Thursday, 1 November 2018

جمائی

جمائی

Image may contain: 3 people

اس تصویر کو ذرا غور سے تیس سیکنڈ تک دیکھیں. انہیں جمائی لیتا دیکھ کر آپ کو بھی تو جمائی نہیں آنے لگی؟ لوگوں کی اکثریت دوسرے کو جمائی لیتا دیکھ کر خود بھی جمائی لینے لگتے ہیں. ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اسکی ہمارے نزدیک کیا وجہ ہے؟ آج اس تحریر میں یہ جائزہ لیتے ہیں. جمائی ایک ایسا فطری اور قدرتی عمل ہے جو ماں کے پیٹ سے بچہ کرتا ہوا آتا ہے. عموماً ایسا تب ہوتا ہے جب آپ پر تھکن یا بوریت طاری ہو. طبیعاتی زاویئے سے دیکھیئے تو دراصل جمائی ہمیں اس وقت آتی ہے جب آپ کے جسم میں آکسیجن کی کمی واقع ہو. جمائی کے ذریعے ہم بڑا سا منہ کھول کر اضافی آکسیجن جسم میں منتقل کرتے ہیں تاکہ ممکنہ کمی دور ہوسکے. بوریت یا تھکاوٹ کی حالت میں ہم سانس آہستگی سے لینے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم میں آکسیجن کی ضروری مقدار کی کمی ہوجاتی ہے اور یوں ہمارا خودکار طبیعاتی نظام ہمیں جمائی لے کر اس کمی کو دور کرنے کیلئے اکساتا یا مجبور کرتا ہے. کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ جمائی ہمارے گرم ہوتے ہوئے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کا بھی کام کرتی ہے. یہ بھی رب کا ایک خوبصورت نظام ہے کہ ہمارا انسانی جسم ایک خاص تناسب سے ہی درست طور پر کام کرپاتا ہے. آکسیجن کی کمی جہاں موت کا سبب بن سکتی ہے وہاں آکسیجن کی زیادتی بھی صحت کیلئے حد درجہ خطرناک ہے. "پینیک اٹیک" میں مبتلا مریض ایسا محسوس کرتا ہے کہ بس اب اس کا آخری وقت آپہنچا ہے مگر اکثر اسکی بگڑتی حالت کی ایک وجہ اسکے جسم میں آکسیجن کی زیادتی ہوتی ہے. "پینیک" کی حالت میں وہ تیزی سے زور زور اور گہری سانسیں بھر رہا ہوتا ہے جس سے آکسیجن کی مقدار جسم میں ضرورت سے زائد ہوجاتی ہے. یوں ارسال خون سے لے کر دیگر طبیعاتی معاملات بگڑنے لگتے ہیں. ایسے مریض کو آکسیجن سلینڈر لگا کر اور تسلی دے کر سانس کو آہستہ کروایا جاتا ہے. تاکہ آکسیجن کا تناسب درست ہوسکے. جسمانی آکسیجن میں معمول کی کمی ہم جمائی لے کر پوری کرلیتے ہیں.
.
مگر یہ سب اپر درج کتھا کہانی اپنی جگہ ایک حقیقت مگر ہمارا حقیقی سوال تو ابھی بھی جوں کا توں ہے؟ اور وہ یہ کہ ہمیں کسی کو جمائی لیتا دیکھ کر خود کیوں جمائی آجاتی ہے؟ بلکہ جمائی لینے کے بارے میں پڑھ کر، سن کر یا سوچ کر بھی ہم جمائی لینے لگتے ہیں. ممکن ہے اس تحریر کو پڑھنے کے دوران بھی آپ کئی بار جمائی لے چکے ہوں. ایسا کیوں؟ اس کی متفرق توجیحات سائنسی حلقوں میں پیش کی جاتی ہیں. گو اب تک کوئی حتمی نتیجہ ایسا نہیں ہے جس پر اتفاق ہوسکے اور یوں ابھی بھی اس موضوع پر تحقیق جاری ہے. ہمارے نزدیک البتہ دو توجیحات ایسی ہیں جو مل کر اس جوابی جمائی لینے کا سبب بنتی ہیں.
.
١. جمائی لینے والا دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دیکھنے والے کے دماغ کو جمائی لینے کا مشورہ دیتا ہے. اسے علمی حلقوں میں "مائنڈ سجیشن" کہا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر علم نفسیات میں مختلف دماغی الجھنوں کا علاج کیا جاتا ہے. ہپناسس یا ہپناٹزم کی تو بنیاد ہی اسی "مائنڈ سجیشن" پر قائم ہے. جہاں مخاطب کے تحت الشعور کو کسی سوچ اپنانے کا مشورہ یعنی سجیشن دیا جاتا ہے اور جسے وہ اکثر من و عن قبول کر لیتا ہے.
.
٢. انسان ایک دوسرے سے الفت کا رشتہ رکھتے ہیں. ہم دوسرے کو کسی خوشی یا تکلیف میں مبتلا دیکھیں تو اپنی یادداشت میں موجود یاد سے اسی خوشی یا تکلیف کو کسی حد خود بھی محسوس کرنے لگتے ہیں. مثلاً اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے اور خون بہنے لگے تو ہمیں بھی ایک نفسیاتی تکلیف پہنچنے لگتی ہے. وجہ یہ ہے کہ ہم اس درد کا یا اس سے ملتے جلتے درد کا احساس و تجربہ ماضی میں کر چکے ہوتے ہیں. اسی طرح جب ایک شخص کو ہم جمائی لیتا دیکھتے ہیں تو ہماری یادداشت یا تحت الشعور میں اس تھکن و بوریت کی کیفیت تازہ ہوجاتی ہے جس کا تجربہ ہمیں ماضی میں بارہا ہوچکا ہے. لہٰذا جلد ہی ہم بھی جوابی جمائی لینے لگتے ہیں.
.
بس دوستو ! اب ہم اس مضمون کا یہاں پر ہی اختتام کرتے ہیں ورنہ امکان ہے کہ جمائی لیتے لیتے نیند کی وادی میں نہ جا پہنچیں.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment