Friday, 31 March 2017

دو تلخ ترین سوالات



دو تلخ ترین سوالات



.
وجود خالق سے لے کر دلائل رسالت تک اور  پیغام دین سے لے وحی الہی کے اثبات تک. مشکل سے مشکل سوال کا شافی جواب الحمدللہ موجود ہے. 
 مگر غیر مسلموں کو دعوت دین کے دوران جو سوال سب سے زیادہ شاق گزرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر اسلام فی الواقع 'امن' کا دین ہے تو اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ بے امنی کیوں؟ اگر اسلام واقعی ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل کہتا ہے تو پھر کلمہ گو مسلمان اسلام کا نام لے کر معصوم انسانوں پر خودکش حملہ کیسے کردیتے ہیں؟ --
 (میں اس سوال کا بہترین ممکنہ جواب سائل کو دے دیتا ہوں جس سے وہ بڑی حد تک مطمئن بھی ہوجاتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ یہ سوال مجھے بحیثیت مسلمان امت ہمیشہ افسردہ ضرور کردیتا ہے)
.
 عبادات سے لے کر معاملات تک ایک مسلمان کے جتنے سوالات ہوسکتے ہیں، ان سب کے بھی الحمدللہ شافی جوابات حاصل ہیں. 
 مگر ایک اعتراض یا سوال جو ہمیشہ میرے دل کو چوٹ پہنچاتا ہے وہ یہ کہ کوئی مدرسہ سے پڑھا ہوا انسان اپنے ذاتی تجربے سے مدارس میں ہونے والے جسمانی یا جنسی تشدد کی داستان بیان کرے. میں اسے سمجھاتا ہوں کہ کچھ واقعات یا ذاتی تجربہ کو بنیاد بنا کر تمام مدارس سے متنفر ہونا کسی صورت درست نہیں ہے --
.
 (اس ضمن میں مخاطب کی تشفی کیلئے جو دلائل ممکن ہیں، میں دیا کرتا ہوں. جس سے اکثر وہ مخاطب کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے مگر یہ سچ ہے کہ کوئی بھی ایسی داستان میرے دل کو زخمی ضرور کردیتی ہے)
.
 غور کریں تو یہ دونوں سوالات دراصل اسلام کی کمزوری نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوری و نالائقی کا شاخسانہ ہیں. جارج برنارڈ شاء نے غالباً اسی لئے کہا تھا کہ "میں نے اسلام سے بہتر کوئی مذہب نہیں دیکھا اور مسلمانوں سے بدتر کوئی قوم نہیں دیکھی". بہت آسان ہے کہ ہم ان تلخ مسائل کو مسائل ماننے سے ہی انکار کردیں اور امت مسلمہ کے مجموعی رویئے یا مدارس پر مسلسل لگتے ان الزامات سے چشم پوشی اختیار کریں. مگر اس سے کیا درپیش مسلہ ختم ہو جائے گا؟ ہمیں کھلے دل سے ان مسائل کو مسائل تسلیم کرنا ہوگا اور اس کیلئے ہر ممکنہ اصلاحات کی سعی کرنا ہوگی. جب کوئی امت مسلمہ کو دہشت گرد یا جنونی کہتا ہے تو دراصل وہ مجھے یعنی عظیم کو گالی دیتا ہے. جب کوئی شخص میرے دینی مدارس پر انگلی اٹھاتا ہے تو درحقیقت وہ میری عصمت دری کرتا ہے. امت مسلمہ صرف داڑھی والے کی نہیں ہے بلکہ ہر کلمہ گو کی ہے. مدارس صرف اس میں پڑھنے والو کے نہیں ہیں بلکہ ہم سب مسلمانوں کے سر کا تاج ہیں. اسکول کالجز میں بھی بہت کچھ غلط ہورہا ہے بلکہ شائد کئی حوالوں سے ان کا حال مدارس سے زیادہ خستہ ہے. مگر یہ اسکول و کالج دین اسلام کے ترجمان نہیں. مدارس ترجمان ہیں. اور جو دین کا ترجمان ہوگا اس کے نقائص کو زمانہ مائیکرواسکوپ لگا کر دیکھے گا. مجھے ڈر ہے کہ میری یہ تحریر بہت سے دوستو کی خفگی و غصہ کا سبب بن سکتی ہے. مگر پھر بھی یہ تحریر دست بدستہ ہاتھ جوڑ کر لکھ رہا ہوں. اس مدہم امید پر کہ اسے مخالف کی تنقید نہیں بلکہ حمایتی کا اصلاحی جذبہ سمجھا جائے گا.
.
 ====عظیم نامہ====

No comments:

Post a Comment