Friday, 30 November 2018

میرا پسندیدہ مصنف


میرا پسندیدہ مصنف

۔
میں نے ابوالاعلی مودودی کی سحر انگیز تحریروں کو پڑھا ہے، میں نے ابوالکلام آزاد کی انشاء پردازی کا کمال دیکھا ہے۔ میں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی نثر میں بھی ان کی گرج محسوس کی ہے، میں نے وحید الدین خان کی اصلاحی تحریروں کا حسن سراہا ہے۔ میں نے اشفاق احمد کے ناولوں سے محبت کو جذب کیا ہے، میں نے جون ایلیاء کے مضامین میں بغاوت کی کاٹ کو جھیلا ہے۔ میں نے قدرت اللہ شھاب کے قلم سے امڈتی مثبت لہروں کو اپنے وجود کا حصہ بنایا ہے، میں نے سعادت حسن منٹو کی عینک سے معاشرے کا تاریک چہرہ بھگتا ہے۔ میں نے غزالی سے تصوف کا سبق سمجھا ہے، میں نے ابن تیمیہ سے علمی تنقید کو سیکھا ہے۔ میں نے تقی عثمانی کی نثر سے اکابرین کی روایات کو جانا ہے، میں نے اقبال کے خطبات میں مذہبی فکر کی تعمیر نو کا مطالعہ کیا ہے۔ میں نے سرسید اور غلام احمد پرویز کے مضامین میں چھپی عقلیت پسندی کے سیلاب کا سامنا کیا ہے، میں نے غامدی اور ابن حزم کی تعبیرات کو سمجھا ہے۔ ایسے ہی ان گنت نام اور ہیں جنہیں میں نے پڑھا اور جن کے زور بیان کو محسوس کیا۔ مشرقی و مغربی کتنے علماء، فلاسفہ، حکماء کو اب تک پڑھا؟ سچ پوچھیئے تو شائد اب یادداشت سے سب کا نام لکھ دینا ممکن ہی نہیں۔ مگر ایک بات ان سب میں مشترک تھی اور وہ یہ کہ اپنے اپنے منفرد انداز تحریر میں ان کو کمال حاصل تھا۔
۔
مجھے خود پر حیرت ہے کہ اتنے زور بیاں رکھنے والو کو پڑھنے کے بعد بھی جو مصنف مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ تو اس کے اپنے بقول مصنف ہے ہی نہیں۔ اس کا نام "ممتاز مفتی" ہے۔ جو حقیقت میں نہ دانشوری کے اعتبار سے "ممتاز" تھا اور نہ ہی کسی بھی زاویئے سے "مفتی" تھا۔ شائد ممتاز مفتی مجھے اسلئے پسند ہے کہ وہ کوئی پارسا نہیں بلکہ میری طرح گناہوں سے لتھڑا ایک کمزور انسان تھا۔ فرق اتنا ہے کہ اس میں اعتراف کی جرات ہے اور مجھ میں نہیں۔ میں فقط عمومی سچ بولتا ہوں۔ جبکہ ممتاز مفتی اپنی ذات و کردار کے بارے میں سچ بولتا ہے۔ وہ کہانیاں سناتا ہے، افسانے بھی گھڑتا ہے مگر ان سب کے بیچ وہ ایسی سچائیوں کا بیان کرجاتا ہے۔ جو مجھ جیسے نام کے شرفاء کو اکثر گوارا نہیں ہوتی۔ عجیب شخص ہے یہ ! جسکی تحریر اپنی واہ واہ ہی نہیں چاہتی۔ بلکہ کئی بار تو اسے چوک پر برہنہ کھڑا کردیتی ہے۔ جس پر لوگ ہنستے ہیں اور کئی نفرت سے تھوک بھی دیتے ہیں۔ دوسروں کے متعلق سچ بولنا کون سی بڑی بات؟ مگر کوئی اپنے بارے میں اتنی سفاکی سے سچ کیسے بول سکتا ہے؟؟ بطور قاری کئی بار میں چیخ پڑتا ہوں کہ نہیں ممتاز ! نہیں ! خدا کیلئے اب مزید سچ نہ بولو۔ خود کو اتنا ذلیل نہ کرو۔ مگر وہ بے لاگ بولتا ہے۔ اس کا تعلق اپنے خدا سے بھی نرالا ہے۔ جو تقدس کی چادر میں لپٹا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ ایک قلندر و مجذوب کی بیقرار صدا ہے۔ ورنہ کس ہوش مند کی جرات ہے؟ کہ وہ رب کعبہ کو اپنی تحریر میں کھلے عام عجب حالت جذب میں 'کالے کوٹھے والا' کہہ کر مخاطب کرے؟ اور پھر بھی مولوی کی تکفیر سے بچ نکلے؟ ان کے قریبی ترین دوستو میں قدرت اللہ شھاب، ابن انشاء، اشفاق احمد اور واصف علی واصف جیسے بڑے روحانی لوگ شامل ہیں۔ شھاب صاحب کو ممتاز مفتی مرشد کی جگہ بھی دیتے تھے۔ ان سب کے نام کے بعد لوگ آج بھی رحمتہ اللہ علیہ کا لاحقہ لگادیتے ہیں۔ اس حلقہ یاراں میں فقط ممتاز مفتی ہی وہ گنہگار نام ہے جو اس لاحقے سے محروم ہے۔ اور کیوں نہ محروم ہو؟ کہ جب وہ ساری زندگی ہی ملامتی فرقے کا غیبی امام بن کر رہا۔ ممتاز مفتی سے نفرت کرنی ہو تو 'علی پور کا ایلی' پڑھیئے۔ مگر جو کبھی ان سے محبت سیکھنی ہو تو 'لبیک'، 'تلاش' اور 'الکھ نگری' پڑھیئے۔
۔
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment