتے ہیں. یہ ایک ایسے امیر زادے کی داستان ہے جو ایک مولوی صاحب کی نیک دامن بیٹی سے عشق کر بیٹھتا ہے اور اس کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑنے کو تیار ہوتا ہے. اس لڑکے نے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر کیسے کیا؟ عبد کی محبت سے اٹھ کر معبود کی محبت تک کیسے پہنچا؟ یہ ڈرامہ اسی کی روداد ہے. اسی ڈرامے کا ایک سین میں نے اپلوڈ کردیا ہے، لنک اسکرین پر نظر آجائے گا اور یوٹیوب ڈسکرپشن میں بھی موجود ہے. دیکھ لیجیئے
.
تیسرا: میری ذات ذرہ بے نشاں
===================
.
احباب تیسرے نمبر پر جس ڈرامے کو ہم نے جگہ دی ہے، وہ ہے میری ذات ذرہ بے نشاں. عمیرہ احمد صاحبہ کا یہ ناول بابر جاوید صاحب کی ڈائریکشن میں فی الواقع ایک بہترین ڈرامہ ہے. یہ ایک ایسی آزاد طبع ، سیکولر اور لبرل مائنڈ سیٹ رکھنے والی لڑکی کی داستان ہے جسے ایک آفرین نامی انسان سے محبت ہو جاتی ہے. آفرین خود بھی اس لڑکی سے بیحد محبت کرتا ہے اور نکاح کرنا چاہتا ہے مگر اس کے ماں باپ اس رشتے کے شدید مخالف ہوجاتے ہیں. بالخصوص اس کی متقی عبادت گزار والدہ ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ ان کی بہو ایسی آزاد خیال مغرب زدہ لڑکی بنے. مگر کیا کیجیے ان کی ایک نہیں چلتی اور بیٹا شادی پر مصر ہوجاتا ہے. شادی کی تیاریاں ہوتی ہیں لیکن شادی کے روز لڑکے کی ماں بہت عیاری سے ایک جال بچھاتی ہے اور اس لڑکی پر ایک اور لڑکے کے ساتھ بند کمرے میں بدکاری کرنے کا الزام لگا دیتی ہے. ظاہر ہے قیامت آجاتی ہے، لڑکی اپنی ہونے والی ساس کی جانب سے لگائی اس تہمت کو مسترد کرتی ہے. اس عالم میں آفرین اپنی ہونے والی بیوی سے کہتا ہے کہ اگر وہ سچی تو قران حکیم پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. وہ کہتی ہے ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھتی ہے کہ لڑکے کی ماں بھی قران پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے. اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ لڑکے کی ماں اتنے حج کر چکی ہے نمازی پرہیزگار ہے، وہ کبھی قران پر جھوٹ نہیں بولیں گی. مگر یہ دیکھ کر وہ بت بن کر رہ جاتی ہے کہ اسکی ساس بڑے دھڑلے سے قران اٹھا کر جھوٹی قسم کھا لیتی ہے. قران کے اس اکرام میں یہ لڑکی قسم نہیں کھاتی اور یوں بدکاری نہ کرکے بھی ساری دنیا کے سامنے بدکار قرار پاتی ہے. لڑکی کی شادی زبردستی ایک خبیث النفس شکی بوڑھے سے ہوجاتی ہے. یہ صدمات اس لڑکی کی زندگی کو کیسے بدل دیتے ہیں؟ کیسے ایک دنیا پرست لڑکی خدا سے قریب اور عبادت گزار بندی بن جاتی ہے؟ کیسے جھوٹ بولنے والی وہ لڑکے کی ماں اپنے ایمان و عمل کو برباد کرلیتی ہے اور بلآخر بیٹے کو موت کے وقت بتا دیتی ہے؟ یہ سب واقعات دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں.
.
دوسرا: شہر ذات
===========
.
دوسرے نمبر پر ہے ڈرامہ شہر ذات. یہ بھی عمیرہ احمد ہی کی ایک عمدہ تصنیف ہے اور ہمارے نزدیک بجا طور پر شاہکار کہلا سکتی ہے. سرمد سلطان کھوسٹ نے اسے بھرپور انداز میں ڈائریکٹ کرکے چار چاند لگادیئے ہیں. یہ ایک مذہب بیزار بلکہ ملحدہ لڑکی کی داستان ہے. جو بیک وقت اسکی محبت کی روداد بھی ہے اور معرفت الہی کا سفر بھی. فلک ایک رئیس زادی ہے جو فائن آرٹ یعنی مجسمہ سازی کی طالبہ ہے. اسے مذہب وغیرہ سب قصے کہانی لگتے ہیں، وہ اپنے خوابوں کے شہزادے کو سوچ کر ایک چہرہ بطور مجسمہ بناتی ہے. لیکن پھر ایک دن ٹھیک اسی صورت کا ایک وجیہہ مرد نظر آجاتا ہے. جس کی محبت میں وہ گرفتار ہوجاتی ہے. کوشش کے بعد اسکی شادی بھی اسی مرد سے ہوجاتی ہے. مگر پھر اسکی بے اعتنائی اور اپنے اندر کی خلش اسے پریشان کرکے رکھ دیتی ہے. وہ اپنے وجود کو سوچنے لگتی ہے، خدا کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے. وہ خدا کیلئے روتی ہے، چلاتی ہے، حالت ہیجان میں اپنی سوسایٹی اپنی ماں تک سے دست و گریباں ہوجاتی ہے. ایسے میں جابجا اسکے ساتھ روحانی وارداتیں ہوتی ہیں. بکریاں چرانے والی عورت سے لے کر ایک مجذوب تک کئی لوگ اسے ایسے ملتے ہیں جو اسے راہ خدا میں پکا کردیتے ہیں. وہ اپنی نانی سے ایک بار پھر قران سیکھتی ہے، نماز پڑھتی ہے. مزید آپ کو نہیں بتاتا کہ اس ڈرامے کا اصل لطف اسے دیکھنے میں ہی ہے سننے میں نہیں ! نہیں دیکھا تو ضرور دیکھیئے. میں نے اس ڈرامے میں موجود کچھ بہترین مناظر کو ایک کلپ میں یکجا کردیا ہے. اس کا لنک اسکرین پر بھی آجائے گا ورنہ یوٹیوب ڈسکرپشن میں لنک موجود ہے، دیکھ لیجیئے. لطف نا آجائے تو پیسے واپس
.
پہلا: منچلے کا سودا  
=============
.
اول نمبر پر جو ڈرامہ ہے اس کے بارے میں آخر میں کیا کہوں ؟

اشفاق احمد صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ 'منچلے کا سودا' اور گلزار صاحب کی پیش کردہ فلم 'غالب' --- میں نہیں جانتا کہ میں کتنی بار دیکھ چکا ہوں اور جانے کتنی ہی بار پھر دیکھنا چاہوں گا. اگر آپ ادبی ذوق کے مالک ہیں یا روحانیت کے اسرار و رموز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے باوجود آپ نے یہ دونوں یا ان میں سے ایک شاہکار کو اب تک نہیں دیکھا ہے تو آپ کی اس محرومی پر مجھے افسوس بھی ہے اور تعجب بھی. مجھے تو اس شخص کو بھی صاحب ذوق ماننے میں تردد ہے جس نے انہیں فقط ایک بار دیکھنے پر اکتفاء کرلیا اور باطن میں دوبارہ دیکھنے کی پیاس نہ محسوس کی

یہ معرفت کے ایک مسافر کی داستان ہے. جو اپنا کروڑوں کا کاروبار چھوڑ کر بس فقیری اختیار کرنا چاہتا ہے. اسکے لئے وہ در در بھٹکتا ہے اور ہر اس نیک انسان کو اپنا روحانی استاد بنا لیتا ہے جو چھپا ہوا فقیر ہے. پھر وہ ڈاکیہ ہو یا موچی. گڈریا ہو یا جھاڑو لگاتا ہوا خاکروب. یہ ان سب کے قدموں میں بیٹھتا ہے. یہ سب اسے کہتے ہیں کہ واپس لوٹ جا اپنی دنیا میں چھوڑ دے یہ خیال. یہ اتنا آسان نہیں. مگر اس کے اندر کی بیچینی اور طلب اسے مزید سرگرداں رکھتی ہے. سکی بوڑھی ماں اور دوست احباب سب پریشان ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے. شیطان اسے طرح طرح سے لالچ دیتا ہے. خدا کی جانب سے بھی کئی امتحانات سے گزرتا ہے. معرفت کے اسی سفر میں کئی سال سائنسدان بنتا ہے، دنیا بھر کے اہل علم سے ملتا ہے. بلآخر اپنی منزل پالیتا ہے. کیسے ؟ کن مراحل سے ؟ یہ سب تو دیکھ کر ہی معلوم ہوسکتا ہے.
دوستو میں نے تصوف کو بہت پڑھا ہے اور کسی حد تک خود کو بھی اس سے گزارا ہے. شیخ ابن عربی کی فتوحات مکیہ سے لے کر غزالی کی احیاء العلوم تک. شاہ ولی اللہ کی حجت اللہ البالغہ سے لے کر عبدالقادر جیلانی کی تصنیف تک میں نے بیسیوں کتب کا مطالعہ کیا ہے. اس سب کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ تصوف اور روحانیت کو جس عمدہ اسلوب میں اس ڈرامے کے اندر بیان کیا گیا ہے اسکی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی. اگر یہ ڈرامہ آپ نے نہیں دیکھا ہے تو ضرور دیکھیں. اگر دیکھ لیا ہے تو پھر دوبارہ اور پھر سہہ بارہ دیکھیں کہ یہ نایاب ڈرامہ اسی توقیر کا مستحق ہے. اس ڈرامے کے کچھ کلپ میں یوٹیوب ڈسکرپشن میں دے رہا ہوں، اسے ایک نظر دیکھ لیجیئے
.
دوستو اچھا مضمون، اچھا ڈرامہ یا اچھا ناول وہ نہیں جو آئینے کی طرح اس مجرم معاشرے کا سچا عکاس ہو. بلکہ ہماری دانست میں اچھا وہ ہے جو عکاسی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے کریہہ چہرے کی کسی درجے اصلاح بھی کرتا ہو. اگر آپ کو میری یہ ویڈیو پسند آئی ہے تو اسے لائیک اور شیئر کریں. یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنا نا بھولیں. جیسے ہی سبسکرائب کریں گے تو گھنٹی کا نشان نظر آئے گا اسے بھی دبا دیجیئے تاکہ میری آئندہ آنے والی ویڈیوز بھی آپ تک پہنچتی رہیں. تب تک کیلئے اللہ نگہبان !
.
====عظیم نامہ====

Friday, 16 August 2019

مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا





مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا

.

سوال:
کعبہ یا مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا؟ عیسائی اور یہود کے یہاں اسے مقدس مقام کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا؟
.
جواب:
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ مکہ کا پرانا نام بکہ تھا. ٹھیک ویسے ہی جیسے مدینہ کا پرانا نام یثرب یا کراچی کا پرانا نام کولاچی ہوا کرتا تھا. گویا مکہ اور بکہ درحقیقت ایک ہی مقام کے دو نام ہیں. یہی وجہ ہے کہ دونوں نام پڑھنے سننے میں بھی ایک جیسے محسوس ہوتے ہیں. جب یہ بات سمجھ آگئی تو جان لیں کہ بائبل میں بکہ کا واشگاف الفاظ میں ذکر موجود ہے. غور سے "پی سالم (زبور ٨٤) کے ایک ایک لفظ کو دھیان سے پڑھیں:
.
"اے رب الافواج، اے میرے بادشاہ اور خدا، تیری قربان گاہوں کے پاس پرندے کو بھی گھر مل گیا، ابابیل کو بھی اپنے بچوں کو پالنے کا گھونسلا مل گیا ہے۔
.
مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ ہمیشہ ہی تیری ستائش کریں گے۔ (سِلاہ) مبارک ہیں وہ جو تجھ میں اپنی طاقت پاتے، جو دل سے تیری راہوں میں چلتے ہیں۔
.
وہ بکا کی خشک وادی میں سے گزرتے ہوئے اُسے شاداب جگہ بنا لیتے ہیں، اور بارشیں اُسے برکتوں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔
.
وہ قدم بہ قدم تقویت پاتے ہوئے آگے بڑھتے، سب کوہِ صیون پر اللہ کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔
.
اے رب، اے لشکروں کے خدا، میری دعا سن! اے یعقوب کے خدا، دھیان دے! (سِلاہ)

اے اللہ، ہماری ڈھال پر کرم کی نگاہ ڈال۔ اپنے مسح کئے ہوئے خادم کے چہرے پر نظر کر۔
تیری بارگاہوں میں ایک دن کسی اَور جگہ پر ہزار دنوں سے بہتر ہے۔ مجھے اپنے خدا کے گھر کے دروازے پر حاضر رہنا بےدینوں کے گھروں میں بسنے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔
.
کیونکہ رب خدا آفتاب اور ڈھال ہے، وہی ہمیں فضل اور عزت سے نوازتا ہے۔ جو دیانت داری سے چلیں اُنہیں وہ کسی بھی اچھی چیز سے محروم نہیں رکھتا۔
.
اے رب الافواج، مبارک ہے وہ جو تجھ پر بھروسا رکھتا ہے!"
.
احباب دل پر ہاتھ رکھ کر اور عقیدت سے بالاتر ہو کر بتایئے کہ کیا آپ کو مندرجہ بالا آیات پڑھ کر یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہاں تفصیل شہر مکہ کی بیان ہورہی ہے؟ اور اسے بکا یا بکہ پکارا جا رہا ہے؟ وہی پرندوں (ابابیل) کا ذکر، فوجوں کی بات، وہی مکہ کی خشک وادی کی شادابی کا ذکر، وہی وہاں خدا کے گھر کی بات، وہی مسح کیئے خادم یعنی باوضو کا ذکر وہی اس مقام پر حاضری کو ہزار دن سے بہتری کی بات. کم از کم ایک مسلم ذہن کو اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.
.
مگر ہم نے یہ کہاں سے اخذ کرلیا کہ قران کے مطابق مکہ ہی بکہ تھا ؟ تو اس کا واضح جواب ہمیں قران حکیم خود اپنی سورہ آل عمران کی ٩٦ آیت میں کچھ یوں دے دیا ہے کہ
.
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو "بکہ" (مکہ) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے"

.
گویا مکہ کے بیان کیلئے قران مجید نے خود بکہ لفظ کو من و عن استعمال کرکے اس پر مہر صادق کردی. یہاں دھیان رہے کہ اس وقت کے یہود و عیسائی مخاطبین کیلئے سنہرا موقع تھا کہ اگر وہ اس قرانی دعوے کو جھوٹ سمجھتے تو آگے بڑھ کر اعتراض کرتے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا. حالانکہ بہت سے مختلف اعتراضات اور الزامات جو اہل کتاب نزول وحی کے دوران اٹھاتے رہے وہ ہمارے پاس موجود ہیں. اس معاملے میں ان کا اعتراض یا رد پیش نا کرنا دراصل اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے .یہ بھی دیکھیئے کہ اس علاقے کی قدیم زبانوں میں ''بکّ'' شہر یا بستی کو کہتے تھے جیسے بعلبکّ یعنی بعل دیوتا کی بستی۔ ماہرین لسانیات کے بقول بعض لہجوں میں یہ لفظ''بغ'' بن گیا ہے، جیسے بغداد۔ اسی سے فارسی میں لفظ باغ وجود پذیر ہوا ہے۔ قرآن نے مکہ کو 'بکہ' اور 'ام القری' پکار کر اسی حقیقت کی یاددہانی کرائی ہے۔
.
بائبل کی "جینیسس (پیدائش)" میں درج چند اور آیات ملاحظہ کریں جس میں بی بی ہاجرہ کا اپنے بیٹے کے ساتھ قصہ بیان ہوا ہے اور اس کنوئیں کا ذکر ہوا جسے ہم مسلمان آج "زم زم کا کنواں" کہتے ہیں.
.
" اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نِیچے ڈالدیا ۔ اور آپ اُسکے مقابل ایک تیِر کے ٹپّے پر دُور جا بِیٹھی اور کہنے لگی کہ مَیں اِس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں ۔ سو وہ اُسکے مُقابل بَیٹھ گئی اور چلاّ چِلاّ کر رونے لگی۔ اور خُدا نے اُس لڑکے کی آواز سُنی اور خُدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجؔرہ کو پُکارا اور اُس سے کہا اَے ہاجرؔہ تجھ کو کیا ہُوا؟ مت ڈر کیونکہ خُدا نے اُس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اُسکی آواز سُن لی ہے اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ مَیں اُسکو ایک بڑی قوم بناؤنگا۔ پِھر خُدانے اُسکی آنکھیں کھو لیں اور اُس نے پانی کا ایک کُوآں دیکھا اور جا کر مشک کو پانی سے بھر لِیا اور لڑکے کو پِلایا۔"
.
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کعبہ یا مکہ کا سفر کئی سابقہ رسولوں نے تو کیا ہے مگر بحیثیت امت یہاں کا سفر (حج) صرف امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے. تحریر طوالت اختیار کرتی جارہی ہے. گو اس پر کافی کچھ لکھنا ممکن ہے. ہم یہ سمجھتے ہیں کہ درج بالا تفصیل پڑھنے کے بعد قارئین کی اکثریت کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا ہوگا کہ وادی مکہ، آب زم زم، کعبہ کے حج وغیرہ کے بارے میں واضح اشارے بائبل میں آج بھی موجود ہیں. گو ظاہر ہے کہ اہل کتاب آج مکہ کو بکہ ماننے سے انکاری ہیں اور ان کے مختلف محققین مختلف مقامات کو بکا سے تعبیر کرتے ہیں. گو ان کا آپس میں کسی ایک مقام پر اتفاق نہیں ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب کا اتفاق نہیں ہے تو پھر اہل کتاب میں کچھ محقق ایسے کیوں نہ پیدا ہوئے جن کی غیر جانبدار تحقیق اس خاص موضوع پر انہیں قرانی بیان کے قریب لے آتی؟ یعنی وہ مکہ ہی کو بکہ تسلیم کرتے؟ اس کا جواب ہے کہ بالکل ایسے غیرمسلم محققین موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ مکہ دراصل پرانا بکہ ہے.
.
ایک نمائندہ مثال یہودی محقق "اوی لپکن" ہیں جن کی کتاب "مکہ کو لوٹ چلو" (ریٹرن ٹو مکہ) کے نام سے شائع ہوچکی ہے. سرورق پر انہوں نے کعبہ کی بناء غلاف والی تصویر لگا رکھی ہے. ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون سے نجات حاصل کی تو بنی اسرائیل کو ایک خاص سیاہ چوکور کعبہ کی شکل کا نشان تعویز کی صورت پیشانیوں پر پہنایا جو دراصل اس بات کی علامت تھا کہ ہم پیرامڈ ٹرائی اینگل سسٹم چھوڑ کر آزادی کے کیووب سسٹم میں داخل ہو رہے ہیں. آج تک ہم یہودی اسے مخصوص مقامات و اوقات میں پہنا کرتے ہیں (تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں). وہ اسی مخصوص شکل کے تعویز کا ذکر حضرت عیسیٰ الیہ السلام سے بھی بائبل کی آیت سے ثابت کرتے ہیں. ان کے بقول موسیٰ. ہارون، شعیب علیہ السلام اجمعین سب کعبہ کے پاس موجود تھے جو آج مکہ کہلاتا ہے. جیسا کہ بائبل میں اس مقام کو صحرائی بتایا گیا ہے تو اس سے مراد مکہ ہے. ان کے بقول جب موسیٰ علیہ السلام کو قتل کے الزام میں مصر سے جانا پڑا تو انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ مکہ کے علاقے جا رہے ہیں جہاں وہ شعیب علیہ السلام کے ساتھ سالوں رہے. ان کے بقول اس دعوے کے ثبوت میں وہ بہت سے آثار قدیمہ پیش کرنے پر قادر ہیں.
.
وہ بائبل سے بیان کرتے ہیں کہ کیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے تاکہ وہ صحرا میں جا کر گول چکر کاٹیں. اسی کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "حج" جس میں طواف کیا جاتا ہے اس کا مصری تلفظ "حگ" ہے اور بائبل کی اصل زبان عبرانی میں "حگ" کا ایک مطلب یہی طواف یعنی گول گھومنا ہے. یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ کعبہ کی شکل کا وہ تعویز جو یہودی اپنی پیشانی یا بازو پر امام ضامن کیطرح باندھتے ہیں، اس میں وہ اہتمام کرتے ہیں کہ اسے طواف کعبہ ہی کے جیسے ٹھیک سات مرتبہ گھما کر باندھا جائے. ساتھ ہی مصنف یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہاں قربانی بھی دی جاتی ہے.
.
یہ سب پڑھ کر ممکن ہے کہ کوئی قاری اس یہودی مصنف کے بارے میں یہ گمان کرے کہ یہ یا تو مسلمانوں کے ہاتھ بکا ہوا ہے یا ان کا کوئی ہمدرد ہے. قطعی نہیں ! بلکہ "اوی لپکن" ایک کٹر اسلام دشمن ہے جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے. وہ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ میرے لوگ یہود و عیسائی ہیں اور اس کی خواہش فقط اتنی ہے کہ مسلمانوں سے مکہ چھین کر واپس حاصل کیا جائے کیونکہ اس پر ان کا نہیں یہود و نصاریٰ کا حق ہے. یہ مسلمانوں کو شیطان کا پیرو کہتا ہے اور اللہ کو وہ شیطان قرار دیتا ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. ایک مسلم کیلئے اس کی یہ خباثت و جسارت اپنی جگہ قابل نفرت ہے مگر اس سے یہ سچائی نہیں بدلتی کہ اسکی بیان کردہ تحقیق نے ایک مختلف زاویئے سے اسلام کی حقانیت یا مکہ کی حقیقت کو ثابت کیا ہے. ہم مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد پاک یاد ہے جس میں آپ نے اہل کتاب سے فرمایا کہ
.
"ہم تم سے بھی زیادہ موسیٰ علیہ السلام پر دعویٰ رکھتے ہیں ....." (صحیح بخاری کتاب ٣ حدیث ٢٢٢)
.
====عظیم نامہ====