لڑا دے ممولے کو شہباز سے
کچھ دیر قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک خوفناک ببر شیر ایک انسان کے اعتماد کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا ہے
.
ایک ایسی ویڈیو بھی نظر سے گزری جس میں ایک گھر میں پلا کتا ایک مرغی کے چوزے سے مار کھا کھا کر بھاگ رہا ہے
.
ایک اور ویڈیو میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا چوہا بڑی سی بلی پر حملہ آور ہے اور بلی خوفزدہ یہاں سے وہاں جان بچانے بھاگ رہی ہے
.
یہ اور اس جیسی نا جانے کتنی مثالیں ایسی ہیں جو ہم پر اس حقیقت کو منکشف کرتی ہیں کہ ہمت ہو تو اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن سے بناء خوف لڑا جاسکتا ہے. اور اگر ہمت نہ ہو تو طاقت کے باوجود کمزور کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے. طاقت حاصل کرنا بہت اہم ہے مگر اس سے بھی اہم اس ہمت کا ہونا ہے جو موجود طاقت کے استعمال کیلئے درکار ہے. یہ خودی محکم ہو تو پھر ناممکن بھی بعض اوقات ممکن ہوجاتا ہے. شائد اسی حقیقت کو اقبال یوں بیان کرگئے ہیں
.
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
.
ظاہر ہے درج بالا شعر میں اقبال عمومی صورت کا ذکر نہیں کررہے بلکہ یہاں خودی و ہمت کی پختگی بیان کرنا مقصود ہے. جس کی امثال ہم نے تحریر کی ابتداء میں درج کی ہیں. تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب مٹھی بھر باہمت افراد کثیر تعداد طاقتور مگر کم ہمت دشمن پر غالب آئے. کچھ کم فہم افراد نے اس شعر کی بنیاد پر اقبال کے افکار کو مذاق بنانا چاہا ہے جو کسی طور مناسب نہیں. عمومی اصول اقبال کے نزدیک بھی وہی ہے جو ہم سب کی دانست میں درست ہے اور وہ یہی کہ طاقت کا حصول ہر صورت ممکن بنایا جائے. اسی لئے اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ
.
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
.
====عظیم نامہ====
.
ایک ایسی ویڈیو بھی نظر سے گزری جس میں ایک گھر میں پلا کتا ایک مرغی کے چوزے سے مار کھا کھا کر بھاگ رہا ہے
.
ایک اور ویڈیو میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا چوہا بڑی سی بلی پر حملہ آور ہے اور بلی خوفزدہ یہاں سے وہاں جان بچانے بھاگ رہی ہے
.
یہ اور اس جیسی نا جانے کتنی مثالیں ایسی ہیں جو ہم پر اس حقیقت کو منکشف کرتی ہیں کہ ہمت ہو تو اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور دشمن سے بناء خوف لڑا جاسکتا ہے. اور اگر ہمت نہ ہو تو طاقت کے باوجود کمزور کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے. طاقت حاصل کرنا بہت اہم ہے مگر اس سے بھی اہم اس ہمت کا ہونا ہے جو موجود طاقت کے استعمال کیلئے درکار ہے. یہ خودی محکم ہو تو پھر ناممکن بھی بعض اوقات ممکن ہوجاتا ہے. شائد اسی حقیقت کو اقبال یوں بیان کرگئے ہیں
.
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
.
ظاہر ہے درج بالا شعر میں اقبال عمومی صورت کا ذکر نہیں کررہے بلکہ یہاں خودی و ہمت کی پختگی بیان کرنا مقصود ہے. جس کی امثال ہم نے تحریر کی ابتداء میں درج کی ہیں. تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب مٹھی بھر باہمت افراد کثیر تعداد طاقتور مگر کم ہمت دشمن پر غالب آئے. کچھ کم فہم افراد نے اس شعر کی بنیاد پر اقبال کے افکار کو مذاق بنانا چاہا ہے جو کسی طور مناسب نہیں. عمومی اصول اقبال کے نزدیک بھی وہی ہے جو ہم سب کی دانست میں درست ہے اور وہ یہی کہ طاقت کا حصول ہر صورت ممکن بنایا جائے. اسی لئے اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ
.
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment