وہ 'ایک' صلاحیت
ہم تین بھائی ہیں، جن میں سب سے چھوٹا میں ہوں. میرے سب سے بڑے بھائی اور میں اسپورٹس میں کم و بیش ایک ہی جیسے تھے مگر منجھلا یعنی مجھ سے بڑا بھائی اپنی نوجوانی میں غیرمعمولی کرکٹر تھا. کرکٹ کا شوق بلکہ جنون وہ لے کر پیدا ہوا تھا. گھر والے بتاتے ہیں کہ تمام کھلونے چھوڑ کر اسے اپنے پاس بیٹ بال چاہیئے ہوتا. بچے پہلا لفظ اللہ بولتے ہیں یا اماں بولتے ہیں یا ابا بولتے ہیں. میرے اس بھائی نے زندگی کا پہلا لفظ 'ٹی بال' یعنی ٹینس بال بولا تھا. سوتے ہوئے بھی کرکٹ بال اپنے ہاتھوں میں بھینچ کر رکھتا اور اگر کوئی ہاتھ سے نکالنا چاہے تو بیدار ہوجاتا. جب تھوڑا بڑا ہوا تو اپنی سے دگنی عمر کے لڑکے اسے بیٹنگ کیلئے ساتھ رکھتے. جوان ہوا تو اسے کھیلنے کے پیسے آفر ہونے لگے. ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ایک دن میں پانچ مختلف ٹیموں کیلئے بیٹنگ کرتا. ایک جگہ بیٹنگ پوری ہو جائے تو دوسری ٹیم اسے لے جانے کیلئے منتظر ہوتی اور دوسری ٹیم کیلئے بیٹنگ کر لے تو تیسری انتظار کر رہی ہوتی. ٹیمیں اس سے صرف بیٹنگ کرواکر گیارہ کی جگہ دس کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا گوارہ کرلیتی. اس کے برعکس میں کرکٹ کا شوقین ضرور تھا مگر چاہ کر بھی اس جیسا اسٹائلش کھیلنے سے قاصر تھا. میری اور بھائی کی شکلیں ان دنوں خاصی ایک سی لگتی تھیں، قد کاٹھ بھی ایک سا تھا لہٰذا اکثر ایسا ہوتا کہ کچھ اجنبی مجھے کھیلتا دیکھا کر میدان میں تماشائی بن کر بیٹھ جاتے کہ فہیم کا بھائی عظیم کھیل رہا ہے، ضرور اچھا کھیلے گا. پھر چاہے میں کتنا ہی اسکور کیوں نہ کرلوں؟ وہ یہ ہی کہتے نظر آتے کہ اس میں اپنے بھائی جیسی بات نہیں ہے.

.
اخبارات جب کبھی کسی میچ کی روداد میں بڑے بھائی کی شاندار کارکردگی کا ذکر کرتے تو وہ مجھے دیکھا کر مجھے چھیڑتا کہ کبھی تمہارا نام بھی آیا ہے؟ خود کو ملنے والے میڈل اور ٹرافیاں بھی وہ مجھے دیکھا کر ایسے تنگ کرتا جیسے بڑے بھائی چھوٹے بھائیوں کو کیا کرتے ہیں. اس دوران میں خوب جان لگاتا رہا کہ اس جیسا کھیل سکوں لیکن نہیں کر پایا. پھر کچھ والدین کی ترغیب نے اور کچھ حالات کے الٹ پلٹ نے مجھے یہ بات سمجھائی کہ لازمی نہیں کہ بھائیوں میں ایک ہی جیسی صلاحیت ہو. مجھ پر یہ واضح ہونے لگا کہ غیرمعمولی صلاحیتیں تو مجھ میں بھی موجود ہیں مگر وہ مختلف ہیں. اللہ تعالیٰ نے مجھے انداز بیان کا سلیقہ عطا کیا تھا جس پر محنت کرکے میں نے جلد ہی اپنا مقام پیدا کرلیا. اسکول، کالج، یونیورسٹی لیول پر میرے ڈنکے بجنے لگے. شہری اور ملکی سطح پر قریب قریب تمام نمائندہ اعزازات میں نے اپنے نام کرلیئے. اخبارات اور ریڈیو پر کئی انٹرویوز ہوئے. ٹی وی پر کئی بار ذکر ہوا. یونیورسٹی نے فیسیں معاف کر دی اور چینلز طرح طرح کی آفرز دینے لگے. کمرہ ٹرافیوں، میڈلز اور انعامات سے بھر گیا. اب میں اپنے بھائی کو چھیڑتا کہ کبھی تمہارا بھی اتنا بڑا انٹرویو شائع ہوا ہے؟ اور وہ محبت سے ہنس دیتا.
.
اپنی اس روداد کو آپ سے بانٹنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ ہر انسان کوئی نہ کوئی ایسی صلاحیت ضرور رکھتا ہے جو اسے اکثریت سے ممتاز کرسکتی ہے مگر افسوس کہ ہم کبھی خود میں اس صلاحیت کو کھوجتے ہی نہیں. بلکہ کسی دوسرے شخص کی صلاحیت کا خود سے زبردستی تقابل کرتے رہتے ہیں. خود میں جھانک کر دیکھیئے کہ وہ کون سی 'ایک' چیز ہے جو قدرت کے تحفے کی طرح آپ میں ودیعت کی گئی ہے. اسی طرح میرے والد ایک انتہائی ٹیکنیکل ذہن والے انسان ہیں جو الیکٹرک سے لے کر پلمبنگ تک کا پیچیدہ ترین کام بڑی آسانی سے بناء کسی باقاعدہ ٹریننگ کے کرنے پر قادر ہیں. شائد میں نے اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر کام کیا ہے مگر ان کی آدھی مہارت بھی حاصل نہیں کر پایا. آج بھی چھوٹا سا الیکٹرک کا کام بھی مجھے پریشانی میں ڈال دیتا ہے. اسکے بلکل برعکس جب میں کسی فلسفے، ادبی یا مذہبی نششت و کلاس میں ہوتا ہوں تو بقیہ حاضرین سے کہیں زیادہ تیزی سے بات کو سمجھ جاتا ہوں الحمدللہ. ایک بار کوئی اچھی نظم یا کلام سن لوں تو بناء کوشش مجھے حفظ ہوجاتا ہے. گویا وہ عظیم جو ٹیکنکل معاملات میں مشکل سے گزارا کررہا ہوتا ہے وہی عظیم ادبی و تحقیقی معملات میں باآسانی آگے نکل جاتا ہے. آپ بھی خود سے ملاقات کیجیئے اور اگر صاحب اولاد ہیں تو اپنی اولاد کو اسکی 'ایک' انمول صلاحیت ڈھونڈھنے میں مدد کیجیئے. شاعر غالب کو سائنسدان آئین اسٹائن اور باکسر محمد علی کو فلسفی سقراط بنانے کی کوشش حماقت ہے.
.
====عظیم نامہ====
No comments:
Post a Comment