ضیاء محی الدین

ضیاء محی الدین صاحب کے نام کا کون صاحب ذوق مداح نہ ہوگا؟ پاکستان ٹیلی
وزن کے شاہکار پروگرام 'ضیاء محی الدین شو' سے شہرت کی بلندیوں کو چھو لینے
والے یہ صدا کار غضب کا انداز بیان رکھتے ہیں. چند سال قبل جب میں کراچی
گیا تو 'اردو کی عالمی ادبی کانفرنس' میں شرکت کا موقع ملا. جہاں مشتاق
احمد یوسفی صاحب سے لے کر امجد اسلام امجد جیسے صاحبان علم و دانش موجود
تھے. اسی محفل میں پہلی بار مجھے ضیاء محی الدین صاحب کو براہ راست سامنے
بیٹھ کر سننے کا موقع ملا.
.
انسان کی نفسیات ہے کہ وہ جس فن میں مہارت رکھتا ہو، اسکے دوسرے ماہر کو بولتا سن کر یا کام کرتا دیکھ کر سوچتا ہے کہ اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو اسے کیسے بہتر انجام دیتا؟ مثال کے طور پر ایک اداکار جب کسی بڑے اداکار کو کردار خوبی سے نبھاتے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر یہ کردار مجھے ملا ہوتا تو میں کیسے بہتر کرتا؟ یا کوئی گلوکار اگر کسی دوسرے گلوکار کو سریلا گاتے سنے تو سوچتا ہے کہ اگر یہی گانا میں گاتا تو کیسے بہتر گاتا؟ اسی طرح راقم یعنی میں ایک مقرر ہوں. فن خطابت میں مہارت کا کسی درجے دعویٰ رکھتا ہوں. ایسے میں اگر کسی دوسرے خطیب یا مقرر کو بہترین تقریر کرتے سنوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ اگر مجھے موقع ملا ہوتا تو کیسے زیادہ عمدگی سے اس تقریر کو انجام دیتا؟ مگر مجھے اعتراف ہے کہ جب ضیاء محی الدین صاحب نے ایک چنیدہ ادبی مضمون پڑھنا شروع کیا تو لمحوں ہی میں مجھے یقین ہوگیا کہ میں کبھی اتنا مسحور کن نہیں بول سکتا. میں نے اپنے ذہن میں محبت سے ہتھیار ڈال دیئے. لمحے گزرتے گئے اور میں مبہوت سامنے ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہا. جانے وہ آواز کے کون سے پردے سے مخاطب تھے؟ وہ لہجے کا کون سا ٹہراؤ تھا؟ جو سامع کے دل کی اتھاہ گہرائی میں یوں غرق ہوجاتا تھا جیسے کسی گہرے کنویں میں بلندی سے گرتا ہوا ایک پتھر. وہ الفاظ کا کون سا بہاؤ تھا؟ جو بڑی چاشنی سے سننے والے کو ایسے بہا لے جاتا تھا جیسے پہاڑوں سے گزرتے کسی شفاف جھرنے میں کوئی سرسبز ڈالی. وہ جانتے ہیں کہ رکنا کہاں ہے؟ گرنا کہاں ہے؟ لڑکھڑانا کہاں ہے؟ اور سنبھلنا کہاں ہے؟ وہ چاہتے تو سننے والے اداس ہوجاتے، وہ چاہتے تو سب کھلکھلا اٹھتے. کلاسیکی ساز کی چوٹ اور اس پر ضیاء محی الدین صاحب کی ہوش ربا آواز. یوں محسوس ہوا کہ ان کی زبان سے ادا ہوتا ہر لفظ ان کی ادائیگی پر شکریہ ادا کررہا ہو کہ حق ادا کردیا. جب نشست کا اختتام ہوا تو دل میں صرف ایک خلش تھی. جی چاہا کہ ضیاء محی الدین صاحب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان سے جھگڑا کروں؟ کہ اپنی یہ میراث کس کو دے کر جارہے ہیں؟ ابھی تک آپ نے ایسے شاگرد کیوں نہ ہمیں دیئے جو کل ضیاء محی الدین نہ بھی بن سکیں تو کم از کم ہمیں آپ کی یاد تو دلا سکیں؟
.
ممکن ہے کہ آج میرے قارئین کو اس تحریر میں مبالغہ محسوس ہو. سو اگر کوئی ایسی شکایت ہو تو پیشگی معزرت. مگر کبھی سچا احساس بھی فرط جذبات سے مبالغہ آمیز ہو جاتا ہے. پانچ آوازیں ایسی ہیں جنہیں میں سنتا ہوں تو جھوم جاتا ہوں
.
١. گلزار (شاعر)
٢. ضیاء محی الدین (صدا کار)
٣. طلعت حسین (اداکار)
٤. نصیرالدین شاہ (اداکار)
٥. امیتابھ بچن (اداکار)
.
====عظیم نامہ====
.
انسان کی نفسیات ہے کہ وہ جس فن میں مہارت رکھتا ہو، اسکے دوسرے ماہر کو بولتا سن کر یا کام کرتا دیکھ کر سوچتا ہے کہ اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو اسے کیسے بہتر انجام دیتا؟ مثال کے طور پر ایک اداکار جب کسی بڑے اداکار کو کردار خوبی سے نبھاتے دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اگر یہ کردار مجھے ملا ہوتا تو میں کیسے بہتر کرتا؟ یا کوئی گلوکار اگر کسی دوسرے گلوکار کو سریلا گاتے سنے تو سوچتا ہے کہ اگر یہی گانا میں گاتا تو کیسے بہتر گاتا؟ اسی طرح راقم یعنی میں ایک مقرر ہوں. فن خطابت میں مہارت کا کسی درجے دعویٰ رکھتا ہوں. ایسے میں اگر کسی دوسرے خطیب یا مقرر کو بہترین تقریر کرتے سنوں تو سوچنے لگتا ہوں کہ اگر مجھے موقع ملا ہوتا تو کیسے زیادہ عمدگی سے اس تقریر کو انجام دیتا؟ مگر مجھے اعتراف ہے کہ جب ضیاء محی الدین صاحب نے ایک چنیدہ ادبی مضمون پڑھنا شروع کیا تو لمحوں ہی میں مجھے یقین ہوگیا کہ میں کبھی اتنا مسحور کن نہیں بول سکتا. میں نے اپنے ذہن میں محبت سے ہتھیار ڈال دیئے. لمحے گزرتے گئے اور میں مبہوت سامنے ٹکٹکی باندھے بیٹھا رہا. جانے وہ آواز کے کون سے پردے سے مخاطب تھے؟ وہ لہجے کا کون سا ٹہراؤ تھا؟ جو سامع کے دل کی اتھاہ گہرائی میں یوں غرق ہوجاتا تھا جیسے کسی گہرے کنویں میں بلندی سے گرتا ہوا ایک پتھر. وہ الفاظ کا کون سا بہاؤ تھا؟ جو بڑی چاشنی سے سننے والے کو ایسے بہا لے جاتا تھا جیسے پہاڑوں سے گزرتے کسی شفاف جھرنے میں کوئی سرسبز ڈالی. وہ جانتے ہیں کہ رکنا کہاں ہے؟ گرنا کہاں ہے؟ لڑکھڑانا کہاں ہے؟ اور سنبھلنا کہاں ہے؟ وہ چاہتے تو سننے والے اداس ہوجاتے، وہ چاہتے تو سب کھلکھلا اٹھتے. کلاسیکی ساز کی چوٹ اور اس پر ضیاء محی الدین صاحب کی ہوش ربا آواز. یوں محسوس ہوا کہ ان کی زبان سے ادا ہوتا ہر لفظ ان کی ادائیگی پر شکریہ ادا کررہا ہو کہ حق ادا کردیا. جب نشست کا اختتام ہوا تو دل میں صرف ایک خلش تھی. جی چاہا کہ ضیاء محی الدین صاحب کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان سے جھگڑا کروں؟ کہ اپنی یہ میراث کس کو دے کر جارہے ہیں؟ ابھی تک آپ نے ایسے شاگرد کیوں نہ ہمیں دیئے جو کل ضیاء محی الدین نہ بھی بن سکیں تو کم از کم ہمیں آپ کی یاد تو دلا سکیں؟
.
ممکن ہے کہ آج میرے قارئین کو اس تحریر میں مبالغہ محسوس ہو. سو اگر کوئی ایسی شکایت ہو تو پیشگی معزرت. مگر کبھی سچا احساس بھی فرط جذبات سے مبالغہ آمیز ہو جاتا ہے. پانچ آوازیں ایسی ہیں جنہیں میں سنتا ہوں تو جھوم جاتا ہوں
.
١. گلزار (شاعر)
٢. ضیاء محی الدین (صدا کار)
٣. طلعت حسین (اداکار)
٤. نصیرالدین شاہ (اداکار)
٥. امیتابھ بچن (اداکار)
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment