Friday, 30 November 2018

عقل نامہ

عقل نامہ

.
عقل بلاشبہ انسان کو ملی ایک بہت بڑی نعمت ہے. مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنا تسلط چاہتی ہے. اپنے بنائے ہوئے معیارات کے تحت اپنے اطراف پر جائز یا ناجائز قبضہ کرتی ہے. یہ اپنے فکری محلات تعمیر کرتی ہے مگر جلد ان سے بور ہوجاتی ہے. پھر وہ انہیں خود مسمار کرتی ہے اور پھر دوبارہ تعمیر کرتی ہے. تعمیر و مسماری کا یہ سلسلہ رکتا نہیں بلکہ مسلسل جاری رہتا ہے. اس روش سے اس کا شعوری ارتقاء ضرور ہوتا ہے. ایک پرلطف علمی چسکا بھی اسے میسر رہتا ہے. مگر حتمیت و قطعیت تک اس کی رسائی کبھی نہیں ہوپاتی. جو کل عقلی تھا وہ آج غیر عقلی ہوگیا. جو آج عقلی ہے، بہت ممکن کے کل غیر عقلی کہلائے گا. اسکے باوجود عقل اپنی اجارہ داری چاہتی ہے مگر اس حکومت کے قیام کیلئے اسے ان حواس خمسہ پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے جو اپنی اصل میں کئی نقائص رکھتے ہیں. وہ دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے یا سونگھنے سے حقیقت کا ادراک کرنا چاہتی ہے. مگر ان حواس سے اسے جزوی ادراک ہی نصیب ہوسکتا ہے، "كُل" کو جاننے سے وہ محروم ہی رہتی ہے. اس موقع پر اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. مگر عقل بھوکی مرجاتی ہے، کسی سے مدد نہیں لیتی. عقل کا ہدف چیزوں کو فتح کرنا ہے، ان پر اپنا جھنڈا لہرانا ہے. اپنے وجود کی تذکیر و تطہیر، اپنی کردار سازی اس کا مقصد نہیں. عقل مخلوق ہے مگر یہ خالق بننا چاہتی ہے. یہ اول تو کسی خالق کو ماننا نہیں چاہتی اور اگر مان بھی لے تو اپنی شرائط پر تسلیم کرتی ہے. عقل محدود ہے مگر یہ اپنے عجز اپنی حدود کو پہچاننے کے باوجود اس کا ڈھٹائی سے انکار کردیتی ہے. بلکہ وہ لامحدود کو اپنے محدود میں مقید کرنا چاہتی ہے. لہٰذا اب وہ ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے، اندازے لگاتی ہے اور اسی پر مصر رہتی ہے.
.
عقل کی اہمیت کا انکار ہرگز نہیں. عقل وہ نماندہ وصف ہے جو انسان کی بڑی پہچان ہے. بے عقلی تو بڑی شرمندگی کی بات ہے. مگر عقل کا خود پسند ہو کر اپنی حدود کا اعتراف نہ کرنا ازخود حماقت ہے. گویا عقل یہ نہیں کہ آپ سب جان لیں بلکہ عقل یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ کیا نہیں جان سکتے؟ عقل کی سب سے بڑی خواہش خود بادشاہ بن جانا ہے. مگر اس کی حقیقی حیثیت وزیر کی ہے. جب تک عقل وزیر بن کر وحی اور فطری داعیات سے رہنمائی نہیں لے گی تب تک بینائی سے محروم رہے گی. عقل کی مثال ان آنکھوں کی سی ہے جن سے ہم سب کچھ دیکھتے ہیں. مگر اگر ایک شخص آنکھیں رکھ کر بھی بینائی سے محروم ہو تو پھر وہ دیکھ نہیں سکتا. اسی طرح اگر کوئی شخص آنکھیں اور بینائی دونوں رکھتا ہو مگر اس کے ارد گرد گھٹاٹوپ اندھیرا چھا جائے تو یہ بینائی و آنکھیں بھی اسے حقیقت نہیں دیکھا سکتی. گویا جب تک انسان کے اندر بینائی کی روشنی اور باہر ماحول کی روشنی یکجا نہ ہو تب تک اسکی آنکھوں کو "بصارت" حاصل نہیں ہو سکتی. یہ اندر کی روشنی وہ فطری داعیات ہے جو انسان کے اندر خدا نے الہام کردیئے ہیں اور باہر خارج کی روشنی درحقیقت اس وحی کا نور ہے جسے ہم تک پیغمبروں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے. عقل اسی وقت "بصیرت" بنے گی جب وہ ان دونوں کی چھتری تلے کام کرے. وگرنہ عقل پرستی کا یہ بت جعلی خدا بن کر آپ پر مسلط ہوجائے گا.
.
”کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمّہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سُنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گُزرے۔”
(قرآن44 ,25:43)
.
====عظیم نامہ====

سب سے بڑا جاہل اور نالائق

سب سے بڑا جاہل اور نالائق

۔
مجھ سمیت ہر وہ شخص جو خود کو دین کا طالبعلم گردانتا ہے، اسے سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ حصول علم وہ فی الواقع اپنی کردار سازی اور اپنے تزکیہ عمل و فکر کیلئے کرتا ہے؟ یا پھر یہ سب پڑھنا پڑھانا، تحقیق کرنا اور پیش کرنا محض ایک علمی چٹخارہ ہے؟ اپنے نفس کی بھوک کا سامان ہے؟ کیا واقعی اسکے علم کا محور قران و سنت سے پہلے خود کو اور پھر اردگرد کو بہتر بنانا ہے یا پھر یہ سب اسکے لئے ایک ڈھکوسلہ ہے؟ کسی افیم و چرس کی مانند یہ کتب بینی، یہ مکالمہ مذاکرے بھی کوئی نفسیاتی نشہ ہے؟ ایک ایسا نشہ جس کی تسکین کیلئے وہ پڑھتا ہے، پڑھاتا ہے، لکھتا ہے یا محافل میں علمیت بگھارتا ہے؟ اگر دین کا علم حاصل کرکے ہم میں اپنی اصلاح نفس کی فکر بیدار نہیں ہوتی تو یہ علم نہیں بلکہ سراب ہے۔ دین سیکھتے یا سیکھاتے ہوئے اگر ہمارا سارا زور اسی پر ہے کہ کسی طرح تحقیق کے نام پر کوئی علمی نتیجہ پیش کردیں۔ اپنے علم کے ڈنکے بجوا دیں تو بلاشبہ ہم سے بڑا جاہل اور نالائق اور کوئی نہیں !
۔
====عظیم نامہ====

بات تو اچھی کہی ہے

بات تو اچھی کہی ہے


آج کل یہ چلن بھی عام ہے کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی بات کسی مذہبی شخصیت جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول بنا کر یا کوئی بھی بے وزن سا شعر کسی معروف شاعر جیسے غالب وغیرہ سے منسوب کرکے آگے بڑھا دیا جاتا ہے. لوگوں کا حال یہ ہے کہ فقط اس شخصیت یا شاعر سے قلبی نسبت کی وجہ سے وہ اس جعلی قول یا نقلی شعر پر واہ واہ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں اور اپنے احباب سے بھی اسی توصیف کی امید کرتے ہیں. طرہ یہ ہے کہ اگر انہیں توجہ دلائی جائے کہ بھائی جی یا بہنا جی آپ کی یہ شائع کردہ بے وزن شاعری ہرگز ہرگز اقبال کی نہیں ہے. تب ترنت دو جواب ملتے ہیں. پہلا "اچھا ! اگر اقبال کا نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟" .. یعنی کیونکہ ہم نے انہیں بتایا کہ یہ کلام اقبال کا نہیں، اسلئے لامحالہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ان صاحب کو یہ بھی ڈھونڈھ کر بتائیں کہ یہ فضول کلام آخر ہے کس کا؟ .. میاں گنگو تیلی کا ہے ! بشیر الیکٹریشن کا ہے ! یا شمشاد نائی کا ہے ! ہمیں کیا معلوم؟ ایک شعر نما سنیئے:
.
بلبل کی چونچ میں ہے گچھا انگور کا
مہندی رنگ لاتی ہے سوکھ جانے کے بعد
.
کل اگر آپ درج بالا فضول شعر فرما کر اسے اقبال کا نام دے دیں اور آپ جیسے دیگر اسے آگے بڑھانے لگیں تو کیا ہم جیمز بانڈ بن کر آپ کی کھوج کرتے پھریں گے؟

دوسرا جوابی حملہ ڈھٹائی سے یہ ہوتا ہے کہ اگر اقبال کا نہیں بھی ہے تو کیا ہوا؟ بات تو اچھی کہی ہے ! .. گویا ان کی نظر میں کوئی بھی اچھی بات لکھ کر اسے اقبال، جناح یا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کردیں تو کوئی حرج کی بات نہیں.یعنی میں اگر یہ اچھی بات لکھوں کہ "روز اپنے والد کی ٹانگیں دابا کرو" اور اپنی اس بات کو مشہوری کی خاطر محمد علی جناح کا قول بنا کر پیش کر دوں تو کوئی مسئلہ نہیں؟ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ « كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع » ... کسی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘ .. یہاں حکم صرف سنی سنائی بات کا ہے. اچھی یا بری بات کی قید رکھی ہی نہیں. مگر یہاں تو اللہ معاف کرے حال یہاں تک ہے کہ لوگ کسی گھڑی ہوئی بات کو "الحدیث" لکھ کر بھی شیئر کرنے سے نہیں چوکتے. پھر ان کیلئے کسی نامعلوم شعر پر اقبال کا نام لکھ دینا کون سی بڑی بات ہوگی؟ مان لیا کہ سوشل میڈیا پر معلومات کے اس سیلاب میں بعض اوقات یہ جاننا نہایت کٹھن ہوجاتا ہے کہ کون سی بات سچ ہے اور کون سی جھوٹ؟ مگر خدا کیلئے جب کوئی آپ کو توجہ دلائے تو کم از کم اتنی اخلاقی جرأت ضرور دکھایئے کہ غلطی کا اعتراف کرلیں. یا کم از کم اسے اپنی فیس بک وال سے ہٹا لیں تاکہ مزید لوگوں میں ایک جھوٹی بات نہ پھیلے.
.
====عظیم نامہ====

میرا پسندیدہ مصنف


میرا پسندیدہ مصنف

۔
میں نے ابوالاعلی مودودی کی سحر انگیز تحریروں کو پڑھا ہے، میں نے ابوالکلام آزاد کی انشاء پردازی کا کمال دیکھا ہے۔ میں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی نثر میں بھی ان کی گرج محسوس کی ہے، میں نے وحید الدین خان کی اصلاحی تحریروں کا حسن سراہا ہے۔ میں نے اشفاق احمد کے ناولوں سے محبت کو جذب کیا ہے، میں نے جون ایلیاء کے مضامین میں بغاوت کی کاٹ کو جھیلا ہے۔ میں نے قدرت اللہ شھاب کے قلم سے امڈتی مثبت لہروں کو اپنے وجود کا حصہ بنایا ہے، میں نے سعادت حسن منٹو کی عینک سے معاشرے کا تاریک چہرہ بھگتا ہے۔ میں نے غزالی سے تصوف کا سبق سمجھا ہے، میں نے ابن تیمیہ سے علمی تنقید کو سیکھا ہے۔ میں نے تقی عثمانی کی نثر سے اکابرین کی روایات کو جانا ہے، میں نے اقبال کے خطبات میں مذہبی فکر کی تعمیر نو کا مطالعہ کیا ہے۔ میں نے سرسید اور غلام احمد پرویز کے مضامین میں چھپی عقلیت پسندی کے سیلاب کا سامنا کیا ہے، میں نے غامدی اور ابن حزم کی تعبیرات کو سمجھا ہے۔ ایسے ہی ان گنت نام اور ہیں جنہیں میں نے پڑھا اور جن کے زور بیان کو محسوس کیا۔ مشرقی و مغربی کتنے علماء، فلاسفہ، حکماء کو اب تک پڑھا؟ سچ پوچھیئے تو شائد اب یادداشت سے سب کا نام لکھ دینا ممکن ہی نہیں۔ مگر ایک بات ان سب میں مشترک تھی اور وہ یہ کہ اپنے اپنے منفرد انداز تحریر میں ان کو کمال حاصل تھا۔
۔
مجھے خود پر حیرت ہے کہ اتنے زور بیاں رکھنے والو کو پڑھنے کے بعد بھی جو مصنف مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ تو اس کے اپنے بقول مصنف ہے ہی نہیں۔ اس کا نام "ممتاز مفتی" ہے۔ جو حقیقت میں نہ دانشوری کے اعتبار سے "ممتاز" تھا اور نہ ہی کسی بھی زاویئے سے "مفتی" تھا۔ شائد ممتاز مفتی مجھے اسلئے پسند ہے کہ وہ کوئی پارسا نہیں بلکہ میری طرح گناہوں سے لتھڑا ایک کمزور انسان تھا۔ فرق اتنا ہے کہ اس میں اعتراف کی جرات ہے اور مجھ میں نہیں۔ میں فقط عمومی سچ بولتا ہوں۔ جبکہ ممتاز مفتی اپنی ذات و کردار کے بارے میں سچ بولتا ہے۔ وہ کہانیاں سناتا ہے، افسانے بھی گھڑتا ہے مگر ان سب کے بیچ وہ ایسی سچائیوں کا بیان کرجاتا ہے۔ جو مجھ جیسے نام کے شرفاء کو اکثر گوارا نہیں ہوتی۔ عجیب شخص ہے یہ ! جسکی تحریر اپنی واہ واہ ہی نہیں چاہتی۔ بلکہ کئی بار تو اسے چوک پر برہنہ کھڑا کردیتی ہے۔ جس پر لوگ ہنستے ہیں اور کئی نفرت سے تھوک بھی دیتے ہیں۔ دوسروں کے متعلق سچ بولنا کون سی بڑی بات؟ مگر کوئی اپنے بارے میں اتنی سفاکی سے سچ کیسے بول سکتا ہے؟؟ بطور قاری کئی بار میں چیخ پڑتا ہوں کہ نہیں ممتاز ! نہیں ! خدا کیلئے اب مزید سچ نہ بولو۔ خود کو اتنا ذلیل نہ کرو۔ مگر وہ بے لاگ بولتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے خدا سے بھی نرالا ہے۔ جو تقدس کی چادر میں لپٹا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ ایک قلندر و مجذوب کی بیقرار صدا ہے۔ ورنہ کس ہوش مند کی جرات ہے؟ کہ وہ رب کعبہ کو اپنی تحریر میں کھلے عام عجب حالت جذب میں 'کالے کوٹھے والا' کہہ کر مخاطب کرے؟ اور پھر بھی مولوی کی تکفیر سے بچ نکلے؟ ان کے قریبی ترین دوستو میں قدرت اللہ شھاب، ابن انشاء، اشفاق احمد اور واصف علی واصف جیسے بڑے روحانی لوگ شامل ہیں۔ شھاب صاحب کو ممتاز مفتی مرشد کی جگہ بھی دیتے تھے۔ ان سب کے نام کے بعد لوگ آج بھی رحمتہ اللہ علیہ کا لاحقہ لگادیتے ہیں۔ اس حلقہ یاراں میں فقط ممتاز مفتی ہی وہ گنہگار نام ہے جو اس لاحقے سے محروم ہے۔ اور کیوں نہ محروم ہو؟ کہ جب وہ ساری زندگی ہی ملامتی فرقے کا غیبی امام بن کر رہا۔ ممتاز مفتی سے نفرت کرنی ہو تو 'علی پور کا ایلی' پڑھیئے۔ مگر جو کبھی ان سے محبت سیکھنی ہو تو 'لبیک'، 'تلاش' اور 'الکھ نگری' پڑھیئے۔
۔
====عظیم نامہ====

شریف النفسی کا دور

شریف النفسی کا دور

Image may contain: 2 people, people smiling 
 
پچھلے دو روز سے پاکستانی عوام کو ایک چٹخارہ میسر آیا ہوا ہے. 'ھیلنا' نامی ایک امریکی شہری اپنی محبت 'کاشف' سے شادی کرنے کیلئے سیالکوٹ پاکستان پہنچ گئی اور جلد دونوں نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے. چٹخارہ یہ ہے کہ 'ھیلنا' کی عمر اکیالیس برس جبکہ 'کاشف' کی عمر فقط اکیس برس ہے. بس پھر کیا ہے؟ پوری قوم کی ہنسی چھوٹ رہی ہے، دانت نکل رہے ہیں، فقرے کسے جا رہے ہیں کہ امریکی عورت نے پاکستانی بچہ گود لے لیا. لونڈا پھنسا لیا. یا پھر لڑکے نے امریکی شہریت کیلئے ہاتھ مار لیا. وغیرہ وغیرہ. دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی قوم ہے جو اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کی دعویدار ہیں جنہوں نے پچیس برس کی عمر میں چالیس برس کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تھا اور ان کے ساتھ ایک نہایت بہترین ازدواجی زندگی بسر کی تھی. جب یہی الزام کوئی دشمن اسلام آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر لگاتا ہے کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ انہوں نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح مال و دولت کی لالچ میں کیا تھا تو اس پر آگ بگولہ ہوجاتے ہیں. مگر آج اس نوجوان پر بناء کچھ جانے یہ الزام لگاتے نہیں چوک رہے کہ اس کا یہ نکاح کا فیصلہ امریکی شہریت یا مال کی لالچ میں ہے. افسوس صد افسوس ہے.
.
بڑے بوڑھوں نے یہ رونا بھی ڈال رکھا ہے کہ ہمارا دور شریف النفسی کا دور تھا. اب تو اس کمبخت انٹرنیٹ نے کباڑا کر رکھا ہے. جسے دیکھو عشق کا مریض ہے. مان لیا کہ انٹرنیٹ نے رابطہ اتنا آسان بنا دیا ہے کہ مرد و عورت کے مابین تعلقات کے امکانات وسیع ہوگئے ہیں. مگر یہ سوچنا کہ ان بڑے بوڑھوں کا زمانہ بڑا پاک تھا، ہمارے نزدیک خود فریبی کے سوا کچھ نہیں. فرق فقط اتنا ہے کہ کل رقعے پھینکے جاتے تھے اور آج واٹس ایپ ہوتا ہے. کل چھتوں پر چڑھ کر تاکا جھانکی کرتے تھے اور آج فیس بک پر پروفائل گھومے جاتے ہیں. ہماری اکثریت انڈیا سے ہجرت کرکے آئی ہے. ذرا تکلف کرکے اپنے بڑے بوڑھوں کے دور کی تحقیق کیجیئے. کس کس کے کس کس سے چکر چلے ہیں؟ سب سامنے آجائے گا. معلوم ہوگا کہ تمام تر قدامت پسندی اور مذہبی اقدار کے باوجود بہت سی لڑکیاں اس وقت بھی بھاگ کر شادی کیا کرتی تھیں، اس وقت انٹرنیٹ پر جنسی بے راہ روی موجود ہے تو پہلے زمانے کے کئی لڑکے خاص طرح کا سینما اور مجرہ دیکھا کرتے تھے. دھیان رہے کہ ہم آج موجود بڑھتی ہوئی برائی کا انکار یا دفاع نہیں کر رہے. بلکہ اتنا سمجھا رہے ہیں کہ ماضی میں بھی سب حاجی غفور اور نیک پروین نہیں تھے.
.
جو بھی ہو تم پہ معترض، اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا !
.

میری جانب سے تو 'ھیلنا' اور 'کاشف' کو شادی کی ڈھیروں مبارک اور نیک تمنائیں. باقی بحیثیت اجتماعی ہم ویسے ہی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے چیمپئن ہیں. لہٰذا اگنور اینڈ فکر ناٹ !
.
====عظیم نامہ====

اگر آپ

اگر آپ


اگر آپ لوگوں میں خوشیاں بانٹنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو خوش رہنا ہوگا
اگر آپ معاشرے میں سکون و سلامتی کی علامت بننا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو خود پرسکون رہنا ہوگا
اگر آپ ماحول کیلئے مثبت انرجی کا مرکز بننا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اپنی سوچ مثبت بنانا ہوگی
.
یہ درست ہے کہ ایک مسلمان فقط اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ آگے بڑھ کر اپنے معاشرے کی اصلاح میں بھی عملی و علمی کردار ادا کرتا ہے. مگر یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ ہماری کوشش کا اولین میدان ہمارا اپنا نفس ہونا چاہیئے. اس کا تزکیہ و تطہیر ہوگی تب ہی خارج میں ہم کسی بہتری کا موثر ذریعہ بن سکیں گے. ورنہ خود فریبی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا. سوشل میڈیا پر استاد، محقق یا لکھاری بننے سے قبل اپنے اندر ضرور جھانک کر دیکھ لیجیئے کہ جو میں کہہ رہا ہوں اس کا ایک قابل قدر حصہ مجھے خود حاصل ہوچکا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پہلے سالک و طالبعلم بن کر اپنی ذات پر محنت کیجیئے، اپنے نفس کو توجہ کا محور بنایئے. ایک بار جو آپ کو وہ خیر حاصل ہوگیا تو آپ دیکھیں گے کہ لوگ خود آپ کو پکڑ پکڑ کر پوچھیں گے. آپ سے سیکھیں گے. اب آپ کے قلب و فکر میں اطمینان بھی ہوگا اور قول و فکر میں تضاد بھی نہ ہوگا. اب آپ کی زبان سے ادا کردہ ہر کلمہ پراثر ہوگا. گویا بات متکلم کے دل سے نکلے گی اور مخاطب کے دل میں گھر کر لے گی.
.
====عظیم نامہ====

علت

علت

ایک ہے حکم کی "علت" اور دوسری شے ہے اس حکم کی "حکمت". "علت" اس بنیادی وجہ یا نتیجے کو کہتے ہیں جس کی بنیاد پر حکم صادر کیا گیا. جبکہ حکمت ان ممکنہ فوائد کا نام ہے جو اس حکم کی بجاآوری سے عامل کو حاصل ہوسکتے ہوں.
.
الہامی حکم کی "علت" قران و سنت کے نصوص سے ہی معلوم ہوسکتی ہے. اسے فقط غور و فکر سے گھڑا نہیں جاسکتا. دین میں رب العزت نے کچھ احکامات کی "علت" بیان فرما دی ہے اور کچھ کی نہیں. جن کی بیان فرمادی انہیں ہم کسی کمی و بیشی کے بغیر من و عن تسلیم کرتے ہیں. جن کی نہیں بیان کی ان کے بارے میں کسی بھی خامہ فرسائی سے گریز کرتے ہیں. جیسے روزے کی "علت" کلام پاک میں تقویٰ کا حصول بیان ہوئی ہے. لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
.
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کئے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔‘‘ (البقرہ183)
.
"حکمت" کا معاملہ البتہ جدا ہے. "حکمت" چونکہ ممکنہ فوائد کا نام ہے، اسلئے اگر ان کا بیان نصوص میں صراحت سے نہ بھی ہوا ہو تب بھی غور و فکر کرکے اور دین کا عمومی پیغام مدنظر رکھ کے انہیں پیش کیا جاسکتا ہے. بس اتنا ملحوظ رہے کہ چونکہ اسکی سند قران و سنت میں صریحاً درج نہیں ہے، اسلئے "حکمت" کا یہ بیان قطعیت کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ بطور امکانات ان کا ذکر ہو.
.
یہ بھی دھیان رہے کہ جب آخری درجہ میں حکم کا من جانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب ایک مسلمان کی عقل اپنے بنانے والے کی نازل کردہ وحی کی پابند ہوگئی. اب یہ احکامات کی پوشیدہ حکمت تو ضرور کھوج سکتی ہے، طالبعلمانہ سوالات تو کرسکتی ہے مگر ان احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی. حکمت کا جاننا یا نہ جاننا اب احکام پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا. اب تو بس سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا اصول لاگو ہوگا یعنی 'ہم نے سنا اور اطاعت کی'.
.
====عظیم نامہ====

نیکی یہ بھی ہے

نیکی یہ بھی ہے


کچھ دن قبل ایک چھوٹے سے مقامی 'فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ' میں کھانا کھانے گیا. حسب معمول وہی پاکستانی لڑکا کھانا پکاتا اور پیش کرتا نظر آیا. مگر آج اس کے چہرے پر شدید تھکن تھی. میں کچھ لمحے اس کا تھکن سے چور چہرہ دیکھتا رہا. پھر اسے محبت سے مخاطب کیا. میں نے اسے بتایا کہ میں ایک زمانے سے اسے اسی ریسٹورنٹ میں جانفشانی سے کام کرتا دیکھ رہا ہوں اور اس کی محنت و صلاحیت کا خود کو قائل پاتا ہوں. میں نے اعتراف کیا کہ علاقے بھر میں سب سے اچھا پیزا اور رول اسی کے پاس ملتا ہے. صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسکی کسٹمر سروس بھی بہت اعلی ہے. وہ یہ سب سن کر کبھی مسکراتا اور کبھی شرماتا رہا. اب اس کا چہرہ دمک رہا تھا اور جیسے تھکاوٹ چہرے سے رخصت ہوچکی تھی. (دھیان رہے کہ میری یہ تعریف بناوٹی نہیں تھی بلکہ میں فی الواقع اس کا دل میں معترف تھا، بس اظہار آج کیا تھا)
.
اسی طرح چند روز پہلے میں ایک علاقے کی دکان سے کچھ پھل خرید رہا تھا. کاونٹر کے پیچھے بیٹھا وہ افغانی شخص خالی آنکھوں سے دیوار کو تک رہا تھا. میں نے اسے سلام کرنے کے بعد خیریت پوچھتے ہوئے اس سے دریافت کیا کہ آج وہ اتنا بجھا بجھا کیوں ہے؟ وہ پہلے جھجھکا مگر پھر جیسے پھٹ پڑا. اس نے بتایا کہ کس طرح اسے اس کی محبت نے دھوکہ دے دیا اور اب اسے جینے کی کوئی چاہ محسوس نہیں ہوتی. وہ خود کو گم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کرتا ہے مگر یہ اذیت اسکی جان نہیں چھوڑتی. اس نے اپنے موبائل میں سے ایک تصویر نکالی جس میں ایک نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا. اس نے پوچھا کہ جانتے ہو یہ کون ہے؟ میں نے کہا نہیں میں نہیں جانتا. اس نے دکھی لہجے میں کہا کہ یہ میں ہوں ! صرف دو سال پہلے کی تصویر میں. اب اس غم نے مجھے بوڑھا کردیا ہے. میرا چہرہ زرد ہوگیا ہے اور بال تیزی سے گررہے ہیں. وہ اپنے دل کا حال کسی مشین کی مانند سنائے جارہا تھا. جیسے اس نے کہنے کیلئے بہت کچھ جمع کررکھا ہو مگر کسی کو اسے سننا گوارہ نہ ہو. میں خاموشی سے اسے سنتا رہا اور دبے دبے لفظوں میں اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا. اسے بتایا کہ وہ اس دھوکہ کھانے میں تنہا نہیں ہے. کتنے ہی مرد عورتوں سے اور عورتیں مردوں سے یونہی دھوکہ کھا بیٹھتی ہیں. اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ایک بیوفا محبت کیلئے بہت سی سچی محبتوں کو بھلا بیٹھیں. خدا، رسول، والدین، بھائی بہن، دوست - یہ سب بھی تو محبت ہی کے روپ ہیں؟ وہ اپنا دکھڑا مجھ سے کہہ کر اب کچھ ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا.
.
دوستو نیکی یہی نہیں ہے کہ آپ بس لوگوں کو مذہبی عبادات جیسے نماز روزے کی جانب بلاتے رہیں. بلکہ نیکی یہ بھی ہے کہ آپ لوگوں کے کام آئیں. صدقہ یہی نہیں ہے کہ آپ بکرا ذبح کردیں یا فقیروں میں خیرات بانٹ دیں بلکہ صدقہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی دکھی کو حوصلہ دے دیں. ہم سب کے اردگرد ایسے بیشمار مواقع ہوا کرتے ہیں، جب لوگوں کو ہماری ضرورت ہوتی ہے. یقین کیجیئے اس نفسا نفسی کے دور میں آج لوگوں کو مثبت انرجی کی جتنی ضرورت ہے، اتنی مال کی نہیں ہے. لوگوں سے مسکرا کر ملیں، انہیں حوصلہ دیں، ان کی بات کو بغور سنیں. یہی بہت بڑی نیکی ہے.
.
====عظیم نامہ====

الجیرین


الجیرین 


انگلینڈ میں ساری دنیا کی اقوام آباد ہیں. لہٰذا مختلف ممالک کے لوگوں کے متفرق مزاج دیکھنے اور سمجھنے کو ملتے ہیں. مسلم ممالک میں 'الجیریا' کے لوگوں میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب میں غضب کا غصہ ہوتا ہے. ہم پاکستانی آپس میں ازراہ مذاق انہیں پٹھان دماغ کہا کرتے ہیں. وجہ ظاہر ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں سب سے زیادہ غصہ پٹھان برادری میں نظر آتا ہے. الجیریا کے یہ افراد انسان دوست، مہمان نواز اور دیگر خوبیوں کے حامل ہیں. مگر ان کا غصہ اکثر ان کی خوبیوں پر پانی پھیر دیتا ہے. مزیدار بات یہ ہے کہ اپنی اس اجتماعی خامی کا اعتراف بھی یہ کرتے ہیں.مگر کوشش کے باوجود اس مزاج کی گرمی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے. آج ایک الجیرین بھائی سے گپ شپ لگی جو ایک زمانے سے انگلینڈ ہی میں مقیم ہے. اس نے بتایا کہ کس طرح ابتدائی سالوں میں اس کا ہر روز کسی نہ کسی گورے یا کالے سے مارپیٹ ہوتی. وجہ وہی غصہ تھا. وہ بتانے لگا کہ ہم سب اس کمزوری کی وجہ سے اپنی بات صحیح سے بیان نہیں کر پاتے. مکالمے، گفتگو یا اپنی بات بتاتے ہوئے ہمارا پارہ چڑھ جاتا ہے اور اکثر دماغ اتنا گرم ہوجاتا ہے کہ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہہ نہیں پاتے.
.
میرا یہ الجیرین بھائی اپنی اس خامی پر قابو پانے میں اتنا سنجیدہ ہے کہ وہ ماہرین نفسیات کے پاس چلا گیا اور ان سے اس قومی مزاج پر گفتگو کی. نفسیات کے ڈاکٹرز نے اسے جو وجہ بتائی، وہ وجہ اسے بالکل درست محسوس ہوئی. وجہ یہ ہے کہ الجیریا میں عموماً بچوں کی تربیت اس انداز میں ہوتی ہے کہ انہیں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنے دیا جاتا. کبھی آنکھیں دیکھا کر، کبھی ڈانٹ کر اور کبھی مار کر ان کی رائے کو کچل دیا جاتا ہے. سوال پوچھیں تو اس سوال کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی. وہ بتا رہا تھا کہ کس طرح بچپن میں جب وہ اپنے والد سے کوئی سوال کرتا تو وہ اسے یکسر نظر انداز کردیتے جیسے سنا ہی نہ ہو، وہ دوبارہ پوچھتا، تیسری بار پوچھتا تو اسے اتنے غصے سے گھورتے کہ وہ سہم کر خاموش ہو جاتا. باپ کو گلے لگانا یا ماں سے لپٹ جانا معیوب تھا. والد کے انتقال کے وقت جب وہ تکلیف میں آئے تب بھی اس کے بڑے بھائی میں انہیں تھامنے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ بس صدمے سے اپنا ہی منہ نوچتا ہوا گھر سے بھاگ گیا. رائے کچلنے، جواب نہ ملنے اور اپنوں کے ہاتھوں مسلسل بے عزتی کا یہ غصہ بچپن سے انسان کے اندر پلتا رہتا ہے، بغاوت بن کر کسی سلگتے انگارے کی مانند دہکتا رہتا ہے. اسی حال میں وہ جوان ہوتا ہے اور یوں اس غصے کے مرض کا شکار ہوجاتا ہے.
.
میں اسکی اس تکلیف دہ روداد کو سنتا رہا اور کچھ اپنے تجربات بھی بتاتا رہا. سوچتا ہوں کہ یہ مسئلہ شائد صرف الجیریا کا نہیں بلکہ پاکستان کا بھی ہے. بلکہ اپنی اصل میں تو یہ مسئلہ کسی قومیت کا ہے ہی نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا ہے. جہاں بھی انسانی نفسیات کو کچلا جائے گا وہاں ایسے ہی تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے. آپ اگر ایک سلیم المزاج انسان ہے تو فیصلہ کریں کہ اپنی اولاد، اپنی بیوی، اپنے گھروالو کی عزت نفس کو مسلنے نہیں دیں گے. ان سے مشاورت کریں گے. ان کی رائے کو اہمیت دیں گے. تب ہی بدلاؤ ممکن ہے. اگر آپ کو شکایت ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہے جو نہیں ہونا چاہیئے تھا تو ٹھان لیں کہ آپ اپنی نسل کو اس محرومی سے گزرنے نہیں دیں گے. ان شاء اللہ
.
====عظیم نامہ====

علمی موضوعات

علمی موضوعات


ہمارے نزدیک کچھ علمی موضوعات آج ایسے ہیں جن پر بعد از تحقیق قلم اٹھانا ضروری ہے. میں وقت ملتے ہی خود کوشش کروں گا کہ اسے زیر قلم لاؤں. البتہ اگر آپ میں تسلی بخش جواب دینے کی اہلیت ہے تو میں آپ کو بھی ترغیب دیتا ہوں کہ ان سوالات و موضوعات کے تحقیقی جوابات مرتب کیجیئے جو دلائل سے پوری طرح مزین ہوں.
.
ا. 'نظریہ ارتقاء اور مذہبی بیانیہ' - اس عنوان کے تحت دو پہلو اجاگر کیئے جائیں. پہلا یہ کہ وجود خدا ، نظریہ ارتقاء کے ماننے نہ ماننے سے مشروط نہیں. دوسرا پہلو یہ کہ چودہ سو سال میں تخلیق انسان و دیگر مخلوقات کے بارے میں موجود علماء کی متفرق آراء
.
٢. 'ڈیزائن آرگیومنٹ' پر ہونے والی تنقید جو مختلف مغربی فلاسفہ کی جانب سے کی گئی ہے، اس تنقید کے ہر ایک نکتے کا مرحلہ وار شافی جواب. قران مجید کا طالبعلم یہ خوب جانتا ہے کہ بندگی خدا کے استدلال میں 'ڈیزائن آرگیومنٹ' کو کلیدی حیثیت حاصل ہے.
.
٣. 'سب خدا نے بنایا تو خدا کو کس نے بنایا؟' - اس سوال کا جواب دور حاضر میں کئی اہل علم دے چکے ہیں. مگر ابھی بھی ضرورت ہے کہ اس جواب کو مزید مربوط و مظبوط کرکے پیش کیا جائے. تاکہ اس اعتراض کا فاسد و باطل ہونا ثابت ہوسکے.
.
٤. 'محدود زندگی کے محدود گناہوں کی سزا لامحدود جہنم کیوں؟' - اس سوال کا ممکنہ جواب بھی قران و حدیث سے کئی اہل علم دے چکے ہیں. اسلاف میں سے بھی اور دور حاضر سے بھی. گو ابھی تک کسی نے ان دلائل کو یکجا کرکے بھرپور صورت میں پیش نہیں کیا ہے.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: کمنٹس میں جوابات لکھنے سے بہتر ہے کہ جوابات کو اپنی وال کی زینت بنائیں. ورنہ کم از کم اہل علم کو دعوت دیں کہ وہ ان عنوانات پر تحقیقی مقالے لکھیں)

لفظ "اسلام" کے کیا معنی

لفظ "اسلام" کے کیا معنی


لفظ "اسلام" کے کیا معنی ہیں؟
۔
اس سوال کا جواب تین اعتبارات سے دیا جاسکتا ہے یا پھر یوں کہہ لیجیئے کہ لفظ اسلام کے تین معنی ہیں۔ پہلا لغوی معنی، دوسرا اصطلاحی معنی اور تیسرا قانونی معنی۔
۔
لغوی معنی کے اعتبار سے اسلام لفظ 'سلام' یعنی سلامتی سے نکلا ہے اور سلام کا مادہ لفظ 'سلم' یعنی خود کو مکمل حوالے کردینا ہے۔ اس لحاظ سے اسلام کے لغوی معنی یہ ہوئے کہ خود کو احکام الہی کے سامنے مکمل سپرد کردینا اور یوں معاشرے میں سلامتی کا مظہر بن جانا۔ گویا سلم سے سلام کا سفر اسلام ہے۔
۔
اصطلاحی معنی درحقیقت وہ معروف معنی ہے جو معاشرے میں رائج ہیں اور اس کے اعتبار سے 'اسلام' شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کا نام ہے۔ حالانکہ قران حکیم نے مختلف شریعت کے حامل دیگر انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو بھی مسلم ہی کہا ہے۔ مگر جیسے عرض کیا کہ اصطلاحی یا معروف معنی آج یہ ہیں کہ وہ شخص جو رسالت و شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتا ہو۔ اسی لئے جب کوئی شخص یہ تصدیق کرتا ہے تو ہم سب کہتے ہیں کہ وہ 'اسلام' لے آیا ہے۔
۔
قانونی معنی وہ معنی ہیں جو شرعی نصوص سے ثابت ہوں۔ اس اعتبار سے اسلام ظاہر سے متعلق ہے اور ایمان باطن سے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج متفقہ علیہ حدیث جسے حدیث جبرئیل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ ثابت ہے کہ اسلام پانچ چیزوں کو ماننے اور عمل کرنے کا نام ہے۔ ان پانچ چیزوں کو آج ہم ارکان اسلام بھی کہتے ہیں۔ گویا اللہ اور اسکے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی شہادت دینا، نماز، روزہ، حج اور زکات۔ جو کوئی ان پانچ ارکان کو مانتا ہے وہ قانونی اعتبار سے مسلم ہے اور اسے معاشرے میں مسلم ہی کے حقوق حاصل ہونگے۔ گو اخروی نجات ایمان کے بناء ممکن نہیں۔ جس کے چھ ارکان بھی اسی حدیث جبرئیل میں مذکور ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی شائد مناسب ہو کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانے کا مطلب ایک خدا پر ایمان لانا ہے. یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میں اللہ پر ایمان لانا مگر ساتھ میں رام، کرشنا، وشنو کو بھی خدا مانتا ہوں معاذ اللہ. ٹھیک ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننا ختم نبوت کو ماننا ہے. یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی کہے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا مگر ساتھ ہی ان کے بعد فلاں، فلاں اور فلاں کی نبوت پر بھی ایمان لایا. آسان الفاظ میں اللہ پر ایمان کا معنی توحید اور رسول پر ایمان کے معنی ختم نبوت کے ہیں.
۔
====عظیم نامہ====

لڑا دے ممولے کو شہباز سے

لڑا دے ممولے کو شہباز سے


کچھ دیر قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک خوفناک ببر شیر ایک انسان کے اعتماد کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا ہے
.
ایک ایسی ویڈیو بھی نظر سے گزری جس میں ایک گھر میں پلا کتا ایک مرغی کے چوزے سے مار کھا کھا کر بھاگ رہا ہے
.
ایک اور ویڈیو میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا چوہا بڑی سی بلی پر حملہ آور ہے اور بلی خوفزدہ یہاں سے وہاں جان بچانے بھاگ رہی ہے
.
یہ اور اس جیسی نا جانے کتنی مثالیں ایسی ہیں جو ہم پر اس حقیقت کو منکشف کرتی ہیں کہ ہمت ہو تو اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن سے بناء خوف لڑا جاسکتا ہے. اور اگر ہمت نہ ہو تو طاقت کے باوجود کمزور کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے. طاقت حاصل کرنا بہت اہم ہے مگر اس سے بھی اہم اس ہمت کا ہونا ہے جو موجود طاقت کے استعمال کیلئے درکار ہے. یہ خودی محکم ہو تو پھر ناممکن بھی بعض اوقات ممکن ہوجاتا ہے. شائد اسی حقیقت کو اقبال یوں بیان کرگئے ہیں
.
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
.
ظاہر ہے درج بالا شعر میں اقبال عمومی صورت کا ذکر نہیں کررہے بلکہ یہاں خودی و ہمت کی پختگی بیان کرنا مقصود ہے. جس کی امثال ہم نے تحریر کی ابتداء میں درج کی ہیں. تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب مٹھی بھر باہمت افراد کثیر تعداد طاقتور مگر کم ہمت دشمن پر غالب آئے. کچھ کم فہم افراد نے اس شعر کی بنیاد پر اقبال کے افکار کو مذاق بنانا چاہا ہے جو کسی طور مناسب نہیں. عمومی اصول اقبال کے نزدیک بھی وہی ہے جو ہم سب کی دانست میں درست ہے اور وہ یہی کہ طاقت کا حصول ہر صورت ممکن بنایا جائے. اسی لئے اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ
.
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
.
====عظیم نامہ====

دروازہ

دروازہ


انسان کیلئے کسی بھی شے کا علم یا کسی بھی شخص کی محبت منزل نہیں. فقط دروازہ ہے. اور دروازے کا کام یا تو راستہ دینا ہوتا ہے یا پھر راستہ روکنا. اب یہ ہمیں خود دیکھنا ہے کہ کسی کی محبت نے ہمارا راستہ روک تو نہیں دیا؟ اس خاکی جسم کے پنجر میں جکڑی انسان کی یہ روح اپنے اس بنانے والے سے ملنے کو بیتاب ہے. مومن کی ترجیح اول، مومن کی حتمی منزل صرف خدا ہے. یہ خود سے خودی اور خودی سے خدا کا سفر ہے. کسی بھی شے کا علم اگر اس شے کے صانع تک نہیں پہنچاتا تو وہ حقیقی علم نہیں بلکہ اس شے پر انسانی نظریات کا غاصبانہ قبضہ ہے. کسی بھی مخلوق کی محبت اگر اس کے خالق تک آپ کو نہیں لے جاتی تو وہ حقیقی محبت نہیں بلکہ ایک نادیدہ حجاب ہے.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 6 November 2018

دہرایا گیا پیغام


دہرایا گیا پیغام



بعض اوقات مخصوص حالات و واقعات کے دوران آپ کی کہی ایک بات، مخاطب کے ذہن میں مستقل گھر کرلیتی ہے۔ مگر کلیہ یہ ہے کہ عام طور پر ایک بار میں دیا پیغام سامع یا قاری کی یادداشت میں پیوست نہیں ہوا کرتا۔ اسکے لئے لازمی ہے کہ آپ اپنی بات یا سمجھ کو کم از کم تین سے پانچ بار تک موثر انداز میں مخاطب کو پہنچاتے رہیں۔ قوی امکان ہے کہ آپ کا یہ متعدد بار دہرایا گیا پیغام اسکے لاشعور میں غیر محسوس طور پر اپنی جڑیں بنا لے۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب وہ کسی بات کو اپنی سمجھ جان کر بیان کرے گا تو وہ فی الواقع اسی سوچ کا عکس ہوگی جس کا بیج کبھی آپ نے بویا تھا اور جسے پانی و روشنی آپ نے دہرا دہرا کر فراہم کی تھی۔ یہی انسانی نفسیات ہے۔ عمل تنویم یعنی ھپناسس میں اسے آج اختیار کیا جاتا ہے۔ لاتعداد مصلح، فلسفی اور دانا شخصیات نے اسی طریق کو اپنایا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تعلیم دیکھیئے تو وہ اس پہلو کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لہذا ایک ہی اصلاحی بات کو مختلف مواقع پر مختلف انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بیان کیا۔ زیادہ اہم باتوں کو تو اکثر ایک ہی وقت میں تین تین بار دہرا کر مخاطبین کو تعلیم فرمایا۔ قران حکیم میں بھی رب کریم انسان کی نفسیات کو ملحوظ رکھ کر اپنا پیغام دہرا دہرا کر پیش کرتا ہے۔ تاکہ یہ الہامی ہدایات قاری کی شخصیت کا حصہ بن جائیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں To Hammer It Down جیسے سورہ الزمر کی 23 آیت میں ارشاد ہوتا ہے۔ 

۔
"اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کےرونگٹےکھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں انکے جسم اور دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔"
۔
====عظیم نامہ====

کہتے ہیں جسے عشق .. خلل ہے دماغ کا


کہتے ہیں جسے عشق .. خلل ہے دماغ کا



آپ بھلے مجھے جاہل و گستاخ ہی سمجھ لیجیئے مگر مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ عشق کوئی احسن شے نہیں ہے جسکے حصول کیلئے مجاہدہ کیا جائے. اگر کسی بیماری یا دماغی خلل کی طرح زبردستی لگ جائے تو اور بات وگرنہ عشق ایک غیر متوازن رویہ ہے جس میں انسان خرد و توازن سے بیگانہ ہوکر ایک ہی جانب مبہوت و جامد ہوکر رہ جاتا ہے. دین نے ہمیں محبت کرنا سکھایا ہے، شدید محبت کرنا سکھایا ہے مگر عشق کی تلقین بلکل نہیں کی. محبت میں توازن و حسن ہوتا ہے، یہ ایک ہی وقت میں بہت سے مخاطب بنا لیتی ہے. رب سے محبت، رسول سے محبت، والدین سے محبت، مسلمانو سے محبت، انسانوں سے محبت، بچوں سے محبت وغیرہ. عشق میں معشوق کے سوا سارے رشتے معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں جو دین کی منشاء نہیں. محبت کے ضوابط و تقاضے ہوتے ہیں. جبکہ عشق اپنے معشوق کا نام لے کر اکثر تمام حدود کو پامال کر چھوڑتا ہے. بقول مرزا اسد اللہ خاں غالب 
.
کہتے ہیں جسے عشق .. خلل ہے دماغ کا !
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 1 November 2018

آسیہ بی بی کیس

آسیہ بی بی کیس


.
١. ایک شخص توہین رسالت کرتا ہے اور یہ عمل وہ بار بار کرتا ہے. مختلف مواقع ایسے اتے ہیں جب مختلف لوگ اس کی اس توہین آمیز گفتگو کے گواہ ہیں. گویا اس کا مجرم ہونا متعدد واقعات سے واضح ہے.
.
٢. دوسرا شخص توہین رسالت کو اپنا مشن بنا لیتا ہے. وہ دیگر لوگوں کو بھی توہین پر ابھارتا ہے. توہین آمیز تقریر کرتا ہے یا توہین آمیز کتاب لکھتا ہے یا توہین آمیز خاکے بناتا ہے یا توہین آمیز بلاگ چلاتا ہے وغیرہ ہویا اس کا جرم زمانے بھر پر ثابت ہے.
.
٣. تیسرا شخص نے زندگی میں کبھی توہین رسالت نہیں کی ہوتی مگر کسی ایسی ہیجان انگیز لڑائی میں اکسانے پر وہ آگ بگولہ ہوکر گستاخ جملے بول جاتا ہے. مگر جب اسے توجہ دلائی جاتی ہے یا اس پر گرفت کی جاتی ہے تو وہ اپنے اس عمل پر نادم ہوتا ہے اور کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ یہ گستاخی وہ غصے میں کربیٹھا مگر درحقیقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل سے عزت کرتا ہے. دھیان رہے کہ باقی ساری زندگی ایک بار بھی اس نے کوئی گستاخ جملہ نہیں بولا تھا.
.
٤. چوتھا شخص فریاد کرتا ہے کہ مجھ پر ایک بار بھی گستاخی کرنے کا الزام غلط ہے. مجھے ہراساں کرکے اعتراف کروایا گیا. حقیقت میں یہ الزام فلاں دشمنی یا اسی دن ہوئے فلاں جھگڑے یا فلاں فائدے کے سبب اس پر لگایا گیا. ورنہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل سے عزت کرتا ہوں اور بحیثیت غیر مسلم میں اپنی مذہب کی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بیان دینے کو تیار ہوں. میری پچھلی زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں بتایا جاسکتا جب میں نے کسی بھی قسم کی کوئی گستاخی کی ہو.
.
جذبات سے بالآتر ہو کر سوچیئے کہ کیا یہ سب برابر کے مجرم ہیں؟ کیا اس کا امکان نہیں کہ تیسرا یا چوتھا شخص سچ کہہ رہا ہو ؟ اگر ہاں اس کا امکان ہے تو پھر فیصلہ کسے کرنا ہے؟ آپ نے؟ مولوی صاحب نے؟ الزام لگانے والے نے؟ یا پھر عدالت نے؟ اگر عدالت نے شواہد کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے تو بس مطمئن ہو جایئے. اب آپ کا کام ہو چکا. اگر شواہد کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے تو اب رب حساب اس عدالت و قاضی سے لے گا. اس قاضی کو روز جزاء ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے موجود شواہد و گواہی کی بنیاد پر ٹھیک انصاف کیا یا نہیں؟ آپ خدارا اسلام کے چیمپین بن کر نہ کھڑے ہوں. بالخصوص جب آپ نے اپنی آنکھوں سے واقعات، شواہد اور گواہیوں کو نہ دیکھ رکھا ہو. آسیہ بی بی نے جو بیان عدالت میں دیا وہ میں یہاں درج کررہا ہوں. ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں اور سوچیں کہ اگر واقعی یہ سچ ہو ؟
.
"میں ایک شادی شدہ خاتون اور دو بچوں کی ماں ہوں. میرا خاوند ایک غریب مزدور ہے. میں محمد ادریس کے کھیتوں میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ روزانہ کی اجرت کے عوض فالسے چننے جایا کرتی تھی. مبینہ وقوعہ کے روز میں دیگر کئی خواتین کے ہمراہ کھیتوں میں کام کررہی تھی. مسمات مافیہہ مسمات اسماء بی بی (گواہان استغاثہ) کے ساتھ پانی بھر کے لانے پہ جھگڑا ہو گیا جو میں نے انہیں پیش کرنا چاہا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا چونکہ میں عیسائی ہوں اسلئے وہ کبھی بھی میرے ہاتھ سے پانی نہیں پیئے گی. اس بات پر میرے اور استغاثہ کے گواہان خواتین کے درمیان جھگڑا ہوا اور کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا. اس کے بعد استغاثہ کی گواہان نے قاری سلام سے مل کر سازش کے تحت میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ گھڑا. میں نے پولیس کو کہا کہ میں بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہوں کہ میں کبھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق توہین آمیز الفاظ بیان نہیں کیئے. میں قران اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دل میں عزت اور احترام رکھتی ہوں لیکن چونکہ پولیس بھی شکایت گزار سے ملی ہوئی تھی. اسلئے پولیس نے مجھے اس مقدمے میں غلط توڑ پر پھنسایا. استغاثہ کے گواہان سگی بہنیں ہیں اور اس مقدمے میں مجھے بدنیتی سے پھنسانے میں دلچسپی رکھتی ہیں. کیونکہ ان دونوں کو میرے ساتھ جھگڑے اور سخت الفاظ کے تبادلے کی وجہ سے بے عزتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا. قاری سلام /شکایت گزار بھی مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ یہ دونوں خواتین اسکی زوجہ سے قران پڑھتی رہی ہیں. میرے آباء و اجداد اس گاؤں میں قیام پاکستان سے رہائش پذیر ہیں. میں بھی تقریباً چالیس برس کی ہوں. وقوعے سے پہلے ہمارے خلاف کبھی بھی اس قسم کی کوئی شکایت نہیں کی گئی. میں عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں اور گاؤں میں رہتی ہوں لہٰذا اسلامی تعلیمات سے نابلد ہونے کی وجہ سے میں کیسے اللہ کے نبی صلی اللہ الیہ وسلم اور الہامی کتاب یانی قران پاک کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئے بے ادبی کی مرتکب ہوسکتی ہوں؟ استغاثہ کا گواہ ادریس بھی ایسا گواہ ہے جو مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ اس کا متذکرہ بالا خواتین سے قریبی تعلق ہے."
.
====عظیم نامہ====

جمائی

جمائی

Image may contain: 3 people

اس تصویر کو ذرا غور سے تیس سیکنڈ تک دیکھیں. انہیں جمائی لیتا دیکھ کر آپ کو بھی تو جمائی نہیں آنے لگی؟ لوگوں کی اکثریت دوسرے کو جمائی لیتا دیکھ کر خود بھی جمائی لینے لگتے ہیں. ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اسکی ہمارے نزدیک کیا وجہ ہے؟ آج اس تحریر میں یہ جائزہ لیتے ہیں. جمائی ایک ایسا فطری اور قدرتی عمل ہے جو ماں کے پیٹ سے بچہ کرتا ہوا آتا ہے. عموماً ایسا تب ہوتا ہے جب آپ پر تھکن یا بوریت طاری ہو. طبیعاتی زاویئے سے دیکھیئے تو دراصل جمائی ہمیں اس وقت آتی ہے جب آپ کے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہو. جمائی کے ذریعے ہم بڑا سا منہ کھول کر اضافی آکسیجن جسم میں منتقل کرتے ہیں تاکہ ممکنہ کمی دور ہوسکے. بوریت یا تھکاوٹ کی حالت میں ہم سانس آہستگی سے لینے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم میں آکسیجن کی ضروری مقدار کی کمی ہوجاتی ہے اور یوں ہمارا خودکار طبیعاتی نظام ہمیں جمائی لے کر اس کمی کو دور کرنے کیلئے اکساتا یا مجبور کرتا ہے. کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ جمائی ہمارے گرم ہوتے ہوئے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کا بھی کام کرتی ہے. یہ بھی رب کا ایک خوبصورت نظام ہے کہ ہمارا انسانی جسم ایک خاص تناسب سے ہی درست طور پر کام کرپاتا ہے. آکسیجن کی کمی جہاں موت کا سبب بن سکتی ہے وہاں آکسیجن کی زیادتی بھی صحت کیلئے حد درجہ خطرناک ہے. "پینیک اٹیک" میں مبتلا مریض ایسا محسوس کرتا ہے کہ بس اب اس کا آخری وقت آپہنچا ہے مگر اکثر اسکی بگڑتی حالت کی ایک وجہ اسکے جسم میں آکسیجن کی زیادتی ہوتی ہے. "پینیک" کی حالت میں وہ تیزی سے زور زور اور گہری سانسیں بھر رہا ہوتا ہے جس سے آکسیجن کی مقدار جسم میں ضرورت سے زائد ہوجاتی ہے. یوں ارسال خون سے لے کر دیگر طبیعاتی معاملات بگڑنے لگتے ہیں. ایسے مریض کو آکسیجن سلینڈر لگا کر اور تسلی دے کر سانس کو آہستہ کروایا جاتا ہے. تاکہ آکسیجن کا تناسب درست ہوسکے. جسمانی آکسیجن میں معمول کی کمی ہم جمائی لے کر پوری کرلیتے ہیں.
.
مگر یہ سب اپر درج کتھا کہانی اپنی جگہ ایک حقیقت مگر ہمارا حقیقی سوال تو ابھی بھی جوں کا توں ہے؟ اور وہ یہ کہ ہمیں کسی کو جمائی لیتا دیکھ کر خود کیوں جمائی آجاتی ہے؟ بلکہ جمائی لینے کے بارے میں پڑھ کر، سن کر یا سوچ کر بھی ہم جمائی لینے لگتے ہیں. ممکن ہے اس تحریر کو پڑھنے کے دوران بھی آپ کئی بار جمائی لے چکے ہوں. ایسا کیوں؟ اس کی متفرق توجیحات سائنسی حلقوں میں پیش کی جاتی ہیں. گو اب تک کوئی حتمی نتیجہ ایسا نہیں ہے جس پر اتفاق ہوسکے اور یوں ابھی بھی اس موضوع پر تحقیق جاری ہے. ہمارے نزدیک البتہ دو توجیحات ایسی ہیں جو مل کر اس جوابی جمائی لینے کا سبب بنتی ہیں.
.
١. جمائی لینے والا دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دیکھنے والے کے دماغ کو جمائی لینے کا مشورہ دیتا ہے. اسے علمی حلقوں میں "مائنڈ سجیشن" کہا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر علم نفسیات میں مختلف دماغی الجھنوں کا علاج کیا جاتا ہے. ہپناسس یا ہپناٹزم کی تو بنیاد ہی اسی "مائنڈ سجیشن" پر قائم ہے. جہاں مخاطب کے تحت الشعور کو کسی سوچ اپنانے کا مشورہ یعنی سجیشن دیا جاتا ہے اور جسے وہ اکثر من و عن قبول کر لیتا ہے.
.
٢. انسان ایک دوسرے سے الفت کا رشتہ رکھتے ہیں. ہم دوسرے کو کسی خوشی یا تکلیف میں مبتلا دیکھیں تو اپنی یادداشت میں موجود یاد سے اسی خوشی یا تکلیف کو کسی حد خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں. مثلاً اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے اور خون بہنے لگے تو ہمیں بھی ایک نفسیاتی تکلیف پہنچنے لگتی ہے. وجہ یہ ہے کہ ہم اس درد کا یا اس سے ملتے جلتے درد کا احساس و تجربہ ماضی میں کر چکے ہوتے ہیں. اسی طرح جب ایک شخص کو ہم جمائی لیتا دیکھتے ہیں تو ہماری یادداشت یا تحت الشعور میں اس تھکن و بوریت کی کیفیت تازہ ہوجاتی ہے جس کا تجربہ ہمیں ماضی میں بارہا ہوچکا ہے. لہٰذا جلد ہی ہم بھی جوابی جمائی لینے لگتے ہیں.
.
بس دوستو ! اب ہم اس مضمون کا یہاں پر ہی اختتام کرتے ہیں ورنہ امکان ہے کہ جمائی لیتے لیتے نیند کی وادی میں نہ جا پہنچیں.
.
====عظیم نامہ====

وہ ایک صلاحیت


وہ ایک صلاحیت

.
اپنے ملک کو چھوڑ کر جب دیار غیر میں طالبعلم حصول علم کیلئے جمع ہوتے ہیں تو اکثر مل جل کر کوئی مناسب قیمت کمرہ یا فلیٹ یا مکان کرائے پر لے لیتے ہیں۔ پاکستان سے آئے اکثر لڑکے اپنے گھروں میں راجکمار کی زندگی گزار کر آئے ہوتے ہیں۔ کھانا پکانا یا گھر کی صفائی انہوں نے کبھی نہیں کی ہوتی مگر اب انگلینڈ جیسے ممالک میں جہاں ماسی وغیرہ کا رواج نہیں، وہاں یہ سب کام انہیں بادل نخواستہ خود ہی انجام دینے پڑتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی ابتداء میں، میں نے بھی گزاری۔ کاموں کو دوست آپس میں تقسیم کرلیتے تھے۔ کسی کے ذمہ کھانا پکانا، کسی کے سودا سلف لانا، کسی کے جھاڑو دینا یا ویکیوم کرنا اور کسی کے ٹوائلٹ کو چمکانا شامل ہوتا۔ یہ ذمہ داریاں روزانہ کی بنیاد پر بدلی بھی جاتی ہیں۔ جیسے جو آج سودا سلف لایا وہ کل کھانا پکائے گا وغیرہ۔ کھانا پکانا اپنے آپ میں ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی وہ خوشی یاد ہے جب کئی بار کی ناکامی کے بعد میں نے بناء زردی توڑے انڈہ فرائی کرلیا تھا۔ شان اور لذیذہ کے مسالوں نے سب ہی کو کچھ نہ کچھ کھانا پکانا سیکھا دیا۔ ذرا ہاتھ بیٹھا تو سمجھ آگیا کہ پیاز کیسے سنہری ہوتی ہے؟، دہی پھینٹ کر ڈالنا کیوں ضروری ہے؟، کب دم دینا ہے؟ کب چمچہ چلانا ہے؟، کون سا گوشت کس سالن کیلئے اور کون سا چاول کس ڈش کیلئے زیادہ موزوں ہے؟، تازہ ٹماٹر ڈبے سے کیونکر بہتر ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
.
ایک روز ہمارے ایک دوست کی کھانا پکانے کی باری آئی۔ اس نے بریانی بنائی جو کافی اچھی بنی۔ چنانچہ بڑی تعریف ہوئی۔ ہمارے اس دوست پر بھی یہ منکشف ہوا کہ انہیں کھانا پکانے میں لطف آتا ہے۔ لہذا وہ دھیان سے اپنی کوکنگ کو مزید بہتر بنانے لگا۔ کبھی پاکستان میں اپنے گھر والو سے پوچھ کر، کبھی کسی شیف کو سن کر اور کبھی تجربات کرکر کے اس کے کھانے بہتر سے بہتر ہونے لگے. دوستوں کو انتظار رہتا کہ کس دن وہ کھانا بنائے گا؟ خود میں اسے یہی کہتا کہ بھئی تمہارا پکایا کھا کر پیٹ بھر بھی جائے تو نیت نہیں بھرتی. دوسرے گھروں میں مقیم دوست بھی اس کا کھانا تناول کرنے آنے لگے. وہ اب ڈبے کی بجائے اپنے مسالے استعمال کرتا اور وہ وہ لوازمات بھی شامل کرتا جو کوئی روایتی ماہر شیف ہی کرسکتا تھا. اب لڑکے اسے آفر کرتے کہ پیسے لے لو مگر کھانا تم ہی پکاؤ. لوگ آفس میں کھانا سپلائی کرنے کیلئے رابطہ کرنے لگے. بات یہاں تک پہنچی کہ شادی و دیگر تقریبات کا کھانا بھی اس نے معاوضہ لے کر بنایا. گو اسکی پروفیشنل نوکری مختلف تھی اور کھانا پکانا فقط اسکا شوق یا سائیڈ انکم بنا رہا. مذاق ہی مذاق میں یوں لگتا ہے کہ ہمارے اس دوست نے اپنے اندر چھپا ایک آرٹسٹ ڈھونڈھ لیا تھا. یہ آرٹسٹ کوئی مصور، شاعر، موسیقار یا اداکار نہیں تھا بلکہ ایک شیف تھا. جو کھانا پکانے کو ایک فن ایک ہنر کے طور پر اپناتا اور پیش کرتا تھا.
.
دوستوں ہم سب میں بھی کوئی نہ کوئی ایک ہنر ایسا ضرور پوشیدہ ہوتا ہے، جو ہم سے بہتر ہمارے حلقہ احباب میں کوئی نہیں کرسکتا. مگر افسوس کہ ہم میں سے اکثر اس صلاحیت کو اپنے اندر ڈھونڈھ ہی نہیں پاتے. یا پھر شائد ہم خود کو موقع ہی نہیں دیتے؟ ہم میں سے کتنے ہیں؟ جنہوں نے کھانا پکانے کی کئی بار کوشش کی ہو؟ مصوری کو بطور مشغلہ اپنا کر دیکھا ہو؟ شعر کہے ہوں؟ فن خطابت میں اتر کر دیکھا ہو؟ جمناسٹک کراٹے یا تیراکی جیسے مشاغل میں جان کھپائی ہو؟ جب ہم خود کو مختلف مواقع ہی نہیں دیں گے؟ خود کو کھوجیں گے ہی نہیں؟ تو وہ ایک صلاحیت کیسے ڈھونڈھ پائیں گے جو ہمیں انفرادیت، مسرت، مقصدیت اور کامرانی عطا کرتی ہو؟ اس فیس بک کی ہی مثال لیجیئے. کتنے ہی مقبول و معروف لکھاری آج ایسے موجود ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر آنے سے قبل اس حقیقت کا ادراک تھا ہی نہیں کہ وہ بھی اچھا لکھ سکتے ہیں. کوئی انجینئر، کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل اور کوئی بیروزگار تھا، جسے قارئین کی توصیف سے یہ معلوم ہوا کہ وہ عام لوگوں سے بہت بہتر لکھ سکتا ہے. انہیں اپنی اس ایک صلاحیت کا علم ہوگیا جو ان کے وجود کے نہاں خانوں میں مدفون تھی. عزیزان من ! خود کو موقع دیں اور متفرق مشاغل و مصروفیات میں خود کو کھوجیں. ایسا تو نہیں کہ آپ میں بھی کوئی غالب، کوئی پکاسو، کوئی سقراط، کوئی نیوٹن، کوئی شیکسپیئر چھپا بیٹھا ہو؟ اور آپ خود ہی اس سے بے خبر ہوں؟
.
====عظیم نامہ====

مفت

مفت


زندگی میں مفت کچھ بھی نہیں۔ ہر فیصلے کی ایک قیمت ضرور چکانی ہے۔ البتہ وہ قیمت مال کی صورت میں ہی ہو؟ یہ ضروری نہیں۔ کبھی یہ قیمت وقت کی، کبھی رشتوں کی اور کبھی عزت نفس کی شکل میں بھی ہونا ممکن ہے۔ فیصلہ لینے
سے قبل یہ ادراک ضروری ہے کہ کیا آپ اس سے منسلک قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں؟
.
====عظیم نامہ====

ھیلمٹ

ھیلمٹ

Image may contain: one or more people, sky, shoes, cloud, outdoor and nature

یورپ امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں موٹر سائیکل سواروں کی حفاظت کیلئے خصوصی ہدایات دی جاتی ہیں. موٹر سائیکل سوار سر سے پاؤں تک حفاظتی لباس پہن کر سواری کرتا ہے. جس میں خصوصی جیکٹ اور ٹراؤزر سے لے کر گھٹنوں کہنیوں کی حفاظت کرنے والے پیڈز تک شامل ہوتے ہیں. سب سے زیادہ زور بہترین ھیلمٹ خریدنے / پہننے پر دیا جاتا ہے جو باقی حفاظتی چیزوں سے زیادہ مہنگا مگر مضبوط کوالٹی کا ہوتا ہے. ہر انسان ھیلمٹ کا بخوشی اہتمام کرتا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں یہی ھیلمٹ ان کی کھونپڑی ٹوٹنے اور موت ہونے سے محفوظ کرسکتا ہے. یہ بیوقوفی کی بحث کبھی ہوتی ہی نہیں کہ ھیلمٹ پہنا جائے یا نہ پہنا جائے؟ جب ھیلمٹ ایک بار ضرب برداشت کرتا ہے تو پھر اس جگہ سے ویسا مضبوط نہیں رہتا جیسا پہلے تھا اور یوں اگلی بار کسی ایکسیڈنٹ کی صورت میں اسکی مدافعت کم ہونا ممکن ہے. یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی معمولی سا ایکسیڈنٹ بھی ہو جائے جس میں موٹر سائیکل سوار کا ھیلمٹ زمین پر یا کسی اور سخت شے پر جالگے تو اس ھیلمٹ کو پھینک کر نیا ھیلمٹ خریدا جاتا ہے. آپ نے یہی منظر کرکٹ میں بھی بارہا دیکھا ہوگا کہ جب بلے باز کے ھیلمٹ پر تیز گیند جالگے تو فوری نیا ھیلمٹ منگوایا جاتا ہے.
.
اپنے سر کے بارے میں انتہائی حفاظتی تدبیر ہر وہ انسان کیا کرتا ہے جس میں تھوڑا سا بھی شعور ہو. اگر پاکستان کے لاقانونیت بھرے معاشرے میں آج ھیلمٹ پہننے کی مہم چلائی جارہی ہے اور اس کا قانونی اطلاق کیا جارہا ہے تو ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیئے. اگر آپ کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آپ موٹر سائیکل خرید سکیں تو پھر لازمی ہے کہ ھیلمٹ بھی خریدسکیں. یہ آپ ہی کی جان کی حفاظت ہے. ایسے مطالبے غیر عقلی و غیر حقیقی ہیں کہ ھیلمٹ آپ کو مفت دیا جائے. دنیا کی کوئی بھی حکومت یا پھر موٹر سائیکل کی کوئی بھی نمائندہ کمپنی ھیلمٹ مفت نہیں دیا کرتی. اسے خریدنا اور پہننا موٹر سائیکل سوار کی اپنی عقلی اور قانونی ذمہ داری ہے.
.
====عظیم نامہ====

انگلینڈ میں بس جانا

انگلینڈ میں بس جانا


انگلینڈ میں بس جانا کبھی بھی میرا ارادہ نہ تھا. میں تو یہاں یہ سوچ کر آیا تھا کہ ماسٹرز ڈگری کرنے کے بعد پاکستان واپس چلا جاؤں گا. جب ماسٹرز ہوگیا تو لوگوں نے کہا کہ بھئی ایک دو سال کا تجربہ لے کر واپس آنا. ایسے ہی واپس نہ آجانا. ہمیں بات معقول لگی تو ایک دو سال کا تجربہ لینے رک گئے. اب سب عقلمندوں نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ بھئی پانچ سال میں تمھیں انگلینڈ کا پاسپورٹ مل جائے گا، اسے لے کر ہی آنا تاکہ پاکستان یا مڈل ایسٹ میں بہتر نوکری بھی مل سکے اور اگر کل کوئی انہونی ہو تو تمہارے پاس واپسی کا راستہ بھی موجود ہو. ہمیں ایک بار پھر یہ بات مناسب محسوس ہوئی. سوچا جہاں تین سال رک گئے ہیں وہاں دو سال اور گزار کر پانچ سال بھی رک ہی جائیں گے. پھر واپس اپنے ملک پاکستان. مگر ایسا نہ ہوا. امیگریشن کے ایک کے بعد ایک ایسے مسائل پیدا ہوتے چلے گئے جن سے میرا کیس الجھتا گیا. ہر سال یہ لگتا کہ بس اب سب ہونے والا ہے اور اب میں پاکستان جاسکوں گا. مگر پھر کچھ ایسا ہوتا کہ سب دھرا کا دھرا رہ جاتا. کبھی گورنمنٹ کی نئی پالیسی آجاتی تو کبھی نئی شادی شدہ زندگی میرے قدموں کو جکڑ لیتی. ایک وقت ایسا بھی آیا جب بناء پاسپورٹ لئے پاکستان جانے کا امکان پیدا ہوا مگر میرے وکیل کی حماقت نے میرا کیس اس حد تک بگاڑ دیا کہ واپسی کا مطلب ہمیشہ کیلئے کسی بھی مغربی ملک میں سفر کرنے کی پابندی ہوتی. چنانچہ کئی سال مجھے اپنے دفاع میں لگے، جس کا نتیجہ بلآخر میرے حق میں برآمد ہوا اور اس وکیل پر پابندی لگ گئی جس نے میرا کیس اپنی مجرمانہ غفلت کے سبب برباد کردیا تھا. پورے چودہ سال گزرنے کے بعد مجھے انگلینڈ میں مستقل سکونت حاصل ہوئی مگر اب اس عمر میں پاکستان جاکر دوبارہ سے نئی زندگی کا تجربہ کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں.
.
اس سب کے برعکس، میرا ایک نہایت قریبی دوست انگلینڈ آیا. اسے انگلینڈ بیحد پسند تھا اور وہ یہاں رہنا چاہتا تھا. لیکن اسے یہ ملک راس نہ آیا. پہلے کئی ماہ تو اسے کوئی معمولی نوکری بھی نہ ملی. پھر ایک سیکورٹی گارڈ کی نوکری ملی تو ایسے غیر معمولی واقعات ہوئے کہ دو بار اسے انتہائی ایمرجنسی کے نمبر ٩٩٩ پر کال کرکے پولیس بلانی پڑی. ایک بار ڈکیتی کا بھی سامنا کیا. یوں لگتا تھا کہ یہ ملک اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے. پاکستان میں اسکے والدین بھی ہر وقت فکرمند رہتے. یہاں تک کہ سال بھر میں ہی اسے واپس پاکستان بھیج دیا گیا. وہاں اس کی اچھی نوکری ہوئی، پھر جلد ہی وہ دبئی گیا. جہاں اپنی فیلڈ کی ایک بہترین نوکری کرتا رہا. تنخواہ کے اعتبار سے بھی وہ مجھ سمیت اکثر لوگوں سے بہتر ثابت ہوا. یعنی وہی بندہ جو انگلینڈ میں ناکام تھا وہ دبئی میں نہایت کامیاب رہا. انگلینڈ سے جذباتی وابستگی کے سبب وہ کوئی سات آٹھ برس واپس آنے کی کوشش کرتا رہا مگر ویزہ یا کوئی صحیح راستہ نہیں مل سکا.
.
چند سال پہلے اپنے اس دوست سےکراچی میں ملاقات ہوئی تو ان ہی اپر درج واقعات و معاملات کا ذکر کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا کہ ہمارا رب الرزاق ہے. وہ ہی ہے جو کسی ایک کا رزق ایک جگہ اور دوسرے کا دوسری جگہ مقرر کردیتا تھا. پھر مرضی نہیں چلتی. لہٰذا جو نہ ملا اس پر کڑھنے کی بجائے، کیوں نہ اس پر خدا کا شکر کیا جائے جو ملا اور جو اس نے ہمارے لئے مقدر کردیا؟ ہم سب خدا کے گرینڈ پلان کا حصہ ہیں. ہم سب کو بس اپنا کردار پہچاننا اور نبھانا ہے.
.
====عظیم نامہ====

قران پاک اور انسانی نفسیات

 قران پاک اور انسانی نفسیات


میرے ایک استاد، دوست اور بزرگ یہاں انگلینڈ میں انسانی نفسیات کے نمائندہ ڈاکٹرز میں شمار ہوتے ہیں. البتہ میرا ان سے تعارف ان کے شعبہ کی بنیاد پر نہیں جڑا بلکہ قران حکیم پر تحقیق کے حوالے سے ہوا. ڈاکٹر صاحب گزشتہ بیس پچیس برس سے کلام پاک پر تحقیق کررہے ہیں اور بہت ہی قیمتی علمی کام کرچکے ہیں. آپ ہماری جامع مسجد میں ہفتہ وار خطاب بھی کرتے ہیں اور ایک عرصے سے اپنی تحقیق کو کتاب کی صورت میں مجتمع کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں. ایک روز اپنے لیکچر کہ بعد مجھے بتانے لگے کہ ..
.
"جب میں
نے قران پاک پر تحقیقی کام شروع کیا تو مجھے ہر تیسری آیت انسانی نفسیات کی بات کرتی ہوئی نظر آتی تھی" ...
.
میں نے پوچھا کہ اچھا اور اب بیس پچیس سال کی تحقیق کے بعد کیا لگتا ہے؟ بے ساختہ ہنس کر بولے
.
"اب مجھے ہر دوسری آیت انسانی نفسیات کی بات کرتی ہوئی نظر آتی ہے" ...

.
====عظیم نامہ====

پلیس ایبو افیکٹ (Placebo Effect)

پلیس ایبو افیکٹ (Placebo Effect)

.
میں ایک ایسی بین الاقوامی نمائندہ ریسرچ کمپنی کیلئے کام کرتا ہوں، جو دنیا بھر کی نئی آنے والی ادویات کے تجربات یعنی "کلینیکل ٹرائلز" میں معاونت فراہم کرتی ہے. کسی بھی نئی دوا کو مارکیٹ میں لانے سے قبل جانوروں پر آزمایا جاتا ہے. اس کے ممکنہ سائیڈ افیکٹس سمجھے جاتے ہیں. پھر جب وہ کسی درجے محفوظ قرار پائے تو انسانوں میں سے معاوضے کے بدلے کچھ رضاکاروں پر اس دوا کو مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے. اور کئی مزید مراحل کے بعد یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اس دوا کو عام خریدار کیلئے مارکیٹ میں بھیجا جائے یا مسترد کردیا جائے. ان ہی تجربات کے دوران ایک طریق جو بیماری کو ٹھیک کرنے کیلئے یا اس کی نوعیت سمجھنے کیلئے اختیار کیا جاتا ہے اسے ہم "پلیس ایبو افیکٹ" کے نام سے موسوم کرتے ہیں.
.
"پلیس ایبو افیکٹ" بڑی دلچسپ شے ہے. درحقیقت یہ مریض کو بناء دوا دیئے صرف اس کی نفسیات سے کھیل کر اسے ٹھیک کرنے کی ایک کوشش ہے. "پلیس ایبو افیکٹ" کے تحت ڈاکٹر مریض کو ایک دوا تجویز کرتا ہے اور اس دوا کی افادیت پر لیکچر دے کر مریض کا اس دوا پر اعتماد قائم کردیتا ہے. مگر جو شے وہ اسے دوا کے نام پر دیتا ہے وہ درحقیقت دوا نہیں ہوتی ! بلکہ صرف دوا کے بہروپ میں میٹھی پھیکی گولی ہوتی ہے. مریض اسے اس اعتماد سے استعمال کرتا ہے کہ یہ اسکی بیماری جیسے شوگر، بلڈ پریشر، ڈپریشن وغیرہ کیلئے بہت آزمودہ اور قیمتی دوا ہے. بنیادی طور پر مریض کو بیوقوف بنایا جاتا ہے. مزیدار بات یہ ہے کہ آدھے مریضوں کا یہی اعتماد انہیں ٹھیک کردیتا ہے اور وہ کچھ ہی دنوں میں بھلے چنگے ہوجاتے ہیں. اس سے کچھ لوگ یہ بھی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر بندہ ٹھیک ہونے پر یقین کرلے تو بہت سی بیماریاں خود ہی رفوچکر ہونے لگتی ہیں. ہمارے یہاں ہومیو پیتھک ادویات میں بھی کئی بار اسی "پلیس ایبو افیکٹ" کا مریض پر استعمال کیا جاتا ہے.
.
یہ تو ہوگئی کچھ علمی بات مگر اب اپنی توجہ اپنے اردگرد پھیلے ان واقعات کی جانب کیجیئے جس میں لوگ قسم کھا کھا کر یقین دلاتے ہیں کہ فلاں گاؤں کے بابا ایک خاص مٹی کھانے کو دیتے ہیں جس سے بیماری دور ہوجاتی ہے. یا فلاں پیر صاحب اپنے گھر کے کنویں میں غوطہ دیتے ہیں تو بیماری دفع ہوجاتی ہے. یا فلاں جھیل کی کیچڑ مل لینے سے بندہ ٹھیک ہوجاتا ہے. آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے جاننے والے قران رسول کی قسمیں کھا کر شفاء کی داستان سنا رہے ہوتے ہیں. آپ کو رنگ برنگی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ اس مٹی کیچڑ میں خاص کیمکلز شامل ہیں یا فلاں بزرگ کا تبرک ہے وغیرہ. ان میں سے سب نہیں تو اکثر درحقیقت اسی "پلیس ایبو افیکٹ" کا شاخسانہ ہے. پہلے لوگوں کے اندر اس مٹی، پانی یا کیچڑ کے بارے میں شہرت ہوتی ہے، پھر کچھ شفاء کے قصے سنا کر آپ کا اعتماد قائم کیا جاتا ہے اور پھر بلآخر آپ بھی اپنے علاج کو راضی ہوجاتے ہیں. "پلیس ایبو افیکٹ" کے تحت نصف لوگ ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں اور جو نہیں ہوتے وہ خاموش رہتے ہیں. یوں دھندہ چلتا رہتا ہے. کچھ اتائی حکیم یا پیر فقیر تو شروع میں یہ تلقین بھی کردیتے ہیں کہ اگر شفاء ہونے کا پہلے سے یقین نہیں ہے تو کوئی فائدہ نہیں. بقول ایک مزاح نگار کہ 'ہمیں غصہ اس بات پر قطعاً نہیں ہے کہ لوگ پیچش کا علاج مٹی کھا کر کرتے ہیں، ہمیں غصہ تو اس بات پر ہے کہ وہ ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں.'
.
====عظیم نامہ====

ایسی عورت


ایسی عورت


اگر تم ایسی عورت سے ملو جو اپنی غلطی کا اعتراف کرے، معافی مانگے اور اپنی تصحیح کرلے تو ۔۔ خبردار ہوجائو ! وہ عورت نہیں مرد ہے ! عورتیں یہ سب نہیں کرتی

گناہ کبیرہ

گناہ کبیرہ

کنوارے رضامندی سے بند کمرے میں زنا کرتے ہیں - یہ گناہ کبیرہ ہے
شادی شدہ رضامندی سے بند کمرے میں زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
فخر سے سب کو بتا کر زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
پیسہ لے کر یا پیسہ دے کر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
جذبات میں بہہ کر کمزور لمحے میں زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
بطور عادت زنا پر زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
ہم جنسی اختیار کرکے زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
جبر و زبردستی سے مرضی کے خلاف زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
کسی نابالغ معصوم بچے یا بچی کے ساتھ زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
بہت سے وحشی مل کر ایک کے ساتھ جبری زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
جان سے مار ڈالتے ہیں ایسے زنا کرتے ہیں - یہ بھی گناہ کبیرہ ہے
.
گویا ایک "گناہ کبیرہ" کی بھی کریہہ سے کریہہ تر صورت ممکن ہے. یہی معاملہ دیگر "گناہ کبیرہ" کا بھی ہے. جیسے ایک قتل خطا ہے، ایک قتل عمد ہے، ایک بدلے میں قتل ہے، ایک معصوم کا قتل ہے، ایک اذیت دے دے کر قتل ہے، ایک فقط لذت کیلئے قتل ہے.
.
دنیاوی قوانین کی پہنچ و ادراک بہت محدود ہے. حقیقی انصاف و بدلہ تو وہ ہی ذات لے گی جو بیک وقت اللطیف و الخبیر بھی ہے اور القہار و المنتقم بھی. الرحمٰن و الرحیم بھی ہے اور العفو و العادل بھی.
.
====عظیم نامہ====

پروگرام آڈیشن

 پروگرام آڈیشن

 
انگلینڈ آنے سے قبل پاکستان میں میری آخری نوکری معروف ٹی وی چینل 'اے آر وائی' کے ساتھ تھی. جہاں میں ایک علمی و سیاسی پروگرام "آپ، ہم اور آپ" میں بطور فری لانسر 'پروگرام کوارڈینیٹر' اور 'اسسٹنٹ ڈائریکٹر' کام کیا کرتا تھا. یہ آج سے کوئی سولہ برس قبل پرانی بات ہے اور میری تنخواہ کم و بیش پینتیس ہزار روپے بنتی تھی. ایک یونیورسٹی کے طالبعلم کیلئے یہ ایک اچھی مناسب تنخواہ تھی. پروگرام پلاننگ سے لے کر مہمانوں ناظرین کو مدعو کرنے تک. سب میری ذمہ داریوں میں شامل تھے. کام میری پسند کا تھا لہٰذا میں یہ نوکری بخوبی نبھا رہا تھا. بہت جلد ہی میرے قدم جمنے لگے اور دوسرے ڈائریکٹرز نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کردیا. میں اپنی تعلیم کی وجہ سے ان آفرز کو منع کر رہا تھا. ان ہی دنوں ایک ڈائریکٹرنے مجھ سے رابطہ کیا جو پرائم ٹی وی پر ایک مقبول گانوں کا پروگرام پیش کرکے پہچان بنا چکا تھا. یہ ڈائریکٹر جیسے میرے پیچھے ہی لگ گیا اور ہر طرح سے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے پر ابھارنے لگا. اس نے میرے پروگرام کے ڈائریکٹر کے ذریعے بھی مجھے اپروچ کیا مگر میں اسکے پروگرام کی نوعیت کے سبب کام کیلئے بلکل راضی نہ تھا. اس کا پروگرام دراصل نوجوانوں کے ایک ایسے مقابلے پر مشتمل تھا جس میں تین مراحل ہونے تھے. پہلا گانے کا مقابلہ، پھر اداکاری کا اور پھر ناچنے کا. ظاہر ہے یہ میرے اس اصول کے خلاف تھا کہ میڈیا پر صرف علمی پروگرام ہی کروں گا. مگر یہ ڈائریکٹر جما رہا اور میں بھی آھستہ آھستہ پگھلنے لگا. پھر اس نے مجھے آفر کی کہ جتنا میں کما رہا ہوں اتنا ہی مزید وہ مجھے دے گا. گویا میری تنخواہ ایک جھٹکے میں دگنی. نفس و شیطان نے مجھ پر قابو پایا اور میں نے حامی بھر لی.
.
پروگرام کیلئے آڈیشن لینا میری ذمہ داری تھی. شہر کراچی کے مختلف کالج و یونیورسٹیوں سے رابطہ کیا گیا اور میں ٹرائل لینے ان کے پاس جانے لگا. نمائندہ تعلیمی اداروں کے بند کمروں میں ٹرائل ہونے لگا. لڑکے لڑکیاں گانے گاتے، اداکاری کرتے اور ڈانس کرتے. میں اور ڈائریکٹر مل کر یہ فیصلہ لیتے کہ کس کس کو پروگرام ریکارڈنگ کیلئے فائنل کرنا ہے؟ یہ سب کرتے ضمیر ملامت کرتا تو تگڑی تنخواہ کا خیال اسکی آواز دبا دیتا. اسی دوران ڈائریکٹر صاحب کو ایک اور اچھوتا خیال سوجھا کہ کیوں نا کراچی کے نمائندہ اسکولوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے؟ جیسے بیکن ہاؤس، سٹی اسکول یا کراچی گرامر وغیرہ. میں نے اسکی بھی حامی بھری مگر ساتھ میں یہ شرط لگائی کہ ان اسکولوں کے ناموں میں میرے اپنے اسکول کا نام بھی شامل کیا جائے. ڈائریکٹر کو میرے چھوٹے سے اسکول کو شامل کرنا قبول نہ تھا مگر مجھے منع کرنا بھی ممکن نہ تھا. لہٰذا اجازت دے دی گئی. میں نے سب سے پہلے اپنے ہی اسکول میں ٹرائل لینے کی ٹھانی. میرے اسکول والو کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا نہ تھا کہ ان کا اسکول اب کراچی کے نمائندہ اسکولوں کے ساتھ ٹی وی پر آئے گا. جس دن میں ٹرائل کیلئے پہنچا تو وہ ٹیچرز جن سے میرا رشتہ احترام و ادب کا تھا، وہ میرے اردگرد گھوم رہے تھے. میری تعریف کررہے تھے کہ اسٹوڈنٹ ہو تو ایسا جو مقام پر پہنچ کر بھی اپنا اسکول نہ بھولے.
.
ٹرائل ناچنے سے شروع ہوا اور میرے سامنے وہ آٹھویں، نویں، دسویں جماعت کی معصوم چہرہ بچیاں ناچنے لگی. ٹیچر میڈم انہیں اسٹیپ سمجھا رہی تھیں تاکہ میں انہیں پروگرام کیلئے منتخب کرسکوں. یہ وہ لمحہ تھا جب بلآخر میرے ضمیر کی بس ہوگئی اور روح چیخ اٹھی. اپنے آپ سے گھن محسوس ہوئی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں؟ ایسا لگتا تھا جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ہو. میں بیچ سے ہی بہانہ بناکر اٹھ آیا اور ڈائریکٹر کو دوٹوک الفاظ میں نہ صرف یہ بتایا کہ میں یہ کام اب نہیں کروں گا بلکہ ان آڈیشنز کا نتیجہ دینے سے بھی معزرت کرلی جو میں نے لئے تھے. روکنے کی بہت کوشش ہوئی مگر اب میں نہ رکا. میں رب سے اور اپنے آپ سے شرمندہ تھا. وعدہ کیا کہ اب ایسے کسی بھی کام سے اجتناب کروں گا. دعا کررہا تھا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ یہ پرگرام نہ چلے اور ہوا بھی یہی. کچھ دوسری ٹیکنکل وجوہات کے سبب یہ پروگرام آن ائیر نہیں ہوسکا.
.
اس واقعے سے قاری کیا پیغام اخذ کرتا ہے؟ یہ میں اسی کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں. البتہ اس واقعہ سے سے یہ ضرور ظاہر ہے کہ مال سمیت دیگر چمک دھمک انسان کو کسی بھی وقت اسکے راستے سے ہٹا سکتی ہے. اپنے اس واقعے پر مجھے ندامت ہے فخر نہیں. پھر بھی اسے یہاں بیان کردیا کہ شائد اس سے کوئی سبق لے اور مجھ جیسے کسی بھی لکھاری و خطیب کو پارسا سمجھنے کی غلط فہمی نہ پالے.
.
====عظیم نامہ====

فلمی



انڈین لوگ بڑے فلمی ہوتے ہیں، شائد اسی لئے انکی فلمیں مشہور ہیں؟ اور ہم پاکستانی بڑے ڈرامے باز ہوتے ہیں، شائد اسی لئے ہمارے ڈرامے زیادہ مشہور ہیں؟

پرفیکٹ رشتہ

پرفیکٹ رشتہ


ہم میں سے اکثر ایسا ہمسفر چاہتے ہیں جس سے ہمارا پرفیکٹ رشتہ قائم ہو۔ پھر جب شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک بیوی کو شوہر میں اور شوہر کو اپنی بیوی میں من چاہی پرفیکشن نہیں ملتی تو غصے و مایوسی سے پکار اٹھتے ہیں کہ کوئی رشتہ پرفیکٹ نہیں !۔ یہ بات گو اپنی اصل میں درست ہے مگر ایک زاویہ دیکھنے کا یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہر انسان کو ایک نہیں بلکہ بہت سے پرفیکٹ رشتے حاصل ہوتے ہیں۔ کسی دوست کے ساتھ چائے پینا پرفیکٹ لگتا ہے۔ کسی استاد سے تعلیم حاصل کرنا پرفیکٹ محسوس ہوتا ہے۔ کسی سے مذاق کرنا، کسی سے رومانس کرنا اور کسی سے منطقی گفتگو کرنا پرفیکٹ معلوم ہوتا ہے۔ گویا مختلف رشتوں میں کچھ نہ کچھ پرفیکٹ ہے۔ پرفیکٹ ہونے کا سارا بوجھ کسی ایک رشتے پر ڈال دینا کوئی مناسب بات تو نہیں۔
۔
====عظیم نامہ====

جم کیری - معرفت کا مسافر

جم کیری - معرفت کا مسافر

Image may contain: 2 people, people smiling, people standing, beard and cloud
.
ہالی وڈ کے شہرہ آفاق مزاحیہ اداکار "جم کیری" سے کون واقف نہیں؟ اگر ہالی وڈ کی تاریخ کے صف اول کے چند اداکاروں کو نکالا جائے تو بلاشبہ ان میں جم کیری کا نام سرفہرست ہوگا. اپنے منفرد کرداروں اور اچھوتے انداز سے اس اداکار نے دنیا بھر کے ناظرین کے دلوں پر ایک زمانہ راج کیا ہے. جو شہرت و مقبولیت "جم" کو ملی وہ بہت ہی کم اداکاروں کے ہاتھ آتی ہے. "جم کیری" ان چند بڑے اداکاروں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ وہ فلمی کردار کو نبھانے سے قبل خود پر مکمل طاری کرلیتے ہیں. یہاں تک کہ اس کردار کو جینے لگتے ہیں. بالی وڈ کے اداکار "عامر خان" بھی ان ہی چند میں شامل ہیں. "جم کیری" نے جو کردار نبھایا اسے امر کردیا. پھر وہ 'ماسک' ہو یا 'ایس وینچرا' .. 'لائر لائیر' ہو یا پھر 'بروس آل مائٹی' - ہر فلم ایک شاہکار کہلائی. لیکن "جم کیری" فقط ایک اداکار نہیں ہیں. وہ ہمیشہ سے ایک نہایت حساس طبیعت اور سوچنے والا دماغ رکھتے ہیں. زندگی کی نوعیت کیا ہے؟ انسانی نفسیات کیسے کام کرتی ہے؟ سائنس ہمارے دماغ کو کیسے بیان کرتی ہے؟ خدا کا حقیقی تصور کیا ہے؟ .. یہ اور اس طرح کے کئی اور سوالات "جم کیری" کی سوچ کا اس وقت بھی محور رہے جب وہ تیزی سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے ایک کامیاب نوجوان تھے. اس کا ثبوت ان کے پرانے انٹرویوز کی صورت میں موجود ہے. البتہ پچھلے چند سالوں میں تو جیسے "جم کیری" کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا ہو. انہوں نے روحانیت، خدائی تصور اور انسانی وجود سے متعلق اپنے وہ نتائج پرزور انداز میں بیان کرنے شروع کردیئے ہیں. جنہیں سن کر ان کے دنیا بھر میں پھیلے مداحوں میں سے کچھ حیران، کچھ معتقد اور ایک بڑی تعداد انہیں پاگل سٹیایا ہوا قرار دے رہی ہے.
.
"جم کیری" پر سب سے پہلا انکشاف یہ ہوا کہ انسانی دماغ میں ابھرتی سوچیں ایک سراب کے سوا کچھ نہیں. جو کچھ ہے وہ اسی لمحہ موجود میں ہے. مستقبل تو فقط ایک نتیجہ ہے اور ماضی محض ایک روداد. اگر کچھ ہے تو وہ ابھی ہے، حال میں، لمحہ موجود میں. انہیں نیند سے بیداری میں وہ روحانی تجربہ ہوا جس میں انہوں نے اپنی ذات کو ان جسمانی اور نظریاتی حدود سے بہت بلند محسوس کیا. اسی طرح مختلف فلمی کردار نبھاتے ہوئے کئی بار وہ اپنا آپ ہی بھلا بیٹھے اور اسی کردار میں ضم ہو گئے. یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے حیرت سے اپنے آپ میں پوچھا کہ ارے "جم کیری"کہاں گیا؟ جواب ملا کون "جم کیری"؟ وہ تو کبھی تھا ہی نہیں ! وہ تو بس ایک کردار تھا جیسے یہ ایک کردار ہے. جیسے ویڈیو گیم میں آپ کسی ایک کردار کو اپنے لئے پسند کرلیتے ہیں. "جم کیری" کے اس کردار میں اور بقیہ نبھائے فلمی کرداروں میں فرق صرف اتنا تھا کہ "جم کیری" کا کردار انہوں نے خود نہیں اپنایا تھا، کسی نے دے رکھا تھا اور جسے وہ دھوکے میں اپنا اصل وجود مان بیٹھے تھے. ورنہ ان کی حقیقت تو ایک بہت بڑے "کل" کا "جزو" ہے. یہ ساری کائنات دراصل "ایک" ہے اور ہم سب اسی "ایک" کا حصہ ہیں. گویا ہم ہی کائنات ہیں. یہ بھرم ہے کہ ہم اس دنیا کا مشاہدہ کررہے ہیں، حقیقت میں تو ہم ہی دنیا ہیں. پہلے لگتا تھا کہ "جم کیری" اس دنیا کا تجربہ کررہا ہے مگر اب لگتا ہے کہ دراصل دنیا "جم کیری" کا تجربہ کررہی ہے۔ بقول اقبال:
.
مکانی ہوں؟ یا آزادِ مکاں ہوں؟
جہاں میں ہوں؟ یا خود سارا جہاں ہوں؟
وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست !
مجھے اتنا بتادیں، "میں" کہاں ہوں؟

.
ابتدا میں "جم کیری" کیلئے یہ دریافت ہولناک تھی کہ ان کی اصلیت "جم کیری" نہیں ہے. سالہا سال کی محنت جو انہوں نے اپنے اس کردار کو اپنا اصل سمجھ کر کی تھی، وہ سب مٹی میں ملتی محسوس ہونے لگی. لیکن آخرکار انہوں نے حقیقت کو تسلیم کرلیا. "جم کیری" کے نزدیک اداس ہونا ایک کیفیت ہے مگر "ڈپریشن" دراصل آپ کی ذات کی چیخ و پکار ہے کہ اب میں یہ کردار نہیں نبھانا چاہتا. آج وہ خود کو ایک مسلسل سرشاری کی کیفیت میں پاتے ہیں. یہ احساس مسحور کن ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں "سب" ہیں، ساری کائنات ہیں. وہ اس تجربے سے ہر لمحہ گزر رہے ہیں. ان سے کوئی پوچھے کہ کیا میں "جم کیری" سے مخاطب ہوں؟ تو وہ دوٹوک کہتے ہیں کہ نہیں ! بلکہ آپ "جم کیری" نامی ایک کردار سے مخاطب ہیں. ورنہ ٹھیک اسی وقت وہ انٹرویو لینے والے بھی ہیں، کونے میں بیٹھے وہ آدمی بھی ہیں، دور جھاڑو لگاتا وہ شخص بھی ہیں. درحقیقت ہم سب ایک اجتماعی شعور کا حصہ ہیں. واقعات جو باہر رونما ہوتے ہیں وہ دراصل پہلے ہمارے شعور میں وجود پاتے ہیں. گویا دنیا ہم ہی بناتے ہیں. "جم کیری" کے بقول خدا یہی آفاقی انرجی ہے جو ہر شے پر محیط ہے اور جس سے ہم سب وابستہ ہیں. گو ہم سب میں سے بہت تھوڑے ہیں جو اس وابستگی کا شعور رکھتے ہیں. "جم کیری" حقیقت کو پاچکے ہیں؟ یا ابھی معرفت کے سفر میں ہیں؟ اس پر ہم فی الوقت تبصرہ نہیں کریں گے. گو ان کے نتائج جان کر بے اختیار تصوف کے نمائندہ عقائد "وحدت الوجود" اور "وحدت الشہود" یاد آجاتے ہیں. یوں لگتا ہے کہ "جم کیری" کے تجربات کسی حد تک ان ہی عقائد کی تفسیر بیان کرہے ہیں.
.
راقم یعنی ہماری سمجھ اور تجربات میں موجودات کی کثرت میں ایک پوشیدہ وحدت ضرور پنہاں ہے، مگر یہ وحدت ذات کی نہیں بلکہ کلمہ 'کن فیکون' کی تفسیر ہے. سائنس بھی البرٹ آئین اسٹائن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک 'تھیوری آف ایوری تھنگ' کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے جو اپنی اصل میں اسی 'کن فیکون' کی کھوج ہے.
.
====عظیم نامہ====

حسن پرستی


حسن پرستی


میری سابقہ نوکری میں میرا ایک سینئر میرے برابر میں بیٹھا کرتا تھا. جس کی عمر لگ بھگ ساٹھ پینسٹھ برس تھی. اسکی پیدائش و پرورش یہودی گھرانے میں ہوئی مگر پھر وہ الحاد میں مبتلا ہوگیا. میں نے اتنے نفیس انسان کم دیکھے ہیں جتنا وہ تھا. ہنستا مسکراتا نہایت دھیمے لہجے کا مالک تھا. میں نے اس کی آواز کو صرف اسی وقت بلند ہوتے محسوس کیا جب وہ وجود خدا کے بارے میں مجھ سے استدلال کرتا اور جواب نہیں ڈھونڈھ پاتا تو بے چین ہوکر زور زور سے بولنے لگتا. ظاہر ہے ساری عمر الحاد کا دفاع کرتے گزری تھی، اب اس بڑھاپے میں زندگی کا حاصل نتیجہ بدل لینا آسان نہیں ہوتا. میرے سامنے ہی سامنے وہ ریٹائر ہوا. اس کے ساتھ گزارے وقت میں مجھے وہ ایک بہت اچھا انسان محسوس ہوتا رہا. اس کی اچھائی کی ایک مثال دیکھیئے کہ وہ موسم کے سرد و گرم کی پرواہ کیئے بغیر دور جاکر ایک بینک مشین سے پیسے نکال کر لاتا اور پھر چھوٹی دکانوں سے نقد دے کر خریداری کرتا. میں نے اسے جب سمجھایا کہ بھئی یہ اتنے دور جانے کی مشقت کیوں جھیلتے ہو؟ سیدھا سیدھا کارڈ سے دکان پر پیسے دے دیا کرو. سن کر اس نے جواب دیا کہ یہ بینک والے ان چھوٹی دکانوں کے مالکان سے ہر ٹرانزیکشن پر کچھ پیسے لے لیتے ہیں، جن سے ان بیچاروں کا منافع کم ہوجاتا ہے. وہ دور جاکر نقد اسلئے لاتا ہے تاکہ ان دکان والو کو یہ چارج ادا نہ کرنا پڑے اور ان کا کاوبار بہتر طرح سے چلتا رہے. اب ذرا سوچیئے .. مجھ سمیت دنیا میں کتنے لوگ ہیں؟ جو دوسروں کے بھلے کا اس حد تک سوچتے ہوں؟
.
اسکی بہت سی باتیں بے ساختہ ہنسنے پر مجبور کردیتی تھیں. ایک بار مجھ سے کہنے لگا کہ یار عظیم جب میں نوجوان تھا تو مجھے نوجوان لڑکیاں پسند تھیں. پھر میں پورا جوان ہوگیا تو مجھے اپنی یونیورسٹی کلاس فیلوز اچھی لگتی تھیں. میں سوچتا تھا جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا تو مجھے اپنی ہم عمر بوڑھی عورتیں پسند آنے لگیں گی ... لیکن نہیں !!! ... ایسا نہیں ہوا ! ... عظیم مجھے ابھی بھی جوان لڑکیاں ہی اچھی لگتی ہیں .. یہ بوڑھی جلد والی عورتوں کو دیکھنا مجھے بلکل پسند نہیں ... یہ بات اس نے کچھ ایسے درد دل سے بے ساختہ انداز میں مجھے بتائی کہ میں ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا. اگر میں بطور آفس کولیگ اور دوست اسکی شرافت سے آگاہ نہ ہوتا تو یقیناً میں اسے بوڑھا ٹھرکی کہتا. مگر وہ ٹھرکی ہرگز نہیں تھا بلکہ نفیس انسان تھا. بس اپنے دل کی بات مجھے بتا رہا تھا. یہ حقیقت ہے کہ مرد بوڑھا ہوجاتا ہے، اسکے بال جھڑ جاتے ہیں، دانت گر جاتے ہیں، پیٹ نکل آتا ہے مگر عورت کیلئے اسکی حسن پرستی ویسے ہی قائم رہتی ہے.
.
افسوس کہ میں اس دوست سے رابطے میں نہ رہ سکا، اس کا فون نمبر، ایڈرس بدل گیا اور باوجود کوشش میں اس سے رابطہ نہیں کرپایا. اس کی ان گنت اچھائیاں، مدد کرنا اور مزاحیہ جملے جب یاد آتے ہیں تو خودبخود دل سے سے دعا نکلتی ہے. اللہ اسے ایمان کی دولت سے نوازے اور اسے سلامتی دے آمین.
.
====عظیم نامہ====

ضیاء محی الدین


ضیاء محی الدین

Image may contain: 1 person, close-up 
 
ضیاء محی الدین صاحب کے نام کا کون صاحب ذوق مداح نہ ہوگا؟ پاکستان ٹیلی وزن کے شاہکار پروگرام 'ضیاء محی الدین شو' سے شہرت کی بلندیوں کو چھو لینے والے یہ صدا کار غضب کا انداز بیان رکھتے ہیں. چند سال قبل جب میں کراچی گیا تو 'اردو کی عالمی ادبی کانفرنس' میں شرکت کا موقع ملا. جہاں مشتاق احمد یوسفی صاحب سے لے کر امجد اسلام امجد جیسے صاحبان علم و دانش موجود تھے. اسی محفل میں پہلی بار مجھے ضیاء محی الدین صاحب کو براہ راست سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا.
.
انسان کی نفسیات ہے کہ وہ جس فن میں مہارت رکھتا ہو، اسکے دوسرے ماہر کو بولتا سن کر یا کام کرتا دیکھ کر سوچتا ہے کہ اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو اسے کیسے بہتر انجام دیتا؟ مثال کے طور پر ایک اداکار جب کسی بڑے اداکار کو کردار خوبی سے نبھاتے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر یہ کردار مجھے ملا ہوتا تو میں کیسے بہتر کرتا؟ یا کوئی گلوکار اگر کسی دوسرے گلوکار کو سریلا گاتے سنے تو سوچتا ہے کہ اگر یہی گانا میں گاتا تو کیسے بہتر گاتا؟ اسی طرح راقم یعنی میں ایک مقرر ہوں. فن خطابت میں مہارت کا کسی درجے دعویٰ رکھتا ہوں. ایسے میں اگر کسی دوسرے خطیب یا مقرر کو بہترین تقریر کرتے سنوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ اگر مجھے موقع ملا ہوتا تو کیسے زیادہ عمدگی سے اس تقریر کو انجام دیتا؟ مگر مجھے اعتراف ہے کہ جب ضیاء محی الدین صاحب نے ایک چنیدہ ادبی مضمون پڑھنا شروع کیا تو لمحوں ہی میں مجھے یقین ہوگیا کہ میں کبھی اتنا مسحور کن نہیں بول سکتا. میں نے اپنے ذہن میں محبت سے ہتھیار ڈال دیئے. لمحے گزرتے گئے اور میں مبہوت سامنے ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہا. جانے وہ آواز کے کون سے پردے سے مخاطب تھے؟ وہ لہجے کا کون سا ٹہراؤ تھا؟ جو سامع کے دل کی اتھاہ گہرائی میں یوں غرق ہوجاتا تھا جیسے کسی گہرے کنویں میں بلندی سے گرتا ہوا ایک پتھر. وہ الفاظ کا کون سا بہاؤ تھا؟ جو بڑی چاشنی سے سننے والے کو ایسے بہا لے جاتا تھا جیسے پہاڑوں سے گزرتے کسی شفاف جھرنے میں کوئی سرسبز ڈالی. وہ جانتے ہیں کہ رکنا کہاں ہے؟ گرنا کہاں ہے؟ لڑکھڑانا کہاں ہے؟ اور سنبھلنا کہاں ہے؟ وہ چاہتے تو سننے والے اداس ہوجاتے، وہ چاہتے تو سب کھلکھلا اٹھتے. کلاسیکی ساز کی چوٹ اور اس پر ضیاء محی الدین صاحب کی ہوش ربا آواز. یوں محسوس ہوا کہ ان کی زبان سے ادا ہوتا ہر لفظ ان کی ادائیگی پر شکریہ ادا کررہا ہو کہ حق ادا کردیا. جب نشست کا اختتام ہوا تو دل میں صرف ایک خلش تھی. جی چاہا کہ ضیاء محی الدین صاحب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان سے جھگڑا کروں؟ کہ اپنی یہ میراث کس کو دے کر جارہے ہیں؟ ابھی تک آپ نے ایسے شاگرد کیوں نہ ہمیں دیئے جو کل ضیاء محی الدین نہ بھی بن سکیں تو کم از کم ہمیں آپ کی یاد تو دلا سکیں؟
.
ممکن ہے کہ آج میرے قارئین کو اس تحریر میں مبالغہ محسوس ہو. سو اگر کوئی ایسی شکایت ہو تو پیشگی معزرت. مگر کبھی سچا احساس بھی فرط جذبات سے مبالغہ آمیز ہو جاتا ہے. پانچ آوازیں ایسی ہیں جنہیں میں سنتا ہوں تو جھوم جاتا ہوں
.
١. گلزار (شاعر)
٢. ضیاء محی الدین (صدا کار)
٣. طلعت حسین (اداکار)
٤. نصیرالدین شاہ (اداکار)
٥. امیتابھ بچن (اداکار)

.
====عظیم نامہ====

اچھا مضمون

اچھا مضمون


اچھا مضمون، اچھا ڈرامہ یا اچھا ناول وہ نہیں جو آئینے کی طرح اس مجرم معاشرے کا سچا عکاس ہو. بلکہ ہماری دانست میں اچھا وہ ہے جو عکاسی کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے کریہہ چہرے کی کسی درجے اصلاح بھی کرتا ہو.
.
====عظیم نامہ====

گیارہواں خلیفہ

گیارہواں خلیفہ

Image may contain: 1 person, beard and hat

آج کل ایک صاحب کی ویڈیو عام ہوئی ہے، جس میں خود کو گیارہواں خلیفہ بیان کر رہے ہیں. تحکمانہ انداز میں وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ تڑی بھی لگارہے ہیں کہ اگر کسی نے انکار کیا یا مذاق بنایا تو اللہ رب العزت کا شدید ترین عذاب نازل ہوگا. اب اس ویڈیو پیغام پر وہی عوامی ردعمل نظر آیا جو پاکستانی قوم سے متوقع ہے. یعنی کوئی قہقہے لگا رہا ہے اور کوئی آگ بگولہ ہو کر منہ سے جھاگ نکال رہا ہے. کوئی اسے مار کر جنت جانے کا خواب دیکھ رہا ہے تو کوئی اسے زندہ جلادینے کا مشورہ دے رہا ہے. کسی کے نزدیک یہ اسلام دشمن قوتوں کا نیا آلہ کار ہے، کسی کے نزدیک ذہنی مریض، کسی کے نزدیک فتنہ، کسی کے نزدیک شہرت کا پیاسا اور کسی کے نزدیک حکومت کا خواہشمند.
.
مگر کبھی آپ نے سوچا کہ ایسے نمونے ہر دوسرے تیسرے سال کیوں پیدا ہوتے رہتے ہیں؟ جو کبھی نبوت، کبھی مہدیت اور کبھی مسیح ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں؟ ان میں سے اکثر کسی جنت کے خواہشمند کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں. باقی گرفتار ہوکر سڑ سڑ کے مرتے ہیں. اس ممکنہ خوفناک موت اور سزا کو کو جانتے ہوئے بھی گاؤں دیہات شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا نمونہ اٹھتا ہی رہتا ہے. کیوں؟ پھر یہ نمونے سب سے زیادہ تعداد میں پاک و ہند ہی میں کیوں جنم لیتے ہیں؟ ملائیشیا یا مراکش جیسے مسلم ممالک میں ایسے دعوے کیوں نہیں ہوتے رہتے؟
.
ہمارے نزدیک یہ دعویدار اکثر دعویٰ سچ سمجھ کر کرتے ہیں. گویا دھوکہ دینا ان کی خواہش نہیں ہوتا بلکہ وہ خود ایک نفسیاتی دھوکے کا شکار ہوتے ہیں. اس خود فریبی کی بڑی وجہ 'روحانیت' اور 'تصوف' کے نام پر سجائی ہوئی جابجا دکانیں ہیں. ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ روحانیت یا تصوف مکمل طور پر غلط ہیں. بلکہ ہم یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا نام لے کر ایسے فلسفے اور دروازے پیدا کردیئے گئے ہیں، جن پر چل کر ایک شخص اس انتہا درجے کی خود فریبی کا شکار ہوجاتا ہے. وہ کشف، الہام اور خواب کے نام پر ہونے والی روحانی وارداتوں پر اس درجے میں اعتماد کرنے لگ جاتا ہے کہ پھر قران و سنت کے خلاف بھی اگر اسے کوئی روحانی تجربہ ہوجائے تو اسے بھی سچ مان بیٹھتا ہے. حالانکہ شریعت میں اسکی شدید ممانعت ہے کہ آپ اپنے کسی خواب یا کشف وغیرہ کو دین کے حکم کا درجہ دے بیٹھیں. اس وقت حال یہ ہے کہ گلی محلے کا کوئی بھی ایرا غیرا روحانیت سے معمور ہونے کا دعویٰ کردیتا ہے اور لوگ بھی بناء تحقیق فقط چرب زبانی سے متاثر ہوکر اس کی واہ واہ کرنے لگتے ہیں. یہ مشہور کردیتے ہیں کہ ان کے قبضے میں موکل جنات ہیں یا یہ صاحب کشف ہیں. یہی خود فریبی آگے جاکر نبوت و امامت وغیرہ کے دعووں میں ڈھل جاتی ہے. ضروری ہے کہ ایسے ہر آستانے کو سجانے والے کی قانونی جانچ ہو، یہ ہر کونے میں بیٹھے عاملوں بابوں کو جیل میں ڈالا جائے اور عوام کی تربیت کا اس حوالے سے اہتمام کیا جائے. ورنہ اس گیارہویں امام جیسے نمونے پیدا ہوتے ہی رہیں گے. اس وقت تو عوامی سطح پر یہ روش عام ہے کہ ایسے موبائل مسیج آگے بڑھاتے رہتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے ایک خواب دیکھا، جس میں بی بی زینب نے انہیں کہا کہ فلاں فلاں ذکر اتنی اتنی مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھو. فلاں نے اس میسج کو دس افراد تک پہنچایا تو اسے خوشخبری ملی، فلاں نے نہ پہنچایا تو اس کا ایکسڈنٹ ہوگیا.
.
تازہ اطلاعات کے مطابق ان خلیفہ صاحب کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے. ضروری ہے کہ ان کا نفسیاتی علاج کیا جائے اور اس غلط سمجھ سے نکلنے میں مدد دی جائے جسے اپنا کر وہ ایک فاسد بات کو فرمان الہی سمجھ بیٹھے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

گناہ میں لطف

گناہ میں لطف


ہر گناہ میں لطف اور ہر نیکی میں سکون چھپا ہے۔ گناہ کی زندگی وقتی لطف تو دے دیتی ہے مگر وجود کو سکون سے خالی بھی کر چھوڑتی ہے۔ چنانچہ پرسکون زندگی اسی کا مقدر بن سکتی ہے جو نیکی اختیار کرے۔
۔
====عظیم نامہ====

مشکوک شوہر

مشکوک شوہر


بیوی نے شوہر کا موبائل چیک کیا تو اسے تین نہایت مشکوک نام نظر آئے:
.
١. نزاکت والی
٢. بھولی بھالی
٣. سپنوں کی شہزادی
.
ظاہر ہے یہ دیکھ کر بیوی کا پارہ غصے اوردکھ سے اپر چلا گیا. اس نے فوری پہلا نمبر ملایا تو دوسری جانب سے اس کی اپنی امی یعنی شوہر کی ساس نے جواب دیا ! ... پھر اس نے دوسرا نمبر ملایا تو دوسری جانب سے اسکی چھوٹی آٹھ سالہ بہن نے جواب دیا ! ... جب اس نے حیرت سے تیسرا نمبر ملایا تو اس کا اپنا فون بج اٹھا !
.
بیوی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے. اسے خود پر انتہائی افسوس ہوا کہ کیوں اس نے اپنے معصوم شوہر کے کردار پر شک کیا !؟ اسی پچھتاوے کو کم کرنے کیلئے اس نے اپنے پیارے شوہر کو اپنی پچھلے ماہ کی تنخواہ تحفے میں دے دی. شوہر نے اسی پیسے سے اپنی گرل فرینڈ کیلئے تحفہ خریدا. جس کا نمبر اس نے اپنے موبائل میں "بشیر الیکٹریشن" کے نام سے محفوظ کررکھا تھا ! 😎
.
(ایک انگریزی میں بھیجے ہوئے لطیفے کا اردو ترجمہ)

ایک غرور



ایک غرور




ایک غرور وہ بھی تھا جب حکمران اپنے متعلق درباریوں سے روز یہ سن کر مسرور ہوتے تھے:
.
"جنبش مکون، باادب با ملاحظہ ہوشیار ! .. ظل الہی، حکمران وقت، شیروں کے شیر، نشان عدل و انصاف، ہر دلعزیز، نور تخت، بابر اعظم، شہنشاہ ہند، بادشاہ سلامت .. جلال الدین محمد اکبر تشریف لا رہے ہیں"
.
ایک تکبر یہ بھی ہے جب مرشد و عالم اپنے متعلق مریدین سے روز یہ سن کر خاموش رہتے ہیں:
.
"شیخ الشیوخ، پیران پیر، قطب الاقطاب، استاد الاساتذہ، فقیہ وقت، امام شریعت، شان طریقت، حکیم امت، مفتی اعظم، شیخ الاسلام .. اعلیٰ حضرت مولانا .. جلال الدین محمد اکبر قادری چشتی نقشبندی خطاب کیلئے تشریف لارہے ہیں"
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 4 October 2018

ایک تکبر یہ بھی ہے


ایک تکبر یہ بھی ہے


ایک غرور وہ بھی تھا جب حکمران اپنے متعلق درباریوں سے روز یہ سن کر مسرور ہوتے تھے:
.
"جنبش مکون، باادب با ملاحظہ ہوشیار ! .. ظل الہی، حکمران وقت، شیروں کے شیر، نشان عدل و انصاف، ہر دلعزیز، نور تخت، بابر اعظم، شہنشاہ ہند، بادشاہ سلامت .. جلال الدین محمد اکبر تشریف لا رہے ہیں"
.
ایک تکبر یہ بھی ہے جب مرشد و عالم اپنے متعلق مریدین سے روز یہ سن کر خاموش رہتے ہیں:
.
"شیخ الشیوخ، پیران پیر، قطب الاقطاب، استاد الاساتذہ، فقیہ وقت، امام شریعت، شان طریقت، حکیم امت، مفتی اعظم، شیخ الاسلام .. اعلیٰ حضرت مولانا .. جلال الدین محمد اکبر قادری چشتی نقشبندی خطاب کیلئے تشریف لارہے ہیں"
.
====عظیم نامہ====

Friday, 28 September 2018

سفر اپنا اپنا


سفر اپنا اپنا


Image may contain: ‎‎2 people, ‎including ‎عظیم الرحمٰن عثمانی‎‎‎, people smiling, beard and close-up‎
.
انگلینڈ سمیت تمام یورپ یا امریکہ کی سڑکوں پر موجود گھروں سے محروم مفلوک الحال غریبوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے. ہر حساس دل ان کیلئے کسی نہ کسی درجے میں درد محسوس کرتا ہے. میں بذات خود متعدد بار ان کی مسلسل اذیت و تنہائی دیکھ کر غمزدہ ہوجاتا ہوں. مگر کچھ ماہ قبل میری نظر اپنے محلے میں سڑکوں پر بسے ایک ایسے انسان کے چہرے پر پڑی ، جس نے مجھے پوری طرح گرفت میں لے لیا. میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی کشش تھی جو مجھے اس بوسیدہ حال کی جانب کھینچے جارہی تھی. سخت ترین مسائل کے باوجود بھی مجھے اس کا چہرہ عجیب سا سکون لئے نظر آیا. اسکی آنکھوں میں کرب و محرومی نہیں بلکہ ایک نادیدہ گہرائی تھی. میں نے نوٹ کیا کہ وہ کسی سے پیسے مانگتا نہیں ہے اور جو خود اسے کچھ دے دے اسے نہایت خوش دلی سے شکر کیساتھ قبول کرلیتا ہے. گنجلک داڑھی، رنگ گندمی، پرانے کپڑے اور کمر پر لدا ہوا بوریا بستر. مجھے وہ کینیا یا موریشئیس کا پیدائشی لگتا تھا. میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اس کا حال پوچھنا چاہتا تھا مگر چاہ کر بھی نہیں کرپاتا. ہمیشہ رک جاتا. شائد میری انا ، میرا تکبر مجھے ایک سڑک چھاپ سے گفتگو کرنے سے روک رہا تھا (استغفرللہ) مگر اسکے باوجود میں اسے جب بھی دیکھتا تو بے چین ہوجاتا. میری بیوی میری اس بے چینی سے آگاہ تھی، میرا ایک دوست بھی میرے اس لگاؤ سے واقف تھا. میں نے ایک بار اسے کچھ پیسے دیئے مگر بات کرنے کی ہمت پھر بھی نہ جوڑ پایا. کیوں؟ میں نہیں جانتا. ایک بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے اردگرد منڈلاتا رہا کہ شائد وہ مجھے سے کچھ کہے، کچھ مانگے اور مجھے گفتگو کرنے کا موقع مل جائے. مگر نہیں. وہ تو جیسے میری موجودگی سے مکمل طور پر غافل تھا. 
.
دن یونہی گزرتے گئے. یہاں تک کہ کوئی دس بارہ روز قبل میں آفس سے واپسی میں ، اپنے خیالات میں مگن گھر جارہا تھا، جب اچانک اس سے مڈبھیڑ ہوگئی. وہ فٹ پاتھ/ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا اور میں اسے تب دیکھ پایا جب بلکل اس کے سر پر جاپہنچا. بناء سوچے سمجھے میرے منہ سے ہیلو نکلا. جس کا اس نے جواب دیا. یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس سے گفتگو کا آغاز کردیا. میں نے اس سے درخوست کی کہ کیا میں اس سے اس کے بارے میں پوچھ سکتا ہوں؟ جس کا جواب اس نے ہاں میں سر ہلا کر دیا. میں فٹ پاتھ پر ہی اس کے برابر آلتی پالتی مار کر براجمان ہوگیا. ابتداء ہی میں مجھ پر حیرت کا پہاڑ تب ٹوٹا جب اس نے بتایا کہ یہ مفلوک الحال زندگی اس کی مجبوری نہیں بلکہ اس کی پسند ہے. وہ اس حال میں اپنی مرضی سے ہے. وہ معرفت کا مسافر ہے اور خود کو کھوج رہا ہے. میں نے حیرت سے وجہ دریافت کی تو اس نے اپنا سفر بتایا. کیسے اس کے تعلقات اپنے باپ سے نہایت کشیدہ تھے؟ کیسے گھریلو تشدد کے سبب اس کی نفسیات اور شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی؟ کیسے اسے اپنا گھر بار چھوڑ کر علیحدہ گھر میں منتقل ہونا پڑا؟ کیسے اس نے بہترین نوکریاں کیں؟ کیسے وہ ایک پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوا؟ کیسے سالہا سال وہ تنہا کمرے میں بند اپنا علاج کراتا رہا؟ - اس نے یہ کہہ کر مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا دیا کہ وہ مسلمان ہے اور دل سے اسلام کو درست مانتا ہے. اس نے بتایا کہ اس کا باپ مسلمان اور ماں بدھ مت تھی. اسے بدھ مت اور اسلام دونوں کے ٹھیکیداروں سے شدید نفرت ہوگئی. اسے مولوی کا وہ اسلام ذرا نہیں پسند آیا جو تکفیر اور تنگ نظری پر مبنی ہے. جو صرف ظاہر ہی میں الجھا ہوا ہے اور جو جنت پر کاپی رائٹ جماتا ہے. اس نے بتایا کہ اسی نفرت کے دوران اسے ترکی سے آئے ایک مشہور صوفی بزرگ شیخ ناظم الحقانی سے لندن میں ملاقات نصیب ہوئی. جہاں سے اس نے تصوف کی راہ کو اختیار کیا. مگر کچھ عرصے بعد وہ اسے بھی ترک کر گیا. 
.
پھر ایک روز اپنی شدید علالت کے دوران ہی اچانک جیسے قلب کھل گیا. اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو کھوجے گا. میں کون ہوں؟ حق کیا ہے؟ حق کا راستہ کیا ہے؟ - یہ وہ تجربے سے جانے گا. اس نے گورنمنٹ سے ملنے والی مراعات کو لینے سے انکار کیا، گھر واپس کر دیا اور سڑک پر جا بسا. یہاں آکر معلوم ہوا کہ سڑک پر بھی سیاست و اجارہ داری ہے. خود کو مسلمان بتانا تو جیسے مصیبت کو دعوت دینا ہے. لہٰذا اس نے سڑک پر ایک علیحدہ شناخت اختیار کرلی اور گلی گلی نگر نگر جانے لگا. کم و بیش دو سال سے وہ سڑک پر ہے اور اسے یہاں خدا کی معرفت نصیب ہوگئی ہے. اس نے اپنے ساتھ ہوے والے روزمرہ کے وہ واقعات بیان کرنے شروع کیئے جن میں خدا نے اسے ہمیشہ مشکل سے بچا لیا. اسی دوران اس کے باپ کا انتقال ہوا، وہ اسکے جنازے میں شرکت کیلئے دوسرے شہر برمنگھم پہنچا تو باپ کی میت سامنے رکھی تھی. اس نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے اپنے باپ کے چہرے پر کبھی ایسا سکون نہ دیکھا تھا. یوں لگا جیسے میرے دل سے نفرت، غصہ، شکایت - ہر منفی جذبہ رخصت ہوگیا ہو. میں خود بھی سکون اور خوشی سے نہال ہوگیا. سالوں بعد میرے کزنز مجھ سے ملے ، مجھے گلے لگایا، میری خیریت پوچھی. پھر واپس سڑکوں پر آگیا. اب اس نے مجھ سے میری زندگی پوچھی. معرفت کا جو میرا ٹوٹا پھوٹا سفر ہے، وہ میں نے اسے بیان کیا. اسے محبت سے سمجھایا کہ اسلام کا حقیقی پیغام کیا ہے؟ اسے رغبت دلائی کہ وہ نماز کو دوبارہ ادا کرنا شروع کرے. وہ میری گفتگو سے اتنا ہی خوش تھا جتنا شائد میں اسے سن کر. وہ کہنے لگا کہ آپ کو خدا ہی نے میرے پاس بھیجا ہے اور آپ کی باتوں میں میرے سوالات کے جوابات موجود ہیں. میں نے کہا کہ یہ ممکن ہے. خدا یونہی اسباب پیدا کرتا ہے. اردگرد موجود افراد و حالات سے آپ کیلئے رستہ کھول دیتا ہے. میں نے اسے بتایا کہ کس طرح میں مہینوں سے اس سے گفتگو کیلئے بے چین تھا اور کیسے میں اس کی جانب آج تک ایک غیر معمولی کشش محسوس کرتا رہا. اس نے خوشی سے کہا کہ میں یہ سمجھ سکتا ہوں. اگر آپ میرے پاس مبلغ بن کر آتے تو نہ میں کبھی آپ کی بات تسلیم کرتا نہ ہی اپنے دل کی آپ کو بتاتا. مگر آپ تبلیغ کیلئے نہیں آئے بلکہ صرف محبت لئے آئے. اس نے نماز کا ارادہ کیا اور ساتھ یہ کہا کہ وہ جانتا ہے کہ اب اسے سڑک چھوڑ کر دوبارہ زندگی میں لوٹنا ہے. جہاں وہ اپنی روزی کمائے اور اب تک کے سفر میں سیکھے اسباق سے ایک بہتر انسان بن کر جیئے.
.
میں نے گھڑی دیکھی تو دو گھنٹے فٹ پاتھ پر بیٹھے اسی گفتگو میں گزر چکے تھے. دوران گفتگو لوگ آتے رہے، کسی راہگیر نے سکے اچھالے، کسی نے مزاج پوچھا اور کسی نے چاکلیٹ دی. میں نے اس سے جانے کی اجازت مانگی. اسے ایک بڑا نوٹ مالی مدد کے طور پر دینا چاہا تو اس نے ہاتھ تھام کر منع کردیا. کہنے لگا کہ ہمیں اس پیاری ملاقات کو پیسوں سے داغدار نہیں کرنا چاہیئے اور جو اسے ملاقات میں حاصل ہوا ہے وہ کسی بھی مالی مدد سے بہت زیادہ ہے. یہی احساسات میرے بھی تھے. ہم نے ہاتھ ملایا، ایک تصویر کھینچی اور دلوں میں سکون و مسرت لئے جدا ہوگئے. 
.
====عظیم نامہ====