Thursday, 1 November 2018

انگلینڈ میں بس جانا

انگلینڈ میں بس جانا


انگلینڈ میں بس جانا کبھی بھی میرا ارادہ نہ تھا. میں تو یہاں یہ سوچ کر آیا تھا کہ ماسٹرز ڈگری کرنے کے بعد پاکستان واپس چلا جاؤں گا. جب ماسٹرز ہوگیا تو لوگوں نے کہا کہ بھئی ایک دو سال کا تجربہ لے کر واپس آنا. ایسے ہی واپس نہ آجانا. ہمیں بات معقول لگی تو ایک دو سال کا تجربہ لینے رک گئے. اب سب عقلمندوں نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ بھئی پانچ سال میں تمھیں انگلینڈ کا پاسپورٹ مل جائے گا، اسے لے کر ہی آنا تاکہ پاکستان یا مڈل ایسٹ میں بہتر نوکری بھی مل سکے اور اگر کل کوئی انہونی ہو تو تمہارے پاس واپسی کا راستہ بھی موجود ہو. ہمیں ایک بار پھر یہ بات مناسب محسوس ہوئی. سوچا جہاں تین سال رک گئے ہیں وہاں دو سال اور گزار کر پانچ سال بھی رک ہی جائیں گے. پھر واپس اپنے ملک پاکستان. مگر ایسا نہ ہوا. امیگریشن کے ایک کے بعد ایک ایسے مسائل پیدا ہوتے چلے گئے جن سے میرا کیس الجھتا گیا. ہر سال یہ لگتا کہ بس اب سب ہونے والا ہے اور اب میں پاکستان جاسکوں گا. مگر پھر کچھ ایسا ہوتا کہ سب دھرا کا دھرا رہ جاتا. کبھی گورنمنٹ کی نئی پالیسی آجاتی تو کبھی نئی شادی شدہ زندگی میرے قدموں کو جکڑ لیتی. ایک وقت ایسا بھی آیا جب بناء پاسپورٹ لئے پاکستان جانے کا امکان پیدا ہوا مگر میرے وکیل کی حماقت نے میرا کیس اس حد تک بگاڑ دیا کہ واپسی کا مطلب ہمیشہ کیلئے کسی بھی مغربی ملک میں سفر کرنے کی پابندی ہوتی. چنانچہ کئی سال مجھے اپنے دفاع میں لگے، جس کا نتیجہ بلآخر میرے حق میں برآمد ہوا اور اس وکیل پر پابندی لگ گئی جس نے میرا کیس اپنی مجرمانہ غفلت کے سبب برباد کردیا تھا. پورے چودہ سال گزرنے کے بعد مجھے انگلینڈ میں مستقل سکونت حاصل ہوئی مگر اب اس عمر میں پاکستان جاکر دوبارہ سے نئی زندگی کا تجربہ کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں.
.
اس سب کے برعکس، میرا ایک نہایت قریبی دوست انگلینڈ آیا. اسے انگلینڈ بیحد پسند تھا اور وہ یہاں رہنا چاہتا تھا. لیکن اسے یہ ملک راس نہ آیا. پہلے کئی ماہ تو اسے کوئی معمولی نوکری بھی نہ ملی. پھر ایک سیکورٹی گارڈ کی نوکری ملی تو ایسے غیر معمولی واقعات ہوئے کہ دو بار اسے انتہائی ایمرجنسی کے نمبر ٩٩٩ پر کال کرکے پولیس بلانی پڑی. ایک بار ڈکیتی کا بھی سامنا کیا. یوں لگتا تھا کہ یہ ملک اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے. پاکستان میں اسکے والدین بھی ہر وقت فکرمند رہتے. یہاں تک کہ سال بھر میں ہی اسے واپس پاکستان بھیج دیا گیا. وہاں اس کی اچھی نوکری ہوئی، پھر جلد ہی وہ دبئی گیا. جہاں اپنی فیلڈ کی ایک بہترین نوکری کرتا رہا. تنخواہ کے اعتبار سے بھی وہ مجھ سمیت اکثر لوگوں سے بہتر ثابت ہوا. یعنی وہی بندہ جو انگلینڈ میں ناکام تھا وہ دبئی میں نہایت کامیاب رہا. انگلینڈ سے جذباتی وابستگی کے سبب وہ کوئی سات آٹھ برس واپس آنے کی کوشش کرتا رہا مگر ویزہ یا کوئی صحیح راستہ نہیں مل سکا.
.
چند سال پہلے اپنے اس دوست سےکراچی میں ملاقات ہوئی تو ان ہی اپر درج واقعات و معاملات کا ذکر کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا کہ ہمارا رب الرزاق ہے. وہ ہی ہے جو کسی ایک کا رزق ایک جگہ اور دوسرے کا دوسری جگہ مقرر کردیتا تھا. پھر مرضی نہیں چلتی. لہٰذا جو نہ ملا اس پر کڑھنے کی بجائے، کیوں نہ اس پر خدا کا شکر کیا جائے جو ملا اور جو اس نے ہمارے لئے مقدر کردیا؟ ہم سب خدا کے گرینڈ پلان کا حصہ ہیں. ہم سب کو بس اپنا کردار پہچاننا اور نبھانا ہے.
.
====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment