دہرایا گیا پیغام
بعض اوقات مخصوص حالات و واقعات کے دوران آپ کی کہی ایک بات، مخاطب کے ذہن
میں مستقل گھر کرلیتی ہے۔ مگر کلیہ یہ ہے کہ عام طور پر ایک بار میں دیا
پیغام سامع یا قاری کی یادداشت میں پیوست نہیں ہوا کرتا۔ اسکے لئے لازمی ہے
کہ آپ اپنی بات یا سمجھ کو کم از کم تین سے پانچ بار تک موثر انداز میں
مخاطب کو پہنچاتے رہیں۔ قوی امکان ہے کہ آپ کا یہ متعدد بار دہرایا گیا
پیغام اسکے لاشعور میں غیر محسوس طور پر اپنی جڑیں بنا لے۔ کچھ ہی عرصہ بعد
جب وہ کسی بات کو اپنی سمجھ جان کر بیان کرے گا تو وہ فی
الواقع اسی سوچ کا عکس ہوگی جس کا بیج کبھی آپ نے بویا تھا اور جسے پانی و
روشنی آپ نے دہرا دہرا کر فراہم کی تھی۔ یہی انسانی نفسیات ہے۔ عمل تنویم
یعنی ھپناسس میں اسے آج اختیار کیا جاتا ہے۔ لاتعداد مصلح، فلسفی اور دانا
شخصیات نے اسی طریق کو اپنایا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق
تعلیم دیکھیئے تو وہ اس پہلو کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ لہذا ایک ہی
اصلاحی بات کو مختلف مواقع پر مختلف انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
امت کو بیان کیا۔ زیادہ اہم باتوں کو تو اکثر ایک ہی وقت میں تین تین بار
دہرا کر مخاطبین کو تعلیم فرمایا۔ قران حکیم میں بھی رب کریم انسان کی
نفسیات کو ملحوظ رکھ کر اپنا پیغام دہرا دہرا کر پیش کرتا ہے۔ تاکہ یہ
الہامی ہدایات قاری کی شخصیت کا حصہ بن جائیں۔ انگریزی میں کہتے ہیں To
Hammer It Down جیسے سورہ الزمر کی 23 آیت میں ارشاد ہوتا ہے۔
۔
"اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی
اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کےرونگٹےکھڑے ہوجاتے
ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں انکے جسم اور دل اللہ کے ذکر کی
طرف نرم ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔"
۔
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment