Friday, 30 November 2018

علت

علت

ایک ہے حکم کی "علت" اور دوسری شے ہے اس حکم کی "حکمت". "علت" اس بنیادی وجہ یا نتیجے کو کہتے ہیں جس کی بنیاد پر حکم صادر کیا گیا. جبکہ حکمت ان ممکنہ فوائد کا نام ہے جو اس حکم کی بجاآوری سے عامل کو حاصل ہوسکتے ہوں.
.
الہامی حکم کی "علت" قران و سنت کے نصوص سے ہی معلوم ہوسکتی ہے. اسے فقط غور و فکر سے گھڑا نہیں جاسکتا. دین میں رب العزت نے کچھ احکامات کی "علت" بیان فرما دی ہے اور کچھ کی نہیں. جن کی بیان فرمادی انہیں ہم کسی کمی و بیشی کے بغیر من و عن تسلیم کرتے ہیں. جن کی نہیں بیان کی ان کے بارے میں کسی بھی خامہ فرسائی سے گریز کرتے ہیں. جیسے روزے کی "علت" کلام پاک میں تقویٰ کا حصول بیان ہوئی ہے. لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
.
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلی اْمتوں پر فرض کئے گئے تھے، اسی سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔‘‘ (البقرہ183)
.
"حکمت" کا معاملہ البتہ جدا ہے. "حکمت" چونکہ ممکنہ فوائد کا نام ہے، اسلئے اگر ان کا بیان نصوص میں صراحت سے نہ بھی ہوا ہو تب بھی غور و فکر کرکے اور دین کا عمومی پیغام مدنظر رکھ کے انہیں پیش کیا جاسکتا ہے. بس اتنا ملحوظ رہے کہ چونکہ اسکی سند قران و سنت میں صریحاً درج نہیں ہے، اسلئے "حکمت" کا یہ بیان قطعیت کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ بطور امکانات ان کا ذکر ہو.
.
یہ بھی دھیان رہے کہ جب آخری درجہ میں حکم کا من جانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب ایک مسلمان کی عقل اپنے بنانے والے کی نازل کردہ وحی کی پابند ہوگئی. اب یہ احکامات کی پوشیدہ حکمت تو ضرور کھوج سکتی ہے، طالبعلمانہ سوالات تو کرسکتی ہے مگر ان احکامات کے قبول و رد کا میعار ہرگز نہیں بن سکتی. حکمت کا جاننا یا نہ جاننا اب احکام پر عمل کرنے یا نہ کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا. اب تو بس سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا اصول لاگو ہوگا یعنی 'ہم نے سنا اور اطاعت کی'.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment