آپ کون ہیں؟
.
میرے ایک عزیز جو پاکستان میں مقیم ہیں، انہیں اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کا موقع میسر ہے جسے وہ پوری خوش اسلوبی سے نباہ رہے ہیں. نہ صرف ان کے والدین اس خدمت سے بہت خوش ہیں بلکہ دیگر احباب بھی ان کی اس ضمن میں مثال دیا کرتے ہیں. یہ صاحب بھی اپنے والدین کے ساتھ ساتھ دوسرے بزرگ افراد کی خدمت کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. کچھ عرصہ قبل مجھ سے کہنے لگے کہ میرا ایک خواب ہے عظیم اور وہ یہ کہ میں پاکستان میں ہی ایک اولڈ ایج ہوم یعنی بوڑھوں کا آسائشوں سے مزین گھر بناؤں. جہاں ان بزرگوں کا خیال رکھ سکوں جو کسی حادثے یا نافرمان اولاد کے سبب تنہا رہ گئے ہیں. بے یار و مددگار ہیں. انہیں ایسی ہی محبت دوں جیسی ایک فرمانبردار اولاد اپنے شفیق والد اور دلعزیز والدہ کو دیا کرتی ہے. یہ کہتے ہوئے ان صاحب کی آواز میں سچائی، لہجے میں درد اور آنکھوں میں ایسا عزم موجزن تھا، جس سے مجھے پوری امید ہے کہ یہ اپنے خواب کو ایک دن ضرور عملی شکل دے پائیں گے. ان شاء اللہ
.
برطانیہ میں مقیم میرے ایک دوست جن کی بیٹی کو پیدائشی طور پر ایک جزوی ذہنی بیماری یعنی 'مینٹل ڈس ایبلیٹی' لاحق ہے. اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر اس بچی کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں. بہت سی مشکلات کے باوجود وہ روز ایک نئی انرجی کے ساتھ اپنی بیٹی کی ذہنی و اخلاقی تربیت میں مشغول رہتے ہیں. آج مجھ سے کہنے لگے کہ عظیم میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں تمام 'مینٹل ڈس ایبل' بچوں کیلئے بلعموم اور مسلمان بچوں کیلئے بلخصوص ایک 'کیئر سینٹر' کھولوں گا. جہاں دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ان مسلمان بچوں کو جو ذہنی معذوری یا ڈس ایبیلٹی کے باوجود بڑی حد تک سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، انہیں اسلام کے کچھ آسان بنیادی احکام کی تربیت دی جائے. جیسے نماز پڑھنا یا تلاوت سننا وغیرہ. اسی طرح ان کی اخلاقیات کو بھی دینی تناظر میں بہتر بنایا جائے اور اس کا طریق نہایت آسان و دلپسند اختیار کیا جائے. یہ صاحب اپنے اس نیک ارادے میں اٹل نظر آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں معلومات کے حصول میں ان کا دست بازو بنوں. ان شاء اللہ
.
میں خود ایک لمبے عرصے سے انگلینڈ میں مقیم ہوں. مجھے انفرادی طور پر یہاں الحاد سمیت مختلف مذہبی و غیر مذہبی فلسفوں کی ایک یلغار کا سامنا رہا ہے. یہ احساس مجھ میں اور میرے یہاں رہائش پذیر کئی دوستوں میں عرصہ ہوا تقویت پکڑ چکا کہ ہمیں غیرمسلوں کیلئے دین کی ترویج و تبلیغ کا اہتمام کرنا ہے اور ان مسلمان اذہان کو واپس دین سے جوڑنا ہے جو مغربی افکار کے سیلاب میں ارتداد کی سرحد پر جاپہنچے ہیں. لہٰذا تفرقہ سے پاک ہوکر مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے سڑکوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اور الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک کسی نہ کسی درجے میں ہم دعوت دین کا کام انجام دیتے ہیں. اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر ہونے والے الحاد و دیگر فلسفوں کے حملوں کا موثر جواب دیتے ہیں. دین پر لگے الزامات کو اپنی بساط بھر کوشش سے دفاع فراہم کرتے ہیں. اسی حوالے سے ہم کئی اہم پروجیکٹس سے منسلک ہیں اور مستقبل میں انہیں عملی شکل دینے کا خواب رکھتے ہیں. ان شاء اللہ
.
مختلف افراد کے ان متفرق ارادوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہر انسان کچھ مختلف اور مخصوص حالات و واقعات سے گزرتا ہے. جو اس کے قلب و فکر پر کچھ اثرات مرتب کرتے ہیں. یہ حالات کبھی آسانی اور اکثر سختی کے ساتھ انسان کو درپیش آتے ہیں. اعلان نبوت سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وارد ہونے والے سخت ترین حالات و واقعات کو سوچیئے، نبوت سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نامساعد اور دہشت انگیز حالات زندگی پر غور کیجیئے، حضرت یوسف علیہ السلام کے اذیت ناک تربیتی مراحل پر نظر کیجیئے، رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی آمد سے پہلے بچپن کی یتیمی سے لے کر غار حرا تک کے حالات زندگی کا جائزہ لیجیئے. آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح ان برگزیدہ ہستیوں کو مختلف مراحل سے گزار کر نبوت کے مشن کے لئے تیار کیا گیا. یہی حال آپ کو صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین اور بزرگان دین کی زندگیوں میں نظر آئے گا. گویا ہر عبداللہ کو حالات و واقعات کی بھٹی سے گزار کر اللہ کے ماسٹر پلان میں تعمیری حصہ بننے کا امیدوار بنایا جاتا ہے. اب بہتراور عقلمند انسان وہ ہے جو نہ صرف ان حالات کا خوبی سے سامنا کرے بلکہ ان حالات سے سیکھ کر معاشرے کے سدھار میں اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرے. چنانچہ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیئے اور جانیئے کہ آپ کون ہیں؟ اور آپ کس مشن کیلئے موزوں ہیں؟
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment